افغانستان کا سبق
کہتے ہیں کہ دانش مندی، دور اندیشی اور بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ماضی سے سبق حاصل کرے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ اور ایقانِ واثق ہے کہ زندگی و موت ، جزا و سزا ، عزت و ذلت اور شہرت و گمنامی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ طالبان کو اس کا یقین تھا لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنی دولت، جدید اسلحے اور اپنی فوجی قوت پر اعتماد تھا کہ وہ ان کے بل بوتے پر افغانستان سے طالبان کا صفایا کرکے ہمیشہ کے لیے اپنی راج دھانی قائم کرلیں گے۔
کہتے ہیں کہ دانش مندی، دور اندیشی اور بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ماضی سے سبق حاصل کرے۔ گزشتہ ادوار میں کسی بھی معاملے اور منصوبے کے حوالے سے جو غلطیاں، لغزشیں، خطائیں اورکوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ان سب سے احتراز کرے تاکہ مستقبل کے لیے بنائی جانیوالی پالیسیاں اور منصوبہ بندی کامیابی سے ہمکنار ہو۔
امریکا کے سامنے ویت نام کی مثال موجود تھی جہاں پہلے فرانسیسی فوجوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 70 دنوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد 21جولائی 1954 کو جنیوا میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے اور فرانس ذلت و رسوائی کا طوق گلے میں ڈالے ویت نام سے نکل گیا۔
1946 میں شروع ہونے والی فرانس ویت نام جنگ تقریباً آٹھ سال جاری رہی۔ ویت نامی فوجوں نے پامردی سے مقابلہ کیا بالآخر 8 سال بعد فرانس کو یہ احساس ہوگیا کہ وہ ویت نام افواج کو شکست نہیں دے سکتے سو انھوں نے جنیوا امن معاہدے کے تحت ''عزت'' بچانے کی کوشش کی۔ اگرچہ جنیوا امن معاہدے پر دستخط کے بعد ویت نام پر فرانس کے تسلط کے خاتمے کا آغاز ہوا لیکن اسی کے ساتھ خطے میں امریکی مداخلت کی بھی ابتدا ہوگئی اور 4 اگست 1964 کو امریکا نے اپنی پانچ لاکھ سے زائد افواج ویت نام میں اتار دی یوں ویت نام ایک مرتبہ پھر بد امنی، بیرونی مداخلت اور خوں ریز جنگ کا شکار ہو گیا۔
امریکا دو دہائیوں تک ویت نام میں برسر پیکار رہا۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کی کاوشوں کے طفیل 1973 میں بات معاہدے تک پہنچی۔ پیرس میں ہونیوالے ویت نام امریکا معاہدۂ امن کو ''پیرس پیس اکارڈ'' کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تقریباً 12 نکات میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ امریکا ویت نام سے اپنی فوجیں نکال لے گا اور جنوبی و شمالی ویت نام ایک آزاد جمہوریہ کے طور پر آگے بڑھیں گے۔ معاہدے کے تحت امریکا بھی فرانس کی طرح بدنامی کا بوجھ اٹھائے ویت نام سے نکل گیا۔ پھر تاریخ آگے بڑھتی ہے اور دسمبر 1979 میں اس وقت کی سپر پاور روس افغانستان میں داخل ہو گیا۔
روسیوں کی افغان سرزمین پر چڑھائی کا واحد مقصد گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق روس کا اگلا ہدف پاکستان ہو سکتا تھا لیکن افغان جنگجوؤں نے اپنے لہو سے فتح کی تاریخ لکھی۔ روس جیسی سپر پاورکے مقابلے میں جو جدید فوجی قوت کی حامل تھی، افغان طالبان کے پاس ایسی فوجی قوت نہ تھی۔ نہ ٹینک، نہ توپ، نہ طیارے اور نہ ہی جدید اسلحہ اس کے باوجود اپنی ایمانی قوت سے کئی گنا بڑے دشمن کو افغان طالبان نے جس طرح شکست سے دوچار کیا وہ ناقابل فراموش اور سبق آموز تاریخی حقیقت ہے۔
روسی قیادت نے جب یہ محسوس کرلیا کہ وہ جس مقصد کے تحت افغانستان میں وارد ہوا تھا اپنی تمام صلاحیتوں، جدید اسلحے اور مستحکم معاشی و مضبوط فوجی قوت کے باوجود حاصل نہیں کرسکتا تو چار و ناچار معاہدے کی طرف گیا۔ 14 اپریل 1988 کو جنیوا میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل پیریز ڈیکویار نے امن معاہدے کی تقریب کی صدارت کی 38 صفحات پر مشتمل اس تاریخی معاہدے میں طے پایا کہ روسی فوجوں کا انخلا 15 مئی 1988 سے شروع ہو کر 15 فروری 1989 کو مکمل ہو جائے گا۔
امریکا کے سامنے ویت نام میں اپنی شکست اور افغانستان میں روس کی ناکامی کی عبرت ناک اور سبق آموز مثالیں موجود تھیں۔ اس کے باوجود 9/11 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گرد حملے کو جواز بنا کر اسامہ بن لادن کو اس میں ملوث قرار دیتے ہوئے، اس کی تلاش کے بہانے افغانستان پر 2001 میں چڑھائی کردی۔ تقریباً 20 سال تک امریکا اور اس کے اتحادی افغان جنگجوؤں سے برسر پیکار رہے۔
اس عرصے میں امریکا نے اربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کیے 3 لاکھ کے قریب افغانی فوج کی تربیت، لڑنے کی مہارت اور طالبان کو شکست دینے کی حکمت عملی بناتا رہا۔ اس دوران ایک سے زائد صدور امریکا میں برسر اقتدار رہے لیکن دو عشروں کے دوران امریکا طالبان جنگجوؤں کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ چنانچہ اندرون اور بیرون امریکا عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقے امریکا کی افغان پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے لگے اور افغان جنگ ختم کرنے اور فوجوں کو واپس بلانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا، چار و ناچار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ قطر میں طالبان قیادت سے کئی مہینوں تک ملاقاتیں اور مذاکرات کیے۔
بالآخر فروری 2020 میں دوحہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ایک امن معاہدے پر دستخط ہوگئے جس کے مطابق امریکا کو مرحلہ وار اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنا تھیں اسی طرح طالبان نے دوحہ معاہدے میں امریکا کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ امریکا افغانستان چھوڑنے سے قبل وہاں کوئی نہ کوئی سیاسی بندوبست کرکے جائے گا تاکہ افغانستان میں امن قائم رہے، ماضی کی طرح وہاں خوں ریزی نہ ہو، اور افغان عوام اور طالبان کے درمیان تصادم کا امکان نہ رہے۔ اس ضمن میں امریکا کو یہ یقین تھا کہ اس کی واپسی کے بعد افغان فوج جس کی فوجی تربیت پر ہزاروں ڈالر خرچ کیے وہ طالبان کے خلاف سخت مزاحمت کریں گی اور دارالخلافہ کابل کا کنٹرول ان کے پاس رہے گا۔
امریکی و دیگر انٹیلی جنس ادارے بھی یہ پیش گوئیاں کرتے رہے کہ طالبان کو کابل تک پہنچنے میں کئی مہینے لگیں گے۔ لیکن پھر پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا طالبان نے محض دس دن کے مختصر عرصے میں مزاحمت کے بغیر کابل سمیت تمام بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرلیا اور افغان فوج منظر سے ایسے غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور امریکا رسوائیوں کے گڑھے میں گر گیا۔ آج کا افغانستان طالبان کی امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہے۔
ماضی کے تلخ تجربات سے طالبان نے یہ سبق حاصل کیا کہ پہلے جیسا سخت ترین طرز عمل اختیار نہیں کریں گے، بالخصوص خواتین و بچوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ ہمدردانہ ہے۔ اسکول کھلے ہوئے ہیں، لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، خواتین عبایا پہن کر اپنی ذمے داریاں ادا کر رہی ہیں، طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عالمی برادری خاطر جمع رکھے وہ خواتین اور انسانی حقوق کا پورا احترام کریں گے، ماضی جیسی سخت گیر پالیسیاں نہیں اپنائیں گے۔
طالبان امیر ملا ہیبت اللہ، ملا برادر، حکمت یار اور دیگر طالبان رہنما کوشاں ہیں کہ افغانستان کے تمام متعلقہ گروپوں سے باہمی مشاورت و رضامندی اور ان سب کی شمولیت کے ساتھ ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جسے عالمی برادری تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اسی تناظر میں طالبان قیادت نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ سابق افغان صدر اشرف غنی جو ملک چھوڑ چکے ہیں انھیں بھی ''امان'' دے دی گئی ہے۔
طالبان نے تو ماضی کے تلخ و خوں ریز حوادث سے سبق حاصل کرلیا نتیجتاً آج ہم ''بدلے ہوئے طالبان'' دیکھ رہے ہیں لیکن امریکا نے اپنی پے درپے شکستوں و ناکامیوں سے سبق حاصل نہیں کیا۔ آج بھی امریکا اشاروں کنایوں میں افغانستان میں دوبارہ مداخلت کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے، جو افسوس ناک لیکن ناممکن ہے۔
کہتے ہیں کہ دانش مندی، دور اندیشی اور بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ماضی سے سبق حاصل کرے۔ گزشتہ ادوار میں کسی بھی معاملے اور منصوبے کے حوالے سے جو غلطیاں، لغزشیں، خطائیں اورکوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ان سب سے احتراز کرے تاکہ مستقبل کے لیے بنائی جانیوالی پالیسیاں اور منصوبہ بندی کامیابی سے ہمکنار ہو۔
امریکا کے سامنے ویت نام کی مثال موجود تھی جہاں پہلے فرانسیسی فوجوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 70 دنوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد 21جولائی 1954 کو جنیوا میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے اور فرانس ذلت و رسوائی کا طوق گلے میں ڈالے ویت نام سے نکل گیا۔
1946 میں شروع ہونے والی فرانس ویت نام جنگ تقریباً آٹھ سال جاری رہی۔ ویت نامی فوجوں نے پامردی سے مقابلہ کیا بالآخر 8 سال بعد فرانس کو یہ احساس ہوگیا کہ وہ ویت نام افواج کو شکست نہیں دے سکتے سو انھوں نے جنیوا امن معاہدے کے تحت ''عزت'' بچانے کی کوشش کی۔ اگرچہ جنیوا امن معاہدے پر دستخط کے بعد ویت نام پر فرانس کے تسلط کے خاتمے کا آغاز ہوا لیکن اسی کے ساتھ خطے میں امریکی مداخلت کی بھی ابتدا ہوگئی اور 4 اگست 1964 کو امریکا نے اپنی پانچ لاکھ سے زائد افواج ویت نام میں اتار دی یوں ویت نام ایک مرتبہ پھر بد امنی، بیرونی مداخلت اور خوں ریز جنگ کا شکار ہو گیا۔
امریکا دو دہائیوں تک ویت نام میں برسر پیکار رہا۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کی کاوشوں کے طفیل 1973 میں بات معاہدے تک پہنچی۔ پیرس میں ہونیوالے ویت نام امریکا معاہدۂ امن کو ''پیرس پیس اکارڈ'' کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تقریباً 12 نکات میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ امریکا ویت نام سے اپنی فوجیں نکال لے گا اور جنوبی و شمالی ویت نام ایک آزاد جمہوریہ کے طور پر آگے بڑھیں گے۔ معاہدے کے تحت امریکا بھی فرانس کی طرح بدنامی کا بوجھ اٹھائے ویت نام سے نکل گیا۔ پھر تاریخ آگے بڑھتی ہے اور دسمبر 1979 میں اس وقت کی سپر پاور روس افغانستان میں داخل ہو گیا۔
روسیوں کی افغان سرزمین پر چڑھائی کا واحد مقصد گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق روس کا اگلا ہدف پاکستان ہو سکتا تھا لیکن افغان جنگجوؤں نے اپنے لہو سے فتح کی تاریخ لکھی۔ روس جیسی سپر پاورکے مقابلے میں جو جدید فوجی قوت کی حامل تھی، افغان طالبان کے پاس ایسی فوجی قوت نہ تھی۔ نہ ٹینک، نہ توپ، نہ طیارے اور نہ ہی جدید اسلحہ اس کے باوجود اپنی ایمانی قوت سے کئی گنا بڑے دشمن کو افغان طالبان نے جس طرح شکست سے دوچار کیا وہ ناقابل فراموش اور سبق آموز تاریخی حقیقت ہے۔
روسی قیادت نے جب یہ محسوس کرلیا کہ وہ جس مقصد کے تحت افغانستان میں وارد ہوا تھا اپنی تمام صلاحیتوں، جدید اسلحے اور مستحکم معاشی و مضبوط فوجی قوت کے باوجود حاصل نہیں کرسکتا تو چار و ناچار معاہدے کی طرف گیا۔ 14 اپریل 1988 کو جنیوا میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل پیریز ڈیکویار نے امن معاہدے کی تقریب کی صدارت کی 38 صفحات پر مشتمل اس تاریخی معاہدے میں طے پایا کہ روسی فوجوں کا انخلا 15 مئی 1988 سے شروع ہو کر 15 فروری 1989 کو مکمل ہو جائے گا۔
امریکا کے سامنے ویت نام میں اپنی شکست اور افغانستان میں روس کی ناکامی کی عبرت ناک اور سبق آموز مثالیں موجود تھیں۔ اس کے باوجود 9/11 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گرد حملے کو جواز بنا کر اسامہ بن لادن کو اس میں ملوث قرار دیتے ہوئے، اس کی تلاش کے بہانے افغانستان پر 2001 میں چڑھائی کردی۔ تقریباً 20 سال تک امریکا اور اس کے اتحادی افغان جنگجوؤں سے برسر پیکار رہے۔
اس عرصے میں امریکا نے اربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کیے 3 لاکھ کے قریب افغانی فوج کی تربیت، لڑنے کی مہارت اور طالبان کو شکست دینے کی حکمت عملی بناتا رہا۔ اس دوران ایک سے زائد صدور امریکا میں برسر اقتدار رہے لیکن دو عشروں کے دوران امریکا طالبان جنگجوؤں کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ چنانچہ اندرون اور بیرون امریکا عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقے امریکا کی افغان پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے لگے اور افغان جنگ ختم کرنے اور فوجوں کو واپس بلانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا، چار و ناچار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ قطر میں طالبان قیادت سے کئی مہینوں تک ملاقاتیں اور مذاکرات کیے۔
بالآخر فروری 2020 میں دوحہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ایک امن معاہدے پر دستخط ہوگئے جس کے مطابق امریکا کو مرحلہ وار اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنا تھیں اسی طرح طالبان نے دوحہ معاہدے میں امریکا کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ امریکا افغانستان چھوڑنے سے قبل وہاں کوئی نہ کوئی سیاسی بندوبست کرکے جائے گا تاکہ افغانستان میں امن قائم رہے، ماضی کی طرح وہاں خوں ریزی نہ ہو، اور افغان عوام اور طالبان کے درمیان تصادم کا امکان نہ رہے۔ اس ضمن میں امریکا کو یہ یقین تھا کہ اس کی واپسی کے بعد افغان فوج جس کی فوجی تربیت پر ہزاروں ڈالر خرچ کیے وہ طالبان کے خلاف سخت مزاحمت کریں گی اور دارالخلافہ کابل کا کنٹرول ان کے پاس رہے گا۔
امریکی و دیگر انٹیلی جنس ادارے بھی یہ پیش گوئیاں کرتے رہے کہ طالبان کو کابل تک پہنچنے میں کئی مہینے لگیں گے۔ لیکن پھر پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا طالبان نے محض دس دن کے مختصر عرصے میں مزاحمت کے بغیر کابل سمیت تمام بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرلیا اور افغان فوج منظر سے ایسے غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور امریکا رسوائیوں کے گڑھے میں گر گیا۔ آج کا افغانستان طالبان کی امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہے۔
ماضی کے تلخ تجربات سے طالبان نے یہ سبق حاصل کیا کہ پہلے جیسا سخت ترین طرز عمل اختیار نہیں کریں گے، بالخصوص خواتین و بچوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ ہمدردانہ ہے۔ اسکول کھلے ہوئے ہیں، لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، خواتین عبایا پہن کر اپنی ذمے داریاں ادا کر رہی ہیں، طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عالمی برادری خاطر جمع رکھے وہ خواتین اور انسانی حقوق کا پورا احترام کریں گے، ماضی جیسی سخت گیر پالیسیاں نہیں اپنائیں گے۔
طالبان امیر ملا ہیبت اللہ، ملا برادر، حکمت یار اور دیگر طالبان رہنما کوشاں ہیں کہ افغانستان کے تمام متعلقہ گروپوں سے باہمی مشاورت و رضامندی اور ان سب کی شمولیت کے ساتھ ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جسے عالمی برادری تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اسی تناظر میں طالبان قیادت نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ سابق افغان صدر اشرف غنی جو ملک چھوڑ چکے ہیں انھیں بھی ''امان'' دے دی گئی ہے۔
طالبان نے تو ماضی کے تلخ و خوں ریز حوادث سے سبق حاصل کرلیا نتیجتاً آج ہم ''بدلے ہوئے طالبان'' دیکھ رہے ہیں لیکن امریکا نے اپنی پے درپے شکستوں و ناکامیوں سے سبق حاصل نہیں کیا۔ آج بھی امریکا اشاروں کنایوں میں افغانستان میں دوبارہ مداخلت کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے، جو افسوس ناک لیکن ناممکن ہے۔