مغلیہ عہد کی سرائے عالمگیر

سرائے عالمگیر کو شیرشاہ سوری کی بنائی گئی جرنیلی سڑک کے قریب بنایا گیا۔

سرائے عالمگیر کی تاریخ تقریباً 416 سال پرانی ہے۔ اس وقت برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا چھٹا طاقتور بادشاہ اورنگزیب عالمگیر حکمران تھا ، وہ سرحد کے قبائل کی بغاوت کچلنے کی غرض سے حسن ابدال میں 1672سے 1675 تک قیام پذیر رہا ،اسی دوران دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر اس نے ایک سرائے بنوائی جس کا نام سرائے عالمگیر پڑ گیا۔

اس وقت آئے ہوئے مسافروں کے لیے ایک ڈاک بنگلہ تھا۔ یہاں مسافر، سفر کی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے آرام کیا کرتے۔ اورنگزیب عالمگیر نے سرائے میں پانی پینے کے لیے کنواں، عبادت کے لیے مسجد بھی تعمیر کروائی، سایہ دار درخت لگوائے، وقت کے ساتھ مسجد منہدم ہوچکی ہے اور درخت بھی موجود نہیں ہیں۔

سرائے عالمگیر کو شیرشاہ سوری کی بنائی گئی جرنیلی سڑک کے قریب بنایا گیا ،اسی لیے یہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی اور اس علاقے کی اہمیت بڑھتی گئی اور اس سرائے کے قرب و جوار میں گھروں کی تعمیر کی گئی۔ آہستہ آہستہ اس نے ایک قصبے کی شکل اختیار کرلی اور اس جگہ کو سرائے عالمگیر کہنا شروع کردیا۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے اورنگزیب عالمگیر ایسا مغل بادشاہ تھا جوسلطنت کے خزانے کو عوام کی ملکیت سمجھتا تھا۔ ذرا بھی خرد برد کی نہ اپنے دور اقتدار میں کی اس نے تمام بادشاہوں سے زیادہ پچاس برس حکومت کی 89 سال کی عمر میں وفات پائی۔ 20 فروری 1697 کو جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد وظائف میں مصروف تھا کہ آخری وقت آن پہنچا، مرنے سے پہلے وصیت کی چار روپے 2 آنے جوکہ ٹوپیوں کی سلائی کی مزدوری سے بچے ہیں غربا میں بطور صدقہ تقسیم کیے جائیں۔ اس کے جسد خاکی کو خواجہ برہان الدین غریبؒ کے پائیں میں دفن کیا جائے اوراوپر کوئی پختہ قبر یا مقبرہ نہ بنایا جائے۔

بڑے عالی شان مقبرے، پختہ قبور، سرکاری مال و زر کا زیاں سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے اس کی مرقد نہ صرف پکی بلکہ مقبرہ تک نہیں بنا۔ یہ پہلا واحد بادشاہ ہے جس کی قبر پر عالی شان مقبرہ نہیں۔ یہ حقیقت ہے برصغیر میں اورنگزیب عالمگیر کے عہد حکومت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، وہ نصف صدی تک ایک وسیع و عریض سلطنت کا مطلق العنان بادشاہ رہا۔ غزنی سے لے کر چاٹگام اور کشمیر سے لے کر، کرناٹک اسی کے نام کا سکہ چلتا تھا۔

اتنے طویل عرصے تک اتنی بڑی سلطنت پر اس سے پہلے برصغیر کے کسی بادشاہ نے حکومت نہیں کی اور نہ ہی اس کے بعد یہ برصغیر میں اسلام کی آخری پیش قدمی تھی۔ مغل حکومت اوج کمال کو پہنچ گئی، اس کے علاوہ اسی عہد میں ایسی اقوام (مرہٹے، سکھ، انگریز) کا ظہور ہونے لگا جنھوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال میں نمایاں حصہ لیا۔


مورخ اس امر کا بھی ذکر کرے گا کہ اس سرزمین پر ایسے حکمران پیدا ہوئے جنھوں نے ملکی خزانہ لوٹا اپنے مال و زر میں اضافے پر اضافہ کرتے رہے۔ اپنے خاندان کو پروان چڑھایا، ملک میں غربت بڑھتی رہی، رشوت ستانی، لوٹ مار عام ہوتی چلی گئی۔ آبادی کے ساتھ بے روزگاری بھی بڑھتی رہی۔ اسی برصغیر میں ایک شیرشاہ سوری آیا تھا جس نے اپنے عہد حکومت صرف پانچ سال میں رعیت کے لیے وہ کچھ کردیا جس کی مثال تاریخ میں مورخین نے دی ہے۔

تحصیل سرائے عالمگیر تو یہ صوبہ پنجاب کی ماجھا خطہ میں ہے اور چھچ دوآبہ میں آتا ہے۔ دوآبہ سے مراد دریائے چناب اور دریائے جہلم کے درمیان کا علاقہ ہے۔ سرائے عالمگیر کے مغرب میں ضلع جہلم، مشرق میں تحصیل کھاریاں، شمال میں آزاد جموں کشمیر کا ضلع میرپور اور جنوب میں ضلع منڈی بہاؤالدین کا مشہور قصبہ رسول واقع ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً 763 فٹ ہے یہ شہر پنجاب کے مشہور دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔1992 میں سرائے عالمگیر کو تحصیل کا درجہ دیا گیا۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق اس تحصیل کی مجموعی آبادی 2 لاکھ 47 ہزار 333 افراد پر مشتمل ہے۔ تحصیل عالمگیر کا رقبہ 483.8 کلو میٹر ہے۔ یہ ضلع گجرات کی چار تحصیلوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پنجابی زبان کا ماجھی لہجہ بولا جاتا ہے ۔ پنجابی زبان شاہ مکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگلش ہے۔ سرائے عالمگیر کے لوگ اپنے آپ کو عالمگیر یا عالمگیر یہ کہلانا پسند کرتے ہیں خوش اخلاق مہمان نواز ہیں۔

شہر سرائے عالمگیر دارالحکومت اسلام آباد سے 123 کلو میٹر، صوبائی دارالحکومت لاہور سے 188 کلو میٹر، ضلعی ہیڈ کوارٹر گجرات سے 52 کلو میٹر، آزاد جموں کشمیر میرپور سے 40 کلو میٹر اور کراچی سے 1324 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تعلیم کے میدان میں سرائے عالمگیر کا ایک علیحدہ مقام ہے۔ اس شہر میں بہترین اسکولز اور کالجز موجود ہیں۔

1974 میں سرائے عالمگیر کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ 1992 میں ضلع گجرات کی ایک تحصیل بنا دیا۔ 2001 میں اے ٹی ایم یعنی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریٹر کا درجہ دیا گیا۔ سرائے عالمگیر میں 4 قصبے اور گیارہ کے قریب یونین کونسلز ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں۔ پیر کھانا(یونین کونسل شمار107)، باعیسا (یونین کونسل شمار 108)، معصوم پور (یونین کونسل شمار 109)، منڈی بھلوال (یونین کونسل شمار 110)، بھاگ نگر (یونین کونسل شمار 111)، قصبہ کڑیالی (یونین کونسل شمار 112)، کڑیالہ (یونین کونسل شمار 113)، کھامی (یونین کونسل شمار 114)، سملی (یونین کونسل شمار 115)، کھوہاڑ (یونین کونسل نمبر 116) اور گیارہواں ہے یوراں (یونین کونسل شمار 117)۔

شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مغلیہ سلطنت کی سرحدیں برما، ایران، سری لنکا اور چین جیسے ممالک کو چھونے لگی تھیں۔ سلطنت کے تمام خزانے بھرے پڑے تھے اورمسلمان عروج حاصل کررہے تھے۔ صیہونی طاقت کومسلمانوں کا یہ عروج پسند نہ آیا تو انھوں نے سازشوں کے جال بننے شروع کردیے نتیجہ یہ نکلا کہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات 20 فروری1707 کو ہوئی اس کے بعد کوئی مضبوط حکمران نہ آیا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور برصغیر پر مکمل فرنگی راج قائم ہوا، لیکن آج بھی سرائے عالمگیر میں سیکڑوں بار روزانہ عالمگیر کا نام لیا جاتا ہے۔
Load Next Story