صحافی وزیر فنکار ڈاکٹر اور تیسری بار حکمرانی

وہ وقت دورنہیں جب ڈاکٹروینا ملک بھی میدان علم وفضل میں موجود ہونگی جیسے ہمارے بعض لیڈر اورسیاسی رہنما ڈاکٹر بن گئے ہیں


Abdul Qadir Hassan January 28, 2014
[email protected]

امریکا اور پاکستان کے اندر اس کے خدام اور حلیفوں نے وطن عزیز کی جو حالت بنا دی ہے، اس میں سوائے سیاستدانوں اور ان کے جن کا سرمایہ ملک سے باہر ہے اور کون خوش رہ سکتا ہے، اس گنتی میں دہری شہریت والوں کو بھی جمع کر لیجیے مثلاً ہمارے شیخ الاسلام جناب طاہر القادری وغیرہ۔ ان کے علاوہ خوش باش پاکستانی اور کہیں نہیں ملیں گے اور ظاہر ہے کہ میں بھی تشویش زدہ پاکستانیوں میں شامل ہوں البتہ تعلق چونکہ ہر قسم کی خبروں سے رہتا ہے اس لیے بعض خوشی کی خبریں بھی موصول ہو جاتی ہیں۔ ادھر ایک مدت سے سرکار میں ہماری ایک کرسی خالی چلی آ رہی تھی اس پر ہمارے کئی اونچے صحافی براجمان رہے۔ مثلاً 'ڈان' کے ایڈیٹر الطاف حسین جو اس اخبار سے اس کے دلی کے زمانے سے ہی وابستہ تھے اور بے حد مؤقر صحافی سمجھے جاتے تھے۔ ایوب خان کے دور میں اس کی کابینہ میں شامل ہو گئے اور سب کو حیرت زدہ کر گئے۔ محترم الطاف صاحب مارشل لاء کے پہلے شکار صحافی تھے۔

اس کے بعد غیر مارشل لائی یعنی جمہوری حکومتوں میں تو صحافی منتخب ہو کر وزیر بنتے رہے لیکن فوجی حکومتوں کے جاری و ساری سلسلے میں بھی صحافی وزیر بنتے رہے، صحافیوں کا عمل دخل تو ہر فوجی حکومت میں رہا اور بڑا واضح رہا لیکن ضروری نہ سمجھا گیا کہ کسی صحافی کو وزیر کا علانیہ درجہ بھی دے دیا جائے چنانچہ مارشل لاؤں میں کئی صحافی عموماً چلمن کے پیچھے ہی بیٹھے رہے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء میں ہمارے کرمفرما صحافی جناب مصطفیٰ صادق ان کے وزیر بن گئے۔ ایک غیر فوجی حکومت میں جناب ارشاد احمد حقانی بھی وزیر بن گئے۔ جناب الطاف حسین سے جو یہ سلسلہ جاری ہوا تو تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد چلتا رہا، ہمارے صحافی وزیر سیاستدان وزیروں سے زیادہ کامیاب اور نیک نام رہے۔ اب ہمارے نئے وزیر جناب عرفان صدیقی ہیں۔

یعنی حکومتوں میں ہماری عملی شرکت کا سلسلہ جاری ہے، اپنے اس ساتھی کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ ہمیں سرکاری ناراضگیوں سے بچاتے رہیں گے یا کم از کم ہمیں بر وقت خبر کر دیا کریں گے کہ ہم چاہیں تو اپنا سنبھالا کر سکیں اور نہ چاہیں تو بسم اللہ سولی بھی گڑی ہے اور زنجیر کا شور بھی برپا ہے لیکن اطمینان کی ایک بات بہت واضح ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے چہرے پر شرم و حیا کی سرخی کسی سے کم نہیں، ان کی آنکھوں کی حیا بہت مشہور ہے اور امید ہے کہ وہ اپنی پہلی دو کی طرح اس تیسری وزارت عظمیٰ میں بھی یہ حیا قائم رکھیں گے اور تیسری بار وزیر اعظم بننے پر خدا کا شکر ادا کرتے رہیں گے، ایسی مثالیں بہت کم ہیں یہ تو ہوتا رہا ہے کہ ایک حکمران آیا اور کئی وزارت عظماؤں کا مقررہ وقت کھا گیا لیکن کسی سیاسی وزیر اعظم کو دوسری باری بھی کم ہی ملی کجا کہ تیسری بار وہ سب کے سامنے کھلے بندوں وزیر اعظم بن جائے اور بڑے بڑے سیاستدان منہ تکتے رہ جائیں۔ ہمارے میاں صاحب کا خاندان جس طرح ایک فیکٹری میں سے دوسری، تیسری فیکٹری نکال لیتا ہے اسی طرح وہ ایک وزارت عظمیٰ سے دوسری اور تیسری بھی نکال سکتے ہیں۔ میاں صاحب کو اس تیسری وزارت عظمیٰ کی مبارک باد دینی تھی لیکن آٹھ ماہ گزرنے کو ہیں انھوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا اور کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔ پریس کا سامنا تو دور کی بات ہے وہ اپنے گھر یعنی ایوان میں بھی نہیں گئے جس کے وہ لیڈر ہیں۔ صحافت کی طرح ایوان نمایندگان بھی ان کی رہنمائی کے بغیر چل رہا ہے اور فی الحال چلے جا رہا ہے۔

میاں صاحب کے متوسلین کا خیال ہے کہ میاں صاحب سیاستدانوں سے بے زار ہیں۔ ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا اس لیے میاں صاحب نے اب مڑ کر دیکھنے کا پروگرام ہی منسوخ کر دیا ہے کہ خوامخواہ اس مایوسی کا کیوں سامنا کیا جائے۔ میاں صاحب نے الیکشن اپنی سیاست کے زور پر جیتا ہے اور اپنے آپ کو زرداری صاحب کے متبادل ثابت کر دیا ہے چنانچہ لوگوں نے انھیں ضرورت سے زیادہ ووٹ دیے ہیں کیونکہ لوگ زرداری صاحب کی حکومت سے بہت بے زار تھے ویسے اب میاں صاحب نے بھی جو حکومت قوم کو دی ہے وہ زرداری صاحب سے بڑھ کر ہے۔ زرداری صاحب نے میاں صاحب کو جو دیا تھا اب میاں صاحب کچھ لوگوں کے خیال میں عمران خان کو دے رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ سیاست کا پہیہ مسلسل گھومتا رہتا ہے، پاکستان میں تو ایسا ہی ہے بس خدا کرے یہ پہیہ ویسے نہ گھومے جیسا ڈھاکہ میں گھوما تھا کیونکہ پاکستانی باغی بھی ہیں، فوج بھی ہے اور نئے متوقع حکمران بھی ہیں۔ پڑوس میں بھارت بھی ہے۔ افسوس کہ جو حکمران بھی آیا وہ فوجی تھا یا غیر فوجی اس نے قوم کو بگاڑا ہی ہے بنایا نہیں۔ بسں اپنے خوابوں اور خواہشوں میں گم رہ کر وقت گزارا ہے۔ 66 برس کوئی لمبا عرصہ نہیں آپ خود اندازہ کر لیں کہ ہمارے ساتھ ہمارے حکمران کیا کرتے رہے۔ ہم نے تو انھیں سب کچھ دیا لیکن انھوں نے ہمارے پاس جو بچا کھچا تھا وہ بھی چھین لیا۔ خیر یہ رونا پیٹنا تو جاری رہے گا ہی ایک خوش خبری سن لیجیے۔

یہ خوش خبری یہ ہے کہ وینا ملک نے پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کی ریل پیل دیکھ کر فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود کیوں نہ یہ ڈگری حاصل کریں اور اس کے لیے خوب محنت کریں تا کہ اس قابل ہو سکیں کہ ڈاکٹر بننے کی ڈگری لے لیں۔ وینا ملک کو ہم نے تو بہت ماہر اور قابل سمجھا تھا حتیٰ کہ اس نے دو ملکوں کو یعنی پورے برصغیر کو بھی اپنی انگلیوں پر نچایا اور اب فی الحال آخر میں ہمارے ایک عالم دین اور زبردست مقرر کے مریدین اور متاثرین میں بھی بیٹھ گئیں جنہوں نے فی الوقت اس کی زندگی بدل دی ہے۔ ایسی شخصیت کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری کیا چیز ہے جو اب ٹکے سیر بک رہی ہے لیکن وہ اگر اس شعبے میں بھی اپنی دھاک بٹھانی چاہتی ہیں تو چشم ما روشن دل ما شاد جو ان کو دیکھ کر ویسے ہی روشن اور شاد رہتا ہے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب ڈاکٹر وینا ملک بھی میدان علم و فضل میں موجود ہوں گی جیسے ہمارے بعض لیڈر اور سیاسی رہنما ڈاکٹر بن گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں