ڈاکٹرز و رفاہی تنظیمیں سول ایوارڈز سے محروم کیوں
صدرپاکستان ڈاکٹرعارف علوی صاحب سے گزارش ہی کرسکتاہوں کہ ان فکری وعملی خدمات انجام دینے والوں کی ضرورحوصلہ افزائی کریں۔
سمجھ میں نہیں آتا قومی سلامتی و استحکام کے حوالے سے جگ بیتی لکھوں یا متحرک شخصیات کی آپ بیتی لکھوں، کرتا دھرتا کے ذہنوں پر ہر تحریر بے سر و ساماں مٹ جاتی ہے۔ کچھ لوگ معاشرے میں ایسے منصب پر فائز ہوتے ہیں، جو سختیاں جھیل کر بھی پر اعتماد، مضبوط اور اجلی شخصیت کے ساتھ واجب الاحترام ہوتے ہیں۔
تجربات اور صبرکی چادر ان کی پہچان ہوتی ہے،گزشتہ دنوں ایک مقامی چینل پر 14 اگست کے حوالے سے سول ایوارڈز کی ایک رپورٹ سننے کے بعد دل اور دماغ کے چراغوں میں روشنی نہ رہی کیا کمال کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں، سول ایوارڈز میں کورونا سے بے شمار شہید ہونے والے کسی ڈاکٹر کو یا جو حیات ہیں شامل نہیں کیا گیا جو شہید ڈاکٹر حضرات تھے یا تھیں۔
کیا وہ میرے پاکستان کا اثاثہ نہ تھے وہ بحرانی کیفیت کے ساتھ لڑتے ہوئے دوسرے کے گھروں کو اپنے خون کے چراغوں سے روشن کرتے رہے کتنے معصوم تھے وہ لوگ اور پھر تہذیب و شائستگی سے اپنے رب کے حضور پیش ہوکر شہادت کا درجہ پایا۔
مزے کی بات یہ دیکھیں اور جو حیات ہیں ان کے دلوں کو پستی میں دھکیل کر ان کے قدموں سے حوصلہ افزائی کی سیڑھی کو کھینچ لیا گیا اور انھیں اکتاہٹ کا سفر جاری رکھنے کا سبق دیا گیا اس بے لگام نظام نے کمال کر دکھایا پڑھنے والے قارئین یہ نہ سوچ رہے ہوں کہ کسی ڈاکٹر نے سول ایوارڈز کے بارے میں راقم سے کوئی احتجاج کیا ہوگا کہ آپ اس پر کچھ لکھیں میں اپنے رب کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ یہ اضطرابی کیفیت میرے دل کی ہے یہ عقل و شعور علم و ہنر عروج کمال سے وابستہ لوگ جو دماغی صلاحیتوں کے شہوار ہیں اور آبرو مندانہ شخصیت کے مالک ہیں۔
ہمارے پاکستان میں ایسے بھی ڈاکٹرز ہیں جن کے پاس چاروں صوبوں سے لوگ بیماری کی وجہ سے نہ جانے کتنا سفر طے کرکے آتے ہیں، یہ بات دوسری ہے کہ سول ایوارڈز کی جیوری انھیںنہیں جانتی۔ NIBD خون کے کینسر کا اسپتال جس کے روح رواں ڈاکٹر طاہر شمسی ہیں کیا بون میرو کے قابل ڈاکٹر طاہر شمسی کی صلاحیت سے انکار کیا جاسکتا ہے جی قارئین! گرامی یہ وہی ڈاکٹر ہیں۔
جنھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بون میرو کیا تھا وہ خون کے حوالے سے مستند ڈاکٹر ہیں نہ جانے کتنے خون کے کینسر کے مریض ان کے پاس لڑکھڑاتے ہوئے آتے ہیں اور ہمت و استقلال کے ساتھ خوف کی سولی سے اتر کر خوشی خوشی اپنے گھروں کو صحت یاب ہونے کے بعد جاتے ہیں، خون کا کینسر وہ بیماری ہے جو مریض اور اس کے گھرانے کو عزم و حوصلے کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
اب تو رب معاف کرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں وہ جس خندہ پیشانی سے اپنے مریضوں کو دیکھتے ہیں تو طاہر شمسی فرشتے کی طرح نظر آتے ہیں، کینسر کوئی بھی ہو کینسر کا نام ہی کافی ہے۔
ڈاکٹر سید علی ارسلان لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ہیں پاکستان میں ٹی بی، دمہ اور پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں، کورونا میں تو سارا کھیل ہی (Lungs) پھیپھڑوں کا ہوتا ہے جب کہ کورونا ان کے سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے وہ پاکستان کے واحد ڈاکٹر ہیں، جو ٹی وی ڈرامہ کے مصنف بھی ہیں، اور ان کی سپرہٹ سیریل ''راستہ دے زندگی'' نے بے شمار ایوارڈ لیے، یہ ہے ان کی کاوشوں کا صلہ۔ لیاقت نیشنل سے وابستہ ڈاکٹر ندیم خورشیدی جو سرجن ہیں ان کی خدمات کو نظرانداز کیا جاسکتا ڈاکٹر عرفان بھی لیاقت نیشنل وابستہ ہیں ان کی خدمات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔
OMI ایک جدید طرز کا اسپتال ہے اور اپنی مثال آپ ہے اس میں جگر کے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر سعاد خالد نیاز ہیں، یہ وہ ڈاکٹر ہیں جو دیانت کے شہ سوار ہیں ان کے بصیرت افروز خیالات کو تو آنکھوں سے چوما جائے یہ ستارہ امتیاز وصول کردہ ڈاکٹر ہیں انھوں نے کہا کہ یہ ڈاکٹر ہی ہیں جو سختیاں جھیل کر نرم دل کے ساتھ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے نجی چینل کے مطابق کہ ڈاکٹروں کو سول ایوارڈ نہ دیا گیا تو وہ پاکستانی اعزاز ستارہ امتیاز واپس کردیں گے۔
آفرین ہے ڈاکٹر سعد خالد نیاز آپ کی خوبصورت سوچ پر کہ آپ نے میڈیکل کے تاریخی جھنڈے کو بلند رکھا۔ OMI اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر عرفان احمد لطفی یہ وہ شخصیت ہیں جو ریڈیولاجسٹ ہیں، ان کو قومی ادارہ قلب نے جدید علاج برائے فالج کے لیے ان کی خدمات کو حاصل کیا ہے۔
شوکت خانم اسپتال سے وابستہ جنرل کیسز کے ماہر ڈاکٹر نجیب اللہ کی خدمات کو فراموش کرسکتے ہیں، ان قابل احترام ڈاکٹروں میں ہڈی جوڑ کے مایہ ناز ڈاکٹر مدثر جو غریبوں کے علاج کے لیے فاروق اعظم (ٹرسٹ اسپتال) سے وابستہ ہیں انھیں بھولا جاسکتا ہے، ڈاکٹر سمیرا علی ڈاؤ یونیورسٹی سے وابستہ تھیں، کورونا کے باعث اپنے رب کی طرف لوٹ گئیں، سول ایوارڈز کے موقع پر اگر ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم ہوتی تو یہ مخلص اور نیک سیرت ڈاکٹر کبھی اس تعریف و توصیف سے محروم نہ ہوتے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب تو خود ڈاکٹر ہیں اور وہ ان ڈاکٹروں کی انسائیکلوپیڈیا کو بھی سمجھتے ہیں تو ان کی نگاہ سے یہ ماہر ڈاکٹر کیسے اوجھل ہوگئے؟ آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان فکری و عملی خدمات کرنے والوں کی ضرور حوصلہ افزائی کریں، اب سیرت و کردار کے حوالے سے سماجی تنظیموں پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں، جن کی خدمات کا پڑھالکھا طبقہ بھی اعتراف کرتا ہے۔
خواجہ غریب نواز جو اپنی مثال آپ ایک رفاہی ادارہ ہے جو سالوں سے مفلس اور نادار لوگوں میں مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں سالانہ راشن غریبوں کو مفت دیا جاتا ہے، جس کے روح رواں حاجی عبدالرؤف اور حاجی جان محمد ہیں کیونکہ جو کام خواجہ غریب نواز عوام کے لیے کر رہی ہے یہ تو حکومت وقت کا کام ہے۔
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بشیر فاروقی غریب مریضوں کو گھر پر بیڈ (بستر) تک فراہم کرتی ہے مریضوں کے علاج میں کینسر کے مریضوں کی مدد بھی کرتے ہیں، جو کام سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کے لیے نہیں ہوتا وہ بشیر فاروقی کا سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کرتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات اور یہ ویلفیئر ادارے چلانے والوں کو کیوں سول ایوارڈز سے محروم رکھا گیا ان کی خدمات کو کیوں چکنا چور کیاگیا۔
عدل و انصاف کے تقاضوں پر کیوں دھول اور راکھ ڈالی گئی جو قابل ستائش تھے انھیں ان کی خدمات کے حوالے سے نگاہ انتخاب سے کیوں محروم رکھا گیا اچھا معاشرہ جب تلک تخلیق نہیں ہوگا قوم کے لیے راحت اطمینان بننے والے لوگ اس قسم کے اعزازات سے کب تک محروم رہیں گے۔ میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب سے گزارش ہی کرسکتا ہوں کہ ان فکری و عملی خدمات انجام دینے والوں کی ضرور حوصلہ افزائی کریں۔ ڈاکٹروں اور ان فلاہی تنظیموں کو معتبر جمہوری نظام کے تحت سول ایوارڈز سے نوازا جائے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
تجربات اور صبرکی چادر ان کی پہچان ہوتی ہے،گزشتہ دنوں ایک مقامی چینل پر 14 اگست کے حوالے سے سول ایوارڈز کی ایک رپورٹ سننے کے بعد دل اور دماغ کے چراغوں میں روشنی نہ رہی کیا کمال کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں، سول ایوارڈز میں کورونا سے بے شمار شہید ہونے والے کسی ڈاکٹر کو یا جو حیات ہیں شامل نہیں کیا گیا جو شہید ڈاکٹر حضرات تھے یا تھیں۔
کیا وہ میرے پاکستان کا اثاثہ نہ تھے وہ بحرانی کیفیت کے ساتھ لڑتے ہوئے دوسرے کے گھروں کو اپنے خون کے چراغوں سے روشن کرتے رہے کتنے معصوم تھے وہ لوگ اور پھر تہذیب و شائستگی سے اپنے رب کے حضور پیش ہوکر شہادت کا درجہ پایا۔
مزے کی بات یہ دیکھیں اور جو حیات ہیں ان کے دلوں کو پستی میں دھکیل کر ان کے قدموں سے حوصلہ افزائی کی سیڑھی کو کھینچ لیا گیا اور انھیں اکتاہٹ کا سفر جاری رکھنے کا سبق دیا گیا اس بے لگام نظام نے کمال کر دکھایا پڑھنے والے قارئین یہ نہ سوچ رہے ہوں کہ کسی ڈاکٹر نے سول ایوارڈز کے بارے میں راقم سے کوئی احتجاج کیا ہوگا کہ آپ اس پر کچھ لکھیں میں اپنے رب کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ یہ اضطرابی کیفیت میرے دل کی ہے یہ عقل و شعور علم و ہنر عروج کمال سے وابستہ لوگ جو دماغی صلاحیتوں کے شہوار ہیں اور آبرو مندانہ شخصیت کے مالک ہیں۔
ہمارے پاکستان میں ایسے بھی ڈاکٹرز ہیں جن کے پاس چاروں صوبوں سے لوگ بیماری کی وجہ سے نہ جانے کتنا سفر طے کرکے آتے ہیں، یہ بات دوسری ہے کہ سول ایوارڈز کی جیوری انھیںنہیں جانتی۔ NIBD خون کے کینسر کا اسپتال جس کے روح رواں ڈاکٹر طاہر شمسی ہیں کیا بون میرو کے قابل ڈاکٹر طاہر شمسی کی صلاحیت سے انکار کیا جاسکتا ہے جی قارئین! گرامی یہ وہی ڈاکٹر ہیں۔
جنھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بون میرو کیا تھا وہ خون کے حوالے سے مستند ڈاکٹر ہیں نہ جانے کتنے خون کے کینسر کے مریض ان کے پاس لڑکھڑاتے ہوئے آتے ہیں اور ہمت و استقلال کے ساتھ خوف کی سولی سے اتر کر خوشی خوشی اپنے گھروں کو صحت یاب ہونے کے بعد جاتے ہیں، خون کا کینسر وہ بیماری ہے جو مریض اور اس کے گھرانے کو عزم و حوصلے کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
اب تو رب معاف کرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں وہ جس خندہ پیشانی سے اپنے مریضوں کو دیکھتے ہیں تو طاہر شمسی فرشتے کی طرح نظر آتے ہیں، کینسر کوئی بھی ہو کینسر کا نام ہی کافی ہے۔
ڈاکٹر سید علی ارسلان لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ہیں پاکستان میں ٹی بی، دمہ اور پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں، کورونا میں تو سارا کھیل ہی (Lungs) پھیپھڑوں کا ہوتا ہے جب کہ کورونا ان کے سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے وہ پاکستان کے واحد ڈاکٹر ہیں، جو ٹی وی ڈرامہ کے مصنف بھی ہیں، اور ان کی سپرہٹ سیریل ''راستہ دے زندگی'' نے بے شمار ایوارڈ لیے، یہ ہے ان کی کاوشوں کا صلہ۔ لیاقت نیشنل سے وابستہ ڈاکٹر ندیم خورشیدی جو سرجن ہیں ان کی خدمات کو نظرانداز کیا جاسکتا ڈاکٹر عرفان بھی لیاقت نیشنل وابستہ ہیں ان کی خدمات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔
OMI ایک جدید طرز کا اسپتال ہے اور اپنی مثال آپ ہے اس میں جگر کے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر سعاد خالد نیاز ہیں، یہ وہ ڈاکٹر ہیں جو دیانت کے شہ سوار ہیں ان کے بصیرت افروز خیالات کو تو آنکھوں سے چوما جائے یہ ستارہ امتیاز وصول کردہ ڈاکٹر ہیں انھوں نے کہا کہ یہ ڈاکٹر ہی ہیں جو سختیاں جھیل کر نرم دل کے ساتھ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے نجی چینل کے مطابق کہ ڈاکٹروں کو سول ایوارڈ نہ دیا گیا تو وہ پاکستانی اعزاز ستارہ امتیاز واپس کردیں گے۔
آفرین ہے ڈاکٹر سعد خالد نیاز آپ کی خوبصورت سوچ پر کہ آپ نے میڈیکل کے تاریخی جھنڈے کو بلند رکھا۔ OMI اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر عرفان احمد لطفی یہ وہ شخصیت ہیں جو ریڈیولاجسٹ ہیں، ان کو قومی ادارہ قلب نے جدید علاج برائے فالج کے لیے ان کی خدمات کو حاصل کیا ہے۔
شوکت خانم اسپتال سے وابستہ جنرل کیسز کے ماہر ڈاکٹر نجیب اللہ کی خدمات کو فراموش کرسکتے ہیں، ان قابل احترام ڈاکٹروں میں ہڈی جوڑ کے مایہ ناز ڈاکٹر مدثر جو غریبوں کے علاج کے لیے فاروق اعظم (ٹرسٹ اسپتال) سے وابستہ ہیں انھیں بھولا جاسکتا ہے، ڈاکٹر سمیرا علی ڈاؤ یونیورسٹی سے وابستہ تھیں، کورونا کے باعث اپنے رب کی طرف لوٹ گئیں، سول ایوارڈز کے موقع پر اگر ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم ہوتی تو یہ مخلص اور نیک سیرت ڈاکٹر کبھی اس تعریف و توصیف سے محروم نہ ہوتے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب تو خود ڈاکٹر ہیں اور وہ ان ڈاکٹروں کی انسائیکلوپیڈیا کو بھی سمجھتے ہیں تو ان کی نگاہ سے یہ ماہر ڈاکٹر کیسے اوجھل ہوگئے؟ آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان فکری و عملی خدمات کرنے والوں کی ضرور حوصلہ افزائی کریں، اب سیرت و کردار کے حوالے سے سماجی تنظیموں پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں، جن کی خدمات کا پڑھالکھا طبقہ بھی اعتراف کرتا ہے۔
خواجہ غریب نواز جو اپنی مثال آپ ایک رفاہی ادارہ ہے جو سالوں سے مفلس اور نادار لوگوں میں مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں سالانہ راشن غریبوں کو مفت دیا جاتا ہے، جس کے روح رواں حاجی عبدالرؤف اور حاجی جان محمد ہیں کیونکہ جو کام خواجہ غریب نواز عوام کے لیے کر رہی ہے یہ تو حکومت وقت کا کام ہے۔
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بشیر فاروقی غریب مریضوں کو گھر پر بیڈ (بستر) تک فراہم کرتی ہے مریضوں کے علاج میں کینسر کے مریضوں کی مدد بھی کرتے ہیں، جو کام سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کے لیے نہیں ہوتا وہ بشیر فاروقی کا سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کرتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات اور یہ ویلفیئر ادارے چلانے والوں کو کیوں سول ایوارڈز سے محروم رکھا گیا ان کی خدمات کو کیوں چکنا چور کیاگیا۔
عدل و انصاف کے تقاضوں پر کیوں دھول اور راکھ ڈالی گئی جو قابل ستائش تھے انھیں ان کی خدمات کے حوالے سے نگاہ انتخاب سے کیوں محروم رکھا گیا اچھا معاشرہ جب تلک تخلیق نہیں ہوگا قوم کے لیے راحت اطمینان بننے والے لوگ اس قسم کے اعزازات سے کب تک محروم رہیں گے۔ میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب سے گزارش ہی کرسکتا ہوں کہ ان فکری و عملی خدمات انجام دینے والوں کی ضرور حوصلہ افزائی کریں۔ ڈاکٹروں اور ان فلاہی تنظیموں کو معتبر جمہوری نظام کے تحت سول ایوارڈز سے نوازا جائے۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک