بجٹ خسارے میں کمی کے اشارے

ملکی معیشت کو ہمہ جہتی نشیب و فراز کا سامنا ہے اور صورتحال ارباب اختیار سے خود کفالت اور خود انحصاری کا تقاضہ کرتی ہے


Editorial January 28, 2014
ملکی معیشت کو ہمہ جہتی نشیب و فراز کا سامنا ہے اور صورتحال ارباب اختیار سے خود کفالت اور خود انحصاری کا تقاضہ کرتی ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت نے 45 دنوں میں گردشی قرضہ ختم کیا، بجٹ خسارہ کم ہوکر 8.2 فی صد رہ گیا ہے، توانائی بحران کے خاتمے کے لیے تمام وسائل کاو بروئے کار لا رہے ہیں۔ جی ایس پی پلس سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ وزیر خزانہ نے یہ انکشافات وزیر اعظم کی زیر صدارت مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کیے۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت کو ہمہ جہتی نشیب و فراز کا سامنا ہے اور صورتحال ارباب اختیار سے خود کفالت اور خود انحصاری کا تقاضہ کرتی ہے، چنانچہ اس حوالے سے وزیر خزانہ کی جانب سے بجٹ میں 8.2 فیصد کمی، صوابدیدی فنڈز کے خاتمے سے 40 ارب روپے کی بچت نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ معاشی سطح پر قوم کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ اقتصادی استحکام کے عمل سے حکومت غافل نہیں جب کہ میکرو اور مائیکرو اکنامک فرنٹ پر اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سادگی، کفایت شعاری اور کم خرچ بالا نشین کی پالیسی اختیار کر کے وسائل سے عوام کو فائدہ پہنچایا جائے۔ اگر فضول خرچی کو کنٹرول کیا گیا تو یقینی طور پر قومی منصوبوں کی وقت مقررہ میں عدم تکمیل کے باعث لاگت میں بے محابا اضافے کو روکا جا سکتا ہے۔ معیشت اس وقت تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ٹھوس معاشی اقدامات کو یقینی نہیں بنا لیتیں۔ اس مقصد کے لیے وزراء کے اللوں تللوں پر بھی قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ بیوروکریسی میں بھی شاہ خرچیوں اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کے اقدامات کو نتیجہ خیز بنایا جانا چاہیے۔

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وہ سرمایہ کاری متاثر ہونے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر مالی سال کے اختتام تک 16 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ خدا کرے ان کے بیانات میں صد فی صد حقیقت کا رنگ بھر جائے اگر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے ملک کی معیشت اور کاروباری زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں سرمایہ کاروں کو بھی متاثر کرتی ہیں اور وہ کاروبار میں اپنا سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں ڈالر کی قیمتوں میں غیر متوقع طور پر اضافہ ہوا جس سے کاروباری سرگرمیاں خاصی متاثر ہوئیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اس کے بہتر نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ اس وقت ڈالر 109سے کم ہو کر 106کے قریب ہے لیکن ابھی اس میں مزید کمی کی ضرورت ہے۔ ڈالر کی قیمت 100روپے سے نیچے رہنی چاہیے' اس سے ملکی معیشت میں استحکام آئے گا اور کاروباری سرگرمیاں بھی تیز ہوں گی۔ ملک کا توازن ادائیگی بھی بہتر ہو گا اور غیر ملکی قرضوں کی قدر میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت نے اپنی بساط کے مطابق کوششیں کی ہیں اور اس کے قدر بہتر نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔

وزیراعظم کی یوتھ لون اسکیم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس اسکیم کے بھی مثبت نتائج نکلیں گے۔ موجودہ حکومت کے دور میں اسٹاک مارکیٹ میں بھی خاصی بہتری نظر آئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ ضرور آتا رہا ہے لیکن اس کا سفر بلندی کی جانب ہی رہا ہے اور یہ اپنی ریکارڈ بلندی پر ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد خاصی حد تک موجود ہے۔ معیشت کے دوسرے شعبے بھی ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے لاہور سے کراچی تک موٹروے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ اسی طرح نئے ریلوے ٹریک بنانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ابھی حکومت کو برسراقتدار آئے ایک سال بھی نہیں ہوا 'حکومت کی مالی اور معاشی پالیسی کے نتائج اگلے مالی سال کے بجٹ کے بعد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس وقت ملک کو گونامساعد حالات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کو معاشی میدان میں کارکردگی بہتر رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو توانائی کا بحران ورثے میں ملا ہے۔ اس وقت بھی ملک میں لوڈشیڈنگ جاری ہے لیکن یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے جو کوششیں کر رہی ہیں وہ نظر بھی آ رہی ہیں۔ وفاقی کابینہ بھارت سے بجلی کی خریداری کی منظوری دے چکی ہے۔ اس کے علاوہ گیس کے لیے بھی کئی ملکوں سے بات چیت چل رہی ہے۔

بہر حال یہ ماننا پڑے گا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تو ہو رہی ہے لیکن یہ ماضی کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت نے اس مسئلے پر بڑی سنجیدگی سے توجہ دی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن وسائل لا رہی ہے، سسٹم میں1700میگاواٹ بجلی لائی گئی جو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ اس ضمن میں بجلی کی ہمہ اقسام پیداواری صلاحیتوں سے مزید استفادہ کیا جائے، غیر ملکی امداد و تعاون سے بھی زیر تکمیل منصوبوں کو جلد مکمل کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے ملکی معیشت کو سخت نقصانات ہوئے ہیں۔ اس کے ازالے کی کوششیں تیز کی جائیں تا کہ ملک توانائی کے بحران سے ہمیشہ کے لیے نجات پاسکے۔ امید کی جانی چاہیے کہ شمسی توانائی سمیت تھر، لاکھڑا پراجیکٹ کے کوئلے سے بجلی پلانٹوں کی تنصیب کا کم مدتی کام بلا تاخیر شروع کیا جائے گا اور طویل المیعاد منصوبوں کے تحت سستی بجلی کی فراہمی کے جو وعدے حکومت نے کیے ہیں ان کو ایفا کرنے میں کسی قسم کی دیر نہیں لگنی چاہیے۔اگر حکومت ملک میں توانائی کا بحران ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار حیران کن حد تک جا سکتی ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے تو اگلے روز واشنگٹن میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے مذاکرات کے دوران کہا کہ پاکستان کی قیادت موثر اقتصادی پالیسیوں کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور امریکا اس سلسلے میں مکمل تعاون کرے گا۔

ان کا ملک سلامتی 'توانائی 'بنیادی ڈھانچے اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا' امریکا پاکستان کے ایشیئن ٹائیگر بننے میں بھرپور تعاون کرے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا بھی موجودہ حکومت کے معاشی پروگرام پر مکمل اعتماد کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امریکا توانائی اور دیگر شعبوں میں پاکستان کی مدد کرے تو پاکستان واقعی ایشیا کا ٹائیگر بن سکتا ہے۔ اگر ملائیشیا'سنگا پور اور جنوبی کوریا ترقی کر سکتے ہیں تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ موجودہ حکومت کا معاشی ایجنڈا واضح ہے اور وہ پوری توجہ سے اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے کوششیں بھی کر رہی ہے۔ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی اسے حاصل ہے۔ ایسی صورت میں اگر موجودہ حکومت اپنے منصوبے برقرار مکمل کرنے کی کوشش کرے تو آنے والے ایک دو برسوں میں توانائی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اور ملک سے بے روز گاری میں غیر معمولی کمی بھی کی جا سکتی ہے۔ کسی زمانے میں جنوبی کوریا اور ملائیشیا اور سنگا پور پاکستان سے پسماندہ تھے ۔

ان ممالک کی حکومتوں نے اپنے ایجنڈے میں سب سے اول پوزیشن پر معاشی ترجیحات کو رکھا۔یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک مسلسل ترقی کرتے رہے جب کہ پاکستان میں معاشی ترقی کا عمل رکتا رہا۔ ماضی میں یہاں پانچ سالہ منصوبہ بنایا جاتا تھا 'پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ منصوبے بھی ختم ہو گئے۔ اگر منصوبہ بندی سے کام کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت آج سنگا پور اور ملائیشیا کے برابر ہوتی۔ اب بھی وقت موجود ہے 'ضرورت صرف ترجیحات کی ہے 'یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی ترجیحات بالکل واضح ہیں۔ اگر ان ترجیحات پر پوری توجہ اور صدق دل سے کام کیا جائے'سرکاری شعبے سے کرپشن اور نا اہلی کا خاتمہ کیا جائے تو ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کو اتنا بڑھایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دس پندرہ برسوں میں پاکستان ایشیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں