پاکستانی برے نہیں انتظامیہ بری ہے

یہی پاکستانی وطن میں قانون کی پاسداری نہیں کرتے جب کہ دیار غیر میں خود کو قانون کے مطابق رکھتے ہیں

اگر ہمارے ہاں کچھ گندے لوگ ہیں تو یہ صرف اور صرف ڈنڈے کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لاہور:
''دبئی جانے والے مسافر اپنا کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ وصول کرسکتے ہیں۔''

جیسے ہی یہ اعلان ہوا، تمام مسافر متعلقہ کاؤنٹر کی طرف ایسے بھاگے جیسے ہمارے ہاں شادی میں کھانا کھلنے پر لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

اور پھر یوں ہوا کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے مثبت اور منفی رزلٹ کے حامل لوگ۔ میں سب سے الگ کونے میں کھڑا رہا۔ سب سے آخر میں جب میں متعلقہ کاؤنٹر پر پہنچا تو اسٹاف نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں بتایا کہا کہ سر میں اس ہجوم میں شامل ہوکر کورونا کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا، کیوں کہ منفی اور مثبت رزلٹ کے حامل سب ہی ایک جگہ بغیر سماجی دوری کے موجود تھے۔

اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری اور بولا کہ سر کیا کریں یہ پاکستانی ایسے ہی ہیں۔ انہیں سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ یہ قوم نہیں سدھر سکتی۔ وہ بولا تو بولتا ہی چلا گیا۔

''آپ کو غلط فہمی ہے جناب۔ یہ قوم بہت ہی قابل ہے۔ آپ کو اس قوم کی قابلیت دیکھنی ہے تو اب سے تین گھنٹے کے بعد دبئی ایئرپورٹ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ یہی لوگ ہوں گے اور بغیر کسی حیل و حجت کے ایک نہیں دو میٹر کے فاصلے پر انتہائی پرسکون انداز میں اپنی باری کا انتظار کررہے ہوں گے۔ نہ کوئی شور شرابا ہوگا، نہ ہلڑ بازی ہوگی۔ تو ثابت ہوا کہ لوگ نہیں آپ برے ہیں۔ آپ لوگوں کو حکومت تنخواہ اس بات کی نہیں دیتی کہ آپ ''لوگ برے ہیں'' کہہ کر اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہوجائیں، بلکہ آپ کو بھاری معاوضہ اسی بات کا ادا کیا جاتا ہے کہ آپ لوگوں سے قانون پر عملدارآمد کروائیں۔'' یہ کہہ کر میں جہاز کی طرف بڑھ گیا۔ یہ واقعہ حال ہی میں پاکستان سے لوٹنے والے میرے دوست نے سنایا۔


بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی شاندار صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ شرط یہ ہے کہ کوئی ان کی خوبیوں سے فائدہ اٹھانے والا ہو۔ اگر انہیں قانون پر عمل کروانے والے نااہل ہوں تو پھر وہی ہوتا ہے جو مینار پاکستان پر ہوا۔ اگر رکھوالے کمزور ہوں تو پھر یہ لوگ سبق حاصل کرنے کے بجائے پیروی شروع کردیتے ہیں۔ جیسے گزشتہ ایک ہفتے سے ہورہا ہے، لڑکیوں کو چھیڑنے کے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ یہی پاکستانی اپنے وطن میں تسلسل کے ساتھ اس طرح کے جرائم میں ملوث رہتے ہیں، جب کہ دیار غیر میں جہاں پر عورت کا لباس جیسا بھی ہو یہ پاکستانی اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور حرکات و سکنات کو قانون کے مطابق رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف ڈنڈے کا فرق ہے۔ ہمارے ہاں ڈنڈے کی کمی ہے۔

مجھے یاد ہے برسوں پہلے ایک بزرگ سے کسی نے نماز کی پابندی کےلیے دعا کی درخواست کی۔ بزرگ چونکہ 21اکیسویں صدی کے تھے، مسکراتے ہوئے بولے کہ بیٹا صحت، نوکری اور جوانی کے باوجود اگر آپ نماز کی پابندی نہیں کررہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دعا سے زیادہ ڈنڈے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کی حکمرانی کچھ اس طرح قائم کی جائے کہ امیر، غریب کا فرق ختم ہوجائے۔ جب کوئی جرم کرے تو اسے نشان عبرت بنادیا جائے۔ عدالتوں سے زیر التوا کیسز کا خاتمہ کیا جائے، تاکہ جیسے ہی کوئی کیس داخل ہو، اس کا فیصلہ برسوں کے بجائے گھنٹوں میں ہو۔ یہاں پر مدعی عدالتوں میں خوار ہوتا رہتا ہے اور مجرم ضمانت پر رہا ہوکر مزے لوٹ رہا ہوتا ہے۔

آخری میں کچھ گزارشات۔ وطن عزیز کے چند نام نہاد دانشور مینار پاکستان پر لڑکی سے زیادتی کرنے والے چار سو غلیظ لوگوں کو ہمارا چہرہ قرار دے رہے ہیں۔ بلاشبہ 14 اگست کو مینار پاکستان پر جو کچھ ہوا اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ مگر یہ ہمارا چہرہ نہیں ہے۔ 20 کروڑ لوگوں میں سے چار سو کیا، چار ہزار گندے لوگ ہوسکتے ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہے۔ ہمارا چہرہ ڈاکٹر عبدالقدیر ہیں، ہمار چہرہ ڈاکٹر ثمر مند مبارک ہیں، ہمارا چہرہ شہباز سینئر ہیں، ہمارا چہرہ ارفع کریم ہے، ہمارا چہرہ وہ ٹیکسی ڈرائیور ہیں، جو ڈالر، درہم سے بھرا ہوا بیگ خود رکھنے کے بجائے مالک کی تلاش کرکے اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں پاکستانی ایسے ملیں گے جو اپنے شاندار کارناموں کی بدولت دنیا بھر میں اپنے خاندان اور وطن عزیز کی پہچان کرواتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں کچھ گندے لوگ ہیں تو یہ صرف اور صرف ڈنڈے کی کمی یا کمزوری کی وجہ سے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story