کل اور آج

اگر مماثل کم تھی تو مہنگائی نہیں ہر شخص تھوڑی رقم میں آرام سے زندگی بسر کرسکتا تھا۔


ایم قادر خان August 27, 2021

ہم دیسی مرغی کا انڈہ دو آنے کا ، دیسی مرغی ڈھائی روپے سے لے کر ساڑھے تین روپے کی ایمپریس مارکیٹ صدر کراچی سے خریدتے اور راشن کارڈ سے مہینے میں دو مرتبہ شکر اور آٹا ملتا تھا۔

پندرہ یوم کے لیے شکر فی کس نصف سیر آٹھ آنے سیر اور آٹا چھ آنے سیر راشن شاپ سے ملتا تھا۔ بقیہ اشیا پرچون کی دکانوں پر باآسانی ملتیں جیسے چنے کی دال چار آنے سیر، بقیہ دالیں چھ آنے سیر شاید یقین نہ آئے یہ زیادہ پرانی بات نہیں 1956 کی باتیں ہیں۔ بزرگ کہا کرتے تھے میاں ہم نے ایک روپے کا چار سیر گھی کھایا ہے۔

ایک روپے کا آٹھ سیر آٹا ان سے پوچھتے یہ کب کی باتیں ہیں، بولے میاں 1930 میں بلکہ اس سے پہلے تو پائی، پیسے، آنے میں خریداری ہوتی تھی۔ میاں، ہمارے والد کی تنخواہ دو روپے ماہوار تھی۔ اب تو تصور بھی نہیں کرسکتے بلکہ عجب سا لگتا ہے لیکن جو کچھ ہم لوگوں کے ماضی میں اشیا کے نرخ تھے وہ عجیب نہیں حقیقت ہیں۔

میرے دوست کہنے لگے مجھے یاد ہے آٹھ سال عمر تھی اپنے والد کے ساتھ عیدالاضحی قربانی کے لیے دنبہ خریدا ، مبلغ 26 روپے صرف رائج الوقت۔ اگلے برس 23 روپے کا صرف ہاں پہلے والا دنبہ بھاری تھا جس میں گوشت 17 سیر نکلا، دوسرا دنبہ ہلکا تھا جس میں 15 سیر گوشت نکلا یہ فرق تھا۔

پہلے اشیا کئی سالوں میں مہنگی ہوتی تھیں۔ اشیا خوردنی پیسوں اور آنوں میں اور ضرورت کی بڑی چیز چار آٹھ آنے یا روپے میں۔ میں بول پڑا اچھا اب کب مہنگی ہوئی ہیں دنوں اور ہفتوں میں ایک سال میں تو آٹھ بار تک مہنگی ہو جاتی ہیں۔ دو آنے کا انڈہ، آٹھ آنے سیر شکر، چھ آنے سیر گندم کا آٹا، ایک روپے سیر گھی، دس آنے سیر بھینس کا گوشت، 12 آنے سیر گائے کا گوشت، پوچھنے لگا بکرے کا وہ سوا روپے سیر یعنی ایک روپے چار آنے مرغی تو بتا دی ڈھائی سے ساڑھے تین روپے دیسی۔ اس وقت فارم کا وجود ہی نہیں تھا نہ سنا کہ کبھی فارم کی بھی مرغی انڈے ہوں گے ، اب یہ باتیں خود الگ سی لگتی ہیں۔

اگر مماثل کم تھی تو مہنگائی نہیں ہر شخص تھوڑی رقم میں آرام سے زندگی بسر کرسکتا تھا۔ مکان بنانے والے راج چار روپے یومیہ بعد میں پانچ روپے ہوگئے اور مزدور کو ڈھائی روپے یومیہ محاصل ملتا تھا۔ بس کا کرایہ ایک آنے، پانچ سے چھ پیسے یعنی ڈیڑھ آنے، دو آنے، ڈھائی آنے۔ لیاقت آباد سے لی مارکیٹ بس کا کرایہ ڈھائی آنے تھا۔ صدر کا کرایہ صرف ڈیڑھ آنے اور اگر سیون ڈے اسپتال پر اتر جائیں تو ایک آنے لیاقت آباد سے پاکستان کوارٹر جانے کا کرایہ پانچ پیسے 33نمبر بس لیتی تھی۔

39 نمبر بس ڈیڑھ آنے لیا کرتی تھی۔ 78 نمبر بس فیڈرل کیپٹل ایریا سے ویسٹ ہارف جاتی بہت لمبا روٹ تھا، آخر تک کا کرایہ چار آنے۔ لیاقت آباد سے ڈینسو ہال، میری ویدر ٹاور جانے کا کرایہ چار آنے ، منی بسیں نہیں تھیں، سب لوگ بسوں میں جایا کرتے کیونکہ ٹیکسی کا کرایہ چار آنے میل ہوتا، بعد میں آٹو رکشہ آئے ان کا کرایہ دو آنے پھر تین آنے ہو گیا، ٹیکسی چھ آنے فی میل تک پہنچ گئی۔ سائیکل رکشہ بھی تھے جو بعد میں بند ہوگئے ان کی جگہ آٹو رکشہ نے لے لی اور ہاں موٹرسائیکل ہوتی تھیں آدھے ہارس پاور 3731 واٹ) سے لے کر دو ہارس پاور یعنی 1492 واٹ کی ہوتی تھیں۔

بولٹ ٹرامیں تھیں جو برطانیہ کی تھیں بعد میں امریکن ٹرامیں آئیں۔ ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل ایسی تھی کہ اس سے ریس بھی لگائی جاسکتی تھی، ہلکی موٹرسائیکل کے بارے میں کہا جاتا تھا یہ خطرناک ہے تیز ہوا میں گرا سکتی ہے، جو لوگ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں کام کرتے تھے ان کو ہدایات تھیں۔ 100 سی سی سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس سے زیادہ ہو، وہ بہتر ہے۔ اس پر الاؤنس اور پٹرول ادارے کی طرف سے مل جاتا تھا۔

میرے دوست کی عمر ساری لالو کھیت میں گزری وہ آج بھی لیاقت آباد کے اصل پرانے نام لالو کھیت کہتے ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں ''میرا پیارا لالو کھیت'' اس کے بارے میں بتایا، ہجرت کرکے ہندوستان سے جو لوگ پاکستان آئے یوپی، سی پی، دہلی، آگرہ کے زیادہ لوگ کراچی آئے۔ مشرقی پنجاب سے وہ مغربی پنجاب گئے لاہور، فیصل آباد، لائل پور، ملتان، وغیرہ۔ کراچی میں جو افراد آئے وہ رتن تالاب، قائد اعظم کے مزار کے قریب، قائد آباد اور دیگر پرانی آبادی جیکب لائن، جٹ لائن، ٹیونیشا لائن، اے بی سینیا لائن وغیرہ کھلی جگہ پرکیمپوں اور جھگیوں میں آباد ہوئے۔ 10 جنوری 1951 میں لالو کھیت کا بڑا علاقہ جس میں نواب زادہ لیاقت علی خان نے کوارٹر بنوائے جو 80 اور 90 گز کے کوارٹر تھے۔ یہاں ان مہاجرین کو آباد کیا گیا۔

بتایا جاتا ہے یہ آبادی 10 جنوری 1951 میں ہوئی۔ لیاقت آباد کے ایک سے دس بلاک ہیں علاوہ ازیں تین ہٹی پل سے آتے ہوئے سیدھے ہاتھ پر ندی کے کنارے پرانہ انگارہ گوٹھ اس کے ساتھ بی ایریا، بی ون ایریا، اے ایریا، اے ون ایریا، سامنے قاسم آباد، سندھی ہوٹل تھا جو اب نہیں لیکن بس اسٹاپ سندھی ہوٹل کے نام سے موسوم ہے۔ کونے پر لیاقت آباد تھانہ اس کے عقب میں بلاک پانچ، چھ،سات اور آٹھ نمبر بلاک ہیں۔ مین روڈ کے ساتھ سیدھے ہاتھ پر بلاک نمبر 10 اس کے پیچھے سکندر آباد وہاں لالوکھیت زمانے کی پہلی کوٹھی ہے جو آج یادگار ہے وہ اب سرکار کی ملکیت ہے۔

الٹے ہاتھ سے آتے ہوئے ندی کنارے عثمان گوٹھ پرانا ہے اس کے ساتھ سی ون ایریا، سی ایریا، چونا ڈپو، بلاک نمبر 1،2،3،4 اور ایف سی ایریا ہیں۔ ہندوستان کے مختلف شہروں سے لوگ آئے بلاک نمبر 4 میں شاہ جہاں پور کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ یہ لوگ بہترین صوفہ، ڈریسنگ ٹیبل، ڈائننگ ٹیبل اور کرسیاں بنانے کے ماہر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں