ہم اس بھول بھلیاں سے کب نکلیں گے
ملک کے ہر کونے سے دہشت گردی، ظلم اور جبر کی خبریں چلی آتی ہیں۔
اب ایک بار پھر نئے انتخابات کا غلغلہ ہے اور اس کے ساتھ ہی جمہوریت کا ذکر ہورہا ہے۔ ہمارے لوگوں نے جس جمہوریت کے لیے عذاب سہے تھے، ماریں کھائی تھیں، جان سے گئے تھے، وہ آئی تو ہے اس کے باوجود ملک کے ہر کونے سے دہشت گردی، ظلم اور جبر کی خبریں چلی آتی ہیں۔
کہیں خلق خدا ان لوگوں کے ہاتھوں ماری جارہی ہے، جن کے خیال میں خدا نے انھیں اس ''کار خیر'' پر مامورکیا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو ابدال آباد کا راستہ دکھائیں جو اسلام کی ان سے قدرے مختلف تفہیم رکھتے ہیں اورکہیں سیاست کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی چالیں ہیں۔ اس سے بڑا ظلم اور جبرکیا ہوسکتا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران اور ملکی معیشت کی تباہ حالی نے لاکھوں نہیں کروڑوں کو احتیاج سے دوچارکردیا ہو اور دوسری طرف سے رشوت ستانیوں اور بدعنوانیوں کی خبریں آرہی ہوں۔
یہ وہ زمانہ ہے جب کئی انگریزی ناول یاد آتے ہیں۔ جارج آرویل کا "Animal Farm" این رانڈکا "Atlas Shrugged" وہ دواہم سیاسی ناول ہیں جنھوں نے اپنے زمانے کی سیاست کے منافق اور بد اعمال افراد کے حقیقی چہروں کو لوگوںکے سامنے پیش کیا۔ بدعنوان اور ہوس اقتدار میں سب کچھ کرگزرنے والے افراد کے بارے میں انیسویں صدی کے آخر میں ایک ناول امریکا میں لکھا گیا جسے اپنے زمانے میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اور اس نے امریکی سیاست کو راہ راست پر لانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
''جمہوریت'' نامی یہ ناول 1880 میں لکھا گیا۔ اس کی ہیروئن 30 سالہ میڈلین ہے جو بیوہ ہوگئی ہے اور اپنی بیٹی بھی کھو چکی ہے۔ ایک غم زدہ عورت جو اپنے دکھ کو دنیا کی آسائشوں سے نہیں بہلانا چاہتی۔ وہ پڑھی لکھی ہے، ذہین اور حسین ہے، خوشحال ہے، سیاست میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ سیاست کے میدان میں ہی اس کی ملاقات کسی جوہر قابل سے ہوسکتی ہے، وہ نیو یارک سے واشنگٹن کا رخ کرتی ہے جو طاقت و اقتدارکا سرچشمہ ہے۔ وہاں اس کی ملاقات ایک نوجوان کیرنگٹن سے ہوتی ہے جو متوسط درجے سے تعلق رکھتا ہے۔
ایماندار اور باضمیر ہے، دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، لیکن اس وقت کی امریکی سیاست کا ایک شاطر و عیار شخص ان دونوں کے درمیان آجاتا ہے ۔ یہ شخص امریکی سینیٹ کا رکن ہے اور اس سے پہلے ریاست ایلی نوائے کا گورنر رہ چکا ہے ، وہ امریکی سیاست کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے کے لیے بساط بچھا رہا ہے اور با اثر افراد سے قریبی تعلقات قائم کررہا ہے۔
یہ شخص جس کا نام ریٹ کلف ہے وہ میڈلین کے حسن اور اس کی ذہانت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ اس سے اظہار عشق کرتا ہے اور شادی کے لیے خواستگاری کرتا ہے۔
چار برس بعد اس کا ارادہ امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے اورکامیاب ہونے کا ہے، وہ سوچتا ہے کہ اگر میڈیلن جیسی خوشحال نازنین اورذہین عورت اس کی بیگم ہوگی تو اسے با اثر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں آسانی ہوگی اور عوامی جلسوں میں جب وہ میڈیلن کو ساتھ لے کر نکلے گا تو ووٹ ڈالنے والوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوں گی جس نے ایک نوجوان بیوہ اور اکلوتی بچی سے محروم ہوجانے والی غمزدہ ماں کی دل جوئی کے لیے اسے شریک زندگی بنا لیا اور توقعات کے برعکس کسی نو خیز اور ناتجربہ کار حسینہ کا بہ طور بیگم انتخاب نہیں کیا۔
ریٹ کلف ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو سیاست کو خلق خدا کے کام آنے کے لیے اختیارکرتے ہیں اور اسے عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ سیاست ایک عشوہ طراز حسینہ کی طرح ہے جس کے ذریعے دولت، اقتدار اور بے پناہ اثرو رسوخ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ادھرمیڈیلن ہے جو اس خیال سے واشنگٹن آئی تھی کہ یہاں اسے اچھے اورکامیاب سیاستدانوں سے ملنے کا موقع ملے گا لیکن جب وہ اس شہر کے بااثر طبقات سے گھلتی ملتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ کامیاب سیاستدان کے لیے لازم ہے کہ وہ با ضمیر نہ ہو، اس کے ہاتھ ناجائز دولت کو سمیٹنے میں دن رات مصروف ہوں، وہ راگ عوام کی خدمت کا الاپتاہو جب کہ درحقیقت کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو جس میں عوام کا خون پی سکے اور ان کی بھلائی کے لیے ہونے والے سرکاری کاموں میں سے بھاری رشوت نہ سمیٹتا ہو۔ میڈیلن کا دل واشنگٹن کی اس منافقانہ اور عفونت زدہ فضا سے اوبھ چکا ہے۔
وہ شادی کے لیے اصرار کرنے والے سیاستدان ریٹ کلف سے پوچھتی ہے کہ کیا ہم ہمیشہ چور، اچکوں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر ہی رہیں گے؟ کیا جمہوری طرز حکومت کے تحت ایک ایماندار اور انصاف پسند حکومت کا قیام ممکن نہیں؟
ریٹ کلف کہتا ہے کہ عوام کی نمایندہ کوئی بھی حکومت اس وقت تک صاف ستھری اور ایماندار نہیں ہوسکتی جب تک اس کو ووٹ دینے والے ایماندار اور بے غرض نہ ہوں۔ میڈیلن یہ جواب سن کر ششدر رہ جاتی ہے۔ گویا ریٹ کلف مقتدر اور اعلیٰ عہدوں پر متمکن سیاستدانوں اور خود اپنے تمام اخلاقی اور مالیاتی جرائم کی ذمے داری ان لوگوں پر ڈال دیتا ہے جنھوں نے ان سب کو منتخب کیا ہے۔ خود کو وہ دودھ سے دھلے ہوئے ایک ایسے اجلے انسان کی طرح پیش کرتا ہے جس سے شادی کرکے میڈیلن بہت فائدے میں رہے گی اور صرف چار برس بعد اسے امریکا کی خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوجائے گا۔
وہ میڈیلن کو یقین دلاتا ہے کہ اس نے امریکی صدر بننے کا جو منصوبہ بنایا ہے اس میں ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرے گا۔ میڈیلن کو اب اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے کہ ریٹ کلف اور اس کے دوست اخلاقی گراوٹ کی کن پستیوں میں اترے ہوئے ہیں۔
ان ہی دنوں ریٹ کلف اس سیاستدان سے بے حد قریب ہوجاتا ہے جو صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکا ہے اورصدارتی حلف اٹھانے والا ہے ، وہ اس کا مشیر بن جاتا ہے اور اس کی افتتاحی صدارتی تقریر لکھنے میں مصروف ہے۔کھوکھلے وعدوں سے بھری ہوئی تقریر۔ اعلیٰ قسم کی ہلکی گلابی اور سفید پیاز جسے چھیلتے چلے جائیے ، ہر پرت الگ ہوتی جائے گی اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس ناول میں اخلاقی اورمالیاتی اعتبار سے بدعنوان ایک فرد ہے جو صدر امریکا منتخب ہوچکا ہے ، اس کے مشیر، وزیر اور سفیر ہیں۔ اقربا پروری اپنے عروج پر ہے۔ عوام کے سامنے شاندارمنصوبوں کے ڈھیر لگائے جاتے ہیں جن پر عمل کا کوئی ارادہ نہیں اور ایوان اقتدار میں ہر طرف بدعنوانی اور رشوت ستانی کی بدبو ہے۔
یہ ناول ہنری ایڈمز نے لکھا جس کے باپ چارلس ایڈمزکو امریکی صدر ابراہم لنکن نے برطانیہ میں امریکی سفیر بناکر بھیجا تھا۔ ہنری ایڈمز باپ کے ساتھ لندن گیا، ذہین اور تحریری اعتبار سے منجھا ہوا تھا ، لندن سے وہ نیویارک ٹائمز کے لیے کالم لکھتا رہا لیکن قلمی نام سے۔ سفارتی زندگی کے تزک و احتشام سے وہ اپنے باپ کے وسیلے سے آشنا ہوا لیکن پھر اس زندگی کو ترک کرکے ادب ، تحقیق اور صحافت سے وابستہ ہوا۔ امریکا واپس آیا اور لکھنے پڑھنے کے کام میں دل وجان سے مصروف ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ جمہوری نظام کو اگر ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو یہ دروبست خلق خدا کو آلام و اندوہ سے نجات دلا سکتا ہے۔
واشنگٹن میں ایڈمز اور اس کی دانش جو شریک حیات کلوور ہوپر نے اقتدارکی غلام گردشوں میں حرص اور رشوت ستانی ' بھتہ خوری میں مبتلا سیاستدانوں کی اکثریت دیکھی اور ان کی سازشیں دیکھیں۔ یہی وہ پس منظر تھا جس نے ہنری ایڈمز کو ناول ''جمہوریت'' لکھنے پر مجبورکیا۔ اس کے متعدد کردار حقیقی تھے، اتنے حقیقی کہ نام بدل دینے کے باوجود وہ پہچانے جاتے تھے۔ اس ناول نے امریکی عوام کویہ سوچنے پر مجبورکیا کہ اگر انھوں نے اپنے غلط کار سیاستدانوں کا محاسبہ نہیں کیا تو وہ نظام عدل وجود میں نہیں آسکے گا جو بدعنوان افراد کا دیانتداری سے احتساب کرے اور انھیں سزائیں دے۔
اس ناول میں اس وقت کی امریکی سیاست کا اتنا سچا اورکھرا عکس تھا کہ ایڈمز کی ہمت نہ ہوئی کہ اسے اپنے نام سے چھپوائے اور مقتدر ترین لوگوں کے غیض وغصب کا نشانہ بننے ' اسی لیے یہ ناول اس کی زندگی میں ایک فرضی نام سے شایع ہوا۔ اس کی موت کے فوراً بعد اس کے پبلشر نے یہ اعلان کیا کہ یہ شاندار ناول کس نے اپنے خون جگر سے لکھا تھا۔ امریکی سیاست کے بارے میں لکھے جانے والے اس ناول پر سے 141 برس گزر چکے ہیں۔
امریکی عوام اسے بھلا چکے ہیں لیکن آج اگر ہم اسے پڑھیں تو جی چاہتا ہے کہ ہنری ایڈمزکو داد دیں جس نے ہمارے ملک کے وجود میں آنے اور یہاں کے صاحبان اقتدار کی پیدائش سے پہلے ہی ان کی بے مثال تصویرکشی کردی تھی۔اسے پڑھیے اور یہ ضرور سوچیے کہ ہم اس بھول بھلیاں سے کب نکلیں گے؟