سرکاری افسران اور ججز کو دوسرے پلاٹ کی الاٹمنٹ غیر قانونی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ

سول سرونٹس کو دوسرا پلاٹ ملنا ریاست کے برابری کے بنیادی اصول سے انحراف ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ


ویب ڈیسک August 28, 2021
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ امتیازی سلوک کے تصور کو زائل کرے، ہائی کورٹ فوٹو: فائل

ہائی کورٹ نے گریڈ 22 کے افسران اور اعلی عدلیہ کے ججز کو دوسرا پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی غیر قانونی قرار دی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیوروکریٹس کو دوسرے پلاٹ کی الاٹمنٹ کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، 24 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے جاری کیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اعلی عدلیہ کے ججز اور سول سرونٹس کو دوسرا پلاٹ الاٹ کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں، عدالت کے سامنے نشاندہی کی گئی کہ اعلی عدلیہ کے ججز وہی مراعات لے سکتے ہیں جو ان کے لیے قانون میں مقرر ہیں، ججز کو پلاٹس کی الاٹمنٹ سے متعلق آئین کا آرٹیکل 205 اور صدارتی آرڈر 1997 خاموش ہے۔ گریڈ 22 کے افسران اور اعلی عدلیہ کے ججز کو دوسرا پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی غیر قانونی ہے، حکومت اگر ججز اور سول سرونٹس کو اضافی پلاٹ دینا چاہتی ہے تو پہلے قانون سازی کرے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، ہاؤسنگ اور قانون و انصاف کے سیکریٹریز یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے رکھیں، وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق اس معاملے کا جائزہ لیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ قانون نا ہونے کے باوجود سول سرونٹس کو دوسرا پلاٹ ملنا ریاست کے برابری کے بنیادی اصول سے انحراف ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان امتیازی سلوک کے تصور کو زائل کرے، ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں سمیت دیگر شہریوں کو آئین کے مطابق برابر کے حقوق دے، توقع ہے وفاقی حکومت اور وزیراعظم امتیازی سلوک کے بغیر قانون سازی کے ذریعے قانون کا صحیح نفاذ کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں