طالبان کون ہیں

تیس بتیس سال پہلے جب روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو افغان مجاہدین نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔


سرور منیر راؤ August 29, 2021

ISLAMABAD: افغانستان میں طالبان نے دوسری بار دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا ہے۔ بیس سال پہلے طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی تھی اور اب دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ساتھ دوحا میں ایک معائدے کے نتیجے میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

امریکا افغانستان سے بے نیل و مرام لوٹ گیا ہے۔ گزشتہ بیس سال کے دوران طالبان نے جس عسکری حکمت عملی اور عظم صمیم سے امریکا، نیٹو اور افغان نیشنل آرمی کا مقابلہ کیا وہ اس ملک کی تاریخ میں ایک منفرد مثال ہے۔

کوئی افغانستان کے طالبان کو دہشت گرد تصور کرتا ہے تو کوئی انھیں پتھر کے زمانے کا انسان۔ کچھ کا خیال ہے کہ طالبان کو امریکا نے خود بنایا،کچھ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی پیداوار ہے اور ایک طبقہ فکر انھیں مذہبی انتہا پسند قرار دیتا ہے۔

طالبان کی اصلیت کیا ہے؟ یہ کون ہیں ؟یہ کہاں سے آئے اور کس طرح افغانستان کے سیاسی افق پر نمایاں ہوئے، یہ ہیں وہ سوالات جو دنیا بھر کے دانشوروں عسکری ماہرین اور حکمرانوں کے ذہنوں میں گھوم رہے ہیں۔سبھی اس بات پر حیران اور انگشت بدنداں ہیں کہ سوویت یونین اور امریکا جیسی سپرپاورز بھی ان کو کیوں ختم نہ کر سکی۔

طالبان کے حوالے سے یوں تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ امریکی اور دوسرے کئی ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی اس پر تحقیقی مقالے موجود ہیں۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل محمد اسلم بیگ نے بھی اپنی کتاب ''اقتدار کی مجبوریوں''میں بھی افغان طالبان کے پس منظر کو رقم کیا ہے۔ طالبان کی اصل حقیقت کا جائزہ انتہائی دلچسپ تاریخی حقائق لیے ہوئے ہے۔

طالبان دراصل افغانستان کی اجتماعی مدافعتی قوت کا نام ہے۔ افغانستان کے دینی کلچر کی جڑیں خراسان ، فارس کی تاریخ سے ملتی ہیں جو خلافت بغداد کا ایک صوبہ تھا۔ نویں صدی عیسوی میں جب فارس کے علاقے خراسان میں اسلام پہنچا تو وہاں مدرسوں کا قیام بھی عمل میں آیا اور سلسلہ تدریس شروع ہوا۔ یہ سلسلہ آج کی موجودہ دور کی یونیورسٹیوں کی طرح کا تھا، ان مدارس میں مفکر، دانشور ، ریاضی دان اور عسکری ماہرین تعلیم دیتے تھے۔

مولانا رومی، فردوسی ابن سینا ،جامی امام بخاری امام ترمذی اور دیگر بے شمار شخصیات خراسان میں قائم ایسے ہی مدارس سے فارغ التحصیل تھے ۔ شہاب الدین غوری ، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور نامور بزرگان دین حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش، خواجہ معین الدین چشتی جیسی جید شخصیات بھی ایران وخراسان کے ایسے ہی مدارس سے تعلق رکھتے تھیں۔یہ مدارس محض حصول تعلیم کا ذریعہ نہ تھے بلکہ عسکری تربیت کے مراکز بھی تھے ۔

قیام پاکستان سے دو سو سال پہلے سترہ سو سینتالیس میں احمد شاہ ابدالی نے خراسان کے علاقے پر موجود افغانستان کی بنیاد ڈالی۔ خراسان میںمدارس قائم تھے ،لہٰذا افغانستان میں بھی ان مدرسوں کا نظام موجود رہا۔ممتاز ماہر فلکیات بو علی ہمدانی المعروف بو علی سینا اور کئی دوسرے نامور سائنسدان اور محققین بھی مدرسوں نے پیدا کیے۔ اسلامی انقلاب ایران ،جو 1978 میں آیا اس کے محرکات بھی یہی مدارس بنے۔ انھیں مدارس میں عالم دین آیت اللہ سید روح اللہ خمینی اور ان کے رفقا نے تعلیم حاصل کی اور بعد میں یہی لوگ ایران میں اسلامی انقلاب لائے۔

جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور بعد میں افغانستان کی جانب برطانوی اور ہندوستانی فوج نے پیش قدمی کی ۔

تیس بتیس سال پہلے جب روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو افغان مجاہدین نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بلاشبہ اس جنگ میں انھیں پاکستان اور امریکا کی مدد حاصل تھی لیکن ''فور فرنٹ'' پر مجاہدین تھے جنھوں نے سوویت یونین کو نہ صرف یہ کہ شکست دی بلکہ بعد میں اس کا شیرازہ بکھر گیا۔جب سویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو دینی مدرسوں کو جبراً بند کرا دیا گیا۔انھیں مدارس نے جہاد کے لیے وہ بنیادی نرسری فراہم کی جس نے نہ صرف یہ کہ سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوائے بلکہ امریکا کو بھی سرنگوں کیا۔

موجود طالبان بھی انھیں دینی مدرسوں کی نرسری رہے ہیں۔ اس لحاظ سے طالبان کی تشکیل میں کسی بھی سیاسی جماعت یا بیرونی قوت کا ہاتھ نہیں بلکہ یہ ان کے نظریات مدرسوں کی پیداوار ہیں جس کا تسلسل خراسان سے لے کر پاکستانی مدرسوں تک کا ملتا ہے۔ مزید کچھ باتیں کسی آیندہ کالم میں ذکر کروں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں