سندھ فیسٹیول بلاول سے کچھ سیکھیں اور ہر صوبے میں ثقافتی تہوار منعقد کریں

کوئی بھی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ سندھ فیسٹیول کس طرح اختتام پذیر ہوگا لیکن اسے دیکھنے سے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ شاندار۔۔۔


سلمان ظفر January 28, 2014
اس تہوار کی اہمیت کی مکمل طور پر تعریف کرنے کے لئے کسی بھی شخص کو ثقافت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: سندھ فیسٹیول ویب سائٹ

قطر نظر اس کے کہ آپ بلاول بھٹو کو پسند کرتے ہیں یا ناپسند ، قطع نظر اس کے آپ کی سیاسی وابستگیاں کیا ہیں ، سندھ فیسٹیول کا آغازبغیرکسی اختلاف کے تعریف کے قابل ہے۔

سندھ فیسٹیول کی ویب سائٹ کے صفحہ اول پر لکھا ہے کہ،
"افتتاحی سندھ فیسٹیول پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے شروع کیا گیا ہے کیونکہ سندھ کا قیمتی ورثہ اور ثقافت خطرے میں ہے، موہنجو دڑو جو کہ دنیا کی قدیم ترین شہری سرزمین ہے اور ایک بوسیدہ ریاست میں واقع ہے غفلت اور بے حسی کا شکار ہے، یہ سندھ اور پاکستان میں بکھرے ان قدیم آثار میں سے ایک ہیں جنہیں اب توجہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے نہ کھو جائیں۔

یہ فیسٹیول دو ہفتے تک جاری رہے گا، فیسٹیول کا آغاز ایک فروری 2014 کو اوراختتام 15 فروری کو ہوگا۔ فیسٹیول میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں یہاں ان کی تفصیلات جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چند ماہ قبل اس کے اعلان کے بعد سے ہی پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ لوگ جو اس کے شیڈول سے ناواقف ہیں وہ مزید معلومات کے لئے اوپر دی گئی ویب سائٹ پر جاسکتے ہیں۔ یہاں اصل موضوع اس تہوار کی اہمیت ہے۔

یہ علاقہ جو کہ جدید پاکستان ہے ثقافتی طور پر دنیا کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ 3300 قبل مسیح یہ تانبے کے دور کی انڈس ویلی اور دی نیولیتھک مہرگڑھ ا جیسی تہذیبوں کا گھر تھا۔ اگر سندھ کی تاریخ کا گھوج لگایا جائے تو اس کی جڑیں قدیم قبائل سے ملتیں ہیں جو انڈس ویلی سیویلائزیشن کی زبان بولتے تھے ۔ اصل میں ان میں سے زیاد ہ تر ہندو اور بدھ مت تھے،بنیاد پرست مسلم حکمرانوں نے زبردستی لاکھوں سندھیوں کو اسلام قبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس طرح کی چیزیں اب بھی موجود ہیں، سندھ پاکستان کا سب سے زیادہ آزاد خیال صوبہ ہے جو اپنی مختلف تاریخ کا حامل ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔



پاکستان کے موجودہ سماجی اور سیاسی حالات میں اس تہوار کی اہمیت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی سے پاکستان میں خلاف معمول سماجی گھٹن دیکھی گئی ہے اوراس دور میں ثقافت نے پس پشت ڈال دیا گیا ۔

یہ صرف سندھ میں موجود ثقافت تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک میں موجود دیگر حصوں کی ثقافت تک بھی اس میں شامل ہے۔

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو ایک سے زائد اقسام اور قیمتی تاریخ کا حامل ہے لیکن یہ سب کچھ پرتشدد مذہبی انتہاپسندی کی وجہ سے پس منظر پر چلا گیا ۔



ہر گزرتا دن ہمارے ٹی وی اسکرین پر اور ہمارے اخبارات میں شائع ہونے والی خون آلود کہانیوں کا گواہ ہے۔

اگر یہ کافی نہیں ہے تو سیاسی عدم استحکام اور الجھن کا شکار سول سوسائٹی نے ہمیں مثبت سے زیادہ منفی توانائی کو فراہم کی ۔ ایسا ملک جو گذشتہ ایک دہائی سے جنگ کی حالت میں ہو وہاں لوگوں کی رگوں میں ایک نئی زندگی عطا کرنے کی بہت کم مثالیں پائی جائی ہیں اور بہت ہی کم مواقع ایسے آئے جب آپ نے اپنے اردگرد تازہ ہوا محسوس کی ہو ۔

بلاول کی جانب سے اٹھایا گیا قدم ایسی ہی ایک مثال ہے۔



اس تہوار کی اہمیت کی مکمل طور پر تعریف کرنے کے لئے کسی بھی شخص کو ثقافت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک بار اگر اسے سمجھ لیا جائے تو پاکستان کی طرح کے ایک قیمتی ثقافتی علاقے کے لئے اس تہوار کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

ثقافت وہ مضبوط ترین چیز جو لوگوں کو جوڑے رکھتی ہے ، یہ ایک ایسی چیز ہے جو سرحد پار، پس منظر اور نسلوں سے لوگوں کوآپس میں ملاتی ہے۔ ثقافت کا جشن صحتمند انہ سرگرمی ہے اور اس میں سے سب سے زیادہ اہم وجہ اپنی تاریخ کا جشن منانا اور اپنی بنیادوں کا احترام کرنا ہے، یہ وہ چیز ہے جو افسوس کے ساتھ گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں کم ہوتی جارہی ہے۔



یہ ان بہت ساری وجوہات میں سے ایک ہے کہ کیوں یہ اقدام اور اس کا وقت بلکل صحیح ہے اور کیوں یہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

ہماری دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی بلاول اور پی پی پی سے کچھ سیکھنا چاہئے اور دیگر صوبوں میں بھی ثقافت کا جشن منانا چاہئے۔ شہباز شریف نے پنجاب یوتھ فیسٹیول کا اہتمام کیا تھا لیکن اس کی بنیاد کھیلوں پر تھی۔ اسے مکمل طور پر ثقافت کے مختلف پہلوؤں میں وسعت کی ضرورت ہے جن میں آرٹ اور روز مرہ کی زندگی کے عناصر بھی شامل ہوں۔ خیبر پختونخوا میں موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور بلوچستان کی حکومت کو تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے ایونٹس اور فیسٹیول منعقد کرنے کی ضرورت ہے جو ان کی ثقافت کی عکاسی کریں۔



کوئی بھی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ سندھ فیسٹیول کس طرح اختتام پذیر ہوگا لیکن اسے دیکھنے سے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ شاندار سے کم نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر وہ اپنی تشہیر کرنے میں ناکام بھی رہا تو تب بھی پورے ملک میں اس اقدام کی تعریف کی جائے گی قطع نظر اس کے کہ آپ سندھی ہیں یا نہیں۔



بلاول بھٹو زرداری کو سلام پیش کرتا ہوں۔ امید ہے یہ آنے والی کئی عظیم چیزوں میں سے پہلا ہوگا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں