امریکا کی طویل ترین افغان جنگ کا خاتمہ ہوگیا بائیڈن

افغانستان میں اب بھی 200 امریکی موجود ہیں جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں ہم ان کی مدد کریں گے، امریکی صدر


ویب ڈیسک September 01, 2021
طالبان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے ہم ان کے عمل کو دیکھیں گے، امریکی صدر (فوٹو : امریکن میڈیا)

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ امریکا کی طویل ترین افغان جنگ کا خاتمہ ہوگیا، امریکا کو اب افغان سرزمین سے کوئی خطرہ نہیں، انخلا کا فیصلہ میرا اپنا تھا جس کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔

یہ بات امریکی صدر جوبائیڈن نے اتحادی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بعد امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ڈیڈ لائن پر عمل نہ کرتے تو طالبان کو امریکیوں پر حملے کا حق مل جاتا

صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ ہم نے 31 اگست کو افغانستان سے انخلا کا معاہدہ کیا تھا اگر ہم دی گئی ڈیڈ لائن پر عمل درآمد نہ کرتے تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی اور طالبان کو حق حاصل ہوجاتا کہ وہ امریکیوں پر حملے کرتے۔

طالبان آرہے تھے ہمیں جنگ بڑھانے یا ختم کرنے کا فیصلہ کرنا تھا

جوبائیڈن نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کا فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا، یہ فیصلہ میرا تھا کیوں کہ طالبان آرہے تھے اور ہمیں جنگ بڑھانے یا وہاں سے نکل جانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا، بیس برس تک افغانستان میں روزانہ 20 کروڑ ڈالر خرچ ہوتے رہے، روس اور چین چاہتے ہیں امریکا افغانستان میں الجھا رہے لیکن ہم نے افغانستان سے نکل کر امریکا کے مفاد میں فیصلہ کیا۔

افغان سرزمین سے امریکا پر حملے کا اب کوئی امکان نہیں

انہوں نے کہا کہ میرے اس فیصلے کی فوجی اور سول قیادت نے بھرپور تائید کی ہے اور میں اس فیصلے کی تمام تر ذمہ دار قبول کرتا ہوں، افغان جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی، جو لوگ تیسری دہائی میں بھی افغان جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ کہوں گا کہ یہ اب ممکن نہ تھا کیوں کہ اب افغانستان سے ہماری سرزمین پر حملے کا کوئی امکان نہیں۔

یہ پڑھیں : امریکی فوج کے کابل ایئرپورٹ سے نکلنے میں طالبان کی مدد کا انکشاف

داعش خراسان کے خلاف ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی

ان کا کہنا تھا کہ میرا اولین فرض ہے کہ امریکا کا دفاع کیا جائے اور اب امریکا کو 11 ستمبر جیسے خطرے کا سامنا نہیں ہے، ہم نے افغانستان میں داعش کی کمر توڑ دی، ہماری ہزاروں افواج اور اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں، داعش خراسان کے خلاف ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، دہشت گردی دیگر ممالک تک پھیل رہی ہے ہمیں اب اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔

انخلا کامیابی کے ساتھ مکمل کیا

جوبائیڈن ںے کہا کہ میں نے انخلا کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے چھ ہزار فوجی کابل ایئرپورٹ بھیجے جنھوں نے امریکی، غیرملکی سفارت کاروں اور افغان باشندوں کے باحفاظت انخلا کا چیلنج مکمل کیا، میں کامیاب انخلا پر سفارت کاروں اور فوجیوں کا شکر گزار ہوں۔

ایک لاکھ افغانوں کو پروازوں کے ذریعے افغانستان سے نکالا

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ہم نے ایک لاکھ افغانوں کو پروازوں کے ذریعے افغانستان سے نکالا جو تاریخ میں پہلی مرتبہ ممکن ہوا ہے، یہ بہت مشکل اور خطرناک مشن تھا لیکن ہم نے اسے مکمل کیا۔

200 امریکی باشندے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں

جوبائیڈن نے کہا کہ ہم 90 فیصد امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکال چکے ہیں، مجھے یقین ہے کہ افغانستان میں اب بھی سو سے 200 امریکی شہری موجود ہیں جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں ہم ان کی مدد کریں گے۔

امریکا پر حملے کے خواہشمندوں کا زمین کے آخری کنارے تک مقابلہ کرینگے

انہوں نے کہا کہ جو امریکا پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے اتحادیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں وہ سن لیں کہ ہم آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے، ہم زمین کے آخری کنارے تک ان کا مقابلہ کریں گے، میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب افغان جنگ ختم ہوچکی ہے اور میں نے اس جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، 20 سالہ طویل جنگ کے بعد میں نے اگلی نسل کو افغان جنگ میں جھونکنے کا انکار کردیا تھا اور اب میں نے اس پر عمل کر دکھایا ہے۔

طالبان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے کے عمل کو دیکھیں گے

طالبان کی حکومت کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے ہم ان کے عمل کو دیکھیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ سابق افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوجائے گا۔

روس اور چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ بھی امریکا کے لیے چیلنج ہے

اس موقع پر انہوں نے افریقا میں شدت پسند تنظیم الشباب اور دیگر ممالک میں داعش کا بھی ذکر کیا کہ ان سے امریکا کو بچایا جائے گا۔ انہوں نے روسی سائبر حملوں، ایٹمی پھیلاؤ اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو بھی امریکا کے لیے چیلنج قرار دیا جسے انہوں نے اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے چیلنجز قرار دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔