مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو دہرا دیا
ریسکیو ادارے جب پہنچے تو دیواریں توڑنے کا خیال دیر سے آیا
مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو دہرا دیا، دونوں واقعات میں فیکٹریاں موت کا پنجرہ ثابت ہوئیں جس میں رہی سہی کسر ریسکیو اداروں کی ناقص حکمت عملی نے پوری کر دی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کورنگی مہران ٹاؤن کے رہائشی علاقے سیکٹر سی ایف پلاٹ نمبر سی 40 پر قائم بی ایم لگیج انڈسٹری اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے واقعات میں گہری مماثلت سامنے آئی ہے۔
مہران ٹاؤن فیکٹری میں بھی آنے اور جانے کا راستہ ایک ہی تھا، کھڑکیوں پر لوہے کی گرل موجود تھی جبکہ چھت کے دروازے پر بھی تالہ لگا تھا، کوئی ہنگامی راستہ نہیں بنایا گیا تھا اسی لیے جب پہلی منزل پر کام کرنے والے آگ لگنے کے باعث نیچے نہیں بھاگ سکے تو انھیں چھت پر جانے والا راستہ بھی بند ملا۔
یہی کچھ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں بھی ہوا تھا جس میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، اس پر ستم یہ ہوا کہ ریسکیو ادارے جب پہنچے تو دیواریں توڑنے کا خیال دیر سے آیا۔
بلدیہ ٹاؤن واقعے میں تو ایسی کوشش ہی نہیں کی گئی حالانکہ دونوں واقعات میں بروقت ریسکیو اور دیواریں توڑنے کا کام کرلیا جاتا تو ممکن تھا کہ انسانی جانوں کے ضیاع کو کم جاسکتا، یہاں پر ریسکیو اداروں کے افسران کی قوت فیصلہ کا فقدان ہی نظر نہیں آیا بلکہ مشینری نہ ہونے کا معاملہ بھی ایک بڑی غفلت کے طور پر سامنے آیا۔
مہران ٹاؤن میں قانون کی دھجیاں بکھیرتی اور بھی فیکٹریز ہیں
مہران ٹاؤن میں آتشزدگی کا شکار بننے والی ''بی ایم لگیج'' اکیلی فیکٹری نہیں جہاں قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں بلکہ پڑوس اور اطراف میں موجود تمام فیکٹریوں کا حال کچھ ایسا ہی ہے، بیشتر فیکٹریوں میں ہوا کے گزر کے لیے بنائی گئی کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط جالیاں نصب ہیں، ہنگامی راستے تو دور کی بات داخلی اور خارجی راستہ بھی ایک ہی ہے، یعنی ان فیکٹریوں میں خدانخواستہ آگ لگی تو یہ بھی موت کا پنجرہ ثابت ہوں گی جب کہ بعض فیکٹریوں میں تو کھڑکیوں پر اینٹیں تک چن دی گئی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کورنگی مہران ٹاؤن کے رہائشی علاقے سیکٹر سی ایف پلاٹ نمبر سی 40 پر قائم بی ایم لگیج انڈسٹری اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے واقعات میں گہری مماثلت سامنے آئی ہے۔
مہران ٹاؤن فیکٹری میں بھی آنے اور جانے کا راستہ ایک ہی تھا، کھڑکیوں پر لوہے کی گرل موجود تھی جبکہ چھت کے دروازے پر بھی تالہ لگا تھا، کوئی ہنگامی راستہ نہیں بنایا گیا تھا اسی لیے جب پہلی منزل پر کام کرنے والے آگ لگنے کے باعث نیچے نہیں بھاگ سکے تو انھیں چھت پر جانے والا راستہ بھی بند ملا۔
یہی کچھ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں بھی ہوا تھا جس میں 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، اس پر ستم یہ ہوا کہ ریسکیو ادارے جب پہنچے تو دیواریں توڑنے کا خیال دیر سے آیا۔
بلدیہ ٹاؤن واقعے میں تو ایسی کوشش ہی نہیں کی گئی حالانکہ دونوں واقعات میں بروقت ریسکیو اور دیواریں توڑنے کا کام کرلیا جاتا تو ممکن تھا کہ انسانی جانوں کے ضیاع کو کم جاسکتا، یہاں پر ریسکیو اداروں کے افسران کی قوت فیصلہ کا فقدان ہی نظر نہیں آیا بلکہ مشینری نہ ہونے کا معاملہ بھی ایک بڑی غفلت کے طور پر سامنے آیا۔
مہران ٹاؤن میں قانون کی دھجیاں بکھیرتی اور بھی فیکٹریز ہیں
مہران ٹاؤن میں آتشزدگی کا شکار بننے والی ''بی ایم لگیج'' اکیلی فیکٹری نہیں جہاں قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں بلکہ پڑوس اور اطراف میں موجود تمام فیکٹریوں کا حال کچھ ایسا ہی ہے، بیشتر فیکٹریوں میں ہوا کے گزر کے لیے بنائی گئی کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط جالیاں نصب ہیں، ہنگامی راستے تو دور کی بات داخلی اور خارجی راستہ بھی ایک ہی ہے، یعنی ان فیکٹریوں میں خدانخواستہ آگ لگی تو یہ بھی موت کا پنجرہ ثابت ہوں گی جب کہ بعض فیکٹریوں میں تو کھڑکیوں پر اینٹیں تک چن دی گئی ہیں۔