افغان طالبان کی آزمائش کا آغاز

عبوری دنوں میں تو یہ معاملات دبے رہتے ہیں لیکن زیادہ مدت ایسا ممکن نہیں۔


August 30, 2021
عبوری دنوں میں تو یہ معاملات دبے رہتے ہیں لیکن زیادہ مدت ایسا ممکن نہیں۔ فوٹو: فائل

امریکا کے محکمہ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ چند دن پہلے کابل ایئرپورٹ کے باہر خود کش حملے کے دو ماسٹرمائنڈ گزشتہ روزایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک شدگان افغانستان میں داعش خراسان نامی گروپ کے اہم افراد ہیں۔ پینٹاگون کے میجر جنرل ولیم ٹیلر نے گزشتہ روز واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ میں بتایا ہے کہ یہ ڈرون حملہ مشرقی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں کیا گیا ہے۔

میجر جنرل ولیم ٹیلر نے تفصیلات دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس ڈرون حملے میں دولت اسلامیہ خراسان کے دو ہائی پروفائل اہداف ہلاک ہوئے ہیں جب کہ ایک زخمی ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس ڈرون حملے میںکوئی سویلین شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوا ہے، ادھر ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ افغانستان کے صوبہ ننگر ہارمیں امریکی ڈرون حملہ قابل مذمت ہے،یہ افغان سرزمین پر حملہ ہے، امریکا کو فضائی حملہ کرنے سے پہلے ہمیں اطلاع دینی چاہیے تھی۔

ایک نجی ٹی وی کے مطابق انھوں نے کہا کہ ڈرون حملے میںدو افراد ہلاک ، دو خواتین اور ایک بچہ زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے کابل ایئرپورٹ پر ایک اور حملے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔اس سے افغانستان خصوصاً کابل کی سنگین صورتحال کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ27اگست کو کابل ایئر پورٹ کے باہر دہشت گردی کی واردات ہوئی تھی۔ خود کش دھماکوں کی صورت میں ہونے والی دہشت گردی کی اس کارروائی میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ شہری اور سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں تیرہ امریکی اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ سیکیورٹی پر مامور طالبان بھی جاں بحق ہوئے تھے۔

دہشت گردی کے اس واقعے نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے، سب کوپتہ ہے کہ طالبان نے انتہائی سرعت سے افغانستان اورکابل پر کنٹرول حاصل کیا تھا، طالبان قیادت نے دنیا کو یہ بھی باور کرایا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف جنگ لڑی جائے گی۔ اب انھیں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے پر توجہ دینی ہوگی، کیونکہ اگر بروقت ایسا نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں طالبان حکومت کو گمبھیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

طالبان اس وقت بے سروسامانی کی صورت میں ہیں۔امور مملکت چلانے کے لیے ان کو جس نظم اور تربیت یافتہ حکومتی مشینری کی موجودگی و قیام اور اس نظام کو چلانے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے، اس حوالے سے طالبان تہی دست ہیں، عبوری دنوں میں تو یہ معاملات دبے رہتے ہیں لیکن زیادہ مدت ایسا ممکن نہیں، جب کہ افغان طالبان کے لیے ایک منظم ، مربوط، میکنزم کے تحت حکومتی امور چلانا اور ملک میں امن وامان برقرار رکھنا دشوار نظر آرہا ہے۔

افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ بڑھتا نظر آرہا ہے ،صورت حال دن بدن غیریقینی کاشکار ہوتی جارہی ہے ۔افغانستان میں سب سے خوفناک منظرنامہ خانہ جنگی کا ہے، بظاہر لگتا ہے کہ امریکا خود بھی خانہ جنگی چاہتا ہے یا پھر اسے فرار کی اس قدر جلدی تھی کہ اس نے کئی پہلوؤں پر غور ہی نہیں کیا۔

پاکستان کے لیے یہ صورت حال ماضی میں لوٹنے جیسی ہوگی ۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے اور سرحدی علاقوں تک پہنچ جاتی ہے تو پاکستان کے لیے شدید مشکلات جنم لے سکتی ہیں۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ اور کالعدم ٹی ٹی پی جوہمارے ہزاروں لوگوں کے قاتل ہیں، انھیں افغان طالبان نے افغانستان کی جیلوں سے رہا کردیا ہے ، افغانستان میں موجودہ دہشت گرد گروہ پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ''القاعدہ کی قیادت کا ایک بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے پاس موجود ہے اور داعش خراسان بھی نہ صرف متحرک ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔اسی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ اگر پڑوس میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دہشت گردوں کے سلیپر سیل دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔

بلوچستان میں بھی غیر ملکی حساس اداروں کے زیراثر گروہوں کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، یوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سخت قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی پاکستان کی کامیابیاں ضایع ہونے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔اس مرحلہ پر پاکستان نے سرحد کو سیل کر رکھا تاکہ افغان مہاجرین کے روپ میں دہشت گردگروہ ملک میں داخل نہ ہوسکیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی سلامتی اوردفاع کو سامنے رکھتے ہوئے فوری اقدامات اٹھائے۔

گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق برطانیہ نے افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کر لیا ہے ۔ امریکی فوجیوں انخلا بھی مقررہ مدت تک مکمل ہوجائے گا،پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں نے کابل کے ایئرپورٹ سے انخلا شروع کر دیا ہے،کئی مغربی ممالک حتمی تاریخ سے پہلے ہی انخلا مکمل کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں برطانیہ کے سفیر لیوری برسٹو کا ویڈیو بیان جاری ہوا تھا ۔ اس ویڈیو بیان میں اعلان کردیا تھا کہ انخلا کے اس فیز کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ برطانیہ نے افغانستان سے اپنا فوجی انخلاء مکمل کرتے ہی کابل میں سفارت خانے کا آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کردیا۔

برطانوی وزیراعظم کے آفس سے جاری بیان کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے درمیان افغانستان کی صورت حال پر بات چیت ہوئی ہے۔ اس پیش رفت کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ طالبان حکومت کی آزمائش کا دور شروع ہوچکا ہے۔

ادھر ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ہماری پالیسی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہو،31 اگست کے بعد افغانستان پرکوئی حملہ کرے تو اسے روکیں گے۔کابل ایئرپورٹ پر حملے کے ذمے داروں کو تلاش کر کے قرار واقعی سزا دیں گے، دہشت گردوں کے ٹھکانے کہاں، کہاں ہیں اس کی نشاندہی کر کے انھیں ختم کریں گے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ امریکا افغانستان کے پیسے جاری کرے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کو آن لائن انٹرویو میں سہیل شاہین نے کہا کہ اسلامی حکومت میں کسی کو حملے کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔31 اگست کے بعد حملے روکنا ہماری ذمے داری بھی ہے اور اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ہمارے مجاہدین کے پاس تجربہ ہے۔ وہ داعش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ہمارا امریکا کے ساتھ کوئی کوآرڈینیشن نہیں صرف دوحہ معاہدہ ہے، ایئرپورٹ کے انتظام پر ترکی کے ساتھ معاہدہ کریں گے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ بار بار واضح کرچکے ہیں کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اگر پاکستانی طالبان، افغان طالبان کے سربراہ کو اپنا سربراہ مانتے ہیں تو انھیں ان کی بات بھی ماننا ہوگی، پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کابل ایئرپورٹ پر امن و امان قابو میں ہے،فائرنگ کی اطلاعات بے بنیاد ہیں،ایئرپورٹ کے آس پاس کی سیکیورٹی طالبان کے پاس ہے،طالبان کی جانب سے افغانستان میں نگران حکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ کابینہ کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

طالبان شوری کے رکن کے مطابق نگران حکومت میں تمام قبائلی رہنماؤں اور طالبان کمانڈرز کو شامل کیا جائے گا اور ابتدائی طورپر 12ناموں پرغور کیا جارہا ہے، طالبان نے شیخ عبدالباقی حقانی کونگران وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مقرر کر دیا ہے۔طالبان تعلیم، پبلک ورکس، اطلاعات اور ثقافت کی وزارتوں میں نگران وزرا کا تقرر کر چکے ہیں۔

افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے طالبان کے بیشتر رہنما کابل واپس آ گئے ہیں جو اس سے قبل جلا وطنی میں زندگی گزار رہے تھے لیکن طالبان کے امیر المومنین ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے کابل واپس آنے کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی،افغان پارلیمان کے 18ارکان اور 7صوبوں کے گورنروں نے افغان طالبان کی حمایت کا اعلان کردیا۔

رائٹرز سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بہت جلد کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول طالبان سنبھال لیں گے،ہمارے پاس کابل ایئرپورٹ کو چلانے کے لیے کافی سیکیورٹی اور ٹیکنیکل اسٹاف موجود ہیں، کابل ایئرپورٹ کے اردگرد اضافی فورسز تعینات کر لیے ہیں۔طالبان نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں مختلف اطراف سے پیش قدمی شروع کردی ہے جس کے بعد وہاں جنگ کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے۔تاہم وادی پنجشیر کی مزاحمتی فورس کے رکن نے طالبان کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔

افغانستان کی صورتحال غیریقینی اور کنفیوژن کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔اسی معاملے پر دونوں ملکوں کے مستقبل کے تعلقات کا دارومدار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں