افغانستان اور کشمیر

مودی حکومت آر ایس ایس کے آئین کے تحت تمام مسلمانوں کو بھارت سے نکالنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔


عثمان دموہی August 29, 2021
[email protected]

اب یہ بات پوری عالمی برادری سمجھ چکی ہے کہ بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرنے کا بدلہ پاکستان سے افغان سرزمین کو استعمال کرکے لے رہا تھا۔

مسلسل بیس سال تک وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرتا رہا مگر اب طالبان کی حکومت کے وہاں برسر اقتدار آنے کے بعد اسے اس کی اس گھناؤنی کارروائی سے نہ صرف روک دیا گیا ہے بلکہ افغانستان سے نکال باہر کردیا گیا ہے۔

آج کل چونکہ امریکی حکومت پاکستان سے ناراض چل رہی ہے، اس لیے بھارت نے وہاں امریکی حکام کی ملی بھگت اور اپنی زرخرید کٹھ پتلی افغان حکومت کے تعاون سے پاکستانی مغربی سرحد سے ملحق درجنوں نام نہاد قونصل خانے قائم کر رکھے تھے جو دراصل دہشت گردوں کو تربیت دینے کے مراکز تھے۔ یہاں سے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔

پاکستان بھارت کی اس دہشت گردی سے امریکی حکومت کو بار بار آگاہ کرتا رہا اور اس سے ان دہشت گردی کے اڈوں کو بند کرنے کی درخواست کرتا رہا مگر امریکا نے بھارت کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ افغانستان میں دراصل بھارت کا اتنا عمل دخل بڑھ گیا تھا کہ کرزئی کے بعد اشرف غنی بھی اسی کے اشاروں پر چلتے رہے اور پاکستان کے خلاف بھارت کی دہشت گردی میں برابر کے شریک رہے۔

وہ رات دن پاکستان کی مخالفت کرنے میں گزارتے رہے۔ کوئی عالمی کانفرنس ہو یا اقوام متحدہ کا اجلاس وہ کھل کر پاکستان کے خلاف زہر اگلتے اور بھارت کے بجائے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیتے، وہ افغانستان کی مخدوش حالت کا ذمے دار بھی پاکستان کو قرار دیتے۔

اب طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد بھارتی حکمرانوں کا پریشان ہونا لازمی امر ہے کیوں کہ اب وہ افغانستان کو اپنے مفاد میں اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روک دیے گئے ہیں، اگر بھارت شروع سے طالبان کے خلاف تھا تو طالبان بھی بھارت کی افغان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے۔

اس وقت بھارتی حکمران طالبان کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے کے بعد طالبان کے خلاف مسلسل بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ساتھ ہی طالبان کا ہمدرد اور مربی قرار دے کر پاکستان کے خلاف بھی زہریلا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ بھارت پنج شیر وادی میں موجود طالبان مخالف محاذ کی نہ صرف حمایت کر رہا ہے بلکہ اسلحہ اور غذائی اشیا مہیا کر رہا ہے۔

تاجکستان میں موجود بھارت کا لیز پر لیا ہوا فارخور ہوائی اڈہ دراصل پاکستان اور افغانستان کے لیے خطرے کی علامت بن چکا ہے چنانچہ پاکستان کو روس سے اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ہوائی اڈے سے فوراً بھارت کو بے دخل کرایا جائے، اگر کبھی پاک بھارت جنگ چھڑی تو یہ ہوائی اڈہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہماری سابقہ حکومتوں نے اس جانب توجہ نہیں دی مگر اب عمران خان کی حکومت کو اس ہوائی اڈے سے بھارتی قبضہ ختم کرانے پر فوری توجہ دینا چاہیے۔

گوکہ طالبان نے اب بھارت کی جانب سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے تمام دروازے بند کردیے ہیں، مگر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی پاکستان کے خلاف سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں چنانچہ حکومت پاکستان نے طالبان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔ طالبان نے اس سلسلے میں ایک تین رکنی کمیٹی بنادی ہے اور پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ جلد ہی تمام ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو تلاش کرکے اس کے حوالے کردیں گے۔

حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار طالبان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں وہ بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے شروع سے خلاف تھے۔ اب انھوں نے کھل کر مودی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کرزئی اور اشرف غنی کے تعاون سے پاکستان مخالف جو سرگرمیاں افغانستان سے کرتی رہی ہے اب ان سے باز آجائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد کا بدلہ پاکستان سے افغان سرزمین کو استعمال کرکے لینے کا وقت اب نکل گیا اب اسے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے اپنے ملک کے بگڑے ہوئے حالات پر توجہ دینا چاہیے۔

گزشتہ دنوں روس کے صدر پیوٹن نے بھی مودی کو فون کیا ہے لگتا ہے انھوں نے بھی مودی کو افغان معاملات میں مداخلت کرنے سے باز رہنے اور اپنے ملک کے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینے کی تلقین کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا حال بہت برا ہے۔ کورونا سے پورا بھارت متاثر ہے۔ اب تک کئی لاکھ لوگ اس بیماری سے مر چکے ہیں مگر مودی کو اپنے عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔

ملک کی معیشت تنزلی کی جانب گامزن ہے،گاؤں دیہاتوں میں آباد لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ غربت کا یہ حال ہے کہ مرنے والوں کو آگ میں جلانے کے لیے ان میں لکڑی خریدنے کی بھی استطاعت نہیں ہے۔ کسانوں کا برا حال ہے ان کی حالت کو درست کرنے کے بجائے زرعی پیداوار پر نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ کسان اپنے مطالبات منوانے کے لیے تقریباً ایک سال سے مسلسل مظاہرہ کر رہے ہیں مگر مودی حکومت ان کے مسائل پر غور کرنے کے بجائے ان پر تشدد کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

مودی کے دور میں اقلیتوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، مودی حکومت آر ایس ایس کے آئین کے تحت تمام مسلمانوں کو بھارت سے نکالنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ مودی نے مقبوضہ جموں کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لیے بھارتی آئین کی دھجیاں بکھیر کر آئین کی شق 370 اور 35A کو ختم کردیا ہے۔ پانچ اگست 2019 سے آج تک کشمیری عوام مسلسل حبس بے جا میں رہ رہے ہیں۔ مودی کی اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف بھارت نواز کشمیری لیڈر بھی بھارت کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے چینی حکومت سے مدد مانگ رہے ہیں۔

آسام پنجاب اور جنوبی بھارت میں بھارت سے آزاد ہونے کی تحاریک عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ بھارت نواز کشمیری لیڈر فاروق عبداللہ کے بعد اب محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں مودی کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کو مزید امتحان میں ڈالنے کے بجائے افغانستان سے سبق لے اور کشمیریوں پر ظلم و ستم سے باز آجائے، جب طالبان امریکا جیسی بڑی طاقت کو افغانستان سے نکال باہر کرسکتے ہیں تو کشمیریوں کو بھی کمزور نہ سمجھا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں