ڈاکٹرزصحت کے ادارے اور عوام
آپ ملک کے کسی بھی شہر جائیں آپ کو پرائیویٹ اسپتالوں کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا
میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ ایسا دیکھا ہے جس سے دل سینے سے باہر نکل آتا ہے کہ کاش! مجھے اقتدار مل جائے تو میں ان لوگوں کی خدمت کروں جو بیماری میں نہ تو ڈاکٹر تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے لیے ادویات خرید سکتے ہیں جن کی قیمتیں شاید ان کی زندگیوں سے زیادہ مہنگی ہیں۔ صبح سے سرکاری اسپتالوں کے باہر لمبی قطار میں سارا دن کھڑے ہونے کے بعد کیا ملتا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔ میں جب بچپن میں بیمار ہوتا تھا تو میری امی مجھے ڈاکٹر کیپٹن محمد ادریس کے پاس لے جاتی تھیں جو واحد ایم بی بی ایس ڈاکٹر پورے لاڑکانہ شہر میں تھے۔ جو صرف مکسچر دیتے تھے جس میں دو چھوٹی ٹیبلٹ کو کوٹ کر ملا دیتے تھے جس کے عوض صرف آٹھ آنے لیتے تھے اور یہ دوا دو یا پھر تین دن کی خوراک ہوتی تھی جس میں مریض ٹھیک ہو جاتا تھا۔ باقی کھانسی ہو یا پھر سینہ جکڑا ہو، دست ہوں، قبض ہو ہم اپنے ٹوٹکے استعمال کرتے تھے۔ اینٹی بائیوٹک کا تو نام بھی نہیں تھا۔ سرکاری اسپتالوں میں بھی دوائیں اچھی ملتی تھیں اور ڈاکٹرز بھی خدا ترس تھے اور بیماریوں کا نام نہیں تھا۔ بس اس وقت ٹی بی کا نام ابھرا تھا۔ اس زمانے میں مخیر حضرات بھی کم تھے اور لوگوں کی خدمت کرنے والے بھی اتنے نہیں تھے کیونکہ ہر سرکاری ادارہ اور اس میں کام کرنے والے لوگ ایماندار تھے اور وہ انسانیت کے پاسدار تھے اس دور میں اب جب میرے سامنے کچھ باتیں صحت کو پانے کے حوالے سے سامنے آئیں تو میں حیران ہو گیا۔
میرا اتفاق ایک گورنمنٹ اسپتال میں جانے کا ہوا تو یہ احساس ہوا کہ یہ وہی ڈاکٹرز ہیں جو ڈاکٹر کی ڈگری لیتے ہوئے یہ قسم کھاتے ہیں کہ وہ انسان اور انسانیت کی خدمت بلاامتیاز کریں گے اور بچپن میں یہ کہتے تھے کہ وہ بڑے ہوکر ڈاکٹر اس لیے بنیں گے تا کہ بیمار غریب لوگوں کا علاج کریں۔ مگر ان میں سے اب کچھ ڈاکٹرز جنھیں ہم مسیحا کہتے ہیں ایسے ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس جب کچھ ایسی ڈرگ کمپنیوں کے Representative آتے ہیں کہ آپ ہماری فلاں ڈرگ اتنی چلائیں تو ہم آپ کو بھوربن، دبئی کی سیر کروائیں گے یا پھر آپ کو گاڑی خرید کر دیں گے۔ اس کے علاوہ لیبارٹریوں سے کچھ ایسے کارندے آتے ہیں کہ آپ ہماری لیبارٹری سے مریضوں کا ٹیسٹ کروائیں تو آپ کو اتنے فیصد اس پر پیسہ ملے گا۔ اب آپ کو ان ڈرگس کی اتنی ضرورت ہے یا نہیں بس وہ لکھ کر دے دی جاتی ہے، ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں آپ کو ٹیسٹ کروانا ہے اگر آپ نے کسی دوسری جگہ سے ٹیسٹ کروایا تو ڈاکٹر اس پر برہم ہو جاتا ہے اور منہ بناتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں کئی ڈاکٹروں کے چپڑاسی وہ ہیں جو ان کے پرائیویٹ کلینک پر کام کرتے ہیں جو آپ کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ آپ ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک پر آئیں جہاں پر ڈاکٹر صحیح چیک اپ کرے گا۔ ورنہ سرکاری اسپتال میں کئی ڈاکٹر اپنا رویہ اتنا روکھا رکھتے ہیں کہ مریض کا مرض بڑھ جاتا ہے جو دوائی لکھ کر دی جاتی ہے وہ نہیں ملتی مجبوراً آپ کو پرائیویٹ میڈیکل اسٹور سے دوائی خریدنی پڑتی ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو سرکاری ادویات خریدنے پر کمیشن لیتے ہیں اور انسانوں کے لیے یا تو کم معیار کی ڈرگس خریدتے ہیں یا پھر کچھ انھیں چھوٹے ناموں سے پرائیویٹ اسٹورز پر بھیجتے ہیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہاؤس آفیسرز کی یونین کے لوگ لوکل پرچیز کی پرچیاں بنوا کر دوائیاں خرید کر انھیں آدھی قیمت پر واپس بیچتے تھے پھر ان پیسوں سے اپنی عیاشی کا سامان خریدتے تھے۔ ایک ڈاکٹر جو ابھی ہاؤس جاب کرتا تھا اسے غریبوں سے پیار ہونے کا دعویٰ ہوتا تھا مگر جب وہ خود ڈاکٹر بن کر کسی اسپتال میں آئے اور مجھے معلوم ہوا تو میں ان سے ملنے گیا۔ جب تک وہ آئے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ اب وہ پیسے کے لیے سب کچھ کرتا ہے اور لڑائی جھگڑے والے کیسز میں پیسے اپنی مرضی کے لیتا ہے۔ اگر جھگڑے والی کوئی پارٹی اسے زیادہ پیسے دینے کے لیے تیار ہوتی ہے تو وہ جان بوجھ کر بھی ان کی انگلیاں تڑوا کر کیس بنا لیتا ہے۔ جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے یار! پیسہ ہی سب کچھ ہے ورنہ معاشرے میں گاڑی، بنگلے اور ضرورت کی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس کے علاوہ کچھ پیرامیڈیکل اسٹاف میں ایسے بھی لوگ تھے کہ وہ مہنگی دوائیں انجکشن کی صورت میں ہوتی تھیں وہ باہر جا کر پرائیویٹ میڈیکل اسٹور پر بیچ آتے تھے اور اس کے بجائے پانی والی انجکشن لگاتے تھے۔ پھر ان پیسوں سے اپنی محبوباؤں کے لیے کڑاہی گوشت اور کپڑے خریدتے تھے۔ جب کسی مریض کی مرہم پٹی کرتے تھے تو ان سے پیسے لیتے تھے اگر کوئی غریب دس بیس نہیں دے رہا تو اس کی پٹی اتنی زور سے اتارتے کہ اس کی چیخ نکل جاتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک مریض کا آپریشن ہونا تھا جس کے لیے الگ ٹینکیشن نے مریض کے لوگوں سے کہا کہ مریض کی آنتیں ختم ہو گئی ہیں اس لیے ایک بکرا لے آؤ اس کی آنتیں مریض کو ڈالیں گے اور پھر جب بکرا آیا تو وہ اس نے آپریشن تھیٹر کی کھڑکی سے باہر نکال کر گھر بھجوا دیا۔
اب آپ ملک کے کسی بھی شہر جائیں آپ کو پرائیویٹ اسپتالوں کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا اور یہ میڈیکل سینٹرز زیادہ تر ڈاکٹرز کے ہیں۔ ذرا سوچیے! یہ کیوں ایسا ہوتا ہے اس لیے کہ ان میں زیادہ تر ڈاکٹرز کی تعداد بڑے لوگوں کے بچوں کی ہے جو انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے نہیں آتے بلکہ پیسہ بنانے آتے ہیں۔ کئی لوگوں نے یہ کہا کہ انھوں نے اپنے بچوں پر پیسہ اس لیے خرچ نہیں کیا کہ وہ تھوڑی سی تنخواہ لیں اور مفت میں لوگوں کی خدمت کریں۔ یہ وہ ڈاکٹرز ہیں جن کے والدین نے پیسے خرچ کر کے انٹرسائنس میں کاپی کروائی، چیٹنگ کا بندوبست کیا اور انھیں اچھے نمبر دلوانے کے لیے امتحانی پرچوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ اس کے علاوہ انھیں مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے جس کی وجہ سے ان میں انسانیت کے لیے محبت اور احساس پیدا نہیں ہو سکا۔
حال ہی میں ایک سرکاری اسپتال میں جانا ہوا جہاں پر بڑے ڈاکٹرز کا ملنا ایک معجزہ ہوتا تھا کیونکہ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ کا ایڈمنسٹریٹر بھی ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس وقت مریضوں کو دیکھتے ہیں جب وہ کافی تعداد میں جمع ہو جائیں اور وہ وقت دوپہر 1 بجے کا ہوتا تھا جب کہ مریض صبح 8 بجے آ کر ٹوکن لینے کے لیے لائن میں کھڑے ہو جاتے تھے جن میں کئی مریض بوڑھے، کمزور اور معذور ہوتے تھے۔ اب مختلف مراحل میں سے گزر کر جب وہ اسپیشلسٹ کے پاس پہنچے تو اس وقت 11 بج جاتے تھے اور دو گھنٹوں کے انتظار کے بعد کبھی کبھی معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹر کا مہمان آیا ہوا ہے اس کے جانے کے بعد وہ مریضوں کو دیکھیں گے۔ اس کے علاوہ معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹر کو میٹنگ میں جانا ہے، انھیں میڈیکل اسٹوڈنٹس کو لیکچر دینا ہے، ڈرگ کمپنیوں کی طرف سے کانفرنس ہے، کبھی وہ ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں، کئی مرتبہ یہ بھی ہوا کہ آج ڈاکٹر نے فون کیا ہے کہ وہ آج نہیں آئیں گے۔ اب آپ یہ اندازہ لگائیں کہ مریض نہ صرف کراچی سے بلکہ بلوچستان، اندرون سندھ سے بھی آتے ہیں۔
حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے کہ اسپتالوں کا معائنہ کیوں نہیں ہوتا، منسٹر حضرات اپنا وزٹ کا پروگرام اس وقت کرتے ہیں جب ان کا شیڈول بنتا ہے جو اسپتال کی انتظامیہ کو بھیجا جاتا ہے تا کہ وہ اپنا بندوبست کریں اور صرف اپنی پسند کے لوگ بلائیں۔ اس میں خاص طور پر اندرون سندھ کے وزٹ کے لیے ڈی سی صحت کے اداروں کی مدد سے بڑا انتظام کرتا ہے اور ہر چیز کو بہتر بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ اس وقت مریضوں کو ان کے Attendants کو باہر دور نکال دیا جاتا ہے اور ہر طرف صفائی کروائی جاتی ہے جب کہ عام دنوں میں وارڈ میں اور لیٹرین میں اتنی بدبو ہوتی ہے کہ مریض کا سانس رک جاتا ہے۔ Basic Health Units میں ڈاکٹرز اور دوسرا عملہ آپ کو اگر نظر آ بھی جائے تو دوائیاں اور صحت کے آلات یا تو نہیں ملیں گے یا پھر خراب حالت میں ہوں گے۔
غریب لوگ Quacks کے پاس جاتے ہیں جو انھیں سستی Treatment دیتے ہیں جس میں ان کی اہم دوا ڈرپ اور انجکشن لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت کے مارے تعویذ لکھوانے والوں کے پاس جاتے ہیں جہاں انھیں دس روپے سے لے کر پچاس روپے تک کام ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے گاؤں میں ہوتا ہے جہاں سواری پر جانا نہیں ہوتا اور پھر وہ ادھار پر بھی کام کرتے ہیں۔ غریب لوگ ڈاکٹرز کی بھاری فیس، مہنگی دوائیں اور سواری کے لیے گاڑی کہاں سے لائیں۔ سیاسی لیڈرز کو اپنے ضمیر کو جگانا چاہیے اور مفلس لوگوں کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔