طوطوں کے لیے نیا تعلیمی نصاب
چینی جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں اور پاکستانی ۔۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار پاکستانی ہیں۔۔۔
پاکستان میں اگر کوئی گیلپ وغیرہ سروے کرائے تو سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ یقیناً ''کرپشن'' ہی نکلے گا کیوں کہ یہ لفظ آج کل اتنا زیادہ ''زیر استعمال'' ہے کہ اتنی زیادہ کثیر الاستعمال ''کرنسی'' بھی نہیں ہو گی حالانکہ ''کرنسی'' کو اسٹیٹ بینک نے ٹکے سیر سے بھی زیادہ سستا کیا ہوا ہے اور وہ دن قریب بلکہ عنقریب ہے جب دکاندار لوگ کسی کو ''سودا'' دینے کے لیے کاغذ یا پلاسٹک کے بجائے نوٹوں کا استعمال کریں گے کیوں کہ سفید کاغذ کم از کم کسی کام تو آتا ہے لیکن ''ردی'' تو سوائے سودا دینے یا کریٹوں میں لگانے کے اور کسی کام نہیں آتا، ابھی کل پرسوں کی بات ہے ہم گاڑی سے جا رہے تھے کہ سڑک پر ایک پانچ سو روپے کا نوٹ پڑا تھا، ہم چونکہ پرانے زمانے کے ہیں اس لیے پانچ روپے کو پانچ سو روپے ہی سمجھے اس لیے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا ڈرائیور نے روک لی لیکن روکتے روکتے بھی گاڑی کا فی آگے جا چکی تھی وہ بولا کیا بات ہے؟ ہم نے کہا کہ پانچ روپے کا نوٹ پڑا ہے، وہ ہنسا کیوں کہ ہماری طرح پرانے زمانے کا نہیں تھا، پھر بولا ۔۔۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں پانچ سو کے لیے اب میں گاڑی گھما کر چھ سو روپے کا ڈیزل خرچ کروں اور گاڑی آگے بڑھا دی، لیکن آج کل جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو نوٹوں سے زیادہ ''کرپشن'' کا لفظ چل رہا ہے نوٹ تو عین ممکن ہے کہ کسی کسی کی جیب میں نہ ہوں لیکن ''جِیب'' یعنی زبان پر کرپشن کا لفظ ضرور ہوتا ہے اگر کہیں دو آدمی بات چیت کر رہے ہوں تو تیسرا قریب آ کر پوچھتا ہے کیا، کرپشن کرپشن کر رہے ہو ۔۔۔ اور وہ دونوں آدمی حیران ہو کر پوچھتے ہیں تمہیں اتنی دور سے کیسے پتہ چلا کہ ہم کرپشن کرپشن کر رہے ہیں اور اس کا جواب وہی ہو گا جو سب کا ہے کہ کرپشن کے علاوہ اور کیا بات کی جا سکتی ہے
سب لوگ جدھر ''وہ'' ہے ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
کہتے ہیں چینیوں نے ایک دن فیصلہ کر لیا کہ فلاں دن کوئی شخص دوسرا کوئی بھی کام نہیں کرے گا صرف چوہے مارے گا اور اس دن جب ہر چینی نے چوہے مارے تو چین میں چوہوں کا نام و نشان تک نہیں رہا، چوہے یا تو سارے مر گئے یا ''چیں چیں'' کرتے ہوئے چین سے بھاگے تب کہیں جا کر چینیوں نے چین پایا، کچھ ایسا ہی معاملہ اپنے ہاں کرپشن کا بھی چل رہا ہے لیکن چینیوں سے معاملہ ذرا مختلف ہے چینی جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں اور پاکستانی ۔۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار پاکستانی ہیں اور سمجھدار لوگ دوسروں کو سمجھایا کرتے ہیں۔۔۔ آپ کسی بھی سرکاری اہلکار سے، سیاسی لیڈر سے اس کے چمچوں سے پھر چمچوں کے چمچوں کے چمچوں کے چمچوں سے پوچھیں کہ آج کل کیا کر رہے ہو تو وہ ترنت کہے گا کرپشن کو ختم کر رہے ہیں، کہتے ہیں ایک دعوت میں جب کھانا تیار ہوا تو افسر نے کہا جوانو کھانے پر دشمن کی طرح ٹوٹ پڑو جوان کھانا کھانے لگے تو افسر نے دیکھا کہ ایک نوجوان کچھ چیزیں اپنی جیب میں بھی ڈال رہا ہے اس نے قریب جا کر جوان سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو، میں نے تجھے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کو کہا تھا چرانے کو نہیں، وہ نوجوان سیلوٹ مار کر بولا میں دشمنوں کو گرفتار بھی کر رہا ہوں سر ۔۔۔لگتا ہے کرپشن پر بھی سرکاری محکمے ٹوٹ پڑے ہیں کرپشن کا تیاپانچہ کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو بڑے وسیع پیمانے پر گرفتار بھی کیا جا رہا ہے، شاید سدھارنے کے لیے
موت کے سوداگروں سے
زندگی دینے والا بڑا ہے
کرپشن کا خاتمہ ہو گا یا نہیں اس کا تو ہمیں علم نہیں ہے لیکن بچپن میں غالباً چوتھی جماعت کے نصاب میں ایک کہانی پڑھی تھی ۔۔۔ کہ ایک شکاری نے طوطوں کا شکار کرنے کے لیے اپنے کھیت کے اردگرد ایک رسی پھیلائی اور اس رسی میں نرکل یعنی نیچے کی بالشت بھر کے ٹکڑے پروئے، طوطے جب کھیت پر حملہ کرنے آتے تھے تو جیسا کہ طوطوں کا بلکہ تقریباً ھمہ اقسام کے چوروں کا طریقہ ہے کہ موقع واردات پر تھوڑی دیر رک کر سن گن لیتے ہیں اور جب خطرہ نہیں ہوتا تو ہلہ بول دیتے ہیں اسی طرح طوطے بھی آ کر پہلے اس رسی پر بیٹھ جاتے تھے ان کے بیٹھتے ہیں وہ نرکل کی نلکی گھوم جاتی تھی لیکن طوطا اپنے پنجوں کو مضبوطی سے رکھے رہتا تھا چنانچہ طوطا بھی نلکی کے ساتھ گھوم کر لٹک جاتا تھا پیر اوپر اور سر دھڑ نیچے ۔۔۔ ڈر کے مارے وہ اپنی گرفت بالکل ڈھیلی نہ کرتا اور شکاری آ کر ان سب کو ایک ایک کو پکڑ کر اپنے بورے میں ڈال دیتا اور بازار لے جا کر فروخت کر دیتا، ایک دن ایک فلیسوف نے یہ ماجرا دیکھا تو اسے طوطوں کی نادانی پر بڑا افسوس ہوا اور طوطوں کو اس حماقت سے بچانے کی ٹھان لی، اس نے بازار سے طوطے خریدنا شروع کیے اور ان کو پڑھانے لگا کہ ہم شکاری کی نرکل پر ہر گز نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیھٹیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے، کافی عرصے تک وہ یہ پڑھائی طوطوں کی جاری رکھے رہا جب اسے یقین ہو گیا کہ سارے طوطوں کو میں نے پڑھا دیا ہے تو ایک دن جائزہ لینے کے لیے شکاری کے کھیت پر گیا اس نے دور سے دیکھا کہ اس کے سارے شاگرد طوطے رسی میں پروئے ہوئے نلکیوں سے الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور زور زور سے اپنا آموختہ دہرا رہے ہیں کہ ہم شکاری کی نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیھٹیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
کہانی یہیں تک تھی لیکن ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ فیلسوف بہت خوش ہوا اور اس کامیابی پر پھولے نہ سماتا ہوا چلا گیا اور بعد میں اس نے باقاعدہ طوطوں کو پڑھانے کے لیے کئی اسکول کھولے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں اور درس و تدریس کا شغل کرنے لگا، اور یہ تو ہم نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ وہ فیلسوف بمقام پاکستان رہائش پذیر تھا اور اس کا تعلیمی نیٹ ورک پاکستان میں ابھی تک چل رہا ہے البتہ نصاب میں تھوڑی سی تبدیلی کر لی گئی، طوطوں اور نرکل وغیرہ کی جگہ اس نے نصاب میں یہ رائج کیا کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے، اللہ کا شکر ہے کہ یہ سبق آج کل بمقام پاکستان نہ صرف ہر کسی کو ازبر ہو چکا ہے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر ہر کوئی ہر کسی کو ہر جگہ پڑھا بھی رہا ہے
یاد کرو ماسٹر کا سبق
روشن ہوں گے چودہ طبق
نہ صرف یہ بلکہ خوش آیند بات یہ ہے کہ حکومت نے اس نصاب کو وزیروں مشیروں کبیروں اور سرکاری اہل کاروں کے لیے لازمی بھی قرار دیا ہے، جس کے پاس یہ ڈگری نہیں ہوتی وہ چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اسے نوکری یا کرسی نہیں ملتی سرکاری دفاتر میں باقاعدگی سے اس سبق کو صبح دوپہر شام دہرایا جاتا ہے، سنا ہے ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ جس طرح روپے کے نوٹ پر رزق حلال عین عبادت ہے لکھا ہوا ہوتا تھا اسی طرح سارے نوٹوں کے اوپر اب یہ فقرہ لکھا جائے گا کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے، ایک مرتبہ کوشش بھی کی گئی تھی لیکن پریس والوں کی غلطی سے نوٹوں پر ''کرپشن عین عبادت ہے'' چھپ گیا تھا، اچھا ہوا کہ وہ نوٹ عام نہیں ہوئے صرف خاص خاص لوگوں تک پہنچ گئے ورنہ اتنے زیادہ عابدوں زاہدوں کو کون سنبھالتا۔
سب لوگ جدھر ''وہ'' ہے ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
کہتے ہیں چینیوں نے ایک دن فیصلہ کر لیا کہ فلاں دن کوئی شخص دوسرا کوئی بھی کام نہیں کرے گا صرف چوہے مارے گا اور اس دن جب ہر چینی نے چوہے مارے تو چین میں چوہوں کا نام و نشان تک نہیں رہا، چوہے یا تو سارے مر گئے یا ''چیں چیں'' کرتے ہوئے چین سے بھاگے تب کہیں جا کر چینیوں نے چین پایا، کچھ ایسا ہی معاملہ اپنے ہاں کرپشن کا بھی چل رہا ہے لیکن چینیوں سے معاملہ ذرا مختلف ہے چینی جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں اور پاکستانی ۔۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار پاکستانی ہیں اور سمجھدار لوگ دوسروں کو سمجھایا کرتے ہیں۔۔۔ آپ کسی بھی سرکاری اہلکار سے، سیاسی لیڈر سے اس کے چمچوں سے پھر چمچوں کے چمچوں کے چمچوں کے چمچوں سے پوچھیں کہ آج کل کیا کر رہے ہو تو وہ ترنت کہے گا کرپشن کو ختم کر رہے ہیں، کہتے ہیں ایک دعوت میں جب کھانا تیار ہوا تو افسر نے کہا جوانو کھانے پر دشمن کی طرح ٹوٹ پڑو جوان کھانا کھانے لگے تو افسر نے دیکھا کہ ایک نوجوان کچھ چیزیں اپنی جیب میں بھی ڈال رہا ہے اس نے قریب جا کر جوان سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو، میں نے تجھے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کو کہا تھا چرانے کو نہیں، وہ نوجوان سیلوٹ مار کر بولا میں دشمنوں کو گرفتار بھی کر رہا ہوں سر ۔۔۔لگتا ہے کرپشن پر بھی سرکاری محکمے ٹوٹ پڑے ہیں کرپشن کا تیاپانچہ کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو بڑے وسیع پیمانے پر گرفتار بھی کیا جا رہا ہے، شاید سدھارنے کے لیے
موت کے سوداگروں سے
زندگی دینے والا بڑا ہے
کرپشن کا خاتمہ ہو گا یا نہیں اس کا تو ہمیں علم نہیں ہے لیکن بچپن میں غالباً چوتھی جماعت کے نصاب میں ایک کہانی پڑھی تھی ۔۔۔ کہ ایک شکاری نے طوطوں کا شکار کرنے کے لیے اپنے کھیت کے اردگرد ایک رسی پھیلائی اور اس رسی میں نرکل یعنی نیچے کی بالشت بھر کے ٹکڑے پروئے، طوطے جب کھیت پر حملہ کرنے آتے تھے تو جیسا کہ طوطوں کا بلکہ تقریباً ھمہ اقسام کے چوروں کا طریقہ ہے کہ موقع واردات پر تھوڑی دیر رک کر سن گن لیتے ہیں اور جب خطرہ نہیں ہوتا تو ہلہ بول دیتے ہیں اسی طرح طوطے بھی آ کر پہلے اس رسی پر بیٹھ جاتے تھے ان کے بیٹھتے ہیں وہ نرکل کی نلکی گھوم جاتی تھی لیکن طوطا اپنے پنجوں کو مضبوطی سے رکھے رہتا تھا چنانچہ طوطا بھی نلکی کے ساتھ گھوم کر لٹک جاتا تھا پیر اوپر اور سر دھڑ نیچے ۔۔۔ ڈر کے مارے وہ اپنی گرفت بالکل ڈھیلی نہ کرتا اور شکاری آ کر ان سب کو ایک ایک کو پکڑ کر اپنے بورے میں ڈال دیتا اور بازار لے جا کر فروخت کر دیتا، ایک دن ایک فلیسوف نے یہ ماجرا دیکھا تو اسے طوطوں کی نادانی پر بڑا افسوس ہوا اور طوطوں کو اس حماقت سے بچانے کی ٹھان لی، اس نے بازار سے طوطے خریدنا شروع کیے اور ان کو پڑھانے لگا کہ ہم شکاری کی نرکل پر ہر گز نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیھٹیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے، کافی عرصے تک وہ یہ پڑھائی طوطوں کی جاری رکھے رہا جب اسے یقین ہو گیا کہ سارے طوطوں کو میں نے پڑھا دیا ہے تو ایک دن جائزہ لینے کے لیے شکاری کے کھیت پر گیا اس نے دور سے دیکھا کہ اس کے سارے شاگرد طوطے رسی میں پروئے ہوئے نلکیوں سے الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور زور زور سے اپنا آموختہ دہرا رہے ہیں کہ ہم شکاری کی نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیھٹیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
کہانی یہیں تک تھی لیکن ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ فیلسوف بہت خوش ہوا اور اس کامیابی پر پھولے نہ سماتا ہوا چلا گیا اور بعد میں اس نے باقاعدہ طوطوں کو پڑھانے کے لیے کئی اسکول کھولے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں اور درس و تدریس کا شغل کرنے لگا، اور یہ تو ہم نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ وہ فیلسوف بمقام پاکستان رہائش پذیر تھا اور اس کا تعلیمی نیٹ ورک پاکستان میں ابھی تک چل رہا ہے البتہ نصاب میں تھوڑی سی تبدیلی کر لی گئی، طوطوں اور نرکل وغیرہ کی جگہ اس نے نصاب میں یہ رائج کیا کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے، اللہ کا شکر ہے کہ یہ سبق آج کل بمقام پاکستان نہ صرف ہر کسی کو ازبر ہو چکا ہے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر ہر کوئی ہر کسی کو ہر جگہ پڑھا بھی رہا ہے
یاد کرو ماسٹر کا سبق
روشن ہوں گے چودہ طبق
نہ صرف یہ بلکہ خوش آیند بات یہ ہے کہ حکومت نے اس نصاب کو وزیروں مشیروں کبیروں اور سرکاری اہل کاروں کے لیے لازمی بھی قرار دیا ہے، جس کے پاس یہ ڈگری نہیں ہوتی وہ چاہے کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اسے نوکری یا کرسی نہیں ملتی سرکاری دفاتر میں باقاعدگی سے اس سبق کو صبح دوپہر شام دہرایا جاتا ہے، سنا ہے ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ جس طرح روپے کے نوٹ پر رزق حلال عین عبادت ہے لکھا ہوا ہوتا تھا اسی طرح سارے نوٹوں کے اوپر اب یہ فقرہ لکھا جائے گا کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے، ایک مرتبہ کوشش بھی کی گئی تھی لیکن پریس والوں کی غلطی سے نوٹوں پر ''کرپشن عین عبادت ہے'' چھپ گیا تھا، اچھا ہوا کہ وہ نوٹ عام نہیں ہوئے صرف خاص خاص لوگوں تک پہنچ گئے ورنہ اتنے زیادہ عابدوں زاہدوں کو کون سنبھالتا۔