لاہور کے دو گمنام عجائب گھر
جامعہ پنجاب کے آرکیالوجی اور زولوجی عجائب گھروں میں ملک بھرسے علم کے متلاشی آتے ہیں
SYDNEY/HONG KONG:
جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مادرعلمی جامعہ پنجاب میں دو ایسے عجائب گھر بھی ہیں جہاں آثارقدیمہ اور حیوانات کے ہزاروں سال پرانے ڈھانچے ،حنوط شدہ جسم اور ماڈلزمحفوظ ہیں، یہ میوزیم تحقیق وآگاہی کے لئے بنائے گئے ہیں اورملک بھرسے علم کے متلاشی یہاں آتے ہیں۔
آرکیالوجی میوزیم میں 15 سے 20 لاکھ سال پرانے پتھرسے بنے اوزاربھی موجود ہیں جنہیں اس دورمیں شکارکے لئے استعمال کیاجاتا تھا جبکہ زوالوجی میوزیم میں چاردانتوں والے ہاتھی کے ماڈل سمیت کئی ایسے جانوروں کے ڈھانچے موجود ہیں جوہزاروں سال پہلے اس دنیا سے ناپید ہوچکے ہیں۔
شعبہ آرکیالوجی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد حمید نے کہتے ہیں قدیم ادوارسے متعلق جاننے کے لئے میوزیم میں رکھی گئی نوادرات اہم کردارادا کرتی ہیں، کچھ ادواربارے توہمیں تاریخ کی کتابوں سے رہنمائی مل جاتی ہیں لیکن بعض اوقات کھدائی کے دوران ہمیں ایسے آثاربھی ملتے ہیں جن کی مدد سے ہمیں اس دورکے رہن سہن، کلچر اورثقافت بارے جاننے میں مدد ملتی ہے، میوزیم میں سب سے قدیم پتھروں سے بنے اوزارہیں جو کم وبیش 15 سے 20 لاکھ سال پرانے ہیں، نوک داراورسخت پتھروں سے بنے یہ اوزارجانوروں اورپرندوں کے شکارسمیت جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال ہوتے تھے۔ اسی طرح جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پتھرکے ان اوزاروں کی شکل وصورت تبدیل ہوتی گئی،یہاں روڑی سندھ، مہرگڑھ بلوچستان اورپوٹھوہارسمیت مختلف تہذیبوں سے جڑی نوادرات موجودہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے پاس نوادرات کااتنابڑاخزانہ ہے جس کے رکھنے کے لئے ابھی ہمارے پاس جگہ نہیں ہے، چھوٹے سے میوزیم میں ابھی صرف 20 فیصدنوادرات رکھی گئی ہیں۔
آرکیالوجی میوزیم کی طرح یہاں ملک کاسب سے بڑا زو لوجی میوزیم بھی ہے جہاں ہزاروں جانوروں، حشرات ،پرندوں کے حنوط شدہ اجسام ، ڈھانچے اورماڈلزرکھے گئے ہیں۔ شعبہ حیوانات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرذوالفقارعلی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کا یہ میوزیم 100 سال سے زیادہ قدیم ہے، یہاں اس خطے میں پائے جانیوالے جانوروں، پرندوں ،آبی حیات اورحشرات کوحنوط شدہ شکل میں رکھاگیاہے۔ کچھ ماڈلزاورحقیقی ڈھانچوں کے ذریعے انسانی ارتقا جبکہ مختلف جانوروں جن میں ہاتھی قابل ذکرہے ان کوواضع کیاگیاہے، انہوں نے بتایا کہ ان ڈھانچوں کودیکھ کرواضع ہوتا ہے کہ مختلف جانوروں اورپرندوں کے اجسمام میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے، بعض جانوروں کی جسمامت بڑی ہوتی گئی جبکہ بعض چھوٹے ہوتے گئے ۔
میوزیم میں جنگلی اورآبی حیات کی مختلف انواع کوحنوط شدہ شکل میں رکھاگیاہے،ان میں زیادہ تروہ ہیں جو اس خطے سے ناپیدہوچکی ہیں۔ حیوانات بارے تحقیق کرنیوالے طالب علموں کے لئے یہ میوزیم ایک خزانہ ہے۔ وہ یہاں آکرریسرچ کرتے ہیں انہیں مختلف ادوارمیں جانوروں اورپرندوں کی جسمانی ساخت بارے جاننے کاموقع ملتا ہے۔ ڈاکٹرزوالفقار علی نے بتایا کہ میوزیم میں طلبا وطالبات کوجانوروں اورپرندوں کاحنوط کرنابھی سکھایاجاتا ہے۔ یہاں مختلف اقسام کے سانپوں، اژدھوں، چھپکلیوں، مینڈکوں اورمچھلیوں کوبھی محفوظ کیا گیا ہے۔
زولوجی میوزیم کے نگران سیدشبیرحسین نے بتایا کہ یہاں حنوط شدہ اجسام اورڈھانچوں کی دیکھ بھال کاخاص خیال رکھاجاتا ہے، مختلف خانوں میں سیم اورنمی سے محفوظ رکھنے والی ادویات رکھی گئی ہیں اورحنوط شدہ جسموں کو سپرے کیاجاتاہے۔اگرکوئی ماڈل یاڈھانچہ ٹوٹ جائے تواس کی مرمت بھی کی جاتی ہے۔ منتظمین کے مطابق یہ نوادرات ملک کے مختلف حصوں میں تحقیق کے دوران اکٹھی کی گئیں ہیں جبکہ بعض ڈھانچے،مختلف اداروں اورافرادکی طرف سے عطیہ کیے گئے ہیں۔
جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مادرعلمی جامعہ پنجاب میں دو ایسے عجائب گھر بھی ہیں جہاں آثارقدیمہ اور حیوانات کے ہزاروں سال پرانے ڈھانچے ،حنوط شدہ جسم اور ماڈلزمحفوظ ہیں، یہ میوزیم تحقیق وآگاہی کے لئے بنائے گئے ہیں اورملک بھرسے علم کے متلاشی یہاں آتے ہیں۔
آرکیالوجی میوزیم میں 15 سے 20 لاکھ سال پرانے پتھرسے بنے اوزاربھی موجود ہیں جنہیں اس دورمیں شکارکے لئے استعمال کیاجاتا تھا جبکہ زوالوجی میوزیم میں چاردانتوں والے ہاتھی کے ماڈل سمیت کئی ایسے جانوروں کے ڈھانچے موجود ہیں جوہزاروں سال پہلے اس دنیا سے ناپید ہوچکے ہیں۔
شعبہ آرکیالوجی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد حمید نے کہتے ہیں قدیم ادوارسے متعلق جاننے کے لئے میوزیم میں رکھی گئی نوادرات اہم کردارادا کرتی ہیں، کچھ ادواربارے توہمیں تاریخ کی کتابوں سے رہنمائی مل جاتی ہیں لیکن بعض اوقات کھدائی کے دوران ہمیں ایسے آثاربھی ملتے ہیں جن کی مدد سے ہمیں اس دورکے رہن سہن، کلچر اورثقافت بارے جاننے میں مدد ملتی ہے، میوزیم میں سب سے قدیم پتھروں سے بنے اوزارہیں جو کم وبیش 15 سے 20 لاکھ سال پرانے ہیں، نوک داراورسخت پتھروں سے بنے یہ اوزارجانوروں اورپرندوں کے شکارسمیت جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال ہوتے تھے۔ اسی طرح جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پتھرکے ان اوزاروں کی شکل وصورت تبدیل ہوتی گئی،یہاں روڑی سندھ، مہرگڑھ بلوچستان اورپوٹھوہارسمیت مختلف تہذیبوں سے جڑی نوادرات موجودہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے پاس نوادرات کااتنابڑاخزانہ ہے جس کے رکھنے کے لئے ابھی ہمارے پاس جگہ نہیں ہے، چھوٹے سے میوزیم میں ابھی صرف 20 فیصدنوادرات رکھی گئی ہیں۔
آرکیالوجی میوزیم کی طرح یہاں ملک کاسب سے بڑا زو لوجی میوزیم بھی ہے جہاں ہزاروں جانوروں، حشرات ،پرندوں کے حنوط شدہ اجسام ، ڈھانچے اورماڈلزرکھے گئے ہیں۔ شعبہ حیوانات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرذوالفقارعلی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کا یہ میوزیم 100 سال سے زیادہ قدیم ہے، یہاں اس خطے میں پائے جانیوالے جانوروں، پرندوں ،آبی حیات اورحشرات کوحنوط شدہ شکل میں رکھاگیاہے۔ کچھ ماڈلزاورحقیقی ڈھانچوں کے ذریعے انسانی ارتقا جبکہ مختلف جانوروں جن میں ہاتھی قابل ذکرہے ان کوواضع کیاگیاہے، انہوں نے بتایا کہ ان ڈھانچوں کودیکھ کرواضع ہوتا ہے کہ مختلف جانوروں اورپرندوں کے اجسمام میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے، بعض جانوروں کی جسمامت بڑی ہوتی گئی جبکہ بعض چھوٹے ہوتے گئے ۔
میوزیم میں جنگلی اورآبی حیات کی مختلف انواع کوحنوط شدہ شکل میں رکھاگیاہے،ان میں زیادہ تروہ ہیں جو اس خطے سے ناپیدہوچکی ہیں۔ حیوانات بارے تحقیق کرنیوالے طالب علموں کے لئے یہ میوزیم ایک خزانہ ہے۔ وہ یہاں آکرریسرچ کرتے ہیں انہیں مختلف ادوارمیں جانوروں اورپرندوں کی جسمانی ساخت بارے جاننے کاموقع ملتا ہے۔ ڈاکٹرزوالفقار علی نے بتایا کہ میوزیم میں طلبا وطالبات کوجانوروں اورپرندوں کاحنوط کرنابھی سکھایاجاتا ہے۔ یہاں مختلف اقسام کے سانپوں، اژدھوں، چھپکلیوں، مینڈکوں اورمچھلیوں کوبھی محفوظ کیا گیا ہے۔
زولوجی میوزیم کے نگران سیدشبیرحسین نے بتایا کہ یہاں حنوط شدہ اجسام اورڈھانچوں کی دیکھ بھال کاخاص خیال رکھاجاتا ہے، مختلف خانوں میں سیم اورنمی سے محفوظ رکھنے والی ادویات رکھی گئی ہیں اورحنوط شدہ جسموں کو سپرے کیاجاتاہے۔اگرکوئی ماڈل یاڈھانچہ ٹوٹ جائے تواس کی مرمت بھی کی جاتی ہے۔ منتظمین کے مطابق یہ نوادرات ملک کے مختلف حصوں میں تحقیق کے دوران اکٹھی کی گئیں ہیں جبکہ بعض ڈھانچے،مختلف اداروں اورافرادکی طرف سے عطیہ کیے گئے ہیں۔