راوی کنارے آباد لاہور پانی کی قلت کا شکار
زیر زمین پانی کی سطح جو کبھی 15 میٹر تھی گر کر 40 میٹر تک پہنچ چکی ہے۔
''پانی '' کثرت اور قلت دونوں صورتوں میں انسانی بحران کو جنم دیتا ہے۔اس کی زیادتی سیلاب کی صورت میں اپنے پیچھے بے شمار انسانی المیوں کی دستانیں چھوڑ جاتی ہے اور اگر یہ کمیابی کا روپ اختیار کرلے تو زندگی آہستہ آہستہ سمٹنا شروع کردیتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ پانی سے وابستہ ان دونوں طرح کی آفات سے بھری پڑی ہے۔ سیلاب ہوں کہ خشک سالی بدقسمتی سے ہمارا ملک ان آفات کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔ آب وہوا میںتبدیلی کے یہ نمایاں مظاہر ہمیں اب تواتر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کبھی دریا پانی سے اتنے بھر جاتے ہیں کہ اپنے پاٹ سے باہر چھلکنے لگتے ہیں اور کبھی اتنے مختصر ہوجاتے ہیں کہ ان پر ندی نالے کا گمان ہونے لگتا ہے۔
قدرتی آفات کی ان دونوں صورتوں سے جہاں ہماری زراعت متاثر ہورہی ہے وہیںشہر پانی کی قلت کا شکار ہورہے ہیں۔دریائے راوی کنارے آبادلاہورکا شمار بھی اب اُن شہروں میں ہوچکا ہے جہاں پانی کی روز بروز بڑھتی طلب نے اس کی کمیابی کے ایک ممکنہ بحران کے دروازے پر دستک دینا شروع کردی ہے۔
لاہور اپنی کلیدی معاشی، سماجی و اقتصادی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے آبادی اور جغرافیائی اعتبار سے وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے اس کے قدرتی وسائل پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا اور ماحولیاتی تنزلی کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔یہ وسعت اور تنزلی لاہور میں دیگر مسائل کے علاوہ اس کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو محدود کر رہی ہے۔
جو مستقبل میں ایک بحرانی کیفیت اختیار کرسکتے ہیں اگر بروقت اصلاح کی کوشش نا کی گئی تو۔کیونکہ تاریخ کا ایک سبق ہے کہ '' مجھ سے سبق لو'' لیکن ہم ابھی شاید سبق لینے کے موڈ میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور شہرجس کی آبادی میں 1998 سے2017 کے دوران دگنا سے زائد اضافہ ہوچکا ہے مزید آبادی کے بوجھ تلے دباجا رہا ہے۔ ضلع لاہور جو رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے چھوٹا ڈسٹرکٹ ہے لیکن آبادی کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
ملک کے صفر عشاریہ بائیس فیصد (0.22 %) رقبہ پر مشتمل اس ڈسٹرکٹ میں ملک کی 5.35 فیصد آبادی مقیم ہے جبکہ وطن عزیز کی شہری آبادی کا 15 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ کے نفوس پر مشتمل ہے۔لاہور میں آبادی کی گنجانیت کا اندازہ اس امر سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت لاہور ڈسٹرکٹ میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعداد 6275.39 ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ لاہور ڈسٹرکٹ پنجاب کے رقبہ کا صفر عشاریہ چھیاسی (0.86 %) فیصد ہے لیکن صوبے کی دس فیصدمجموعی آبادی اور 27.5 فیصد شہری آبادی یہاں سکونت پذیر ہے۔
اسی طرح صوبے کے گھروں کا10.27 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میں تعمیر ہے جبکہ پنجاب کے شہری گھروں کی تعداد کا 27.50 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میںموجود ہیں۔پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ میں گھروں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جو شہر کی جغرافیائی وسعت کا مظہر ہے۔آبادی کے اس قدر دباؤ کی ایک بڑی وجہ لاہور کی جانب لوگوں کی نقل مکانی ہے ۔پانی کا عدم تحفظ، آب و ہوا کی تبدیلی اور معاشی و سماجی عدم مساوات دیہی شہری نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ میں معاون بن رہی ہے۔جس کی کچھ منظر کشی پاکستان لیبر فورس سروے2014 یوں کرتا ہے کہ پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کا 15 فیصد لاہور کی جانب ہجرت کرتا ہے۔
شہر میں بڑھتی آبادی کی اس بے ہنگم تعداد کو اپنے روزمرہ معمولات کے لیے پانی کی ضرورت ایک قدرتی امر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔اس لیے ضرورت سے زیادہ پمپنگ کی وجہ سے شہر کے وسطی حصے میں پانی 40 میٹر تک نیچے چلا گیا ہے۔ اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ2025 تک یہ70 میٹر تک گہرائی میں چلا جائے گا۔ 2040 تک اگر صورتحال برقرار رہی تو یہ100 میٹر گہرائی تک جاسکتا ہے۔ اس گہرائی سے پانی نکالنا تکنیکی اور مالی لحاظ سے ممکن نہیں ہوگا۔کیونکہ مذکورہ سال تک ضلع لاہور کی پانی کی طلب2522 کیوسک ہوجانے کا اندازہ ہے۔
لاہور جس کے قیام کی ایک بنیادی وجہ اس کے پہلو میں بہنے والا دریائے راوی ہے۔تاریخی طور پر راوی کا پانی لاہور کی ضروریات پوری کیا کرتا تھا۔ اس شہر کے لیے پینے کے صاف پانی کا پہلاجدید نظام انگریزوں نے1876 میں نصب کیا ۔ اس نظام کے تحت دریائے راوی سے لکھ پت رائے کے ٹینک ( جو پانی والا تالاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)تک پانی منتقل کیا گیا جس کی گنجائش 250 مکعب میٹر تھی۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سہولت ترک کردی گئی ۔ ماضی میں انتظامیہ کی غفلت اور اس خیال نے کہ راوی دریا کی وجہ سے لاہور کو زیرزمین پانی کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااس لیے لاہور کے رہائشیوں کو گھریلو استعمال کے لیے سطح زمین کا پانی پہنچانے کے لیے مزید انتظامات نہیں کئے گئے۔
لیکن بعد ازاں سندھ طاس معاہدہ نے اس خیال کو چکنا چور کردیا اور لاہور کو راوی کے پانی کے حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راوی کے بہاؤ میں مسلسل کمی نے ایک جانب شہر کی ضروریات کے لیے پانی کا رخ موڑنانا ممکن بنادیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کی پانی کی تمام ترضروریات زیرزمین پانی کے وسائل سے پوری کی جانے لگیں۔ دوسری جانب دریا میں پانی کی کم ہوتی مقدار نے زیر زمین پانی کی تجدید کو بھی متاثر کیا ہے۔
یوںنوبت اب اس نہج تک آپہنچی ہے کہ لاہور میں پانی کے روز بروز بڑھتے استعمال کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر سالانہ کی رفتار سے گر رہی ہے جس کی نشاندہی واسا کے لاہور واٹراینڈ ویسٹ واٹرمنیجمنٹ پراجیکٹ کی اکتوبر2019 میں جاری کردہ Environmental and Social Impact Assessment for Water Supply Infrastructure نامی دستاویز میں کی گئی ۔یہ صورتحال خطرے کی وہ گھنٹی ہے جس کی باز گشت ورلڈ بینک کی '' پاکستان گیٹنک مور فرام واٹر'' نامی دستاویز تک میں موجود ہے جس کے مطابق لاہور، کوئٹہ اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے۔
پانی اور شہروں کے مابین تعلق انتہائی اہم ہے۔اِنھیںپینے کے پانی کی ایک بہت بڑی اِن پٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ پانی کے نظام پر بہت زیادہ اثر ات مرتب کرتے ہیں۔تیزی سے وسعت کی وجہ سے شہروں کو پانی کی اضافی طلب کا سامنا ہے۔ اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے شہر پانی کی تلاش میں زیر زمین گہرائی اوراس سے بھی آگے جارہے ہیں یوں وہ آبی وسائل کا زیادہ استحصال کرتے ہیں۔شہری علاقوں میں زیرزمین پانی کی گرتی سطح ایک بڑے انسانی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
کیونکہ اس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کی پانی کے متبادل ذرائع تک رسائی محدود ہوتی ہے۔کوئٹہ اس صورتحال کی صد فیصد عکاسی کر رہا ہے۔ شہروں کا پھیلائو پانی کے عدم تحفظ کو بڑھاوا دیتا ہے جس سے کسی بھی ملک کو اہم معاشی ، معاشرتی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس لیے کسی قسم کے بحران کے شروع ہونے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کرنادانش مندی کا تقاضا ہیں۔پانی سے متعلق دو اہم چیلنجزشہری آباد کاریوں کی پائیداری کو متاثر کرتے ہیں۔
اول صاف پانی اور سینی ٹیشن تک رسائی کانہ ہونا دوم سیلاب اور قحط جیسی آفات میں اضافہ۔ ان مسائل کے انسانی صحت، بہبود ، حفاظت ، ماحولیات ، معاشی نمو اور ترقی پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔شہری مراکز میں زیادہ سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی استحکام اور مساوات کو یقینی بنانے کے لئے پینے کے صاف پانی تک رسائی ضروری ہے۔کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شہرروزگار کے ساتھ ساتھ پانی کے زیادہ موثر انتظام اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک قابل اعتماد رسائی فراہم کرتے ہیںاوریہی سوچ آب وہوا سے متاثرہ ممالک میں شہروں کے پھیلائو اورنمو کا باعث بھی بن رہی ہے۔
لاہور پاکستان کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا شہر ہے۔ جو اپنی 11.1 ملین آبادی کی پانی کی طلب پورا کرنے کے لیے اس وقت مکمل طور پر زیر زمین پانی کے وسائل پر انحصار کررہا ہے۔ واسا شہر میں اپنے596 ٹیوب ویلز کے ذریعے روزانہ تقریباً 2.45 ملین مکعب میٹر پانی اپنے صارفین کو فراہم کر رہا ہے۔جبکہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے75 اوروالٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے 91 ٹیوب ویل اس کے علاوہ ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کو پانی مہیا کررہے ہیں۔
ان ٹیوب ویلز کے ساتھ ساتھ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، ماڈل ٹائون سوسائٹی، پاکستان ریلویزکی کالونیاں، جی او آرز اور نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کی بڑی تعدادذاتی ٹیوب ویلوں کے ذریعے اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کی فراہمی آب کی ذمہ داری پوری کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ لاہور میں پنجاب ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس 2019 کے مطابق 4611 ٹیوب ویل زرعی مقاصد کے لیے پانی زمین سے نکال رہے ہیں۔
اس طرح تمام ٹیوب ویل مل کر ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ'' سیچویشن انیلسز آف دی واٹر ریسورسز آف لاہور'' کے مطابق چند سال قبل تک گھریلو، صنعتی اور زرعی مقاصد کے لیے 7.17 ملین مکعب میٹر پانی روزانہ زمین سے نکال رہے تھے۔جس کا 53 فیصد گھریلو استعمال میں، 13 فیصد صنعتی، 24 فیصد زرعی اور 10 فیصد ادارہ جاتی استعمال میں آتا تھا۔
لاہور کے2040 کے فائنل ماسٹر پلان کے مطابق آبادی میں اضافہ، شہر کی جغرافیائی وسعت اور زیادہ پمپنگ کی وجہ سے لاہور کے زیر زمین پانی کے ذخائر پر1970 کے عشرے سے تیز منفی رجحان کا سامنا ہے۔ سالہا سال زیر زمین پانی پر انحصار نے شہر میں اس کی سطح کو نیچے سے نیچے کردیا ہے۔اس پر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
اس کے نتیجے میں کئی موجودہ ٹیوب ویل غیر فعال ہورہے ہیں۔ اس لیے زیر زمین پانی کے وسائل پر اکیلے انحصار مستقبل کے لیے قابل اعتماد ذریعہ نہیں ہے۔ کیونکہ شہر میں زمین سے پانی کا حصول زیر زمین پانی کے ری چارج سے کہیں زیادہ ہے جس سے لاہور میں اس وقت زیر زمین پانی کے ذخائر میں 304 ملین مکعب میٹر سالانہ کمی واقع ہورہی ہے۔ اس تلخ حقیقت کی واسا کی اکتوبر2019 میں تیارکردہ رپورٹ'' انوائرنمنٹل اینڈ سوشل ایمپیکٹ اسیسمنٹ فار واٹر سپلائی انفراسٹرکچر '' میں نشاندہی کی گئی۔
ماہرین کے مطابق اس کمی کی ایک بڑی وجہ دریائے راوی سے ہونے والے ری چارج میں کمی ہے جو دریا میں پانی کے بہائو میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔ سندھ طاس معاہدہ کی رو سے راوی کے پانی پر بھارت کا اختیار ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں راوی دریا کے بہائو میں حالیہ برسوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔بھارت میں آب وہوا میں تبدیلی، آبپاشی اور پن بجلی کے منصوبوں کے لیے تعمیرات اور2000 ء میں Thein ڈیم کی تعمیر نے راوی دریا کی سیلاب ہائیڈرولوجی کو بہت متاثر کیا ہے جس سے لاہور شہر اور اس کے آس پاس زمینی پانی کے ریچارج میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
راوی میں پانی کے بہائو کی اوسط مقدار جو 1922 سے1961 کے دوران1300 ملین مکعب میٹر روزانہ تھی 1985 سے1995 تک کم ہوکر800 ملین مکعب میٹر روزانہ ہوگئی۔ جبکہ2000 سے2009 تک یہ مزید کم ہوکر175 ملین مکعب میٹر یومیہ پر آچکی تھی۔دریا سردیوں اور بہار کے موسم میں تقریباً خشک ہوجاتا ہے اور برسات کے موسم یعنی جولائی تا اگست میںکسی حد تک دوبارہ جی اٹھتا ہے۔ لاہور کا82 فیصد زیر زمین پانی کا ری چارج راوی سے حاصل ہوتا ہے۔
بارش اور نہروں سے12 فیصد جبکہ زرعی زمینوں سے6 فیصد پانی زیر زمین جذب ہوتا ہے۔اس لیے راوی میں پانی کی کمی سے شہر میں پانی کی زیر زمین سطح میں مزیدتنزلی اور ٹیوب ویلوں کی ناکامی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔بات یہیں تک محدود نہیں دریائے راوی سے جڑا ایک اور پہلو بھی بھیانک نتائج کا حامل ہے اور وہ لاہور کا تمام تر گھریلواور صنعتی آلودہ پانی جس کی مقدار 540 ملین گیلن روزانہ ہے بغیر کسی ٹریٹمنٹ راوی دریا میں خارج کردیناہے۔13 نالے شہر کا گندا پانی دریائے راوی میں لے جا رہے ہیں۔ جس سے دریا ایک سیوریج ڈرین کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
راوی دریا چونکہ لاہور کے زیر زمین پانی کے ذخائر کی تجدید میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے دریا کی بڑے پیمانے پر آلودگی کی وجہ سے آلودہ پانی زمین میں رسائو کے باعث زیر زمین پانی کو پینے کے لیے غیر موزوں بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ براہ راست شہریوں کی فوڈ چین کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ کشیدنہ ہونے والا گندا پانی دریا کے میٹھے پانی میں ملادیا جاتا ہے۔اس پانی سے کھیت سیراب ہوتے ہیں اور کھیتوں میں اُگنے والی سبزیوں میں زہریلی دھاتیں مل جاتی ہیں کیونکہ سبز فصلیں بھاری دھاتوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
لاہور میں زیر زمین پانی کی تجدید کا دوسرا ذریعہ بارش کا پانی ہے ۔ شہر میں اوسطً 715 ملی میٹر بارش سالانہ ہوتی ہے جوماہرین کے مطابق اتنی معقول مقدار ہے کہ زمینی پانی کو دوبارہ ری چارج کیا جاسکے تاہم یہ زیر زمین پانی کی تجدید میں اتنی معاون نہیں ہوتی کیونکہ شہر کی وسعت اور انفاراسٹرکچرل ڈیولپمنٹ کی وجہ سے زیر زمین پانی کے رسائو میں بھی کمی واقع ہورہی ہے اوربیشتر برساتی پانی شہر میں سیلابی کیفیت کا باعث بنتا ہوا بے مصرف بہہ جاتا ہے۔
کیونکہ شہر اور اس کے قرب وجوار میں موجود کچی زمینیں جو پانی کی زیرزمین تجدید میں معاون ہوتی ہیں تیزی سے کنکریٹ کا لبادہ اوڑھ رہی ہیں۔کیونکہ رہائش کی طلب کو پورا کرنے کے لیے شہرکے اندر اور قرب و جوار میں موجود زمینوں کو رہائشی منصوبوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔گھروں کی تعداد میں یہ اضافہ دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھی باعث بنتا ہے۔ مثلاً شاپنگ پلازے، دکانیں، سڑکیں، اسکول، ہسپتال، شادی ہال، عبادات کے مقامات، پیٹرول پمپ وغیرہ ۔یعنی مزید کچی زمین کاکنکریٹ سے چھپ جانا۔ یوں قیمتی قدرتی وسائل سے کہیں زیادہ شہروں میں توسیع ہورہی ہے۔اس امرکی نشاندہی اربن یونٹ پنجاب کا جنوری 2018 میں جاری کردہ دی اربن گزٹ یوں کر رہا ہے کہ لاہور شہر جو1995 میں 220 مربع کلومیٹر پر محیط تھا ۔
2005 میں 336 مربع کلومیٹر اور2015 تک بڑھ کر 665 مربع کلومیٹر ہوچکا تھااور اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو 2025 تک یہ 1320 مربع کلو میٹر تک پھیل جائے گا۔کیونکہ لاہور کی آبادی میں ایک فیصد اضافہ لاہور کے رقبے میں2.82 فیصد اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ شہرمیں بارش سے زمینی ریچارج 10 سے25 فیصد تک ہے جو اس کی مقدار، شدت اور مقام پر منحصر ہے۔ شہر کے ایسے علاقوں میں جہاں زیادہ تر اراضی تعمیرات کے زیر ہے وہاں ری چارج کل بارش کا10 فیصد سے زیادہ نہیں۔ جبکہ متصل زرعی علاقوں میں ری چارج25 فیصد تک ہے۔ لہذا مسقبل میں لاہور کی پانی کی طلب کو صرف زیر زمین آبی وسائل سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے سطح زمین کے وسائل کو بھی بروئے کار لانا ہوگا۔
لاہور کے زیر زمین پانی کے متبادل کے طور پر دریائے راوی ،لاہور برانچ کینال، خیرا ڈسٹری بیوٹری، بی آر بی ڈی کینال سطح زمین کے پانی کے اہم ذرائع ہیں جو استعمال ہوسکتے ہیں۔ لاہور کے زیر زمین پانی پر دبائو کو کم کرنے کے لیے ان چاروں میں سے کسی ایک سے پانی حاصل کرکے اور ٹریٹمنٹ کے بعد گھریلو، کمرشل اور صنعتی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
دریائے راوی میں پانی کی سطح بہت کم ہونے کی وجہ سے اب وہ اس قابل نہیں رہا کہ اُسے سطح زمین پر دستیاب پانی کے وسائل کے قابل اعتبار ذریعہ کے طور پر سمجھا جائے۔ سطح زمین پر دستیاب پانی کے لیے راوی کے متبادل کے طور پر جو ایک ذریعہ قابل بھروسہ ہے وہ بی آر بی ڈی نہر ہے۔بمبا والا راوی بیدیاں دیپالپور کینال (BRBD) لاہور کے مشرق سے گزرتی ہے جو لوئر چناب کینال سے نکلتی ہے۔اس لیے جب تک لاہور کو سطح زمین پر موجود پانی کے وسائل سے پانی پہنچانے کے منصوبے عملی صورت اختیار نہیں کرتے ۔لاہور کی روز بروز بڑھتی آبادی کی وجہ سے شہرکے زیر زمین پانی کے وسائل پر دبائو بڑھتا ہی رہے گا۔
سہیل علی نقوی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں سینئر منیجر فریش واٹر پروگرام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ پیشے سے انجینئر ہیں اور پانی اور ماحولیاتی امور میں 14 سال سے زیادہ کاتجربہ رکھتے ہیں۔ لاہور کے پانی کے وسائل پر آپ کا تحقیقی کام مختلف دستاویزکی صورت میں گاہے بگاہے سامنے آتا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ــــ''ماضی میں ڈسچارج اور ریچارج کے فرق کی وجہ سے لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ دو سے اڑھائی فٹ تک گر رہی تھی۔ لیکن واسا کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق لاہور کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح کو مزید نیچے جانے سے روک لیا گیا ہے۔ جو کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے۔ تاہم پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے ابھی بھی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے''۔
اِن اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھاکہــ'' بارش کے پانی کو استعمال میں لانے والے نظام کو فروغ دے کر ، زرعی مقاصد کے لیے ری سائیکل شدہ پانی کا استعمال کر کے ، ریچارج اور نکالے گئے پانی میں ایک توازن قائم کرنے سے اور سطح زمین کے پانی کے وسائل کی تلاش جیسے اقدامات کے ذریعے بہتری لائی جا سکتی ہے''۔ سہیل نقوی بارش کے پانی کواس حوالے سے بہترین وسیلہ قرار دیتے ہیں اور یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ بدقسمتی سے ماضی میں اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ '' بارش کے پانی کو ذخیرہ اور دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے نظام کو گھریلو سطح سے ادارہ جاتی سطح تک فروغ دیا جائے۔ ایل ڈی اے نے اس حوالے سے پیش رفت کی ہے کہ ایک کنا ل اور اس سے بڑے گھروں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ اور استعمال کرنے کے لیے زیر زمین واٹر ٹینک کی تعمیر کو ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اپنے انفراسٹرکچر کی سطح پر ایل ڈی اے کے قوانین کے ذریعہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور سوسائٹی کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کا پابند بنایا جائے''۔اُن کا کہنا ہے کہ'' ہمارے یہاں بارش کے پانی اور گھریلوو صنعتی اخراج شدہ پانی کی نکاسی کے الگ الگ نالے نہیں ہیں۔
اس لیے تمام پانی آپس میں مکس ہوجاتا ہے جسے بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے دریائے راوی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے لاہور میں ایک بھیcombined effluent treatment plant نہیں ہے جو مختلف ذرائع سے آنے والے گندے پانی کو کشیدکرے۔ لہذایہ گندا پانی آلودگی، کمیونٹیوں کی زندگیوںاورصحت کے ساتھ ساتھ ہماری فوڈ چین کو بھی متاثر کررہاہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیںاورگندے پانی کی کشید کے نظام کوقابل عمل ، اقتصادی اور کام کرنے کے حوالے سے آسان ہونا چاہیے۔ یہ کشیدشدہ پانی باغبانی ، زراعت اور ماہی پروری جیسے مقاصدکے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کو چاہیئے کہ مختلف قسم کے گندے پانی جیسے صنعتی ، گھریلو اوربرساتی پانی کے لیے علیحدہ علیحدہ نکاسی کے مختلف نالے بھی متعارف کرائے ''۔اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ـ'' نئی پالیسیاں وضع کرنے کے بجائے موجودہ گورننس سسٹم پر سختی سے عمل درآمدکو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ساتھ عوامی سطح پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے مناسب چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی اختیار کیا جائے''۔
سہیل علی نقوی نے لاہور کے مختلف علاقوںمیں زیر زمین پانی کی سطح کو مزید گرنے سے روکنے کے حوالے سے جو بات کی اس کی تائید واساکے یہ اعدادوشمار بھی کر رہے ہیں۔جن کے مطابق 1980 میں گلبرگ لاہور اور شاہدرہ لاہور میں زیر زمین پانی بالترتیب 15.69(پندرہ عشاریہ چھ نو )میٹر اور5.7(پانچ عشاریہ سات) میٹر پر دستیاب تھا۔ یہ سطح 2018 تک کم ہوکر 50.15 (پچاس عشاریہ ایک پانچ )میٹر اور 23.5 (تئیس عشاریہ پانچ )میٹر پر آچکی تھی۔لیکن 2019 اور2020 میں یہ سطح بالترتیب 50 اور23 میٹر پر قائم تھی۔یعنی ان دونوں علاقوں میں گزشتہ دوسال سے زیر زمین پانی کی سطح مزید گرنے سے رک چکی ہے۔ کیونکہ واسا نے شہر میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے کئی ایک اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ شہر میں پانی کی سپلائی کو 18 گھنٹے سے کم کرکے موسم گرما میں 11 گھنٹے روزانہ کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ نجی ہاؤسنگ سکیموں پر ایکویفر چارجز عائد کردیئے گئے ہیں اور نئے ٹیوب ویل کی تنصیب کے لیے واسا سے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا جاچکا ہے۔ سروس اسٹیشنوںکو گندے پانی کو ری سائیکل کرنے اور کار دھونے کے لیے دوبارہ استعمال کرنے کاپابند کرنا، مساجد کے وضو کے پانی کو دوبارہ استعمال میں لاتے ہوئے اسے باغبانی کے مقاصد کے لیے قریبی پارکس میں منتقل کرنا، رہائشی و تجارتی اور صنعتی علاقوں میں ریمپ دھونے اور پائپ کے ذریعے کار دھونے کی وجہ سے پانی کے ضیاع پر جرمانے عائد کرناجیسے اقدامات کیے جاچکے ہیں۔
اس کے علاوہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے زیر زمین ایک ٹینک کی تعمیر مکمل کی جاچکی ہے جبکہ دو زیر تعمیر ہیں۔ یہ ٹینک بارش کا پانی ذخیرہ کریں گے اور بعد میں پی ایچ اے باغبانی کے مقاصد اور فائر بریگیڈ خدمات کے لیے اسے استعمال کرے گا ۔اِن تمام اقدامات سے امید توہے کہ لاہور کے زیر زمین پانی کے وسائل پر دبائو کچھ کم ہوسکے گا۔لیکن اس تمام تر پیش رفت کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح کو بڑھانے کے لیے مستقل بنیادوں پر ری چارج کے طریقوں کو اپنانے اور دریائے راوی کو ویسٹ واٹر ڈرین بننے سے بچانے کے علاوہ سطح زمین پر موجود پانی کے وسائل سے لاہور کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی فوری توجہ اور موثراقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تاریخ پانی سے وابستہ ان دونوں طرح کی آفات سے بھری پڑی ہے۔ سیلاب ہوں کہ خشک سالی بدقسمتی سے ہمارا ملک ان آفات کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔ آب وہوا میںتبدیلی کے یہ نمایاں مظاہر ہمیں اب تواتر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کبھی دریا پانی سے اتنے بھر جاتے ہیں کہ اپنے پاٹ سے باہر چھلکنے لگتے ہیں اور کبھی اتنے مختصر ہوجاتے ہیں کہ ان پر ندی نالے کا گمان ہونے لگتا ہے۔
قدرتی آفات کی ان دونوں صورتوں سے جہاں ہماری زراعت متاثر ہورہی ہے وہیںشہر پانی کی قلت کا شکار ہورہے ہیں۔دریائے راوی کنارے آبادلاہورکا شمار بھی اب اُن شہروں میں ہوچکا ہے جہاں پانی کی روز بروز بڑھتی طلب نے اس کی کمیابی کے ایک ممکنہ بحران کے دروازے پر دستک دینا شروع کردی ہے۔
لاہور اپنی کلیدی معاشی، سماجی و اقتصادی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے آبادی اور جغرافیائی اعتبار سے وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے اس کے قدرتی وسائل پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا اور ماحولیاتی تنزلی کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔یہ وسعت اور تنزلی لاہور میں دیگر مسائل کے علاوہ اس کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو محدود کر رہی ہے۔
جو مستقبل میں ایک بحرانی کیفیت اختیار کرسکتے ہیں اگر بروقت اصلاح کی کوشش نا کی گئی تو۔کیونکہ تاریخ کا ایک سبق ہے کہ '' مجھ سے سبق لو'' لیکن ہم ابھی شاید سبق لینے کے موڈ میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور شہرجس کی آبادی میں 1998 سے2017 کے دوران دگنا سے زائد اضافہ ہوچکا ہے مزید آبادی کے بوجھ تلے دباجا رہا ہے۔ ضلع لاہور جو رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کا سب سے چھوٹا ڈسٹرکٹ ہے لیکن آبادی کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
ملک کے صفر عشاریہ بائیس فیصد (0.22 %) رقبہ پر مشتمل اس ڈسٹرکٹ میں ملک کی 5.35 فیصد آبادی مقیم ہے جبکہ وطن عزیز کی شہری آبادی کا 15 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ کے نفوس پر مشتمل ہے۔لاہور میں آبادی کی گنجانیت کا اندازہ اس امر سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت لاہور ڈسٹرکٹ میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعداد 6275.39 ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ لاہور ڈسٹرکٹ پنجاب کے رقبہ کا صفر عشاریہ چھیاسی (0.86 %) فیصد ہے لیکن صوبے کی دس فیصدمجموعی آبادی اور 27.5 فیصد شہری آبادی یہاں سکونت پذیر ہے۔
اسی طرح صوبے کے گھروں کا10.27 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میں تعمیر ہے جبکہ پنجاب کے شہری گھروں کی تعداد کا 27.50 فیصد لاہور ڈسٹرکٹ میںموجود ہیں۔پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ میں گھروں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جو شہر کی جغرافیائی وسعت کا مظہر ہے۔آبادی کے اس قدر دباؤ کی ایک بڑی وجہ لاہور کی جانب لوگوں کی نقل مکانی ہے ۔پانی کا عدم تحفظ، آب و ہوا کی تبدیلی اور معاشی و سماجی عدم مساوات دیہی شہری نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ میں معاون بن رہی ہے۔جس کی کچھ منظر کشی پاکستان لیبر فورس سروے2014 یوں کرتا ہے کہ پنجاب میں نقل مکانی کرنے والوں کا 15 فیصد لاہور کی جانب ہجرت کرتا ہے۔
شہر میں بڑھتی آبادی کی اس بے ہنگم تعداد کو اپنے روزمرہ معمولات کے لیے پانی کی ضرورت ایک قدرتی امر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔اس لیے ضرورت سے زیادہ پمپنگ کی وجہ سے شہر کے وسطی حصے میں پانی 40 میٹر تک نیچے چلا گیا ہے۔ اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ2025 تک یہ70 میٹر تک گہرائی میں چلا جائے گا۔ 2040 تک اگر صورتحال برقرار رہی تو یہ100 میٹر گہرائی تک جاسکتا ہے۔ اس گہرائی سے پانی نکالنا تکنیکی اور مالی لحاظ سے ممکن نہیں ہوگا۔کیونکہ مذکورہ سال تک ضلع لاہور کی پانی کی طلب2522 کیوسک ہوجانے کا اندازہ ہے۔
لاہور جس کے قیام کی ایک بنیادی وجہ اس کے پہلو میں بہنے والا دریائے راوی ہے۔تاریخی طور پر راوی کا پانی لاہور کی ضروریات پوری کیا کرتا تھا۔ اس شہر کے لیے پینے کے صاف پانی کا پہلاجدید نظام انگریزوں نے1876 میں نصب کیا ۔ اس نظام کے تحت دریائے راوی سے لکھ پت رائے کے ٹینک ( جو پانی والا تالاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)تک پانی منتقل کیا گیا جس کی گنجائش 250 مکعب میٹر تھی۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سہولت ترک کردی گئی ۔ ماضی میں انتظامیہ کی غفلت اور اس خیال نے کہ راوی دریا کی وجہ سے لاہور کو زیرزمین پانی کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااس لیے لاہور کے رہائشیوں کو گھریلو استعمال کے لیے سطح زمین کا پانی پہنچانے کے لیے مزید انتظامات نہیں کئے گئے۔
لیکن بعد ازاں سندھ طاس معاہدہ نے اس خیال کو چکنا چور کردیا اور لاہور کو راوی کے پانی کے حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راوی کے بہاؤ میں مسلسل کمی نے ایک جانب شہر کی ضروریات کے لیے پانی کا رخ موڑنانا ممکن بنادیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کی پانی کی تمام ترضروریات زیرزمین پانی کے وسائل سے پوری کی جانے لگیں۔ دوسری جانب دریا میں پانی کی کم ہوتی مقدار نے زیر زمین پانی کی تجدید کو بھی متاثر کیا ہے۔
یوںنوبت اب اس نہج تک آپہنچی ہے کہ لاہور میں پانی کے روز بروز بڑھتے استعمال کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر سالانہ کی رفتار سے گر رہی ہے جس کی نشاندہی واسا کے لاہور واٹراینڈ ویسٹ واٹرمنیجمنٹ پراجیکٹ کی اکتوبر2019 میں جاری کردہ Environmental and Social Impact Assessment for Water Supply Infrastructure نامی دستاویز میں کی گئی ۔یہ صورتحال خطرے کی وہ گھنٹی ہے جس کی باز گشت ورلڈ بینک کی '' پاکستان گیٹنک مور فرام واٹر'' نامی دستاویز تک میں موجود ہے جس کے مطابق لاہور، کوئٹہ اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے۔
پانی اور شہروں کے مابین تعلق انتہائی اہم ہے۔اِنھیںپینے کے پانی کی ایک بہت بڑی اِن پٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ پانی کے نظام پر بہت زیادہ اثر ات مرتب کرتے ہیں۔تیزی سے وسعت کی وجہ سے شہروں کو پانی کی اضافی طلب کا سامنا ہے۔ اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے شہر پانی کی تلاش میں زیر زمین گہرائی اوراس سے بھی آگے جارہے ہیں یوں وہ آبی وسائل کا زیادہ استحصال کرتے ہیں۔شہری علاقوں میں زیرزمین پانی کی گرتی سطح ایک بڑے انسانی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
کیونکہ اس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کی پانی کے متبادل ذرائع تک رسائی محدود ہوتی ہے۔کوئٹہ اس صورتحال کی صد فیصد عکاسی کر رہا ہے۔ شہروں کا پھیلائو پانی کے عدم تحفظ کو بڑھاوا دیتا ہے جس سے کسی بھی ملک کو اہم معاشی ، معاشرتی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس لیے کسی قسم کے بحران کے شروع ہونے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کرنادانش مندی کا تقاضا ہیں۔پانی سے متعلق دو اہم چیلنجزشہری آباد کاریوں کی پائیداری کو متاثر کرتے ہیں۔
اول صاف پانی اور سینی ٹیشن تک رسائی کانہ ہونا دوم سیلاب اور قحط جیسی آفات میں اضافہ۔ ان مسائل کے انسانی صحت، بہبود ، حفاظت ، ماحولیات ، معاشی نمو اور ترقی پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔شہری مراکز میں زیادہ سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی استحکام اور مساوات کو یقینی بنانے کے لئے پینے کے صاف پانی تک رسائی ضروری ہے۔کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شہرروزگار کے ساتھ ساتھ پانی کے زیادہ موثر انتظام اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک قابل اعتماد رسائی فراہم کرتے ہیںاوریہی سوچ آب وہوا سے متاثرہ ممالک میں شہروں کے پھیلائو اورنمو کا باعث بھی بن رہی ہے۔
لاہور پاکستان کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا شہر ہے۔ جو اپنی 11.1 ملین آبادی کی پانی کی طلب پورا کرنے کے لیے اس وقت مکمل طور پر زیر زمین پانی کے وسائل پر انحصار کررہا ہے۔ واسا شہر میں اپنے596 ٹیوب ویلز کے ذریعے روزانہ تقریباً 2.45 ملین مکعب میٹر پانی اپنے صارفین کو فراہم کر رہا ہے۔جبکہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے75 اوروالٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے 91 ٹیوب ویل اس کے علاوہ ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کو پانی مہیا کررہے ہیں۔
ان ٹیوب ویلز کے ساتھ ساتھ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، ماڈل ٹائون سوسائٹی، پاکستان ریلویزکی کالونیاں، جی او آرز اور نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کی بڑی تعدادذاتی ٹیوب ویلوں کے ذریعے اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کی فراہمی آب کی ذمہ داری پوری کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ لاہور میں پنجاب ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس 2019 کے مطابق 4611 ٹیوب ویل زرعی مقاصد کے لیے پانی زمین سے نکال رہے ہیں۔
اس طرح تمام ٹیوب ویل مل کر ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ'' سیچویشن انیلسز آف دی واٹر ریسورسز آف لاہور'' کے مطابق چند سال قبل تک گھریلو، صنعتی اور زرعی مقاصد کے لیے 7.17 ملین مکعب میٹر پانی روزانہ زمین سے نکال رہے تھے۔جس کا 53 فیصد گھریلو استعمال میں، 13 فیصد صنعتی، 24 فیصد زرعی اور 10 فیصد ادارہ جاتی استعمال میں آتا تھا۔
لاہور کے2040 کے فائنل ماسٹر پلان کے مطابق آبادی میں اضافہ، شہر کی جغرافیائی وسعت اور زیادہ پمپنگ کی وجہ سے لاہور کے زیر زمین پانی کے ذخائر پر1970 کے عشرے سے تیز منفی رجحان کا سامنا ہے۔ سالہا سال زیر زمین پانی پر انحصار نے شہر میں اس کی سطح کو نیچے سے نیچے کردیا ہے۔اس پر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
اس کے نتیجے میں کئی موجودہ ٹیوب ویل غیر فعال ہورہے ہیں۔ اس لیے زیر زمین پانی کے وسائل پر اکیلے انحصار مستقبل کے لیے قابل اعتماد ذریعہ نہیں ہے۔ کیونکہ شہر میں زمین سے پانی کا حصول زیر زمین پانی کے ری چارج سے کہیں زیادہ ہے جس سے لاہور میں اس وقت زیر زمین پانی کے ذخائر میں 304 ملین مکعب میٹر سالانہ کمی واقع ہورہی ہے۔ اس تلخ حقیقت کی واسا کی اکتوبر2019 میں تیارکردہ رپورٹ'' انوائرنمنٹل اینڈ سوشل ایمپیکٹ اسیسمنٹ فار واٹر سپلائی انفراسٹرکچر '' میں نشاندہی کی گئی۔
ماہرین کے مطابق اس کمی کی ایک بڑی وجہ دریائے راوی سے ہونے والے ری چارج میں کمی ہے جو دریا میں پانی کے بہائو میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔ سندھ طاس معاہدہ کی رو سے راوی کے پانی پر بھارت کا اختیار ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں راوی دریا کے بہائو میں حالیہ برسوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔بھارت میں آب وہوا میں تبدیلی، آبپاشی اور پن بجلی کے منصوبوں کے لیے تعمیرات اور2000 ء میں Thein ڈیم کی تعمیر نے راوی دریا کی سیلاب ہائیڈرولوجی کو بہت متاثر کیا ہے جس سے لاہور شہر اور اس کے آس پاس زمینی پانی کے ریچارج میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
راوی میں پانی کے بہائو کی اوسط مقدار جو 1922 سے1961 کے دوران1300 ملین مکعب میٹر روزانہ تھی 1985 سے1995 تک کم ہوکر800 ملین مکعب میٹر روزانہ ہوگئی۔ جبکہ2000 سے2009 تک یہ مزید کم ہوکر175 ملین مکعب میٹر یومیہ پر آچکی تھی۔دریا سردیوں اور بہار کے موسم میں تقریباً خشک ہوجاتا ہے اور برسات کے موسم یعنی جولائی تا اگست میںکسی حد تک دوبارہ جی اٹھتا ہے۔ لاہور کا82 فیصد زیر زمین پانی کا ری چارج راوی سے حاصل ہوتا ہے۔
بارش اور نہروں سے12 فیصد جبکہ زرعی زمینوں سے6 فیصد پانی زیر زمین جذب ہوتا ہے۔اس لیے راوی میں پانی کی کمی سے شہر میں پانی کی زیر زمین سطح میں مزیدتنزلی اور ٹیوب ویلوں کی ناکامی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔بات یہیں تک محدود نہیں دریائے راوی سے جڑا ایک اور پہلو بھی بھیانک نتائج کا حامل ہے اور وہ لاہور کا تمام تر گھریلواور صنعتی آلودہ پانی جس کی مقدار 540 ملین گیلن روزانہ ہے بغیر کسی ٹریٹمنٹ راوی دریا میں خارج کردیناہے۔13 نالے شہر کا گندا پانی دریائے راوی میں لے جا رہے ہیں۔ جس سے دریا ایک سیوریج ڈرین کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
راوی دریا چونکہ لاہور کے زیر زمین پانی کے ذخائر کی تجدید میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے دریا کی بڑے پیمانے پر آلودگی کی وجہ سے آلودہ پانی زمین میں رسائو کے باعث زیر زمین پانی کو پینے کے لیے غیر موزوں بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ براہ راست شہریوں کی فوڈ چین کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ کشیدنہ ہونے والا گندا پانی دریا کے میٹھے پانی میں ملادیا جاتا ہے۔اس پانی سے کھیت سیراب ہوتے ہیں اور کھیتوں میں اُگنے والی سبزیوں میں زہریلی دھاتیں مل جاتی ہیں کیونکہ سبز فصلیں بھاری دھاتوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
لاہور میں زیر زمین پانی کی تجدید کا دوسرا ذریعہ بارش کا پانی ہے ۔ شہر میں اوسطً 715 ملی میٹر بارش سالانہ ہوتی ہے جوماہرین کے مطابق اتنی معقول مقدار ہے کہ زمینی پانی کو دوبارہ ری چارج کیا جاسکے تاہم یہ زیر زمین پانی کی تجدید میں اتنی معاون نہیں ہوتی کیونکہ شہر کی وسعت اور انفاراسٹرکچرل ڈیولپمنٹ کی وجہ سے زیر زمین پانی کے رسائو میں بھی کمی واقع ہورہی ہے اوربیشتر برساتی پانی شہر میں سیلابی کیفیت کا باعث بنتا ہوا بے مصرف بہہ جاتا ہے۔
کیونکہ شہر اور اس کے قرب وجوار میں موجود کچی زمینیں جو پانی کی زیرزمین تجدید میں معاون ہوتی ہیں تیزی سے کنکریٹ کا لبادہ اوڑھ رہی ہیں۔کیونکہ رہائش کی طلب کو پورا کرنے کے لیے شہرکے اندر اور قرب و جوار میں موجود زمینوں کو رہائشی منصوبوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔گھروں کی تعداد میں یہ اضافہ دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھی باعث بنتا ہے۔ مثلاً شاپنگ پلازے، دکانیں، سڑکیں، اسکول، ہسپتال، شادی ہال، عبادات کے مقامات، پیٹرول پمپ وغیرہ ۔یعنی مزید کچی زمین کاکنکریٹ سے چھپ جانا۔ یوں قیمتی قدرتی وسائل سے کہیں زیادہ شہروں میں توسیع ہورہی ہے۔اس امرکی نشاندہی اربن یونٹ پنجاب کا جنوری 2018 میں جاری کردہ دی اربن گزٹ یوں کر رہا ہے کہ لاہور شہر جو1995 میں 220 مربع کلومیٹر پر محیط تھا ۔
2005 میں 336 مربع کلومیٹر اور2015 تک بڑھ کر 665 مربع کلومیٹر ہوچکا تھااور اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو 2025 تک یہ 1320 مربع کلو میٹر تک پھیل جائے گا۔کیونکہ لاہور کی آبادی میں ایک فیصد اضافہ لاہور کے رقبے میں2.82 فیصد اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ شہرمیں بارش سے زمینی ریچارج 10 سے25 فیصد تک ہے جو اس کی مقدار، شدت اور مقام پر منحصر ہے۔ شہر کے ایسے علاقوں میں جہاں زیادہ تر اراضی تعمیرات کے زیر ہے وہاں ری چارج کل بارش کا10 فیصد سے زیادہ نہیں۔ جبکہ متصل زرعی علاقوں میں ری چارج25 فیصد تک ہے۔ لہذا مسقبل میں لاہور کی پانی کی طلب کو صرف زیر زمین آبی وسائل سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے سطح زمین کے وسائل کو بھی بروئے کار لانا ہوگا۔
لاہور کے زیر زمین پانی کے متبادل کے طور پر دریائے راوی ،لاہور برانچ کینال، خیرا ڈسٹری بیوٹری، بی آر بی ڈی کینال سطح زمین کے پانی کے اہم ذرائع ہیں جو استعمال ہوسکتے ہیں۔ لاہور کے زیر زمین پانی پر دبائو کو کم کرنے کے لیے ان چاروں میں سے کسی ایک سے پانی حاصل کرکے اور ٹریٹمنٹ کے بعد گھریلو، کمرشل اور صنعتی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
دریائے راوی میں پانی کی سطح بہت کم ہونے کی وجہ سے اب وہ اس قابل نہیں رہا کہ اُسے سطح زمین پر دستیاب پانی کے وسائل کے قابل اعتبار ذریعہ کے طور پر سمجھا جائے۔ سطح زمین پر دستیاب پانی کے لیے راوی کے متبادل کے طور پر جو ایک ذریعہ قابل بھروسہ ہے وہ بی آر بی ڈی نہر ہے۔بمبا والا راوی بیدیاں دیپالپور کینال (BRBD) لاہور کے مشرق سے گزرتی ہے جو لوئر چناب کینال سے نکلتی ہے۔اس لیے جب تک لاہور کو سطح زمین پر موجود پانی کے وسائل سے پانی پہنچانے کے منصوبے عملی صورت اختیار نہیں کرتے ۔لاہور کی روز بروز بڑھتی آبادی کی وجہ سے شہرکے زیر زمین پانی کے وسائل پر دبائو بڑھتا ہی رہے گا۔
سہیل علی نقوی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں سینئر منیجر فریش واٹر پروگرام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ پیشے سے انجینئر ہیں اور پانی اور ماحولیاتی امور میں 14 سال سے زیادہ کاتجربہ رکھتے ہیں۔ لاہور کے پانی کے وسائل پر آپ کا تحقیقی کام مختلف دستاویزکی صورت میں گاہے بگاہے سامنے آتا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ــــ''ماضی میں ڈسچارج اور ریچارج کے فرق کی وجہ سے لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ دو سے اڑھائی فٹ تک گر رہی تھی۔ لیکن واسا کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق لاہور کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح کو مزید نیچے جانے سے روک لیا گیا ہے۔ جو کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے۔ تاہم پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے ابھی بھی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے''۔
اِن اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھاکہــ'' بارش کے پانی کو استعمال میں لانے والے نظام کو فروغ دے کر ، زرعی مقاصد کے لیے ری سائیکل شدہ پانی کا استعمال کر کے ، ریچارج اور نکالے گئے پانی میں ایک توازن قائم کرنے سے اور سطح زمین کے پانی کے وسائل کی تلاش جیسے اقدامات کے ذریعے بہتری لائی جا سکتی ہے''۔ سہیل نقوی بارش کے پانی کواس حوالے سے بہترین وسیلہ قرار دیتے ہیں اور یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ بدقسمتی سے ماضی میں اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ '' بارش کے پانی کو ذخیرہ اور دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے نظام کو گھریلو سطح سے ادارہ جاتی سطح تک فروغ دیا جائے۔ ایل ڈی اے نے اس حوالے سے پیش رفت کی ہے کہ ایک کنا ل اور اس سے بڑے گھروں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ اور استعمال کرنے کے لیے زیر زمین واٹر ٹینک کی تعمیر کو ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اپنے انفراسٹرکچر کی سطح پر ایل ڈی اے کے قوانین کے ذریعہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور سوسائٹی کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کا پابند بنایا جائے''۔اُن کا کہنا ہے کہ'' ہمارے یہاں بارش کے پانی اور گھریلوو صنعتی اخراج شدہ پانی کی نکاسی کے الگ الگ نالے نہیں ہیں۔
اس لیے تمام پانی آپس میں مکس ہوجاتا ہے جسے بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے دریائے راوی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے لاہور میں ایک بھیcombined effluent treatment plant نہیں ہے جو مختلف ذرائع سے آنے والے گندے پانی کو کشیدکرے۔ لہذایہ گندا پانی آلودگی، کمیونٹیوں کی زندگیوںاورصحت کے ساتھ ساتھ ہماری فوڈ چین کو بھی متاثر کررہاہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیںاورگندے پانی کی کشید کے نظام کوقابل عمل ، اقتصادی اور کام کرنے کے حوالے سے آسان ہونا چاہیے۔ یہ کشیدشدہ پانی باغبانی ، زراعت اور ماہی پروری جیسے مقاصدکے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کو چاہیئے کہ مختلف قسم کے گندے پانی جیسے صنعتی ، گھریلو اوربرساتی پانی کے لیے علیحدہ علیحدہ نکاسی کے مختلف نالے بھی متعارف کرائے ''۔اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ـ'' نئی پالیسیاں وضع کرنے کے بجائے موجودہ گورننس سسٹم پر سختی سے عمل درآمدکو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ساتھ عوامی سطح پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے مناسب چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی اختیار کیا جائے''۔
سہیل علی نقوی نے لاہور کے مختلف علاقوںمیں زیر زمین پانی کی سطح کو مزید گرنے سے روکنے کے حوالے سے جو بات کی اس کی تائید واساکے یہ اعدادوشمار بھی کر رہے ہیں۔جن کے مطابق 1980 میں گلبرگ لاہور اور شاہدرہ لاہور میں زیر زمین پانی بالترتیب 15.69(پندرہ عشاریہ چھ نو )میٹر اور5.7(پانچ عشاریہ سات) میٹر پر دستیاب تھا۔ یہ سطح 2018 تک کم ہوکر 50.15 (پچاس عشاریہ ایک پانچ )میٹر اور 23.5 (تئیس عشاریہ پانچ )میٹر پر آچکی تھی۔لیکن 2019 اور2020 میں یہ سطح بالترتیب 50 اور23 میٹر پر قائم تھی۔یعنی ان دونوں علاقوں میں گزشتہ دوسال سے زیر زمین پانی کی سطح مزید گرنے سے رک چکی ہے۔ کیونکہ واسا نے شہر میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے کئی ایک اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ شہر میں پانی کی سپلائی کو 18 گھنٹے سے کم کرکے موسم گرما میں 11 گھنٹے روزانہ کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ نجی ہاؤسنگ سکیموں پر ایکویفر چارجز عائد کردیئے گئے ہیں اور نئے ٹیوب ویل کی تنصیب کے لیے واسا سے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا جاچکا ہے۔ سروس اسٹیشنوںکو گندے پانی کو ری سائیکل کرنے اور کار دھونے کے لیے دوبارہ استعمال کرنے کاپابند کرنا، مساجد کے وضو کے پانی کو دوبارہ استعمال میں لاتے ہوئے اسے باغبانی کے مقاصد کے لیے قریبی پارکس میں منتقل کرنا، رہائشی و تجارتی اور صنعتی علاقوں میں ریمپ دھونے اور پائپ کے ذریعے کار دھونے کی وجہ سے پانی کے ضیاع پر جرمانے عائد کرناجیسے اقدامات کیے جاچکے ہیں۔
اس کے علاوہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے زیر زمین ایک ٹینک کی تعمیر مکمل کی جاچکی ہے جبکہ دو زیر تعمیر ہیں۔ یہ ٹینک بارش کا پانی ذخیرہ کریں گے اور بعد میں پی ایچ اے باغبانی کے مقاصد اور فائر بریگیڈ خدمات کے لیے اسے استعمال کرے گا ۔اِن تمام اقدامات سے امید توہے کہ لاہور کے زیر زمین پانی کے وسائل پر دبائو کچھ کم ہوسکے گا۔لیکن اس تمام تر پیش رفت کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح کو بڑھانے کے لیے مستقل بنیادوں پر ری چارج کے طریقوں کو اپنانے اور دریائے راوی کو ویسٹ واٹر ڈرین بننے سے بچانے کے علاوہ سطح زمین پر موجود پانی کے وسائل سے لاہور کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی فوری توجہ اور موثراقدامات کی ضرورت ہے۔