طالبانی اقتدار کا سورج پھر افغان سرزمین پر طلوع
چند روز میں نئی حکومت بن جائیگی، 20 سال بعد46 ممالک کا اتحاد افغانستان سے نکل گیا۔
افغانستان میں سپر طاقتوں کی بنائی ہوئی ریت کی دیوار گر گئی اور 20 سال بعد46 ممالک پر مشتمل اتحاد افغانستان سے نکل گیا۔
طالبان کے اقتدار کا سورج ایک مرتبہ پھر افغان سرزمین پر طلوع ہوگیا، امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی کہ افغانستان میں آئندہ چند روز میں نئی حکومت بن جائے گی، امریکی بیساکھیوں پر کھڑی افغان حکومت چند لمحوں میں زمین بوس ہوگئی اور تین ٹریلین ڈالر سے تیار کردہ تین لاکھ فوج عوام میں ضم ہوگئی، کوئی نشان بھی نہ چھوڑا۔
20 سال میں 10 لاکھ افغان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس کی سزا پاکستان کو 86 ہزار افراد کی قربانیوں کی شکل میں بھگتنا پڑی،کابل پر قبضہ کے بعد غیر ملکی افواج اور شہریوں کا انخلا مسلہ بن گیا، اس انخلا کو بھی پاکستان نے سہارا دیا، پانچ دن میں430 فلائیٹس غیر ملکیوں کو لے کر اسلام آباد پہنچیں،50 ہزار افراد اسلام آباد کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔
غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے متاثرہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں افغانستان کے اندر اور عالمی سطح پر یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ افغانستان میں نوے کی دہائی جیسے حالات تو پیدا ہوں گے،کیا ایک مرتبہ پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے کیا بے امنی کی وجہ سے افغانستان سے ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔
کیا اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک یا خطے میں پڑیں گے،یہ بے یقینی بھی پائی جاتی ہے کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار کس کے پاس رہے گا، کیا طالبان مفاہمت کے تحت معاملات حل کرلیں گے یا یہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کریں گے۔
ماضی کی مثالیں سامنے ہیں جب روس کے افغانستان سے جانے کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہ رہے، مجاہدین آپس میں لڑنے لگے ،ایسے حالات میں عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ جانی نقصان زیادہ ہوتا ہے اور ملک کا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوتا ہے۔
طالبان کے اقتدار کا سورج ایک مرتبہ پھر افغان سرزمین پر طلوع ہوگیا، امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی کہ افغانستان میں آئندہ چند روز میں نئی حکومت بن جائے گی، امریکی بیساکھیوں پر کھڑی افغان حکومت چند لمحوں میں زمین بوس ہوگئی اور تین ٹریلین ڈالر سے تیار کردہ تین لاکھ فوج عوام میں ضم ہوگئی، کوئی نشان بھی نہ چھوڑا۔
20 سال میں 10 لاکھ افغان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس کی سزا پاکستان کو 86 ہزار افراد کی قربانیوں کی شکل میں بھگتنا پڑی،کابل پر قبضہ کے بعد غیر ملکی افواج اور شہریوں کا انخلا مسلہ بن گیا، اس انخلا کو بھی پاکستان نے سہارا دیا، پانچ دن میں430 فلائیٹس غیر ملکیوں کو لے کر اسلام آباد پہنچیں،50 ہزار افراد اسلام آباد کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔
غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے متاثرہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں افغانستان کے اندر اور عالمی سطح پر یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ افغانستان میں نوے کی دہائی جیسے حالات تو پیدا ہوں گے،کیا ایک مرتبہ پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے کیا بے امنی کی وجہ سے افغانستان سے ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔
کیا اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک یا خطے میں پڑیں گے،یہ بے یقینی بھی پائی جاتی ہے کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار کس کے پاس رہے گا، کیا طالبان مفاہمت کے تحت معاملات حل کرلیں گے یا یہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کریں گے۔
ماضی کی مثالیں سامنے ہیں جب روس کے افغانستان سے جانے کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہ رہے، مجاہدین آپس میں لڑنے لگے ،ایسے حالات میں عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ جانی نقصان زیادہ ہوتا ہے اور ملک کا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوتا ہے۔