ہم دردی جوہرِ انسانیت
جو شخص دوسرے لوگوں پر شفقت و مہربانی نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ بھی اُس پر رحم اور شفقت نہیں فرماتے۔
انسانی برادری کی حیثیت سے ایک انسان پر دوسرے انسان کے کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں، جن سے عہدہ برآ ہونا ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے۔
مثال کے طور پر عدل و انصاف، صداقت و رواداری، محبّت و الفت، ہم دردی و خیر خواہی، شفقت و مہربانی اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کرنا اور ظلم و ستم، جھوٹ و فریب، قہر و جبر اور تنگی و سختی سے انسانی معاشرے کو پاک و صاف رکھنا ہمارا قومی و مذہبی فرض ہے۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''لوگوں سے تم اچھی بات کرو!'' کہ یہ انسانیت کا فرض ہے جس میں کسی دین و مذہب کی تخصیص نہیں ہے۔ تاکہ دین و مذہب اور نسل و قومیت کے اختلاف اس منصفانہ برتاؤ سے باز نہ رکھ سکے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف نہ کرو، تم عدل و انصاف کرو کہ یہ بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔'' اس لیے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے حق میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا تو پھر اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا بیج پڑ جاتا ہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چناں چہ ارشاد کا مفہوم ہے: ''آپس میں ایک دوسرے سے نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ موڑو بل کہ آپس میں اﷲ کے بندے بھائی بن کر رہو۔''
اس لیے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا شکار ہوتا ہے تو اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں ظلم و ستم اور قہر و جبر کی آگ بھڑکنے لگتی ہے جس سے وہ اُن پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے اور اُنہیں اپنے قہر و جبر سے دوچار کرتا ہے۔
اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''کوئی شخص رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔'' یعنی جو شخص دوسرے لوگوں پر شفقت و مہربانی والا سلوک نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ بھی اُس پر رحم اور شفقت نہیں فرماتے۔
اور صرف یہی نہیں بل کہ آنحضرت ﷺ نے تو جانوروں، فصلوں اور اشجار کے ساتھ بھی ہم دردی و خیر خواہی کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اس پر بھی اجر و ثواب کے فضائل بتائے ہیں۔ چناں چہ ایک حدیث میں آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جو مسلمان کوئی درخت لگائے گا اس سے جو انسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔''
اسی طرح ایک مرتبہ آپؐ نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا جس نے ایک جانور کے ساتھ نیک سلوک کیا تھا کہ اس کو اس کے کام پر ثواب ملا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! کیا جانوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں بھی ثواب ملتا ہے؟ تو آپؐ سے ارشاد فرمایا: ''ہر تر جگر کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے۔''
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے ارشاد فرمایا، مفہوم : جہاں بھی ہو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کا خیال رکھنا ، بُرائی کے بعد بھلائی کرنا بُرائی کو مٹا دیتا ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ہمیں پانچ باتیں گنوائیں، جن میں سے ایک یہ تھی، مفہوم: ''تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے پسند کرتے ہو تو تم (کامل) مسلمان بن جاؤ گے۔''
زکوٰۃ اور واجبی صدقات و خیرات کے ساتھ اسلام نے گو مسلمان فقراء و مساکین کو ہی مخصوص قرار دیا ہے تاہم نفلی و استحبابی صدقات و خیرات میں اسلام نے غیر مسلم فقراء و مساکین کی بھی رعایت رکھی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں غیر مسلم ذمّی فقراء و مساکین کے حقوق و فرائض کا خوب خیال رکھا کرتے تھے۔ چناں چہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک یہودی نابینا بوڑھے کو دیکھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑے ہوکر بھیگ مانگ رہا ہے، تو حضرت عمرؓ نے جاکر پیچھے سے اُس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا کہ تمہیں بھیگ مانگنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ اُس نے کہا: ''جزیہ ادا کرنے، اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کی وجہ سے بھیگ مانگتا ہوں۔''
حضرت عمرؓ نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے آئے اور اپنے گھر میں سے اس کو کچھ دیا اور پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس یہ کہلوا کر بھیجا کہ اس کو اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو دیکھو! اﷲ کی قسم! اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی تو کھائیں لیکن اور اس کے بوڑھا ہونے پر اس کی مدد نہ کریں تو ہم انصاف کرنے والے نہیں ہوسکتے۔''
حضورِ اقدس ﷺ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اور لوگوں کے لیے وہی چیز نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اسی طرح کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسرے آدمی سے اﷲ کے لیے محبّت نہ کرے۔ اس حدیث میں تو آنحضرت ﷺ نے انسانیت کی ہم دردی و خیر خواہی کی وسعت کو تمام انسانی برادری تک وسیع فرما دیا ہے۔
مثال کے طور پر عدل و انصاف، صداقت و رواداری، محبّت و الفت، ہم دردی و خیر خواہی، شفقت و مہربانی اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کرنا اور ظلم و ستم، جھوٹ و فریب، قہر و جبر اور تنگی و سختی سے انسانی معاشرے کو پاک و صاف رکھنا ہمارا قومی و مذہبی فرض ہے۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''لوگوں سے تم اچھی بات کرو!'' کہ یہ انسانیت کا فرض ہے جس میں کسی دین و مذہب کی تخصیص نہیں ہے۔ تاکہ دین و مذہب اور نسل و قومیت کے اختلاف اس منصفانہ برتاؤ سے باز نہ رکھ سکے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف نہ کرو، تم عدل و انصاف کرو کہ یہ بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔'' اس لیے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے حق میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا تو پھر اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا بیج پڑ جاتا ہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چناں چہ ارشاد کا مفہوم ہے: ''آپس میں ایک دوسرے سے نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ موڑو بل کہ آپس میں اﷲ کے بندے بھائی بن کر رہو۔''
اس لیے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا شکار ہوتا ہے تو اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں ظلم و ستم اور قہر و جبر کی آگ بھڑکنے لگتی ہے جس سے وہ اُن پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے اور اُنہیں اپنے قہر و جبر سے دوچار کرتا ہے۔
اس لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''کوئی شخص رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔'' یعنی جو شخص دوسرے لوگوں پر شفقت و مہربانی والا سلوک نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ بھی اُس پر رحم اور شفقت نہیں فرماتے۔
اور صرف یہی نہیں بل کہ آنحضرت ﷺ نے تو جانوروں، فصلوں اور اشجار کے ساتھ بھی ہم دردی و خیر خواہی کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اس پر بھی اجر و ثواب کے فضائل بتائے ہیں۔ چناں چہ ایک حدیث میں آپؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جو مسلمان کوئی درخت لگائے گا اس سے جو انسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔''
اسی طرح ایک مرتبہ آپؐ نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا جس نے ایک جانور کے ساتھ نیک سلوک کیا تھا کہ اس کو اس کے کام پر ثواب ملا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! کیا جانوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں بھی ثواب ملتا ہے؟ تو آپؐ سے ارشاد فرمایا: ''ہر تر جگر کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے۔''
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے ارشاد فرمایا، مفہوم : جہاں بھی ہو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کا خیال رکھنا ، بُرائی کے بعد بھلائی کرنا بُرائی کو مٹا دیتا ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ہمیں پانچ باتیں گنوائیں، جن میں سے ایک یہ تھی، مفہوم: ''تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے پسند کرتے ہو تو تم (کامل) مسلمان بن جاؤ گے۔''
زکوٰۃ اور واجبی صدقات و خیرات کے ساتھ اسلام نے گو مسلمان فقراء و مساکین کو ہی مخصوص قرار دیا ہے تاہم نفلی و استحبابی صدقات و خیرات میں اسلام نے غیر مسلم فقراء و مساکین کی بھی رعایت رکھی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں غیر مسلم ذمّی فقراء و مساکین کے حقوق و فرائض کا خوب خیال رکھا کرتے تھے۔ چناں چہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک یہودی نابینا بوڑھے کو دیکھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑے ہوکر بھیگ مانگ رہا ہے، تو حضرت عمرؓ نے جاکر پیچھے سے اُس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا کہ تمہیں بھیگ مانگنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ اُس نے کہا: ''جزیہ ادا کرنے، اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کی وجہ سے بھیگ مانگتا ہوں۔''
حضرت عمرؓ نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے آئے اور اپنے گھر میں سے اس کو کچھ دیا اور پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس یہ کہلوا کر بھیجا کہ اس کو اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو دیکھو! اﷲ کی قسم! اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی تو کھائیں لیکن اور اس کے بوڑھا ہونے پر اس کی مدد نہ کریں تو ہم انصاف کرنے والے نہیں ہوسکتے۔''
حضورِ اقدس ﷺ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اور لوگوں کے لیے وہی چیز نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اسی طرح کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسرے آدمی سے اﷲ کے لیے محبّت نہ کرے۔ اس حدیث میں تو آنحضرت ﷺ نے انسانیت کی ہم دردی و خیر خواہی کی وسعت کو تمام انسانی برادری تک وسیع فرما دیا ہے۔