کوچۂ سخن
غزل
بچ کے چلنا کہ کم آگاہ بہت پھرتے ہیں
سیدھے رستے پہ بھی گمراہ بہت پھرتے ہیں
رات بھر شہر کی خاموش گزر گاہوں پر
مہ و انجم مرے ہمراہ بہت پھرتے ہیں
کس کی قسمت میں ہو جانے وہ دعا جیسا شخص
لوگ درگاہ بہ درگاہ بہت پھرتے ہیں
اِن دنوںسنتے ہیں وہ گھر سے نکلتا ہے بہت
اِن دنوں ہم بھی سرِ راہ بہت پھرتے ہیں
آسماں والے! مجھے اپنی نظر میں رکھنا
اس زمیں پر مرے بد خواہ بہت پھرتے ہیں
( عقیل شاہ۔راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
رنگ موسم کے چرانے کا ہنر آتا ہے
اس کو ہر دل کو لبھانے کا ہنر آتا ہے
آنکھیں پڑھنے میں وہ فنکار بنا پھرتا ہے
اور مجھے خواب چھپانے کا ہنر آتا ہے
مجھ سے ناچیز پہ کھَلتی ہے مری بے ہنری
اس کو ہر ایک زمانے کا ہنر آتا ہے
میں زمیں زاد یہیں شاد ہوں لیکن اس کو
چاند کی سیر کرانے کا ہنر آتا ہے
مجھ کو آتا ہی نہیں شکوے شکایت کرنا
اور اسے خوب ستانے کا ہنر آتا ہے
میری نظروں میں وہ معصوم ہے جیسے کل تھا
جس کو دیوانہ بنانے کا ہنر آتا ہے
نظر انداز اسے کیسے کروں گا عامرؔ
جس کو ہر بات منانے کا ہنر آتا ہے
(عامر خان۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
ہونٹوں پر صحرا رہتا ہے آنکھ میں کھارا پانی
ایک کنارا آگ ہے میرا ایک کنارا پانی
سو کھے پیڑ اور پیاسی آنکھیں آسمان کو دیکھیں
مٹی میں جا کر چھپ بیٹھا ، دھوپ کا مارا پانی
چاک کی اس گردش نے ماہ و سال لپیٹ لیے
کوزہ گر کی ساری پونجی مٹی، گارا، پانی
آنکھ کے بہتے اشکوں سے ہی پیاس بجھانی ہوگی
ہجر کے تپتے صحرا میں ہے صرف سہار ا پانی
کون گلی سے گزروں اور میں کیسے تجھ تک آؤں
بستی ساری دلدل ہے اور رستہ سارا پانی
صحرا کو ہے یاد ابھی تک پیاس کی فتحِ کامل
ظلم کو کیسے مات ہوئی اور کیسے ہارا پانی
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
ہم سے بے وجہ الجھنا نہیں آساں ! سُن لے
ہار جائے گا تُو اے دشمنِ ناداں ! سُن لے
بے خبر ہے مری تاریخ کے روز و شب سے
عزم و ہمت سے عبارت ہیں یہ عنواں! سن لے
آگ کشمیر کی پھیلے گی ترے شہروں تک
خانہ جنگی تجھے کر دے گی پریشاں! سن لے
امن خوشحالی کا امکان بڑھا دیتا ہے
راہیں جنگوں کی نہیں ہوتی ہیں آساں! سن لے
ڈرنے والے نہیں اعظمؔ مری دھرتی کے سپوت
تیری تقدیر میں ہے رہنا ہراساں ! سن لے
(اعظم شاہد منڈی بہاؤالدین)
۔۔۔
غزل
نفیس لہجے عمیق زخموں سے جا ملیں گے
فلک نسب بھی علیل شجروں سے جا ملیں گے
کئی برس بعد ہم ملیں گے اُسی طرح سے
نئے رویے پرانے لہجوں سے جا ملیں گے
سمندروں کے سفر پہ نکلے تو لوٹنا کیا
سفینے جلد اب فنا کے رستوں سے جا ملیں گے
ہرن کے سینے سے نکلی دلدوز چیخ سن کر
شکاریوں کے چلن درندوں سے جا ملیں گے
ہماری گھٹی میں پیار بویا گیا تھا سو ہم
وفا نبھائیں گے اپنے پرکھوں سے جا ملیں گے
تو کیا ہوا گر ہماری پلکوں پہ شب دھری ہے
ملیں گے جلد ان سے، سات رنگوں سے جا ملیں گے
بھرے ہوئے ہیں عناد بغض اور ہوس سے اتنے
کچھ آدمی جلد اپنے کتبوں سے جا ملیں گے
دہن کو لکنت لپیٹ لے گی طویل چپ کی
لہو میں بنتے فشار لفظوں سے جا ملیں گے
دبیز پوریں سمیٹ لیں گی تمام گھاؤ
اداس آنسو گداز پلکوں سے جا ملیں گے
چلیں گے اک دن اسی سڑک پر جہاں ملے تھے
لپٹ کے رونے ہم ان درختوں سے جا ملیں گے
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
میں سمجھتا تھا در و بام کہاں بولتے ہیں
پھر ترے بعد کُھلا مجھ پہ کہ ہاں! بولتے ہیں
یہ جو دبتی ہے مرے شور میں آواز مری
میری ہستی میں کہیں کارِ زیاں بولتے ہیں
اس جہاں کے مُتَوازی بھی جہاں ہے کوئی
جو یہاں بول نہیں پاتے وہاں بولتے ہیں
اک زمانے کو بیاں کرتے ہیں لفظوں کے بغیر
مجھ سخن ساز سے بہتر تو نشاں بولتے ہیں
دیکھ! اک دوجے سے ٹکرانے لگیں آوازیں
اتنا بے ڈھنگ ترے لوگ یہاں بولتے ہیں
اک خلا ہے جو صداؤں کو نگل جاتا ہے
کوئی سن ہی نہیں پاتا جو مکاں بولتے ہیں
متصل اس کے لبوں سے ہے یہ کارِ آواز
وہ اگر ہل نہ سکیں ہم بھی کہاں بولتے ہیں
آگ روتی ہے تو ہم کو بھی رلا دیتی ہے
یہ تو آنسو ہیں جنہیں لوگ دھواں بولتے ہیں
(عقیل عباس چغتائی ۔گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
بادہ و جام کی ضرورت ہے
ہم کو آرام کی ضرورت ہے
میرے نزدیک آرہا ہے کون؟
کس کو آلام کی ضرورت ہے
سوچ میں گم پڑا ہے اک شاعر
صرف الہام کی ضرورت ہے
قافلہ رک گیا ہے یادوں کا
اب فقط شام کی ضرورت ہے
وجد مستوں پہ طاری ہونا ہے
بس ترے نام کی ضرورت ہے
زرد چہروں کے اِس نگر کو اویس
کسی گلفام کی ضرورت ہے
(اویس قرنی۔ بنوں)
۔۔۔
غزل
کل رات میں نے خواب جو دیکھا نیا نیا
پھرتا تھا میری آنکھ میں چہرہ نیا نیا
اپنی وہ حد کو چھوڑ کے باہر نکل گیا
ملتا ہے جس بھی شخص کو رتبہ نیا نیا
تو نے تو پھر غریب کو سمجھا ہی کچھ نہیں
آیا جو تیرے ہاتھ میں پیسہ نیا نیا
اک بار منزلوں کی تڑپ جس کو لگ گئی
کر لے گا پھر تلاش وہ رستہ نیا نیا
اندر ترے یہ آگ لگا دے گا دیکھنا
تو نے لباس عشق جو پہنا نیا نیا
اس پر کھلا یہ رازِ محبت نہیں یہاں
جو بھی تمہارے شہر میں ٹھہرا نیا نیا
تو ہی بتا کہ کیسے کروں اعتبار اب
کرتا ہے روز روز تو وعدہ نیا نیا
شہباز ؔمیری آنکھ سے آنسو نکل پڑے
غم میں کسی نے ہاتھ جو تھاما نیا نیا
(شہبازماہی۔ رینالہ خورد، اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
وہ ہے محتاط آہستہ آہستہ کھلے گا
زمانوں بعد شاید کوئی مژدہ کھلے گا
یہی ہے فلسفہ زندگی کی کشمکش کا
ملے اک باب گر بند تو دوجا کھلے گا
پذیرائی نئے لہجوں کی ہونے لگی ہے
توقع ہے سخن میں نیا رستہ کھلے گا
اگر کھولا نہیں جاتا ہے دیواروں میں در
کسی آتش فشاں کا دہانہ آ کھلے گا
نشاں جائے وقوعہ پہ قاتل چھوڑ جائے
کھلے گا ایک دن قتل کا عقدہ کھلے گا
ولی کب تک رہیں گی یہ خوشبوئیں مقیّد
زمانے بھر پہ وہ انجمن آرا کھلے گا
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)
۔۔۔
غزل
دل کی دہلیز پر نہیں آنا
یاد سے بھی ادھر نہیں آنا
جا رہے ہیں تمہاری زندگی سے
اب ہمیں لوٹ کر نہیں آنا
شب کی شب دشت پار کرنا ہے
راستے میں شجر نہیں آنا
یوں نہ ہو اٹھ کے بیٹھ جاؤں میں
میری تدفین پر نہیں آنا
مجھ کو درپیش ہے اجل کا سفر
ساتھ اک ہمسفر نہیں آنا
دائرے سے نکل گئے عاشرؔ
ہم نے واپس ادھر نہیں آنا
(راشد خان عاشر۔ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
مجھے زندگی سے نجات دے مری زندگی سے بنی نہیں
وہی تِیرگی مجھے پھر سے دے مری روشنی سے بنی نہیں
مری بات سن مرے کوزہ گر! ترے چاک پر ہے جو زندگی
اسے پھر بنا اسے توڑ دے کہ یہ عمدگی سے بنی نہیں
مجھے عشق تھا تری ذات سے تجھے کام تھا مرے نام سے
کبھی لازوال کی دہر میں کسی عارضی سے بنی نہیں
یہ درخت پھول یہ وادیاں یہ پہاڑ کھیت یہ لڑکیاں
مری خوش دلی کا جواز ہیں مری بے دلی سے بنی نہیں
مجھے آب و خاک سے ماورا کسی اور ہی کی تلاش تھی
کسی ماہ رو، کسی گل بدن کسی جل پری سے بنی نہیں
میں بہت عجیب و غریب ہوں، مجھے آپ اپنی نہیں خبر
کبھی عاشقی کا جنون ہے کبھی عاشقی سے بنی نہیں
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی