سارے رنگ
لوگوں کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ ذہنی دبائو جسمانی عارضوں کی طرح ایک عام مسئلہ ہے اور یہ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ISLAMABAD :
''جگ ہنسائی'' کیوں ضروری ہے۔۔۔؟
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ آج کی 'خانہ پُری' میں کیا بے تُکا سا موضوع آگیا ہے۔۔۔ تو جناب، ذرا دل تھام کر بیٹھیے، کیوں کہ ہم بھی پہلے اسی 'شرافت' میں مارے جاتے رہے ہیں کہ 'چھوڑیے، جانے دیجیے، بلاوجہ کا تماشا بنے گا۔۔۔ ہم کیوں کسی کو خود پر 'ہنسنے' اور باتیں بنانے کا موقع دیں۔۔۔!' لیکن صاحب، جب ظلم کرنے والا، فساد اٹھانے والا اور ستم ڈھانے والا منہ زور سامنے والے کی اسی وضع داری اور شرافت کو اس کی کمزوری بنا دے، تو پھر یہ فرض ہوا جاتا ہے کہ اب ذرا سی دیر کے لیے یہ ''جگ ہنسائی'' کر ہی لی جائے۔۔۔
دیکھیے بھئی، جب ناہنجار اور احسان فراموش اولاد اپنے بوڑھے باپ کو دھکے دے کر گھر سے نکال دے یا اسے ناراض کر کے گھر سے جانے پر مجبور کر دے اور پھر اگر باپ کسی سے شکایت کرے، یا اور کوئی رشتے دار اپنے طور پر باہر ذرا اُس ناخلف اولاد کو پکار دے کہ 'میاں، تم لوگ ہوش میں تو ہو۔۔۔؟ یہ آخر کر کیا رہے ہو، یہ عزت ہے تمھارے لیے اپنے باپ کی۔۔۔؟' تو یقیناً اس سے چار لوگ جمع بھی ہوں گے۔
لیکن یہ عمل دراصل اس بے شرم اولاد کے خلاف ایک احتجاج ہوگا۔۔۔ اور ایسے میں بہت ممکن ہے کہ وہ نافرمان اولاد اس بات کا گریہ شروع کر دے کہ ''ہائے ہائے، خوامخواہ ہمارے گھر کا تماشا بنا دیا گیا ہے۔۔۔ ہائے ہائے، گھر کے اندر کی بات تھی، گھر میں ہی کرلی ہوتی۔۔۔ دیکھو، ہمارے ساتھ کتنا ظلم ہو گیا، ہماری چار دیواری کی باتیں بیچ چوراہے پر کر رہے ہیں۔۔۔!'' تو ایسے میں یاد رکھیے، یہ سارا ناٹک ایسی اولاد کے ڈرامے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اِس اولاد کے پروپیگنڈے میں آکر اسے 'جگ ہنسائی' سمجھنے کی غلطی کبھی نہ کریں۔
بلکہ یہ سوچیں کہ آج گھر کا یہ مسئلہ گلی میں آیا ہے، تو پتا تو چلے گھر کے اندر کتنے برسوں سے یہ ساری باتیں پکتی رہی ہوں گی۔۔۔ باپ نے گھر کی چار دیواری میں کتنے عرصے تک اپنی اولاد کی ساری تکلیفیں اور اذیتیں سہی ہوں گی، اور کتنے دنوں تک اسی 'جگ ہنسائی' کے ڈر اور خوف سے خون کے گھونٹ پیے ہوں گے۔۔۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ چوں کہ اولاد بے شرمی پر اتری ہوئی ہوتی ہے، اس لیے وہ باپ کے ساتھ اپنے ''حسن سلوک'' کا جواب دینے کے بہ جائے یہی شور مچانے لگتی ہے کہ ہم تو بہت مہذب اور فرماں بردار لوگ ہیں، ہمارے گھر کی بات باہر کر کے بہت بڑا 'ظلم' کر دیا گیا ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے باہر بات نہ کرنے کی حکمت اور خاموشی کو کمزوری بنا لیا ہوتا ہے، اب چوں کہ ان کے کالے کرتوت ساری دنیا کے سامنے آ رہے ہوتے ہیں اور سارا محلہ ان پر تُھو تُھو کرنے لگتا ہے، تو ان کے پاس چُھپنے کا اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ یہ کہیں کہ ہماری 'جگ ہنسائی' کر دی گئی۔۔۔! یعنی کسی کے شریفانہ طرز عمل کی اوٹ لے کر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے رہیں۔۔۔ ظلم کرنے والا تو کسی ضابطے کا محتاج نہیں، لیکن ظلم سہنے والے کو دنیا کے سارے اصولوں کی پاس داری کرتی رہنی چاہیے!!
اس لیے 'جگ ہنسائی' سے بچنا اور 'گھر کی بات' کا تماشا نہ بننے دینا عام حالات میں بلاشبہ ایک احسن اور درست عمل ہے، لیکن جہاں یہ محسوس ہو کہ اندر کی بات اندر سنی ہی نہیں جا رہی اور 'مسند نشین' اور 'اہل حَکم' اپنی ہی ترنگ میں بہے چلے جا رہے ہیں، تو پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دنیا کے سامنے مہذب، شریف، پارسا اور پاک باز بننے والوں کی سیاہ کاریاں دنیا کے سامنے لائی جائیں۔۔۔ کیوںکہ 'تنگ آمد، بہ جنگ آمد' کے مصداق ظلم کی چکی میں پسنے والے 'بے اختیاروں' کے ہاتھ میں صرف یہی رہ جاتا ہے۔
اور پھر ظالم کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ دیکھو، یہ ہمارے خلاف کتنا غلط کر رہا ہے۔۔۔ بہ جائے اس کے کہ وہ اپنی من مانیوں اور غلط کاریوں کا جواب دے، کیوں کہ اسے پتا ہوتا ہے کہ وہ جس راستے پر چل رہا ہے، وہ راستہ غلط، غیراصولی اور غیرقانونی ہے۔۔۔ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کے سوالات کا جواب میں یہی کہتے پھرے کہ دیکھو کتنا ظلم ہوگیا، چچ۔۔۔چچ۔۔۔ ہم ایسے 'سیدھے سادوں' کو سارے زمانے میں ''بدنام'' کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے واقعات کو جگ ہنسائی کے بہ جائے بے بسی کے عالم میں کیا جانے والا ایک احتجاج سمجھتے ہیں، چاہے آپ 'سوشل میڈیا' پر اس کا تذکرہ کریں یا پھر سماج کے دیگر بااثر حلقوں کو بتائیں کہ آپ کے ساتھ کیا ظلم اور حق تلفی کی جا رہی ہے۔۔۔ یہ امر ایک طرح کے 'جہاد' میں ہی شمار ہوگا، کیوںکہ ظلم کرنے والے کے پیر زمین پر لانے کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بھرے سماج میں اس کے مکروہ ترین چہرے سے نقاب نوچ لیا جائے۔۔۔ اب اصلیت کھلنے سے ان میں ہلچل مچے گی، تو ظالم ''جگ ہنسائی ہو رہی ہے'' کے پردے کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کرے گا۔
ایسے میں مصالحت کرنے والوں اور دیگر لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو بھی ہر لمحہ ذہن میں رکھیں کہ کسی بھی مسئلے کے پہلے دن ہی بات 'باہر' نہیں آئی ہے۔۔۔ اس لیے وہ آگے بڑھ کر ذمہ داران کا احتساب کریں، ان سے ظلم کا جواب لیں اور مجبوراً باہر آکر مظالم کا تذکرہ کرنے والے کے صبر کو بھی داد دیں کہ وہ کتنے عرصے خاموشی سے اس جبر اور استبداد کو سہتا رہا۔ ساتھ ہی ان ظالموں سے یہ بھی پوچھیں کہ اگر آج جگ ہنسائی ہو رہی ہے، تو اس میں اِن مظلوموں کا نہیں بلکہ تم ظالموں کا کردار ہے۔۔۔!
دلّی وَالے اور برسات
صادق الخیری
اب ہم نشیں میں روئوں کیا اگلی صبحوں کو
بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑگئی ہیں
جن وقتوں کا یہ ذکر ہے، ان کو بیتے 50 سال سے اوپر ہوئے، ہر چند کہ 'غدر' کے بعد دلی والوں کی قسمت میں زوال آگیا تھا اور مصائب وآلام نے ان کو گھروں سے بے گھر کر دیا تھا، مگر اَمی جَمی ہو جانے پر ان کی فطری زندہ دلی پھر کے سے ابھر آئی۔ بے شک وقت اور حالات نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا، لیکن ان کے طور طریق، ان کا رکھ رکھائو، ان کی قدیم روایات، ان کا ہنسنا بولنا اور ان کی وضع داریاں ان کے سینوں سے لگی رہیں، مگر یہ سب باتیں بھی انھی لوگوں کے دم قدم سے تھیں۔ جب نئی تعلیم اور نئی تہذیب نے نئی نئی صورتوں کے جلو میں اپنی جوت دکھائی تو 'شاہ جہاں آباد' کے وہ سدا بہار پھول کملانے لگے، ان وقتوں میں دلّی والے اپنی زندگی ہنس بول کر گزارتے تھے، سال کا ہر موسم اور مہینے کا ہر روز ان کے لیے خوشی کا ایک نیا پیغام لاتا تھا۔ آندھی جائے، مینہ جائے ان کو خوش رہنے اور خوش رکھنے سے کام، یادش بخیر، مینہ کا ذکر آیا، تو برسَات کے وہ سہانے سمے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ آج کی دہلی دیکھیے تو زمین آسمان کا فرق۔۔۔! اب کی باتیں تو خیر جانے دیجیے کہ اس زمانے میں خوش وقتی کا جو ہدڑا بنا ہے وہ ہر بھلے مانس کو معلوم ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ ان مبارک دنوں میں دلّی والے برسات کو کس طرح مناتے تھے۔
جیٹھ بیساکھ کی قیامت خیز گرمیاں رخصت ہوئیں، اب برسات کی آمد آمد ہے۔ بہنوں کو سسرال آئے ہوئے مہینوں گزر گئے اور ان کی آنکھیں میکے کے کاجل کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ نیم میں نبولیاں پکتی دیکھ کر ان کو میکہ یاد آ رہا ہے اور وہ چپکے چپکے گنگناتی ہیں۔
نیم کی نمبولی پکی، ساون بھی اب آوے گا
جیوے میری ماں کا جایا، ڈولی بھیج بلاوے گا
لیجیے یہ وقت بھی آگیا، ساون کی اندھیری جھکی ہوئی ہے۔ لال کالی آندھیاں چل رہی ہیں۔ خاک اور ہوا کا وہ زور کہ الامان الحفیظ! آخر مینہ برسنا شروع ہوا، خاک دب گئی ہے اور پچھلے مہینوں گرمی نے جو آفت ڈھائی تھی، اس سے خدا خدا کر کے چھٹکارا ملا۔ بارش کے دو چار ہی چھینٹوں نے ہر شے میں نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔ لوئوں کے تھپیڑوں سے جھلسے ہوئے درخت اور پودے جو سوکھ کر کھڑنک ہوگئے تھے، اب پھر ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ اونچے اونچے پیڑوں کی ٹہنیاں خوشی سے جھوم رہی ہیں، جہاں تک نظر جاتی ہے، مخملی فرش بچھا ہوا ہے۔ دلی والے، سیلانی پنچھی، گھڑی گھڑی آسمان کو دیکھتے ہیں اور دل میں کہہ رہے ہیں۔
کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں برسے
ایسا برسے میرے اﷲ کہ چھاجوں برسے
(ستمبر 1939ء کا ایک مضمون)
''ایں ہم برسر علم۔۔۔''
فارسی ضرب المثل کا ایک قصہ
عبدالرحمٰن
ایں ہم برسر علم۔۔۔ فارسی کی ضرب المثل ہے۔ معلوم نہیں ایران میں بنی یا ہندوستان میں، مگر بولتے اردو میں بھی ہیں۔ ''ترجمہ اس کا ہے، یہ بھی جھنڈے پر سہی، مطلب یہ کہ جہاں سو ہیں وہاں سوا سو سہی۔ جہاں ہزاروں گناہوں کی پوٹ سر پر ہو، ایک گناہ اور سہی۔ قصّہ اس مثل کا یوں ہے کہ کہیں کی مسجد میں کوئی عالم وعظ فرما رہے اور نیکی و بدی دوزخ کا نقشہ دکھا رہے تھے۔
اسی ذیل میں امانت و خیانت، ایمان داری و بے ایمانی کا مذکور آگیا۔ مولوی صاحب نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں۔ خوب خوب دادِ تحقیق دی۔ چوری کی ایک ایک کر کے ساری صورتیں بیان کیں۔ ہر ہر پیشہ اور ہنر والوں کے کرتوتوں کو گنوایا، ان کی کھلی ڈھکی چوریوں کو کھول کھول کر دکھایا۔ یونہی ہوتے ہوتے کہیں درزیوں کا ذکر آگیا۔ جناب نے ان کے خوب لتے لیے ۔ ایسے بخیے ادھیڑے کہ کوئی ٹانکا لگا نہ رہنے دیا۔ گاہکوں کی بے اعتباری اور اس کے نتائج دنیا کے بے ثباتی، آخرت کی خرابی کو پھیلا پھیلا کر دکھایا۔
عقبیٰ کے عذاب، قیامت کے حساب کتاب سے ڈرایا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ درزی چھوٹی بڑی چوریاں جتنی کرتے ہیں دنیا میں اگر چھپ بھی جائیں قیامت کے دن سب 'الم نشرح' ہو کر رہیں گی۔ یہ لوگ جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ ایک بڑا سا عَلم ہر ایک درزی کے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر عمر بھر کے چرائے ہوئے کپڑے، حتیٰ کہ ذرا ذرا سی کترنیں بھی، لٹکتے ہوں گے۔ ساری خدائی ان کی چوری کا یہ تماشا دیکھے گی اور درزیوں کی بڑی رسوائی ہوگی۔
جزا و سزا کا وقت آئے گا تو وہی سوئیاں، قینچیاں جن سے چوری کا کپڑا کاٹا اور سی سلا کر خود پہنا، بیچا یا اہل و عیال کو پہنایا تھا عذاب و ایذا کا آلہ بن جائیں گے۔ اتفاق سے اس مجلس وعظ میں کسی طرف کوئی درزی بھی بیٹھا تھا اور ممکن ہے کہ جناب مولوی صاحب نے اسی کو دیکھ دیکھ کر اپنی تقریر کا یہ پرداز ڈالا ہو۔ اس نے جو یہ چبھتی ہوئی حق لگتی ہوئی باتیں سنیں دل ہی دل میں بہت کٹا اور اسی وقت توبہ کی کہ چوری کے پاس نہ جائوں گا اور بہت دنوں تک وہ اپنے اس عہد پر قائم بھی رہا۔ گاڑھا گزی، ململ لٹّھا، نینونین سُکھ معمولی کپڑوں کا کیا ذکر ہے اچھے اچھے ریشمی کپڑے، مخمل، اطلس، کام دانی، گل بدن کے تھان کے تھان اس کی دکان پر آتے، مگر کتربیونت کے وقت کبھی اس کو ان میں سے کچھ کتر لینے کا خیال بھی نہ آتا۔ اتفاق کی بات ایک دن ایک گاہک آیا اور ایک بڑھیا سا تھان کپڑے کا لایا۔ دولھا کا جوڑا بننا تھا۔ وہ ناپ تول دے کر اپنی راہ گیا۔ استاد تھان لے کر بیٹھے الٹ پلٹ کر دیکھا، جی للچایا۔ منہ میں پانی بھر آیا۔
رال ٹپکنے لگی۔ دل نے کہا۔ اس میں تو کچھ بچانا ہی چاہیے۔ ایمان پکارا، خبردار، کیا کرتا ہے۔ توبہ نہیں کر چکا ہے۔ استاد نے تھان اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر کپڑا سی کر دینا تھا جلدی، اس لیے پھر اٹھایا اور پھر وہی کش مکش شروع ہوئی، آخر پرانی عادت، نئی توبہ پر غالب آئی اور استاد نے کپڑا بچا لینے کا ڈھپ نکال کر فرمایا ایں ہم برسرعلم۔ جہاں ہزاروں ٹکڑے کپڑے کے قیامت کے دن علم پر ہوں گے ایک یہ بھی سہی، یہ حکایت خدا جانے سچی ہے یا جھوٹی مگر یہ بالکل سچ ہے کہ عادت خاص کر بری عادت موقع پاکر یونہی عود کرتی ہے اور یہ مثل ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔
(جنوری 1938ء کے 'ساقی' کا ایک دل چسپ ٹکڑا)
ذہنی عوارض بھی حقیقت ہیں!
حبا رحمٰن، کراچی
ذہنی دباؤ، یا ڈپریشن (Depression) ہمارے دل ودماغ کو بہت تھکا دینے والی چیز ہے اور آج بہت سے لوگ اس کا شکار ہیں، جس میں زیادہ تر نوجوان نسل شامل ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ ذہنی دبائو جیسی چیزیں کچھ نہیں ہوتیں، جب کہ ذہنی دبائو بچے سے لے کر بوڑھے تک کو ہو سکتا ہے، جو اس کا شکار ہوتا ہے، اس انسان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ انسان پھر نہ کہیں آنا، جانا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی سے بات کرنا چاہتا ہے، بس اکیلے رہنا چاہتا ہے یا پھر رونا چاہتا ہے۔
ذہنی دبائو کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے، چاہے وہ بہت چھوٹی سی بات ہو یا کوئی بڑی بات۔ اس میں کچھ لوگ اپنی بات کا اظہار کرنا جانتے ہیں، وہ اپنے کسی قریبی انسان سے اپنے اس ذہنی دبائو یعنی (Depression) کا اظہار رو کر، یا بہت کھل کر بات کر کے کر لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا جی ہلکا ہو جاتا ہے اور ذہنی دبائو بھی کافی کم ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کی کیفیت ان پر زیادہ آتی ہے، جو اپنی اس حالت کا اظہار کسی سے نہیں کرتے، وہ بس چپ ہو جاتے ہیں۔ گھر کے ایک کمرے میں بند ہو کے رہ جاتے ہیں۔
لوگوں کے لاکھ پوچھنے پر بھی اپنی حالت کا اظہار نہیں کرتے اور بس اندر ہی اندر گھٹتے ہی رہتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ خوف ناک ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے بعد وہ فرد سب سے الگ تھلگ رہنے لگتا ہے اور اکیلے رہ کر پھر اس کے دماغ میں بہت سے فضول خیالات آنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ کسی انتہائی قدم کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
یعنی ایسے لوگ اپنی زندگی کا مقصد بھول جاتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں، لیکن ان سب کا حل بھی موجود ہے۔ ماہر نفسیات ایسی صورت حال کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں اور ان کو مفید مشورے بھی دیتے ہیں، مگر اس مرحلے پر بھی لوگ باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں کہ 'ماہرنفسیات' کے پاس کیوں جائو گے۔۔۔؟ تم کوئی پاگل تھوڑی ہو۔۔۔ وہ تو 'پاگلوں کا ڈاکٹر' ہوتا ہے۔۔۔ تمھیں کیا ضرورت پڑ گئی اس کی، اس طرح جو جانا چاہتا ہے، وہ بھی رک جاتا ہے، یہ درست طرز عمل نہیں، ہمیں تو کسی کو ایسی کیفیت میں دیکھ کر ماہرنفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دینا چاہیے۔
ہم الٹا اسے روکنے لگتے ہیں۔۔۔ لوگوں کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ ذہنی دبائو جسمانی عارضوں کی طرح ایک عام مسئلہ ہے اور یہ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ فرد کوئی انتہائی قدم اٹھائے، بلکہ اس کی یہ حالت مختلف خطرناک جسمانی عوارض کا سبب بن سکتے ہیں، اس لیے کبھی کسی کا دل نہ دکھائیں، خاص طور سے اس کی کسی ایسی چیز پر، جس کے حوالے سے وہ بہت زیادہ حساس ہو، ان کا ساتھ دیں اور ان کو سمجھیں، جو اس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔
''جگ ہنسائی'' کیوں ضروری ہے۔۔۔؟
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ آج کی 'خانہ پُری' میں کیا بے تُکا سا موضوع آگیا ہے۔۔۔ تو جناب، ذرا دل تھام کر بیٹھیے، کیوں کہ ہم بھی پہلے اسی 'شرافت' میں مارے جاتے رہے ہیں کہ 'چھوڑیے، جانے دیجیے، بلاوجہ کا تماشا بنے گا۔۔۔ ہم کیوں کسی کو خود پر 'ہنسنے' اور باتیں بنانے کا موقع دیں۔۔۔!' لیکن صاحب، جب ظلم کرنے والا، فساد اٹھانے والا اور ستم ڈھانے والا منہ زور سامنے والے کی اسی وضع داری اور شرافت کو اس کی کمزوری بنا دے، تو پھر یہ فرض ہوا جاتا ہے کہ اب ذرا سی دیر کے لیے یہ ''جگ ہنسائی'' کر ہی لی جائے۔۔۔
دیکھیے بھئی، جب ناہنجار اور احسان فراموش اولاد اپنے بوڑھے باپ کو دھکے دے کر گھر سے نکال دے یا اسے ناراض کر کے گھر سے جانے پر مجبور کر دے اور پھر اگر باپ کسی سے شکایت کرے، یا اور کوئی رشتے دار اپنے طور پر باہر ذرا اُس ناخلف اولاد کو پکار دے کہ 'میاں، تم لوگ ہوش میں تو ہو۔۔۔؟ یہ آخر کر کیا رہے ہو، یہ عزت ہے تمھارے لیے اپنے باپ کی۔۔۔؟' تو یقیناً اس سے چار لوگ جمع بھی ہوں گے۔
لیکن یہ عمل دراصل اس بے شرم اولاد کے خلاف ایک احتجاج ہوگا۔۔۔ اور ایسے میں بہت ممکن ہے کہ وہ نافرمان اولاد اس بات کا گریہ شروع کر دے کہ ''ہائے ہائے، خوامخواہ ہمارے گھر کا تماشا بنا دیا گیا ہے۔۔۔ ہائے ہائے، گھر کے اندر کی بات تھی، گھر میں ہی کرلی ہوتی۔۔۔ دیکھو، ہمارے ساتھ کتنا ظلم ہو گیا، ہماری چار دیواری کی باتیں بیچ چوراہے پر کر رہے ہیں۔۔۔!'' تو ایسے میں یاد رکھیے، یہ سارا ناٹک ایسی اولاد کے ڈرامے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اِس اولاد کے پروپیگنڈے میں آکر اسے 'جگ ہنسائی' سمجھنے کی غلطی کبھی نہ کریں۔
بلکہ یہ سوچیں کہ آج گھر کا یہ مسئلہ گلی میں آیا ہے، تو پتا تو چلے گھر کے اندر کتنے برسوں سے یہ ساری باتیں پکتی رہی ہوں گی۔۔۔ باپ نے گھر کی چار دیواری میں کتنے عرصے تک اپنی اولاد کی ساری تکلیفیں اور اذیتیں سہی ہوں گی، اور کتنے دنوں تک اسی 'جگ ہنسائی' کے ڈر اور خوف سے خون کے گھونٹ پیے ہوں گے۔۔۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ چوں کہ اولاد بے شرمی پر اتری ہوئی ہوتی ہے، اس لیے وہ باپ کے ساتھ اپنے ''حسن سلوک'' کا جواب دینے کے بہ جائے یہی شور مچانے لگتی ہے کہ ہم تو بہت مہذب اور فرماں بردار لوگ ہیں، ہمارے گھر کی بات باہر کر کے بہت بڑا 'ظلم' کر دیا گیا ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے باہر بات نہ کرنے کی حکمت اور خاموشی کو کمزوری بنا لیا ہوتا ہے، اب چوں کہ ان کے کالے کرتوت ساری دنیا کے سامنے آ رہے ہوتے ہیں اور سارا محلہ ان پر تُھو تُھو کرنے لگتا ہے، تو ان کے پاس چُھپنے کا اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ یہ کہیں کہ ہماری 'جگ ہنسائی' کر دی گئی۔۔۔! یعنی کسی کے شریفانہ طرز عمل کی اوٹ لے کر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے رہیں۔۔۔ ظلم کرنے والا تو کسی ضابطے کا محتاج نہیں، لیکن ظلم سہنے والے کو دنیا کے سارے اصولوں کی پاس داری کرتی رہنی چاہیے!!
اس لیے 'جگ ہنسائی' سے بچنا اور 'گھر کی بات' کا تماشا نہ بننے دینا عام حالات میں بلاشبہ ایک احسن اور درست عمل ہے، لیکن جہاں یہ محسوس ہو کہ اندر کی بات اندر سنی ہی نہیں جا رہی اور 'مسند نشین' اور 'اہل حَکم' اپنی ہی ترنگ میں بہے چلے جا رہے ہیں، تو پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دنیا کے سامنے مہذب، شریف، پارسا اور پاک باز بننے والوں کی سیاہ کاریاں دنیا کے سامنے لائی جائیں۔۔۔ کیوںکہ 'تنگ آمد، بہ جنگ آمد' کے مصداق ظلم کی چکی میں پسنے والے 'بے اختیاروں' کے ہاتھ میں صرف یہی رہ جاتا ہے۔
اور پھر ظالم کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ دیکھو، یہ ہمارے خلاف کتنا غلط کر رہا ہے۔۔۔ بہ جائے اس کے کہ وہ اپنی من مانیوں اور غلط کاریوں کا جواب دے، کیوں کہ اسے پتا ہوتا ہے کہ وہ جس راستے پر چل رہا ہے، وہ راستہ غلط، غیراصولی اور غیرقانونی ہے۔۔۔ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کے سوالات کا جواب میں یہی کہتے پھرے کہ دیکھو کتنا ظلم ہوگیا، چچ۔۔۔چچ۔۔۔ ہم ایسے 'سیدھے سادوں' کو سارے زمانے میں ''بدنام'' کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے واقعات کو جگ ہنسائی کے بہ جائے بے بسی کے عالم میں کیا جانے والا ایک احتجاج سمجھتے ہیں، چاہے آپ 'سوشل میڈیا' پر اس کا تذکرہ کریں یا پھر سماج کے دیگر بااثر حلقوں کو بتائیں کہ آپ کے ساتھ کیا ظلم اور حق تلفی کی جا رہی ہے۔۔۔ یہ امر ایک طرح کے 'جہاد' میں ہی شمار ہوگا، کیوںکہ ظلم کرنے والے کے پیر زمین پر لانے کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بھرے سماج میں اس کے مکروہ ترین چہرے سے نقاب نوچ لیا جائے۔۔۔ اب اصلیت کھلنے سے ان میں ہلچل مچے گی، تو ظالم ''جگ ہنسائی ہو رہی ہے'' کے پردے کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کرے گا۔
ایسے میں مصالحت کرنے والوں اور دیگر لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو بھی ہر لمحہ ذہن میں رکھیں کہ کسی بھی مسئلے کے پہلے دن ہی بات 'باہر' نہیں آئی ہے۔۔۔ اس لیے وہ آگے بڑھ کر ذمہ داران کا احتساب کریں، ان سے ظلم کا جواب لیں اور مجبوراً باہر آکر مظالم کا تذکرہ کرنے والے کے صبر کو بھی داد دیں کہ وہ کتنے عرصے خاموشی سے اس جبر اور استبداد کو سہتا رہا۔ ساتھ ہی ان ظالموں سے یہ بھی پوچھیں کہ اگر آج جگ ہنسائی ہو رہی ہے، تو اس میں اِن مظلوموں کا نہیں بلکہ تم ظالموں کا کردار ہے۔۔۔!
دلّی وَالے اور برسات
صادق الخیری
اب ہم نشیں میں روئوں کیا اگلی صبحوں کو
بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑگئی ہیں
جن وقتوں کا یہ ذکر ہے، ان کو بیتے 50 سال سے اوپر ہوئے، ہر چند کہ 'غدر' کے بعد دلی والوں کی قسمت میں زوال آگیا تھا اور مصائب وآلام نے ان کو گھروں سے بے گھر کر دیا تھا، مگر اَمی جَمی ہو جانے پر ان کی فطری زندہ دلی پھر کے سے ابھر آئی۔ بے شک وقت اور حالات نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا، لیکن ان کے طور طریق، ان کا رکھ رکھائو، ان کی قدیم روایات، ان کا ہنسنا بولنا اور ان کی وضع داریاں ان کے سینوں سے لگی رہیں، مگر یہ سب باتیں بھی انھی لوگوں کے دم قدم سے تھیں۔ جب نئی تعلیم اور نئی تہذیب نے نئی نئی صورتوں کے جلو میں اپنی جوت دکھائی تو 'شاہ جہاں آباد' کے وہ سدا بہار پھول کملانے لگے، ان وقتوں میں دلّی والے اپنی زندگی ہنس بول کر گزارتے تھے، سال کا ہر موسم اور مہینے کا ہر روز ان کے لیے خوشی کا ایک نیا پیغام لاتا تھا۔ آندھی جائے، مینہ جائے ان کو خوش رہنے اور خوش رکھنے سے کام، یادش بخیر، مینہ کا ذکر آیا، تو برسَات کے وہ سہانے سمے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ آج کی دہلی دیکھیے تو زمین آسمان کا فرق۔۔۔! اب کی باتیں تو خیر جانے دیجیے کہ اس زمانے میں خوش وقتی کا جو ہدڑا بنا ہے وہ ہر بھلے مانس کو معلوم ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ ان مبارک دنوں میں دلّی والے برسات کو کس طرح مناتے تھے۔
جیٹھ بیساکھ کی قیامت خیز گرمیاں رخصت ہوئیں، اب برسات کی آمد آمد ہے۔ بہنوں کو سسرال آئے ہوئے مہینوں گزر گئے اور ان کی آنکھیں میکے کے کاجل کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ نیم میں نبولیاں پکتی دیکھ کر ان کو میکہ یاد آ رہا ہے اور وہ چپکے چپکے گنگناتی ہیں۔
نیم کی نمبولی پکی، ساون بھی اب آوے گا
جیوے میری ماں کا جایا، ڈولی بھیج بلاوے گا
لیجیے یہ وقت بھی آگیا، ساون کی اندھیری جھکی ہوئی ہے۔ لال کالی آندھیاں چل رہی ہیں۔ خاک اور ہوا کا وہ زور کہ الامان الحفیظ! آخر مینہ برسنا شروع ہوا، خاک دب گئی ہے اور پچھلے مہینوں گرمی نے جو آفت ڈھائی تھی، اس سے خدا خدا کر کے چھٹکارا ملا۔ بارش کے دو چار ہی چھینٹوں نے ہر شے میں نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔ لوئوں کے تھپیڑوں سے جھلسے ہوئے درخت اور پودے جو سوکھ کر کھڑنک ہوگئے تھے، اب پھر ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ اونچے اونچے پیڑوں کی ٹہنیاں خوشی سے جھوم رہی ہیں، جہاں تک نظر جاتی ہے، مخملی فرش بچھا ہوا ہے۔ دلی والے، سیلانی پنچھی، گھڑی گھڑی آسمان کو دیکھتے ہیں اور دل میں کہہ رہے ہیں۔
کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں برسے
ایسا برسے میرے اﷲ کہ چھاجوں برسے
(ستمبر 1939ء کا ایک مضمون)
''ایں ہم برسر علم۔۔۔''
فارسی ضرب المثل کا ایک قصہ
عبدالرحمٰن
ایں ہم برسر علم۔۔۔ فارسی کی ضرب المثل ہے۔ معلوم نہیں ایران میں بنی یا ہندوستان میں، مگر بولتے اردو میں بھی ہیں۔ ''ترجمہ اس کا ہے، یہ بھی جھنڈے پر سہی، مطلب یہ کہ جہاں سو ہیں وہاں سوا سو سہی۔ جہاں ہزاروں گناہوں کی پوٹ سر پر ہو، ایک گناہ اور سہی۔ قصّہ اس مثل کا یوں ہے کہ کہیں کی مسجد میں کوئی عالم وعظ فرما رہے اور نیکی و بدی دوزخ کا نقشہ دکھا رہے تھے۔
اسی ذیل میں امانت و خیانت، ایمان داری و بے ایمانی کا مذکور آگیا۔ مولوی صاحب نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں۔ خوب خوب دادِ تحقیق دی۔ چوری کی ایک ایک کر کے ساری صورتیں بیان کیں۔ ہر ہر پیشہ اور ہنر والوں کے کرتوتوں کو گنوایا، ان کی کھلی ڈھکی چوریوں کو کھول کھول کر دکھایا۔ یونہی ہوتے ہوتے کہیں درزیوں کا ذکر آگیا۔ جناب نے ان کے خوب لتے لیے ۔ ایسے بخیے ادھیڑے کہ کوئی ٹانکا لگا نہ رہنے دیا۔ گاہکوں کی بے اعتباری اور اس کے نتائج دنیا کے بے ثباتی، آخرت کی خرابی کو پھیلا پھیلا کر دکھایا۔
عقبیٰ کے عذاب، قیامت کے حساب کتاب سے ڈرایا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ درزی چھوٹی بڑی چوریاں جتنی کرتے ہیں دنیا میں اگر چھپ بھی جائیں قیامت کے دن سب 'الم نشرح' ہو کر رہیں گی۔ یہ لوگ جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ ایک بڑا سا عَلم ہر ایک درزی کے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر عمر بھر کے چرائے ہوئے کپڑے، حتیٰ کہ ذرا ذرا سی کترنیں بھی، لٹکتے ہوں گے۔ ساری خدائی ان کی چوری کا یہ تماشا دیکھے گی اور درزیوں کی بڑی رسوائی ہوگی۔
جزا و سزا کا وقت آئے گا تو وہی سوئیاں، قینچیاں جن سے چوری کا کپڑا کاٹا اور سی سلا کر خود پہنا، بیچا یا اہل و عیال کو پہنایا تھا عذاب و ایذا کا آلہ بن جائیں گے۔ اتفاق سے اس مجلس وعظ میں کسی طرف کوئی درزی بھی بیٹھا تھا اور ممکن ہے کہ جناب مولوی صاحب نے اسی کو دیکھ دیکھ کر اپنی تقریر کا یہ پرداز ڈالا ہو۔ اس نے جو یہ چبھتی ہوئی حق لگتی ہوئی باتیں سنیں دل ہی دل میں بہت کٹا اور اسی وقت توبہ کی کہ چوری کے پاس نہ جائوں گا اور بہت دنوں تک وہ اپنے اس عہد پر قائم بھی رہا۔ گاڑھا گزی، ململ لٹّھا، نینونین سُکھ معمولی کپڑوں کا کیا ذکر ہے اچھے اچھے ریشمی کپڑے، مخمل، اطلس، کام دانی، گل بدن کے تھان کے تھان اس کی دکان پر آتے، مگر کتربیونت کے وقت کبھی اس کو ان میں سے کچھ کتر لینے کا خیال بھی نہ آتا۔ اتفاق کی بات ایک دن ایک گاہک آیا اور ایک بڑھیا سا تھان کپڑے کا لایا۔ دولھا کا جوڑا بننا تھا۔ وہ ناپ تول دے کر اپنی راہ گیا۔ استاد تھان لے کر بیٹھے الٹ پلٹ کر دیکھا، جی للچایا۔ منہ میں پانی بھر آیا۔
رال ٹپکنے لگی۔ دل نے کہا۔ اس میں تو کچھ بچانا ہی چاہیے۔ ایمان پکارا، خبردار، کیا کرتا ہے۔ توبہ نہیں کر چکا ہے۔ استاد نے تھان اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر کپڑا سی کر دینا تھا جلدی، اس لیے پھر اٹھایا اور پھر وہی کش مکش شروع ہوئی، آخر پرانی عادت، نئی توبہ پر غالب آئی اور استاد نے کپڑا بچا لینے کا ڈھپ نکال کر فرمایا ایں ہم برسرعلم۔ جہاں ہزاروں ٹکڑے کپڑے کے قیامت کے دن علم پر ہوں گے ایک یہ بھی سہی، یہ حکایت خدا جانے سچی ہے یا جھوٹی مگر یہ بالکل سچ ہے کہ عادت خاص کر بری عادت موقع پاکر یونہی عود کرتی ہے اور یہ مثل ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔
(جنوری 1938ء کے 'ساقی' کا ایک دل چسپ ٹکڑا)
ذہنی عوارض بھی حقیقت ہیں!
حبا رحمٰن، کراچی
ذہنی دباؤ، یا ڈپریشن (Depression) ہمارے دل ودماغ کو بہت تھکا دینے والی چیز ہے اور آج بہت سے لوگ اس کا شکار ہیں، جس میں زیادہ تر نوجوان نسل شامل ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ ذہنی دبائو جیسی چیزیں کچھ نہیں ہوتیں، جب کہ ذہنی دبائو بچے سے لے کر بوڑھے تک کو ہو سکتا ہے، جو اس کا شکار ہوتا ہے، اس انسان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ انسان پھر نہ کہیں آنا، جانا چاہتا ہے اور نہ ہی کسی سے بات کرنا چاہتا ہے، بس اکیلے رہنا چاہتا ہے یا پھر رونا چاہتا ہے۔
ذہنی دبائو کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے، چاہے وہ بہت چھوٹی سی بات ہو یا کوئی بڑی بات۔ اس میں کچھ لوگ اپنی بات کا اظہار کرنا جانتے ہیں، وہ اپنے کسی قریبی انسان سے اپنے اس ذہنی دبائو یعنی (Depression) کا اظہار رو کر، یا بہت کھل کر بات کر کے کر لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا جی ہلکا ہو جاتا ہے اور ذہنی دبائو بھی کافی کم ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کی کیفیت ان پر زیادہ آتی ہے، جو اپنی اس حالت کا اظہار کسی سے نہیں کرتے، وہ بس چپ ہو جاتے ہیں۔ گھر کے ایک کمرے میں بند ہو کے رہ جاتے ہیں۔
لوگوں کے لاکھ پوچھنے پر بھی اپنی حالت کا اظہار نہیں کرتے اور بس اندر ہی اندر گھٹتے ہی رہتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ خوف ناک ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے بعد وہ فرد سب سے الگ تھلگ رہنے لگتا ہے اور اکیلے رہ کر پھر اس کے دماغ میں بہت سے فضول خیالات آنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ کسی انتہائی قدم کی طرف بھی جا سکتا ہے۔
یعنی ایسے لوگ اپنی زندگی کا مقصد بھول جاتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں، لیکن ان سب کا حل بھی موجود ہے۔ ماہر نفسیات ایسی صورت حال کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں اور ان کو مفید مشورے بھی دیتے ہیں، مگر اس مرحلے پر بھی لوگ باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں کہ 'ماہرنفسیات' کے پاس کیوں جائو گے۔۔۔؟ تم کوئی پاگل تھوڑی ہو۔۔۔ وہ تو 'پاگلوں کا ڈاکٹر' ہوتا ہے۔۔۔ تمھیں کیا ضرورت پڑ گئی اس کی، اس طرح جو جانا چاہتا ہے، وہ بھی رک جاتا ہے، یہ درست طرز عمل نہیں، ہمیں تو کسی کو ایسی کیفیت میں دیکھ کر ماہرنفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دینا چاہیے۔
ہم الٹا اسے روکنے لگتے ہیں۔۔۔ لوگوں کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ ذہنی دبائو جسمانی عارضوں کی طرح ایک عام مسئلہ ہے اور یہ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ فرد کوئی انتہائی قدم اٹھائے، بلکہ اس کی یہ حالت مختلف خطرناک جسمانی عوارض کا سبب بن سکتے ہیں، اس لیے کبھی کسی کا دل نہ دکھائیں، خاص طور سے اس کی کسی ایسی چیز پر، جس کے حوالے سے وہ بہت زیادہ حساس ہو، ان کا ساتھ دیں اور ان کو سمجھیں، جو اس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔