طالبان کیخلاف آپریشن یا مذاکرات اراکین پارلیمنٹ کی رائے معلوم کرنے کا فیصلہ

وزیراعظم نے اپنی پارلیمانی پارٹی کی رائے معلوم کرلی، دو روز میں سیاستدانوں کی معلوم کر لیں گے

وزیراعظم نے اپنی پارلیمانی پارٹی کی رائے معلوم کرلی، دو روز میں سیاستدانوں کی معلوم کر لیں گے۔ فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعظم محمد نواز شریف اپنے دورِ اقتدار کے مشکل ترین مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔

رواں ہفتے انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کے کونے کونے میں امن و امان کی دھجیاں اڑانے والے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں یا مذاکرات، مذاکرات کا راگ الاپتے ہوئے وقت گزاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پیر کے روز وزیراعظم آفس کے بڑے آڈیٹوریم میں ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان کی بھاری اکثریت نے عوامی ڈیمانڈ کے عین مطابق انتہائی جرأت مندی سے ہاتھ اٹھا کر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کی حمایت کر دی ہے، تاہم حکومتی پارلیمانی پارٹی کی رائے معلوم کرنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں کی رائے سامنے آنے تک آپریشن کے حوالے سے فیصلہ روک لیا۔

البتہ انہوں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ تحریک طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کے لیے کی جانے والی تازہ ترین پیش کش کی صداقت اور سنجیدگی معلوم کرکے انہیں رپورٹ دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خاتون رکن قومی اسمبلی عارفہ خالد نے جب عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی بات کی تو ہال نو نو کی آوازوں سے گونج اٹھا اور کسی بھی رکن نے ان کے موقف کی حمایت نہ کی جبکہ دو اراکین رائے منصب علی اور سینیٹر رفیق رجوانہ ایڈووکیٹ نے مذاکرات کی جزوی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مذاکرات کے دروازے بالکل بند نہ کرے، حکومت مذاکرات بھی کرے اور جہاں ضرورت ہو وہاں ایکشن بھی کرے۔ ان دونوں ارکان کے موقف کو بھی اراکین کی جانب سے پذیرائی نہ ملی۔ اسی دوران رکن اسمبلی علی احسن گیلانی نے بغیر مائیک اور اجازت کے چلا کر کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جائے تو تقریباً نوے فیصد ارکان نے با آواز بلند ان کی حمایت کی اور زبردست تالیاں بجائیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو تقریباً نوے فیصد اراکین نے ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے آپریشن کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اب وزیراعظم نے حکومتی اراکین پارلیمنٹ کی اجتماعی رائے معلوم کر لینے کے بعد دیگر پارلیمانی جماعتوں اور ان کے اراکین کے علاوہ قومی سیاستدانوں کی رائے معلوم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک دو روز میں توقع کی جارہی ہے کہ عسکری قیادت بھی ممکنہ آپریشن کے حوالے سے اپنی تیاریوں کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی البتہ حتمی فیصلہ اس وقت سامنے آئے گا کہ چوہدری نثار علی خان طالبان کی جانب سے کی جانے والی مذاکرات کی پیش کش کی صداقت اور سنجیدگی معلوم کرنے کے بعد وزیراعظم کو رپورٹ پیش کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف آج خود پارلیمنٹ ہاؤس آئیں گے اور ساری صورتحال ہاؤس کے سامنے رکھنے کے بعد حکومتی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو بچانا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیے بغیر ہم پاکستان کو تیز تر ترقی کے سفر پر گامزن نہیں کر سکتے۔ انہوں نے پرعزم لب و لہجے میں کہا کہ ہمیں پاکستان کا امن سے محبت کرنے والے ملک کے طور پر امیج بنانا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب اراکین پارلیمنٹ سول سوسائٹی، انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا اور مسلح افواج کے اراکین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز مربوط اور مشترکہ کوششیں کریں۔




وزیراعظم نے اپنی پارلیمانی پارٹی کی رائے معلوم کرلی، دو روز میں سیاستدانوں کی معلوم کر لیں گے، میڈیا کے ذریعے قوم کی آواز ان کے کانوں تک مسلسل پہنچ رہی ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے قائد عمران خان بھی ملک سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت سے مکمل تعاون کا یقین دلا رہے ہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور دانشوروں کو بھی وسیع تر قومی مفاد میں چند روز تک ذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہو کر تبصرے اور تجزیے کرنا ہوں گے۔ حکومت، اپوزیشن، تیسری بڑی سیاسی قوت عمران خان، علمائے کرام، میڈیا اور سول سوسائٹی کو تذبذب سے باہر نکل کر حتمی طور پر طے کرنا ہوگا کہ وہ مذاکرات چاہتے ہیں یا آپریشن۔ اب دو رخی پالیسی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پریشانی بھی بتا دی کہ انہیں اب طالبان پر اعتماد نہیں رہا۔ وہ ایک طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات یا ان کے خلاف کارروائی کاحتمی فیصلہ وزیراعظم اور قیادت کو کرنا ہے۔ انہوں نے سیاسی قائدین کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ بریفنگز میں تو اعتماد کا اظہار کرتے ہیں مگر باہر جا کر مخالفانہ بیان بازی شروع کر دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 112 سیالکوٹ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی رانا شمیم احمد خان نے وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی بے رخی، بے اعتنائی اور عدم توجہی کی شکایات کا دفتر کھولا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کی کابینہ کے ارکان ہمیں پوچھتے ہی نہیں کسی کام کی غرض سے ان کے آفس جائیں تو ملتے ہی نہیں، سرِ راہ مل جائیں تو ہاتھ تک نہیں ملاتے، یہ ہمیں ایک چوکیدار سے بھی کم ترسمجھتے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزراء کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آئندہ یہ شکایت نہیں سننا چاہتا ۔ منتخب اراکین پارلیمنٹ کو عزت دی جائے۔ انہوں نے اراکین سے کہا کہ آئندہ کوئی آپ سے ناقابل قبول سلوک کرے تو آپ مجھے بتائیں۔

مشکلیں اتنی پڑیں کہ آسان ہو گئیں کے مصداق حکومتی اراکین پارلیمنٹ نے اس سال پچاس پچاس لاکھ روپے کی گرانٹ لینے کی بجائے آئندہ سال کے ترقیاتی بجٹ میں کروڑوں میں فنڈز لینے کی صبر آزما مشکل کو ترجیح دی ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ نے بڑا صبر کیا، اب انہیں فنڈز ملنے چاہئیں۔ وزیراعظم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے فنڈز کے حوالے سے صورتحال دریافت کی تو اسحاق ڈار نے کہا کہ اگلے مالی سال میں ہم فنڈز دے سکتے ہیں اگر ابھی دینا ہیں تو صرف پچاس پچاس لاکھ روپے ترقیاتی سکیموں کے لیے ہر رکن کو دے سکتے ہیں، ارکان نے 50، 50 لاکھ روپے کی ترقیاتی سکیمیں لینے سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ وہ اگلے مالی سال تک صبر کر لیں گے۔ نجانے اس انکار کو اراکین پارلیمنٹ کے ووٹر کس طرح لیتے ہیں۔ اسے وزیراعظم نواز شریف کی سادگی کہیں یا خوش فہمی کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امریکی صدر باراک اوبامہ کی بے حد تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا چاہے اوبامہ کے بارے میں کچھ کہے میری ان سے ملاقات بڑی مثبت رہی تھی۔ امریکی صدر بہت معقول آدمی ہیں ان کا رویہ بھی مثبت تھا۔

ان سے ملاقات کے بعد ڈرون حملوں میں بہت حد تک کمی آ گئی ہے۔ ہمارے محترم وزیراعظم کو یہ تو معلوم ہو گا کہ خطے میں امریکی دلچسپی جوں جوں کم ہو گی وہ معاملات سے لاتعلق ہوتے جائیں گے اور ڈرون حملوں کے لیے انہیں متعلقہ علاقے سے معلومات بھی تو درکار ہوتی ہیں اور یہ کام ڈالروں کا تقاضا کرتا ہے۔ ادھر واشنگٹن میں پاکستان اور ا مریکہ کے باقاعدہ سٹریٹجک مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ بیان دے کر بظاہر پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔ حقیقت میں یہ وہ کس حد تک ہمارے ساتھ مخلص ہیں اس سوال کا جواب بھی سٹریٹجک ڈائیلاگ کے اختتام تک ہو جائے گا کہ وہ ہمارے محترم سرتاج عزیز اور خواجہ آصف کو وطن واپسی تک معاہدوں اور وعدوں کی صورت میں کیا دے کر بھیجتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان اپنی صوبائی قیادت اور صوبائی حکومت سے مسلسل نالاں نظر آتے ہیں کہ اب انہوں نے اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے نجانے کیوں ملالہ یوسف زئی کی کتاب کی تقریب رونمائی روک دی ہے۔

اس سے قبل بھی وہ ہنگو کے ہیرو اعتزاز حسن کی شہادت کے موقع پر وزیراعلیٰ یا کسی ذمہ دار کے اس قومی ہیرو کے گھر نہ جانے پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ان کے وزراء کو معلوم ہونا چاہیے کہ عمران خان نامعلوم وجوہات کی بناء پر کی گئی نااہلی اب مزید برداشت نہ کریں گے۔ کے پی کے کے وزیراعلیٰ 3 ماہ کے انتظار کے بعد بالآخر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اپنے وزیر خزانہ سراج الحق کے ہمراہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں انہوں نے مشترکہ مفادات کونسل کے 10 فروری کو طلب کیے گئے اجلاس سے قبل بجلی کی رائیلٹی سے متعلق واجبات کی ادائیگی یقینی بنانے کی درخواست کی ہے۔ خوشگوار ماحول میں ہونے والی ان ملاقاتوں سے خوشگوار نتائج کی ہی توقع کی جاتی ہے۔
Load Next Story