مانی صاحب من مانی ہی کرتے رہے
مانی صاحب بھی غیرملکی صحافیوں کے زیادہ قریب رہے، پی سی بی میں ہر لحاظ سے ان کی اننگز ناکام رہی۔
مانی کیچ رمیزبولڈ عمران خان، ریویو پر فیصلہ تبدیل؟
یہ سرخی تو بہت اچھی دی مگر ساتھ سوالیہ نشان کیوں، لگتا ہے تم کو خود بھی یقین نہیں کہ پی سی بی کے سربراہ کو تبدیل کیا جائے گا۔
کرکٹ کی ایک بااثر شخصیت نے جب مجھ سے یہ بات کہی تو میں نے انھیں جواب دیا کہ ہم میڈیا والوں کو یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ کبھی کسی بات کو حتمی نہ سمجھو، فیصلے تبدیل بھی ہو جاتے ہیں لہذا خبر میں گنجائش رکھنی چاہیے، ویسے بھی پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے لہذا انتظار ہی کرنا مناسب ہوگا، واقعی ایسا ہی ہوا پانسہ پھر پلٹ گیا اور ریویو پر بھی مانی کی وکٹ بچ نہ سکی۔ گذشتہ چند روز میں آپ نے یہ خبریں ضرور پڑھی اور ٹی وی پر دیکھی ہوں گی کہ
احسان مانی کو توسیع مل گئی
احسان مانی کو توسیع نہیں ملی
رمیز راجہ پی سی بی کے چیئرمین بنیں گے
رمیز راجہ پی سی بی کے چیئرمین نہیں بنیں گے
ہم میڈیا والے بھی سارے آپشنز دے کر پھر بعد میں اکٹر کر کہتے ہیں کہ ''دیکھا میں نے سب سے پہلے یہ خبر دی تھی'' اس بار بھی ایسا ہی ہوا کئی ''دوست'' کریڈٹ لینے آ گئے، درحقیقت یہ سب کچھ ایک سسپنس فل فلم کی طرح تھا جس میں کئی ٹوئسٹ سامنے آتے رہے، آخر کار چیئرمین کو گھر جانا ہی پڑا،احسان مانی عمر کی76بہاریں دیکھ چکے ہیں، کسی بیٹسمین کیلیے یہ اسکور متاثر کن ہوگا لیکن منتظم کیلیے اتنی بڑی عمر میں فرائض کے ساتھ انصاف کرناآسان نہیں تھا، آئی سی سی کے صدر کی حیثیت سے انھوں نے بہتر کام کیامگر افسوس بطور پی سی بی چیف ناکام رہے۔
عہدہ پانے کے بعد انھوں نے اپنے پرانے ساتھیوں سے بھی ناطہ توڑ لیا، سبحان احمد جیسے شخص جس کی تعریفیں کرتے زبان نہیں تھکتی تھی اسے ملازمت سے فارغ کردیا، ہر بڑی پوسٹ پر اپنے لوگ لائے، دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا میں کئی کے نام اشتہار دینے سے قبل ہی آ جاتے تھے، بغیر مناسب پلاننگ کے ڈومیسٹک سسٹم تبدیل کر دیا گیا جس سے ہزاروں کرکٹرز بے روزگار ہوگئے، پی ایس ایل کی فرنچائزز سمیت میڈیا رائٹس ہولڈر کے ساتھ کورٹ کیس ہوا،مسلسل2 بار لیگ درمیان میں روکنا پڑی، کلب کرکٹ تقریباً ختم ہو گئی۔
اب تک شہروں یا صوبوں کی باقاعدہ ایسوسی ایشنز کی تکمیل کا کام بھی مکمل نہیں ہو سکا، قومی ٹیم کی کارکردگی بھی زوال کا شکار ہوئی، بورڈ انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا کریڈٹ لیتا ہے حالانکہ یہ سلسلہ سابقہ انتظامیہ کے دور میں ہی شروع ہو چکا تھا جسے انھوں نے آگے بڑھایا، دیگر بورڈز کے ساتھ بھی پی سی بی کے تعلقات اتنے مثالی نہ رہے، انھوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھی لفٹ نہ کرائی،تین سال تک ملازمین کی تنخواہوں کا پوچھا جاتا رہا مگر نہیں بتایا، میں نے ایک بات نوٹ کی کہ موجودہ انتظامیہ میں تکبر بہت زیادہ ہے۔
یہ لوگ اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے، بیچارے فرنچائزآفیشلز اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے نظرکرم کے منتظر رہتے ہیں دیگر کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہوگی، وزیر اعظم خود کرکٹر رہے ہیں یقیناً انھیں بھی معاملات کی ابتری کا علم ہے اسی لیے توسیع سے گریز کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ پی سی بی نے اپنے ''غیراعلانیہ'' ترجمانوں کی مدد سے کئی ماہ قبل ہی یہ خبریں اڑا دی تھیں کہ وزیر اعظم نے احسان مانی کو کام جاری رکھنے کا کہہ دیا ہے، جب کافی عرصے خاموشی رہی تو سن گن لینے پر مجھے علم ہوا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، اندرون خانہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے،مانی صاحب کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکااوروزیراعظم نے رمیز راجہ کو بھی بلا کر بورڈ کی سربراہی سنبھالنے کیلیے تیار رہنے کا کہہ دیا ہے۔
اس پر سابق چیئرمین نے ''نامکمل منصوبوں'' کی وجہ سے اپنے ناگزیر ہونے کا احساس دلایا، ان کے چاہنے والوں نے بھی عہدے پر برقرار رکھنے کیلیے کیس پیش کیا، یہ کوشش کامیاب بھی ہو گئی تھی لیکن اچانک پھر کہانی میں ٹوئسٹ آ گیا اوراحسان مانی نے خود کہہ دیا کہ وہ عہدے پر مزید برقرار نہیں رہنا چاہتے، بڑے عہدوں پر موجود شخصیات کی باعزت واپسی کیلیے ایسے ہی بیانات کے مواقع دیے جاتے ہیں، مانی صاحب تین سال میں کچھ نہیں کر سکے آگے کیا کریں گے یقیناً یہ بات وزیراعظم نے بھی سمجھ لی ہوگی۔
یہ درست ہے کہ سابق چیئرمین کے دور میں کرکٹ پیچھے چلی گئی مگر تاحال کوئی کرپشن کیس سامنے نہیں آیا، وہ اپنے تمام اخراجات کی تفصیلات ویب سائٹ پر بھی دیتے رہے، مگر صرف ایمانداری کافی نہیں آپ میں صلاحیت اور کچھ دکھانے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے،یقیناً مانی صاحب کھیل کی بہتری کیلیے کام کرنا چاہتے ہوں گے مگر بڑھتی عمر نے اجازت نہیں دی،شاید وہ زیادہ دباؤ بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے اسی لیے وسیم خان کو برطانیہ سے بلا کر سی ای او بنایا اورڈھال کی طرح استعمال کیا،مانی صاحب زیادہ تر من مانی ہی کرتے رہے، بیشتر اہم فیصلے خود کیے لیکن سامنے وسیم کو لائے،ذاتی طور پر میں نے محسوس کیا کہ قذافی اسٹیڈیم کی آب و ہوا نے انھیں بھی اثر ڈالا اور ان میں تکبر آگیا۔
میرے ان سے بہتر مراسم تھے لیکن پھر بعض خبروں کی وجہ سے ناراض ہوگئے،ایک بار تو واٹس ایپ پر سخت الفاظ استعمال کیے جس پر میں نے بھی ویسا ہی جواب دیا،ایسے میں ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو درمیان میں پڑنا پڑا، ویسے دوریاں بھی انہی کی وجہ سے آئی تھیں مانی صاحب ہمیشہ کہتے کہ ''تم سے بات کروں تو سمیع کو اچھا نہیں لگتا'' جب میں ان سے کسی کی شکایت کرتا تو جواب ملتا ''انھیں میں ہی لایا ہوں اب ان کا تحفظ بھی کرنا ہے''۔
پاکستانی میڈیا سے انھوں نے فاصلہ ہی رکھا، میڈیا ڈپارٹمنٹ بورڈ کو آئی سی سی کی طرح چلاتا ہے، مانی صاحب بھی غیرملکی صحافیوں کے زیادہ قریب رہے، پی سی بی میں ہر لحاظ سے ان کی اننگز ناکام رہی اور اب رمیز راجہ کو ملکی کرکٹ کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں
یہ سرخی تو بہت اچھی دی مگر ساتھ سوالیہ نشان کیوں، لگتا ہے تم کو خود بھی یقین نہیں کہ پی سی بی کے سربراہ کو تبدیل کیا جائے گا۔
کرکٹ کی ایک بااثر شخصیت نے جب مجھ سے یہ بات کہی تو میں نے انھیں جواب دیا کہ ہم میڈیا والوں کو یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ کبھی کسی بات کو حتمی نہ سمجھو، فیصلے تبدیل بھی ہو جاتے ہیں لہذا خبر میں گنجائش رکھنی چاہیے، ویسے بھی پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے لہذا انتظار ہی کرنا مناسب ہوگا، واقعی ایسا ہی ہوا پانسہ پھر پلٹ گیا اور ریویو پر بھی مانی کی وکٹ بچ نہ سکی۔ گذشتہ چند روز میں آپ نے یہ خبریں ضرور پڑھی اور ٹی وی پر دیکھی ہوں گی کہ
احسان مانی کو توسیع مل گئی
احسان مانی کو توسیع نہیں ملی
رمیز راجہ پی سی بی کے چیئرمین بنیں گے
رمیز راجہ پی سی بی کے چیئرمین نہیں بنیں گے
ہم میڈیا والے بھی سارے آپشنز دے کر پھر بعد میں اکٹر کر کہتے ہیں کہ ''دیکھا میں نے سب سے پہلے یہ خبر دی تھی'' اس بار بھی ایسا ہی ہوا کئی ''دوست'' کریڈٹ لینے آ گئے، درحقیقت یہ سب کچھ ایک سسپنس فل فلم کی طرح تھا جس میں کئی ٹوئسٹ سامنے آتے رہے، آخر کار چیئرمین کو گھر جانا ہی پڑا،احسان مانی عمر کی76بہاریں دیکھ چکے ہیں، کسی بیٹسمین کیلیے یہ اسکور متاثر کن ہوگا لیکن منتظم کیلیے اتنی بڑی عمر میں فرائض کے ساتھ انصاف کرناآسان نہیں تھا، آئی سی سی کے صدر کی حیثیت سے انھوں نے بہتر کام کیامگر افسوس بطور پی سی بی چیف ناکام رہے۔
عہدہ پانے کے بعد انھوں نے اپنے پرانے ساتھیوں سے بھی ناطہ توڑ لیا، سبحان احمد جیسے شخص جس کی تعریفیں کرتے زبان نہیں تھکتی تھی اسے ملازمت سے فارغ کردیا، ہر بڑی پوسٹ پر اپنے لوگ لائے، دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا میں کئی کے نام اشتہار دینے سے قبل ہی آ جاتے تھے، بغیر مناسب پلاننگ کے ڈومیسٹک سسٹم تبدیل کر دیا گیا جس سے ہزاروں کرکٹرز بے روزگار ہوگئے، پی ایس ایل کی فرنچائزز سمیت میڈیا رائٹس ہولڈر کے ساتھ کورٹ کیس ہوا،مسلسل2 بار لیگ درمیان میں روکنا پڑی، کلب کرکٹ تقریباً ختم ہو گئی۔
اب تک شہروں یا صوبوں کی باقاعدہ ایسوسی ایشنز کی تکمیل کا کام بھی مکمل نہیں ہو سکا، قومی ٹیم کی کارکردگی بھی زوال کا شکار ہوئی، بورڈ انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا کریڈٹ لیتا ہے حالانکہ یہ سلسلہ سابقہ انتظامیہ کے دور میں ہی شروع ہو چکا تھا جسے انھوں نے آگے بڑھایا، دیگر بورڈز کے ساتھ بھی پی سی بی کے تعلقات اتنے مثالی نہ رہے، انھوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھی لفٹ نہ کرائی،تین سال تک ملازمین کی تنخواہوں کا پوچھا جاتا رہا مگر نہیں بتایا، میں نے ایک بات نوٹ کی کہ موجودہ انتظامیہ میں تکبر بہت زیادہ ہے۔
یہ لوگ اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے، بیچارے فرنچائزآفیشلز اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے نظرکرم کے منتظر رہتے ہیں دیگر کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہوگی، وزیر اعظم خود کرکٹر رہے ہیں یقیناً انھیں بھی معاملات کی ابتری کا علم ہے اسی لیے توسیع سے گریز کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ پی سی بی نے اپنے ''غیراعلانیہ'' ترجمانوں کی مدد سے کئی ماہ قبل ہی یہ خبریں اڑا دی تھیں کہ وزیر اعظم نے احسان مانی کو کام جاری رکھنے کا کہہ دیا ہے، جب کافی عرصے خاموشی رہی تو سن گن لینے پر مجھے علم ہوا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، اندرون خانہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے،مانی صاحب کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکااوروزیراعظم نے رمیز راجہ کو بھی بلا کر بورڈ کی سربراہی سنبھالنے کیلیے تیار رہنے کا کہہ دیا ہے۔
اس پر سابق چیئرمین نے ''نامکمل منصوبوں'' کی وجہ سے اپنے ناگزیر ہونے کا احساس دلایا، ان کے چاہنے والوں نے بھی عہدے پر برقرار رکھنے کیلیے کیس پیش کیا، یہ کوشش کامیاب بھی ہو گئی تھی لیکن اچانک پھر کہانی میں ٹوئسٹ آ گیا اوراحسان مانی نے خود کہہ دیا کہ وہ عہدے پر مزید برقرار نہیں رہنا چاہتے، بڑے عہدوں پر موجود شخصیات کی باعزت واپسی کیلیے ایسے ہی بیانات کے مواقع دیے جاتے ہیں، مانی صاحب تین سال میں کچھ نہیں کر سکے آگے کیا کریں گے یقیناً یہ بات وزیراعظم نے بھی سمجھ لی ہوگی۔
یہ درست ہے کہ سابق چیئرمین کے دور میں کرکٹ پیچھے چلی گئی مگر تاحال کوئی کرپشن کیس سامنے نہیں آیا، وہ اپنے تمام اخراجات کی تفصیلات ویب سائٹ پر بھی دیتے رہے، مگر صرف ایمانداری کافی نہیں آپ میں صلاحیت اور کچھ دکھانے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے،یقیناً مانی صاحب کھیل کی بہتری کیلیے کام کرنا چاہتے ہوں گے مگر بڑھتی عمر نے اجازت نہیں دی،شاید وہ زیادہ دباؤ بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے اسی لیے وسیم خان کو برطانیہ سے بلا کر سی ای او بنایا اورڈھال کی طرح استعمال کیا،مانی صاحب زیادہ تر من مانی ہی کرتے رہے، بیشتر اہم فیصلے خود کیے لیکن سامنے وسیم کو لائے،ذاتی طور پر میں نے محسوس کیا کہ قذافی اسٹیڈیم کی آب و ہوا نے انھیں بھی اثر ڈالا اور ان میں تکبر آگیا۔
میرے ان سے بہتر مراسم تھے لیکن پھر بعض خبروں کی وجہ سے ناراض ہوگئے،ایک بار تو واٹس ایپ پر سخت الفاظ استعمال کیے جس پر میں نے بھی ویسا ہی جواب دیا،ایسے میں ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو درمیان میں پڑنا پڑا، ویسے دوریاں بھی انہی کی وجہ سے آئی تھیں مانی صاحب ہمیشہ کہتے کہ ''تم سے بات کروں تو سمیع کو اچھا نہیں لگتا'' جب میں ان سے کسی کی شکایت کرتا تو جواب ملتا ''انھیں میں ہی لایا ہوں اب ان کا تحفظ بھی کرنا ہے''۔
پاکستانی میڈیا سے انھوں نے فاصلہ ہی رکھا، میڈیا ڈپارٹمنٹ بورڈ کو آئی سی سی کی طرح چلاتا ہے، مانی صاحب بھی غیرملکی صحافیوں کے زیادہ قریب رہے، پی سی بی میں ہر لحاظ سے ان کی اننگز ناکام رہی اور اب رمیز راجہ کو ملکی کرکٹ کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں