افغانیوں کا افغانستان سے فرار ذہنی غلامی کا سانحہ
افغانستان سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے افغانی دراصل طالبان سے خوفزدہ نہیں بلکہ مغربی طرز معاشرت کھونے سے ڈرتے ہیں
KARACHI:
ذہنی غلامی کا سانحہ یا دوسری قوم کی برتری کے خیال کو یقین کی حد اپنا لینا، بدقسمتی سے افغانوں کی اس صدی کی نسل کے ساتھ ہوچکا ہے۔
امریکی فوجیوں کے کئی انٹرویوز میں کہیں نہ کہیں یہ بات نظر آتی ہے کہ 2001 کے بعد بلوغت/ نوجوانی میں قدم رکھنے والی افغان نسل زندگی کے ہر معاملے، ہر کام کےلیے امریکیوں کی طرف دیکھتی تھی۔ زبان، تعلیم، روزگار، غرض یہ کہ شاید ہی کوئی پہلو ہوگا جہاں اس نسل نے امریکیوں یا امریکیوں کے مقرر کردہ ارباب اختیار کو حاوی (مغربی حساب سے ''کامیاب'') نہ دیکھا ہو۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام تر وسائل انہی کے ہاتھ میں تھے۔ اس کا نتیجہ صاف ظاہر تھا۔
یہ نسل مکمل طور پر ''امریکا چلو'' دور کی پیداوار تھی، اور ذرائع ابلاغ نے انہیں برین واش کیا ہوا تھا کہ طالبان کا دور تاریکی، ظلم اور جہالت سے عبارت تھا۔
اب کابل پر طالبان قبضے کے بعد ایئرپورٹ پر موجود افغان جو افغانستان سے فرار چاہتے ہیں، درحقیقت امریکیوں سے فائدہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جن کا روزگار امریکی فوج کی موجودگی سے منسلک تھا، اور اس طبقے (ملازمین اور ان کے خاندان کے افراد) کی تعداد کم نہیں بلکہ 2 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ طالبان کے حکومت میں نہ صرف بے روزگار ہوجاتے بلکہ ان کو یقیناً اچھوت کا درجہ ملتا۔ لیکن ان کےلیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات امریکی لائف اسٹائل سے محروم ہونے کا خطرہ تھا، جس کے تحت اپنے مرّبی، نیٹو یا امریکی افواج کے ساتھ ہی روانہ ہونے کےلیے یہ فوراً ایئرپورٹ پہنچے۔
ان میں سے ایک لاکھ 5 ہزار کو امریکیوں نے 15 اگست سے 25 اگست تک کابل ایئرپورٹ سے مسلسل پروازوں سے دوسرے ممالک منتقل کیا، جبکہ مزید 60 ہزار 31 اگست تک باہر منتقل کیے جائیں گے۔
لیکن آفرین ہے مغربی ذرائع ابلاغ پر، جو مسلسل یہی دہائی دے رہے ہیں کہ اگر ان کو منتقل نہ کیا گیا تو طالبان ان لوگوں کو قتل کردیں گے، ان کی جان کو خطرہ ہے، اور یہ کہ اب افغانستان واپس 2000 قبل از مسیح دور میں پہنچ چکا ہے۔ مغربی میڈیا نے گزشتہ 20 سال اسلاموفوبیا پھیلا کر مغرب کی عقل تباہ کی، اب ''ان لوگوں کو طالبان قتل کردیں گے'' والی افواہ پھیلا کر پتہ نہیں یہ کیا چَن چڑھانا چاہ رہے ہیں۔
2015-2016 میں آنے والی پناہ گزینوں کی سونامی کے دوران 8 لاکھ سے زائد افراد یورپ میں داخل ہوئے۔ اس کے نتیجے میں بہت سیاسی اور معاشرتی اضطراب پیدا ہوا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسلام بیزار سیاسی جماعتوں کو پہنچا۔ پناہ گزینوں کی اتنی بڑی نقل و حرکت مغربی میڈیا کی عقل کے جمود کو ختم نہ کرسکی، اور اب یہ افغانستان کی صورتحال کو انتہائی گمبھیر بتا کر افغان پناہ گزینوں کی ایک اور سونامی کےلیے راستہ صاف کر رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کے سیلاب کا لازمی نتیجہ یورپ اور امریکا میں مزید اسلام دشمن انتہاپسند سیاست کی صورت میں نکلے گا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی میڈیا کی اس ہذیانی حالت سے پیدا کردہ انتشار کو کم کرنے کےلیے اصل صورتحال کی ایسی رپورٹنگ کی جائے جس سے گمراہ کن افواہوں کا توڑ کیا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ذہنی غلامی کا سانحہ یا دوسری قوم کی برتری کے خیال کو یقین کی حد اپنا لینا، بدقسمتی سے افغانوں کی اس صدی کی نسل کے ساتھ ہوچکا ہے۔
امریکی فوجیوں کے کئی انٹرویوز میں کہیں نہ کہیں یہ بات نظر آتی ہے کہ 2001 کے بعد بلوغت/ نوجوانی میں قدم رکھنے والی افغان نسل زندگی کے ہر معاملے، ہر کام کےلیے امریکیوں کی طرف دیکھتی تھی۔ زبان، تعلیم، روزگار، غرض یہ کہ شاید ہی کوئی پہلو ہوگا جہاں اس نسل نے امریکیوں یا امریکیوں کے مقرر کردہ ارباب اختیار کو حاوی (مغربی حساب سے ''کامیاب'') نہ دیکھا ہو۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام تر وسائل انہی کے ہاتھ میں تھے۔ اس کا نتیجہ صاف ظاہر تھا۔
یہ نسل مکمل طور پر ''امریکا چلو'' دور کی پیداوار تھی، اور ذرائع ابلاغ نے انہیں برین واش کیا ہوا تھا کہ طالبان کا دور تاریکی، ظلم اور جہالت سے عبارت تھا۔
اب کابل پر طالبان قبضے کے بعد ایئرپورٹ پر موجود افغان جو افغانستان سے فرار چاہتے ہیں، درحقیقت امریکیوں سے فائدہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جن کا روزگار امریکی فوج کی موجودگی سے منسلک تھا، اور اس طبقے (ملازمین اور ان کے خاندان کے افراد) کی تعداد کم نہیں بلکہ 2 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ طالبان کے حکومت میں نہ صرف بے روزگار ہوجاتے بلکہ ان کو یقیناً اچھوت کا درجہ ملتا۔ لیکن ان کےلیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات امریکی لائف اسٹائل سے محروم ہونے کا خطرہ تھا، جس کے تحت اپنے مرّبی، نیٹو یا امریکی افواج کے ساتھ ہی روانہ ہونے کےلیے یہ فوراً ایئرپورٹ پہنچے۔
ان میں سے ایک لاکھ 5 ہزار کو امریکیوں نے 15 اگست سے 25 اگست تک کابل ایئرپورٹ سے مسلسل پروازوں سے دوسرے ممالک منتقل کیا، جبکہ مزید 60 ہزار 31 اگست تک باہر منتقل کیے جائیں گے۔
لیکن آفرین ہے مغربی ذرائع ابلاغ پر، جو مسلسل یہی دہائی دے رہے ہیں کہ اگر ان کو منتقل نہ کیا گیا تو طالبان ان لوگوں کو قتل کردیں گے، ان کی جان کو خطرہ ہے، اور یہ کہ اب افغانستان واپس 2000 قبل از مسیح دور میں پہنچ چکا ہے۔ مغربی میڈیا نے گزشتہ 20 سال اسلاموفوبیا پھیلا کر مغرب کی عقل تباہ کی، اب ''ان لوگوں کو طالبان قتل کردیں گے'' والی افواہ پھیلا کر پتہ نہیں یہ کیا چَن چڑھانا چاہ رہے ہیں۔
2015-2016 میں آنے والی پناہ گزینوں کی سونامی کے دوران 8 لاکھ سے زائد افراد یورپ میں داخل ہوئے۔ اس کے نتیجے میں بہت سیاسی اور معاشرتی اضطراب پیدا ہوا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسلام بیزار سیاسی جماعتوں کو پہنچا۔ پناہ گزینوں کی اتنی بڑی نقل و حرکت مغربی میڈیا کی عقل کے جمود کو ختم نہ کرسکی، اور اب یہ افغانستان کی صورتحال کو انتہائی گمبھیر بتا کر افغان پناہ گزینوں کی ایک اور سونامی کےلیے راستہ صاف کر رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کے سیلاب کا لازمی نتیجہ یورپ اور امریکا میں مزید اسلام دشمن انتہاپسند سیاست کی صورت میں نکلے گا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی میڈیا کی اس ہذیانی حالت سے پیدا کردہ انتشار کو کم کرنے کےلیے اصل صورتحال کی ایسی رپورٹنگ کی جائے جس سے گمراہ کن افواہوں کا توڑ کیا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔