نیا جال لائے پرانے شکاری
افغانستان کے مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہے۔ اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔
انقلاب روس کے بعد1917 میں دنیا میں سب سے پہلے روس میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ 1918 میں جرمنی اور 1919 امیں امریکا نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ جب کہ افغانستان میں امان اللہ خان نے اقتدار میں آنے کے بعد 1919 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ لڑکے اور لڑکیوں کا مشترکہ نظام تعلیم رائج کیا اور تعلیم بالغان بھی شروع کردیا۔
1919 سے 1929 تک امان اللہ خان کی افغانستان میں حکومت قائم رہی۔ بعدازاں سامراجیوں نے مذموم سازشوں کے ذریعے جدید افغانستان کو پھر ایک بار قدامت پرستی اور دقیانوسیت کی جانب دھکیل دیا۔ 1996 میں ملا عمر کی انتہائی رجعتی حکومت قائم ہوئی تو افغان فنکاروں کو زندہ درگور کردیے گئے، خواتین پر باہر نکلنے کی پابندی اور لڑکیوں کے اسکول بند کردیے گئے، حجاموں کی دکانیں بند کرا دی گئیں، اب ایک بار پھر افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
طالبان قیادت کابل میں براجمان ہیں۔طالبان ترجمان نے اعلانات کیے ہیں کہ لڑکیاں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، اسکول جاسکتی ہیں، خواتین ملازمت کرسکتی ہیں مگر اسلامی اقدار کے مطابق۔ حجام کی دکانیں کھلی ہوں گی، خواہ کوئی داڑھی رکھے یا نہ رکھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ 1996 نہیں ہے یہ 2021 ہے۔
دنیا ہر روز بدلتی رہتی ہے۔ یہی فطری قوانین ہیں۔ طالبان کی گزشتہ حکمرانی میں جس طرح کا سخت گیر رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ آج افغان طالبان نمایندے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنی معیشت بہتر کرنے اور دنیا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ چونکہ افغانستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے اس لیے انھیں سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ہی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی طور پر اس حکومت کو تسلیم کیا جائے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری ہو۔ اس کے سوا اور کوئی ترقی کا راستہ نہیں ہے ورنہ سارا کھیل الٹ جائے گا۔
یہاں کوئی اشتراکی نظام تو قائم نہیں ہوا ہے جیساکہ پی ڈی پی اے کے بزرگ انقلابی رہنما استاد اکبر خیبر خان کی شہادت کے بعد شاہ داؤد کا فوج نے تختہ الٹ کر دوسرے دن اقتدار انقلابی کونسل کے حوالے کردیا تھا، جس کے سربراہ نور محمد ترہ کئی 1978 میں ملک کے صدر بن گئے اور انھوں نے ولور (بردہ فروشی) سود، جاگیرداری، پوست کی کاشت، سامراجی سرمایہ کی ضبطگی، تعلیم کو عام، تعلیم بالغان، صحت کی مکمل سہولت فراہم کردی تھی چونکہ ان سامراج مخالف اقدامات، عالمی برادری (بقول نوم چومسکی، امریکا، نیٹو، آئی ایم ایف) کو نہ بھائی۔ ان اقدامات کے خلاف امریکی سی آئی اے نے پاکستانی سرزمین سے مسلح مداخلت کی اور بلاآخر افغانستان پر ملا عمر کی سربراہی میں طالبان حکومت قائم ہوگئی۔
جب سے افغانستان نے القاعدہ والوں کو پناہ دینا شروع کیا ،اس وقت امریکا نے خاموشی اختیار کیے رکھی کیونکہ امریکا نے ہی اسامہ بن لادن کی تخلیق کی تھی۔ جب امریکی بحری جہاز پر القاعدہ نے میزائل حملے کیے، پھر ٹوئن ٹاورپر حملہ ہوا، اس کے بعد امریکی سامراج نے پرویز مشرف کو دھمکی دے کر افغانستان پر حملہ کردیا اور امریکی آلہ کار حامد کرزئی اور اشرف غنی کو باری باری صدر بنایا۔
امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کا اصل مقصد افغانستان میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو ناکام کرکے سامراجی غلامی میں دھکیلنا تھا، آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بن رہی ہے۔ اشرف غنی اور رشید دوستم کے ساتھ درپردہ مفاہمت کے ذریعے انھیں بمعہ ڈالر اور اسلحے کے ملک سے رخصت کیا گیا۔
جب کہ اشرف غنی کی امریکی حکومت کے کئی اہم سابق حکمران حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور کئی وزراء اب بھی افغانستان میں نہ صرف قیام پذیر ہیں بلکہ حکومت میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں اور طالبان حکومت کا رویہ ان کے ساتھ مفاہمانہ ہے۔ اسلام میں تو یہ ہے کہ ''اصلی ضرورت سے زائد چیزیں ضرورت مندوں کو دے دو۔'' تو پھر ان طالبان رہنماؤں کے پاس پیجارو اور لینڈ کروزر، پرتعیش محل اور ہیلی کاپٹروں پر سفر کیا معنی رکھتا ہے۔ جب کہ افغان عوام بھوک، افلاس،غربت، جہالت اور بیماریوں سے تڑپ رہے ہیں تو افغان لیڈران کی عیش و عشرت کا کیا جواز ہے۔
ہمیں ان جرأت مند خواتین کو سلام پیش کرنا چاہیے جنھوں نے کابل میں مظاہرہ کیا۔ اگر عوام طالبان کی حرکات و سکنات اور قول و فعل سے مطمئن ہوتے تو کابل ایئرپورٹ میں ملک چھوڑنے کے خواہشمندوں کا ہجوم نہ ہوتا۔ خوف اور بے اعتمادی نہ ہوتی۔ جلال آباد میں عوام نے طالبان کے خلاف مظاہرہ کیا اور انھوں نے طالبان کا پرچم اتار کر افغانستان کا پرچم لہرادیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان حکومت عوام کے حقوق کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ کیا جاگیرداری ختم کرتی ہے، ولور کا نظام ختم کرے گی، سود کا نظام ختم کرے گی، سامراجی سرمایے کو ضبط کرے گی۔ اللہ کی زمین اللہ کے بندوں میں تقسیم کرے گی؟ جہالت، بھوک، افلاس، غربت، ناخواندگی اور بیماریوں کا خاتمہ ہوگا؟ بین الاقوامی عدالت جرائم (آئی سی سی) نے افغانستان میں جرائم کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر امریکا نے 95 ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کیا ہے۔ حالیہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے افغانستان کو جاری کرنے والے فنڈز کو روک دیا ہے۔ ہرچند کہ افغانستان کے مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہے۔ اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔
1919 سے 1929 تک امان اللہ خان کی افغانستان میں حکومت قائم رہی۔ بعدازاں سامراجیوں نے مذموم سازشوں کے ذریعے جدید افغانستان کو پھر ایک بار قدامت پرستی اور دقیانوسیت کی جانب دھکیل دیا۔ 1996 میں ملا عمر کی انتہائی رجعتی حکومت قائم ہوئی تو افغان فنکاروں کو زندہ درگور کردیے گئے، خواتین پر باہر نکلنے کی پابندی اور لڑکیوں کے اسکول بند کردیے گئے، حجاموں کی دکانیں بند کرا دی گئیں، اب ایک بار پھر افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
طالبان قیادت کابل میں براجمان ہیں۔طالبان ترجمان نے اعلانات کیے ہیں کہ لڑکیاں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، اسکول جاسکتی ہیں، خواتین ملازمت کرسکتی ہیں مگر اسلامی اقدار کے مطابق۔ حجام کی دکانیں کھلی ہوں گی، خواہ کوئی داڑھی رکھے یا نہ رکھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ 1996 نہیں ہے یہ 2021 ہے۔
دنیا ہر روز بدلتی رہتی ہے۔ یہی فطری قوانین ہیں۔ طالبان کی گزشتہ حکمرانی میں جس طرح کا سخت گیر رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ آج افغان طالبان نمایندے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنی معیشت بہتر کرنے اور دنیا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ چونکہ افغانستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے اس لیے انھیں سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ہی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی طور پر اس حکومت کو تسلیم کیا جائے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری ہو۔ اس کے سوا اور کوئی ترقی کا راستہ نہیں ہے ورنہ سارا کھیل الٹ جائے گا۔
یہاں کوئی اشتراکی نظام تو قائم نہیں ہوا ہے جیساکہ پی ڈی پی اے کے بزرگ انقلابی رہنما استاد اکبر خیبر خان کی شہادت کے بعد شاہ داؤد کا فوج نے تختہ الٹ کر دوسرے دن اقتدار انقلابی کونسل کے حوالے کردیا تھا، جس کے سربراہ نور محمد ترہ کئی 1978 میں ملک کے صدر بن گئے اور انھوں نے ولور (بردہ فروشی) سود، جاگیرداری، پوست کی کاشت، سامراجی سرمایہ کی ضبطگی، تعلیم کو عام، تعلیم بالغان، صحت کی مکمل سہولت فراہم کردی تھی چونکہ ان سامراج مخالف اقدامات، عالمی برادری (بقول نوم چومسکی، امریکا، نیٹو، آئی ایم ایف) کو نہ بھائی۔ ان اقدامات کے خلاف امریکی سی آئی اے نے پاکستانی سرزمین سے مسلح مداخلت کی اور بلاآخر افغانستان پر ملا عمر کی سربراہی میں طالبان حکومت قائم ہوگئی۔
جب سے افغانستان نے القاعدہ والوں کو پناہ دینا شروع کیا ،اس وقت امریکا نے خاموشی اختیار کیے رکھی کیونکہ امریکا نے ہی اسامہ بن لادن کی تخلیق کی تھی۔ جب امریکی بحری جہاز پر القاعدہ نے میزائل حملے کیے، پھر ٹوئن ٹاورپر حملہ ہوا، اس کے بعد امریکی سامراج نے پرویز مشرف کو دھمکی دے کر افغانستان پر حملہ کردیا اور امریکی آلہ کار حامد کرزئی اور اشرف غنی کو باری باری صدر بنایا۔
امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کا اصل مقصد افغانستان میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو ناکام کرکے سامراجی غلامی میں دھکیلنا تھا، آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال بن رہی ہے۔ اشرف غنی اور رشید دوستم کے ساتھ درپردہ مفاہمت کے ذریعے انھیں بمعہ ڈالر اور اسلحے کے ملک سے رخصت کیا گیا۔
جب کہ اشرف غنی کی امریکی حکومت کے کئی اہم سابق حکمران حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور کئی وزراء اب بھی افغانستان میں نہ صرف قیام پذیر ہیں بلکہ حکومت میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں اور طالبان حکومت کا رویہ ان کے ساتھ مفاہمانہ ہے۔ اسلام میں تو یہ ہے کہ ''اصلی ضرورت سے زائد چیزیں ضرورت مندوں کو دے دو۔'' تو پھر ان طالبان رہنماؤں کے پاس پیجارو اور لینڈ کروزر، پرتعیش محل اور ہیلی کاپٹروں پر سفر کیا معنی رکھتا ہے۔ جب کہ افغان عوام بھوک، افلاس،غربت، جہالت اور بیماریوں سے تڑپ رہے ہیں تو افغان لیڈران کی عیش و عشرت کا کیا جواز ہے۔
ہمیں ان جرأت مند خواتین کو سلام پیش کرنا چاہیے جنھوں نے کابل میں مظاہرہ کیا۔ اگر عوام طالبان کی حرکات و سکنات اور قول و فعل سے مطمئن ہوتے تو کابل ایئرپورٹ میں ملک چھوڑنے کے خواہشمندوں کا ہجوم نہ ہوتا۔ خوف اور بے اعتمادی نہ ہوتی۔ جلال آباد میں عوام نے طالبان کے خلاف مظاہرہ کیا اور انھوں نے طالبان کا پرچم اتار کر افغانستان کا پرچم لہرادیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان حکومت عوام کے حقوق کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ کیا جاگیرداری ختم کرتی ہے، ولور کا نظام ختم کرے گی، سود کا نظام ختم کرے گی، سامراجی سرمایے کو ضبط کرے گی۔ اللہ کی زمین اللہ کے بندوں میں تقسیم کرے گی؟ جہالت، بھوک، افلاس، غربت، ناخواندگی اور بیماریوں کا خاتمہ ہوگا؟ بین الاقوامی عدالت جرائم (آئی سی سی) نے افغانستان میں جرائم کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر امریکا نے 95 ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کیا ہے۔ حالیہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے افغانستان کو جاری کرنے والے فنڈز کو روک دیا ہے۔ ہرچند کہ افغانستان کے مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہے۔ اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔