تھرپارکر کے بچے
پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں بیماریاں عوام کے ساتھ چلتی رہتی ہیں
ادویات انسان کی بنیادی ضرورت میں شامل ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ مہنگائی پی ٹی آئی حکومت کی پہچان بن گئی ہے ، ادویات کی قیمتوں کا حال یہ ہے کہ ایک ایک دوائی کی قیمت سو، سو فیصد بڑھ گئی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے متعلقہ محکمے گہری نیند سو رہے ہیں یا پھر رشوت بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام کا درد رکھنے والے حکمران عوام کے درد کو محسوس کرنے سے معذور نظر آتے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک میں علاج اور دواؤں کو خصوصی حیثیت دی جاتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مریضوں کا حال سب سے بدتر ہے۔ سرکاری دواخانے اب صرف رنگ دار پانی بانٹتے ہیں، یہ غالباً 1971 کی بات ہے ہم کو یحییٰ خان کی مہربانی سے لمبی لمبی سزائیں ہوگئی تھیں۔ ہر روز نو دس بجے ایک شخص ایک ریڑھے پر کئی رنگوں کے پانی شیشوں میں بھر کر مریضوں کی طرف آتا تھا اور آواز لگاتا تھا، بیمارو! دوائی لے لو، اور لوگ اپنے اپنے مرض کی دوا رنگ دار پانی اٹھا لیتے تھے۔ جیلوں میں دوا کے نام پر رنگ دار پانی کا مذاق کیا جاتا ہے، ویسے ہی ہماری اشرافیہ نے سارے انسانوں ہی کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
وزیراعظم کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وہ مسائل کا ادراک رکھتے ہیں لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں رہتے جیسا کہ ہم نے بتایا ادویات انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہیں۔ حکومت نے ویسے تو علاج کے حوالے سے ایک انتہائی اہم قدم اٹھایا ہے اور وہ ہے صحت کارڈ ۔ بلاشبہ یہ ایک کارآمد چیز ہے، اول تو سارے عوام کے لیے ہیلتھ کارڈ اس حوالے سے کارآمد شے ہے کہ کوئی بندہ کارڈ دکھا کر ڈاکٹر سے تشخیص کرا سکتا ہے، دوا لے سکتا ہے بلکہ علاج کے لیے جو دوائیں درکار ہیں وہ سب اسے فراہم کی جاتی ہیں اور ایڈمٹ کرکے بھی علاج کیا جاتا ہے۔
ملک کے سارے لوگ دوا خانوں میں ایڈمٹ نہیں ہوتے، مریضوں کی ایک بڑی تعداد میڈیکل اسٹوروں سے دوا خریدتی ہے اور میڈیکل اسٹوروں پر قیمتوں پر ایسی آگ لگی ہے کہ مریض جھلس جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں علاج سے محرومی ایک عام بات ہے اور لاکھوں لوگ علاج سے محرومی کی وجہ سے مر جاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہیلتھ کارڈ بہت کارآمد ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی تمام آبادی کو کیا میڈیکل ہیلتھ کارڈ ملے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی کو لے لیجیے جس کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن کراچی کے عوام ہیلتھ کارڈ سے اب تک محروم ہیں ایسا کیوں؟
پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں بیماریاں عوام کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک میں صحت و صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ایسے ملک میں دوائیوں سے زیادہ صفائی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو عوام کے ہمدردوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کی ذمے داری ہے کہ ہر شعبہ زندگی کو قریب سے دیکھے انھیں ایسی ایسی خرابیاں نظر آئیں گی جن کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ عوام انتہائی غریب ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غریب عوام کو علاج کی تمام سہولتیں مفت فراہم کی جاتیں لیکن افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر روز ہزاروں لوگ علاج کے بغیر مر جاتے ہیں ہمارے ملک میں خواتین کا حال برا ہے پہلی بات یہ کہ غربت کی وجہ وہ صفائی کے خیال سے محروم رہتی ہیں۔
صورتحال یہ ہو تو بیماریاں جسم کا روگ بن جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بچوں کی صحت کا بہت خیال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان جیسے پسماندہ غریب ملک میں چائلڈ ہیلتھ کے مسئلے کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں بچے انتقال کر جاتے ہیں۔ بچوں کی موت کے حوالے سے تھرپارکر بہت بدنام ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہاں سال بھر بچے بیمار بھی رہتے ہیں اور موت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غذا کی کمی کی وجہ سے بچوں کی اکثریت انتقال کر جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی بیماری یا بیماریاں ہیں جن سے بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ تھرپارکر ایک نظرانداز کیا ہوا علاقہ ہے۔ اخباروں میں ہر روز تھرپارکر کے بچوں کی اموات کی خبریں چھپتی ہیں لیکن یہ ہمیشہ نظرانداز ہوتی ہیں۔ کیا تھرپارکر کی خبریں ہمارے حکام بالا کی نظروں سے اخبارات کے ذریعے نہیں گزرتیں۔ بلاشبہ تھرپارکر ایک پسماندہ علاقہ ہے لیکن کراچی سے اتنے قریب ہونے کے باوجود وہاں کے بچوں کا علاج معالجہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹری مالکان کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ انسان بھی ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے منافع کی لت ایسی لگی ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
منافع انسان کی کمزوری ہے لیکن جب منافع انسانی جانوں کے اوپر سے گزر جاتا ہے تو انسان کا تصور مٹ جاتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے،کیا غریبوں کا علاج معالجہ بھی ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
ڈاکٹرز کو کرپٹ نہیں ہونا چاہیے لیکن چونکہ کرپشن ہماری زندگی کا حصہ ہے اس لیے ڈاکٹرز بھی کرپٹ ہیں ۔ترقی یافتہ ملکوں میں ڈاکٹر حضرات عموماً منافع خور ہوتے ہیں۔ علاج تو وہی ہوتا ہے لیکن آبادیوں کی نسبت سے اس کی فیس میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ مجھے ایک عرصے سے پیٹ کی تکلیف ہے، میں نے سنا کہ ڈیفنس میں پیٹ کے ایک اچھے ڈاکٹر بیٹھتے ہیں، میں نے ٹائم لیا اور ڈاکٹر موصوف کو اپنی تکلیف سے آگاہ کیا، میری دوا تو لکھ دی لیکن جب موصوف نے سولہ سو روپے فیس مانگی تو میں حیران رہ گیا۔