ہر عروجِ را زوال
سلطنت عثمانیہ جس نے چھ سو سال تین برّ ِاعظموں پر حکومت کی، وہ آج صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نظر آتی ہے۔
ابتدائے آفرینش سے دور ِ حاضر تک کتنے ہی حکمران اورشہ زور خدا کی اس سرزمین پر اُترے اور چلے گئے لیکن کوئی مستقل نہ ٹھہرا۔ وہ آتے اور جاتے رہے کیونکہ ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں اور پھر ہر عروج ِرا زوال بھی ہے ۔
دُور کیوں جائیے سولہویں، سترویں صدی کی سلطنت عثمانیہ جس نے چھ سو سال تین برّ ِاعظموں پر حکومت کی، وہ آج صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نظر آتی ہے۔ یہی حقیقت بیان کرتا ہے کہ ہر عروج کو آخرمیں زوال لازم ہے ۔ وہ لوگ جو اپنی دولت اور طاقت پر اتراتے ہیں انھیں خدا کی لاٹھی کو جو بے آواز ہے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے جو ہوتی تو بے آواز ہے لیکن محاسبے کے دوران جلا کر خاک کر دیتی ہے۔
ذِکر تھا محاسبے کا ، جس سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے اتفاق سے مولانا روم کے شہر قونیا کے علاوہ استنبول میں مصطفیٰ کمال پاشا کی آرام گاہ دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے جہاں کا میوزیم عروج و زوال کی تاریخ کا شاہد ہے کہ بے آباد علاقوں کو تاریخ کے دھاروں سے گزرنے کے بعد کتنا عروج ملا اور پھر زوال کے بعد دُنیا کے تین براعظموں پر حکومت کرنے والے صرف ایک ملک تک محدود ہو کر رہ گئے اور پھر اگر مصطفیٰ کمال پاشا مسند ِ اقتدار پر نہ بیٹھ جاتا تو شاید آج کا ترکی بھی کسی بڑے ملک کی کالونی ہوتا۔
ذوالفقار علی بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ جس نے تمام مخالف سیاست دانوں کو الیکشن میں شکست دی اور وزیر ِ اعظم کی مسند پر بیٹھ کر دنیا کے بڑے ایوانوں میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے متعدد بار سامعین کو اپنے نقطہ نظر سے مرعوب کیا ۔ UNO میں تقریر کرتے ہوئے سامعین کو اپنے خیالات سے قائل کیا ۔ ایک ایسا لیڈر بن کر اُبھرا جس پر ملک کے لوگ فخر کرتے تھے لیکن اپنی سیاسی غلطی کے باعث جس کا مقصد ہر صورت اقتدار میں رہنا تھا ، اپنے ہی فوجی چیف کی گرفت میں آ کر ایک قتل میں نامزد ہو کر سزایافتہ ہوا۔
اگرچہ اُس کی سیاسی پارٹی اتنی مقبول تھی کہ اس کی بیٹی وزیر ِ اعظم کے منصب پر فائز ہوئی لیکن بھٹو کے دو بیٹے اور وزیراعظم بیٹی قتل ہوئے۔ یہ خدا ہی جانتا ہے کہ اتنے مقبول وزیراعظم کی ساری فیملی یکے بعد دیگرے اس کے قہر کا کیوں شکار ہوئے ۔ شاید آنے والے وقت میں یہ راز کھلے کہ ان کے قاتل کون تھے ۔
تین بار پاکستان کے وزیر ِ اعظم رہنے والے میاں نواز شریف جو ایک کاروباری خاندان سے تھے گورنر جیلانی کی مہربانی سے سیاست میں آئے۔ وزیر ایکسائز و فنانس کا عہدہ پانے کے بعد چیف منسٹر پنجاب بنے، پھر وزیراعظم بنے ،ان کے برادر اصغر بھی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اب ان کی بدقسمتی کہ اعلیٰ عدلیہ میں ان کا کرپشن ٹرائل ہونے کے بعد پھر سزایاب ہوئے۔ اس وقت وہ علاج کے لیے لندن جا کر Convicted absconder ہیں ۔ یہ اقتدار بھی عجب چیز ہے کہ عروج کے بعد زوال میں بھی لے جاتا ہے۔
قصہ پرانا ہے لیکن ہندوستان میں مغلیہ عہد میں ایک سے بڑھ کے ایک مغل بادشاہ اقتدار میں تو آیا ، ان پر فلمیں بھی بنیں اور ان کے عروج کی داستانیں بھی دلنواز ہیں۔ مغلوںکا بیسواں بادشاہ بہادرشاہ ظفر اقتدار میں آیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی بھی انڈیا آ چکی تھی۔ انھوں نے بہادرشاہ ظفر کو ملک بدر کر کے رنگون بھیج دیا۔ وہاں ان کے فوجی نگران نے انھیں ایک کوٹھی کے گیراج میں قید رکھا لیکن بہادر شاہ ظفر ایک قیدی بادشاہ لیکن اعلیٰ پائے کا شاعر تھا ۔ اس کے دو شعر :
لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
دُور کیوں جائیے سولہویں، سترویں صدی کی سلطنت عثمانیہ جس نے چھ سو سال تین برّ ِاعظموں پر حکومت کی، وہ آج صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نظر آتی ہے۔ یہی حقیقت بیان کرتا ہے کہ ہر عروج کو آخرمیں زوال لازم ہے ۔ وہ لوگ جو اپنی دولت اور طاقت پر اتراتے ہیں انھیں خدا کی لاٹھی کو جو بے آواز ہے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے جو ہوتی تو بے آواز ہے لیکن محاسبے کے دوران جلا کر خاک کر دیتی ہے۔
ذِکر تھا محاسبے کا ، جس سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے اتفاق سے مولانا روم کے شہر قونیا کے علاوہ استنبول میں مصطفیٰ کمال پاشا کی آرام گاہ دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے جہاں کا میوزیم عروج و زوال کی تاریخ کا شاہد ہے کہ بے آباد علاقوں کو تاریخ کے دھاروں سے گزرنے کے بعد کتنا عروج ملا اور پھر زوال کے بعد دُنیا کے تین براعظموں پر حکومت کرنے والے صرف ایک ملک تک محدود ہو کر رہ گئے اور پھر اگر مصطفیٰ کمال پاشا مسند ِ اقتدار پر نہ بیٹھ جاتا تو شاید آج کا ترکی بھی کسی بڑے ملک کی کالونی ہوتا۔
ذوالفقار علی بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ جس نے تمام مخالف سیاست دانوں کو الیکشن میں شکست دی اور وزیر ِ اعظم کی مسند پر بیٹھ کر دنیا کے بڑے ایوانوں میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے متعدد بار سامعین کو اپنے نقطہ نظر سے مرعوب کیا ۔ UNO میں تقریر کرتے ہوئے سامعین کو اپنے خیالات سے قائل کیا ۔ ایک ایسا لیڈر بن کر اُبھرا جس پر ملک کے لوگ فخر کرتے تھے لیکن اپنی سیاسی غلطی کے باعث جس کا مقصد ہر صورت اقتدار میں رہنا تھا ، اپنے ہی فوجی چیف کی گرفت میں آ کر ایک قتل میں نامزد ہو کر سزایافتہ ہوا۔
اگرچہ اُس کی سیاسی پارٹی اتنی مقبول تھی کہ اس کی بیٹی وزیر ِ اعظم کے منصب پر فائز ہوئی لیکن بھٹو کے دو بیٹے اور وزیراعظم بیٹی قتل ہوئے۔ یہ خدا ہی جانتا ہے کہ اتنے مقبول وزیراعظم کی ساری فیملی یکے بعد دیگرے اس کے قہر کا کیوں شکار ہوئے ۔ شاید آنے والے وقت میں یہ راز کھلے کہ ان کے قاتل کون تھے ۔
تین بار پاکستان کے وزیر ِ اعظم رہنے والے میاں نواز شریف جو ایک کاروباری خاندان سے تھے گورنر جیلانی کی مہربانی سے سیاست میں آئے۔ وزیر ایکسائز و فنانس کا عہدہ پانے کے بعد چیف منسٹر پنجاب بنے، پھر وزیراعظم بنے ،ان کے برادر اصغر بھی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اب ان کی بدقسمتی کہ اعلیٰ عدلیہ میں ان کا کرپشن ٹرائل ہونے کے بعد پھر سزایاب ہوئے۔ اس وقت وہ علاج کے لیے لندن جا کر Convicted absconder ہیں ۔ یہ اقتدار بھی عجب چیز ہے کہ عروج کے بعد زوال میں بھی لے جاتا ہے۔
قصہ پرانا ہے لیکن ہندوستان میں مغلیہ عہد میں ایک سے بڑھ کے ایک مغل بادشاہ اقتدار میں تو آیا ، ان پر فلمیں بھی بنیں اور ان کے عروج کی داستانیں بھی دلنواز ہیں۔ مغلوںکا بیسواں بادشاہ بہادرشاہ ظفر اقتدار میں آیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی بھی انڈیا آ چکی تھی۔ انھوں نے بہادرشاہ ظفر کو ملک بدر کر کے رنگون بھیج دیا۔ وہاں ان کے فوجی نگران نے انھیں ایک کوٹھی کے گیراج میں قید رکھا لیکن بہادر شاہ ظفر ایک قیدی بادشاہ لیکن اعلیٰ پائے کا شاعر تھا ۔ اس کے دو شعر :
لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں