طالبان عزم نیا منزل بھی نئی

طالبان نے اللہ کی راہ میں جہاد کر کے امریکا کا غرور پاش پاش کر دیا۔

S_afarooqi@yahoo.com

آخرکار وہی ہوا جو ہونا تھا ۔ باطل ہار گیا اور فتح حق کی ہوئی ۔ تاریخ نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرا دیا۔طالبان نے اللہ کی راہ میں جہاد کر کے امریکا کا غرور پاش پاش کر دیا۔

اسلام کی قوت کو بالا دست ثابت کر دیا۔حق پرست افغان طالبان کی 20 سالہ جہادی قربانیاں رنگ لائیں اور دنیا کی سپر پاور امریکا کو تاریخ کی بدترین اور عبرتناک شکستِ فاش سے دو چار ہونا پڑا ۔ دنیا نے دیکھا کہ اللہ کے سپاہیوں نے باطل قوت کو اس کی تمام تر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود سر نگوں ہونے پر مجبور کر دیا۔

امریکا کے صدر جو بائیڈن کو آخر کار یہ اعتراف کرنا پڑا کہ افغانستان طالبان کے ہاتھوں امریکیوں کے لیے قبرستان بن گیا۔یہ وہ شکستِ فاش ہے جسے امریکیوں کی آنے والی نسلیں بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔

تاریخ گواہ ہے کہ افغانوں کے جذبہ حریت کو دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔ خواہ یہ انگریز ہو، روسی ہو یا امریکی۔افغانوں نے دنیا کو دِکھا دیا کہ وہ ایسے شاہین ہیں جن کو زیر کرنا کسی بھی صورت آسان نہیں ہے ۔ بلا شبہ قوت ِ ایمانی کے آگے دنیا کی کوئی بھی طاقت ٹھہر نہیں سکتی۔دلیر افغانیوں نے امریکیوں کو نہ صرف نیچا دکھا دیا بلکہ ہمیشہ کے لیے سبق سیکھا دیا ۔

20 سالہ افغان جنگ کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا اورپوری دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغان طالبان کے آگے دُم دباکر بھاگنا پڑا۔امریکا کو ویت نام میں جو شکست ہوئی تھی افغانیوں کے ہاتھوں حالیہ شکست اس سے کئی گنا زیادہ ہے ، اس شکست نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حوصلے نہ صر ف آیندہ کے لیے پست کر دیے ہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی انھیں دیوالیہ کر دیا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈتھا لیکن ان کا یہ گھمنڈ دیکھتے ہی دیکھتے پاش پاش ہو گیا اور یہ ایٹمی قوت قوت ِ ایمانی کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتی :

قوت ِ ایمانی افغان طالبان کے ساتھ تھی اس لیے انھیں فتحِ مبین حاصل ہو کر رہی اور تعداد اور ہتھیاروں سے لیس باطل قوت کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لاریب دنیا میں ایک ہی سپر پاور ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ ۔طالبان کی پیش رفت اتنی تیز رفتار سے ہوئی کہ سب کے سب ہکّابکّا رہ گئے انھوںنے آناً فاناً دارالحکومت کابل پر کنٹرول حاصل کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔کسی کو اندازہ نہ تھاکہ اتنی جلدی اوراس قدر قوت کے ساتھ کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اس کامیابی نے دشمنوں کو اچانک بھیانک خواب سے بیدار کر دیا اور ا ن کی حالت دیدنی تھی ۔

امریکا کے بعد طالبان کی اس فتح سے سب سے بڑا دھچکاپاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو لگا جو افغانستان میں اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف تھااس کی یہ روش برسوں پرانی تھی جس نے افغانستان کے بھارت نواز حکمرانوں کے علاوہ پاکستان میں موجود اس کے بد نام ِزمانہ ایجنٹوں کا بھی عمل دخل تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ ان ایجنٹوں کو نہ پہلے کبھی کوئی کامیابی حاصل ہوئی تھی اورنہ آیندہ ہونے کی توقع۔ تاہم ان سب کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔

ہمیں برسوں پرانا وہ منظر یاد آرہا ہے جب افغانستان کے بھارت نواز پٹھو حکمران سردار داؤد اور سردار نعیم رام لیلاگراؤنڈ میں بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ بغل گیر ہو رہے تھے۔پاکستان کے خلاف بھارتی حکمرانوں اور افغان حکمرانوں کی سازش کا یہ نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد سے یہ سازشیںرنگ بدلتی رہیں مگر پہلے سے بھی زیادہ شدت سے زور پکڑتی رہیں جس میں آگے چل کر افغان حکمرانوں کے پروردہ بعض بلوچی ایجنٹ بھی شامل ہوگئے۔ جن سے اب بچہ بچہ واقف ہے۔


بھارت کا بد نامِ زمانہ خفیہ ایجنٹ کُل بُھوشن یادو اسی سلسلے کی کڑی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ افغانستان میں یہ تبدیلی عین اس روز ہوئی جب وہ جشن آزادی منا رہا تھا۔ جشن آزادی ،جشن ِبربادی میں تبدیل ہوگیا ۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں بھارتی سفارتی عملے کو اپنا بستر بوریاسمیٹتے ہوئے ہمیشہ کے لیے نو دو گیارہ ہونا پڑا اور اس کے پاکستان مخالف تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ بیشک جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ افغانستان کے انقلاب نے بھارتی حکمرانوں کے نہ صرف ہوش اُڑا دیے ہیں بلکہ دل کا چین ختم کر دیا ہے اور رات کی نیندیں حرام کر دی ہیں ۔

دوسری جانب امریکیوں اور اس کے حامیوں کو افغانستان سے جوتیاں چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے اور ان کا تمام اسلحہ مالِ غنیمت کی صورت میں طالبان کے ہاتھوں میں آ گیا ہے ۔ حالات کی گردش پرسارا جہان حیران ہے اورامریکا پریشان و پشیمان ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ پاکستان کے حق میں یہ تبدیلی ایک ایسے وقت پر رونما ہوئی ہے جب اسے بھارت ، اسرائیل اور امریکا کے گٹھ جوڑ کا چیلنج در پیش تھا ، اگرچہ پاکستان نے افغانستان کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں اور اپنی جانب سے اس برادر ملک کے لیے ہمیشہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا ، لیکن غیر ملکی حکمرانوں کی پٹھو حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں ۔ بہر حال قدرت نے اب پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹ دیا ہے اور سارے کا سارا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ماضی کے حملہ آور روس کی جانب سے اس تبدیلی کی حمایت دکھائی دے رہی ہے ، جس کی جانب اشارہ اس بات کی صورت میں نظر آ رہا ہے کہ روس نے افغانستان میں اپنے سفارتی عملے کو برقرار رکھا ہوا ہے ۔ ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کو پاکستان کے عظیم دوست چین کی حمایت حاصل ہے جو کہ ایک نیک شگون ہے ۔ تبدیلی کے اس عمل کا اس خطے پر بڑا زبردست اثر پڑے گا اور نیا منظر نامہ دیکھنے کو ملے گا۔جس میں روس اور چین کے علاوہ وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستیں بصورت تاجکستان ، ازبکستان و دیگر شامل ہونگی۔ امید واثق ہے کہ اس کے نتیجے میں ان تمام ملکوں کی قسمت ہی بدل جائے گی ۔

یہ بات بھی لائق ِ تحسین ہے کہ طالبان نے اپنے گزشتہ تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ماضی کی غلطیاںدہرانے سے گریز کیا ہے ،جس کا ایک مظاہر ہ یہ ہے کہ انھوںنے اپنے مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی کرنے سے اجتناب کیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کو اس تبدیلی پر انگشت نمائی کا کوئی موقع میسر نہیں آیا ہے ۔

اقتدار پر قابض ہونے والے بہادر طالبان نے کسی کو چھوا تک بھی نہیں اور کسی کو شکایت نہیں ہوئی ہے۔ اس منظم کارروائی کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی پذیرائی ہوئی ہے۔صورت ِ حال یہ ہے کہ اس انقلابی تبدیلی کے دوران کسی کا بال بیکا نہیں ہوا ہے۔

یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ طالبان تمام گروپوں کے ساتھ مفاہمت کے خواہاں ہیں تاکہ بیس سالہ کشمکش کے نتیجے میں ہونے والی قیامت خیز تباہی و بربادی کے بعد افغانستان کی تعمیرِ نو کی جا سکے اگرچہ بظاہریہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن اُمید ہے کہ بہترین حکمت عملی اعلیٰ سے اعلیٰ پالیسیوں کی مدد سے طالبان نا ممکن کو ممکن بنا دے گے اور اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل ِ حال رہے گی۔ طالبان کے اب تک کے طرز عمل سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں گے اورہر کام انتہائی احتیاط کے ساتھ انجام دیں گے۔

مثلاً خواتین کے معاملہ میں وہ سابقہ تنگ نظری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اعتدال کا راستہ اختیار کر یں گے تاکہ ملک کی خواتین تعمیر ِ نو کے کام میں مردوںکا ہاتھ بٹا سکیں۔ اس کے علاوہ دیگر امور میں بھی کسی قسم کا ردِ عمل اختیار کرنے کی توقع کی جا رہی ہے تاکہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی ممکن ہوسکے ۔
Load Next Story