کراچی میں کیمیکل فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی 17 مزدور جاں بحق

12 افراد دم گھٹ جانے سے جاں بحق ہوئے، اسپتال میں قیامت صغریٰ کا منظر، لوگ لاشیں ڈھونڈتے اور بلکتے نظر آئے


Staff Reporter/ August 27, 2021
فیکٹری کے اندر دھواں بھر جانے کے باعث مزدوروں کی ہلاکتوں کی خدشہ ہے، فائر بریگیڈ حکام۔ فوٹو: آئی این پی

کورنگی مہران ٹاؤن میں کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی سے 17 مزدور جاں بحق جب کہ فائر بریگیڈ کے 2 اہلکار زخمی ہوگئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے مہران ٹاؤن میں واقع کیمیکل فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کرلی، واقعے کی اطلاع ملتے ہی فائربریگیڈ کا عملہ فیکٹری پہنچ گیا اور آگ بجھانے کے لیے امدادی کارروائیاں شروع کردی گئیں تاہم آگ اس قدر شدید تھی کہ فائر بریگیڈ حکام نے آگ کو تیسرے درجے کی قرار دیتے ہوئے شہر بھر سے فائر ٹینڈرز کو طلب کرلیا۔





ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ فیکٹری سے 13 مزدوروں کی لاشیں نکالی گئیں جب کہ زخمی ہونے والے مزدوروں میں سے مزید 4 دم توڑ چکے ہیں جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 17 ہوچکی ہے، فیکٹری میں دھویں کے باعث اندر جانا ممکن نہیں جب کہ 2 فائر فائٹرز بھی کارروائی کے دوران عمارت سے گرنے سے شدید زخمی ہوگیا ہے۔

واقعے میں ایک ہی خاندان کے 3 بھائی ، چچا اور بھتیجا بھی جاں بحق

واقعے میں جاں بحق افراد کی شناخت ہوگئی، ان میں 3 بھائی فرمان، عرفان اور فرحان ولد محمد احسان سمیت ان کے چچا اور بھتیجا علی اور حسن شامل ہیں۔ دیگر افراد میں 22 سالہ عثمان ، 25 سالہ فرحان، 22 سالہ زاہد خان، 22 سالہ محمد عثمان، 41 سالہ راشد حسین، 22 سالہ جواد علی زیدی، 21 سالہ شعیب، 38 سالہ محمد صابر، 22 سالہ محمد کاشف، 23 سالہ محمد عدنان اور 29 سالہ سرفراز شامل ہیں۔



وزیراعلیٰ کا نوٹس، زخمیوں کے علاج کی ہدایت

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کورنگی فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی اور محکمہ لیبر سے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ ترجمان کے مطابق وزیراعلیٰ نے جاں بحق مزدوروں کے خاندانوں کی بھرپور مدد کرنے اور زخمیوں کا علاج کرانے کی ہدایت کی ہے۔

اسپتال میں قیامت صغریٰ کا منظر، لوگ لاشیں ڈھونڈتے اور بلکتے نظر آئے

جناح اسپتال مردہ خانے کے باہر مہران ٹاؤن سانحے میں جاں بحق مزدوروں کی میتیں ابتدا میں جناح اسپتال کی ایمرجنسی اور بعد ازاں مردہ خانے منتقل کی گئیں۔ لوگ دیوانہ وار مردہ خانے میں داخل ہونے اور اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے کوششیں کرتے رہے۔

جواں سال بیٹے کو کھونے والی خاتون بلکتی ہوئی جناح اسپتال کے ایمرجنسی سے بیٹے کی میت کے ہمراہ ایمبولینس میں مردہ خانے پہنچی۔ خاتوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے جائے حادثہ پر کئی مرتبہ وہاں کھڑے فیکٹری ملازمین سے درخواست کی میرا بیٹا مشکل میں ہے، مجھے دروازہ کھولنے کے لیے چابیاں دیں۔

غم سے نڈھال عثمان آباد دھوبی گھاٹ کے رہائشی علی کے مطابق ان کا بھتیجا، بھائی اور دو بہنوئی سانحے میں زندگی کی بازی ہارگئے، علی کے مطابق ان کے 18 سالہ بھتیجے حسن نے ایک ہفتے پہلے ہی فیکٹری میں مزدوری شروع کی تھی۔ غمزدہ خاندانوں نے شکوہ کیا کہ ہرمرتبہ سانحہ رونما ہونے کے بعد اظہار تعزیت کرنے کے بعد واقعہ بھلا دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی انتظامات نہیں کیے جاتے کہ آئندہ ایسے واقعات وقوع پذیر نہ ہوں۔

انھوں نے فائر بریگیڈ کے تاخیر سے جائے حادثہ پہنچنے کو بھی قیمتی انسانی جانوں کا زیاں قراردیا۔ جناح اسپتال کے مردہ خانے میں موجود 14 میتوں کی شناخت ہوگئی تھی جبکہ ایک اور لاش کی جیب میں موجود موبائل فون جو آگ میں جھلسنے سے محفوظ رہا۔ اس موبائل فون کے ذریعے ان کے گھروالوں سے رابطہ کرنے پر مذکورہ لاش کی شناخت عدنان کے نام سے ہوئی۔

ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی، مرتضی وہاب

مردہ خانے کے دورے گفتگو میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ 16 ڈیڈ باڈیز اسپتال لائیں گئیں، دم گھٹنے سے 12 افراد جاں بحق ہوئے، سرکاری سطح پر جن لوگوں نے غیرقانونی کام کیا ان کے خلاف کارروائی ہوگی، اگر فیکٹری مالکان آگ بجھانے کے آلات نہیں لگاتے تو اس معاملے کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا، تحقیقات مکمل ہونے پر ساری تفصیلات بتاوں گا۔


فیکٹری مالک غائب، رابطے میں نہ آیا، ایس ایس پی


کورنگی میں لگیج فیکٹری میں آتشزدگی کے حوالے سے فیکٹری مینجر نے پولیس کو ابتدائی معلومات فراہم کر دیں۔ اس حوالے سے ایس ایس پی کورنگی شاہجہاں خان نے بتایا کہ فیکٹری مالک علی مرتضیٰ مہتا تاحال رابطے میں نہیں آیا جبکہ فیکٹری منیجر عمران زیدی نے پولیس کو ابتدائی معلومات فراہم کی ہپں کہ متاثرہ فیکٹری میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے لگیج تیار کیے جارہے تھے اور ماضی میں متاثرہ فیکٹری کی عمارت میں صابن بنایا جاتا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے تاہم اس بات کی بھی تحقیقات کی جائیں گی کہ کیا فیکٹری کو کورونا ایس او پی کے حوالے سے حکومت سندھ کی جانب سے جمعہ کو سیف ڈے کے موقع پر کام کرنے کی اجازت تھی یا پھر انھوں نے ایس او پی کی خلاف ورزی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جاں بحق ہونے والے 16 ملازمین پہلی منزل پر آگ لگنے کی وجہ سے محصور ہوگئے تھے، انھیں نہ تو نیچے جانے کا موقع نہ ملا نہ ہی اوپر جانے کا، واقعے پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور اس حوالے سے پولیس اپنی رپورٹ مرتب کر رہی ہے۔

لوگ چوکیدار سے دروازوں کی چابیاں مانگتے رہے اس نے نہیں دیں

عینی شاہدین کے مطابق لوگ چوکی دار سے بند دروازے کی چابیاں مانگتے رہے جو اس نے نہیں دیں بلکہ وہ فیکٹری مالک سے رابطے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ اہل محلہ کے مطابق فیکٹری میں پھنسنے والے مزدوروں کی چیخیں سن کر انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی مگر دھواں بہت زیادہ تھا۔ کھڑکیوں پر لوہے کی گرل ہونے کی وجہ سے ملازمین نیچے چھلانگ بھی نہیں لگا سکتے تھے بہت کوشش کی مگر وہ کوئی ایسا راستہ نہ بنا سکے جہاں سے آگ کے شعلوں اور دھویں میں پھنسے ہوئے ملازمین کو باہر نکالا جاسکتا تھا۔

چھت پر جانے والے گیٹ پر ہمیشہ تالہ لگا ہوتا ہے، چوکیدار

مہران ٹاؤن فیکٹری کے چوکیدار کا کہنا تھا کہ چھت پر جانے والے گیٹ پر ہمیشہ تالہ لگا ہوتا ہے۔ ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ جب آگ لگی تو وہ گارڈ روم میں موجود تھا سب سے پہلے اس نے پولیس ایمرجنسی نمبر پر فون کیا اور واقعے کی اطلاع دی۔ اس نے بتایا کہ آگ بجھانے والے آلات ناکافی تھے کیونکہ آتشزدگی دیکھتے ہی دیکھتے خوفناک ہوچکی تھی اوپر منزل پر کام کرنے والے نہ نیچے آسکے اور نہ ہی وہ چھت پر جا سکتے تھے۔

جاں بحق نوجوان کا والد صدمے سے بے ہوش

مہران ٹاؤن فیکٹری حادثے میں جاں بحق ایک نوجوان کاشف کا گھر فیکٹری کے عین سامنے تھا اور جیسے ہی آگ لگی اہل خانہ فیکٹری کے سامنے جمع ہوگئے مگر وہ اتنے بے بس تھے کہ فیکٹری کو جلتے ہوئے تو دیکھ رہے تھے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ کاشف کے والد ذولفقار نے بیٹے کی لاش دیکھی تو غش کھا کر گرگئے اور ابتدائی طور پر لگا کہ انھیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ انھیں فوری طور پر اسپتال لایا گیا جہاں طبی امداد کے بعد انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ عزیز و اقارب کا کہنا ہے کہ کاشف کے والد ذوالفقار شدید صدمے کی کیفیت میں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں