بیورو کریسی آئی ایم ایف کے تحفظات 1600 ارب کا کامیاب پاکستان پروگرام ایک سال کیلیے موخر

بینکوں کے ممکنہ نقصانات کی حکومتی ضمانت 100کے بجائے 50 فیصد، سبسڈی کم کردی جائیگی، ذرائع


Shahbaz Rana September 02, 2021
ملک بھر میں 3کروڑ افراد کو 3سال میں 16 سو ارب روپے بلاسود قرضے دیے جانے تھے،وزارت خزانہ:فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے بیوروکریسی اور آئی ایم ایف کے تحفظات کے باعث کامیاب پاکستان پروگرام کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس پروگرام کو ملک بھر میں شروع کرنے کے بجائے پہلے اس کا پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا جائے گا،کمرشل بینکوں کی شراکت داری بڑھانے کیلئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ بینکوں کے ممکنہ نقصانات کی حکومتی ضمانتوں کو 50 فیصد کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل وفاقی کابینہ نے سو فیصد نقصانات برداشت کرنے کی منظوری دی تھی،کم آمدنی والے افراد کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے وزیر خزانہ شوکت ترین کے شروع کردہ اس پروگرام کے تحت ملک بھر میں تین کروڑ غریب افراد کو تین سال میں 16 سو ارب روپے کے بلاسود قرضے دیئے جانے تھے۔

کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت حکومت دکانداروں،کاروباری افراد اور کسانوں کو بغیر ضمانت اور بلا سود چھوٹے قرضے جاری کرنا چاہتی ہے، اس پروگرام کا بنیادی ہدف غریب طبقات کے قرضے جاری کرنا ہے،تاہم اب اس پروگرام کو محدود کرتے ہوئے قرض دہندگان کی تعداد اور اس کا حجم کم کر دیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب اس پروگرام کی سبسڈی بھی کم کر دی جائے گی،جو پہلے 256 بلین روپے رکھی گئی تھی۔

وزارت خزانہ نے تصدیق کی ہے کہ پروگرام کی سٹیرنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کو پہلے کامیاب پاکستان پروگرام کا پائلٹ پراجیکٹ چلانا چاہیے،وزارت کے عہدیدار نے کہا کہ ابتدائی طور پائلٹ پراجیکٹ کے پی اور بلوچستان کے پسماندہ اضلاع میں شروع کیا جائے گا،اس کی کامیابی کے بعد اسے ملک کے دیگر حصوں میں شروع کیا جائے گا،ذرائع نے بتایا کہ پائلٹ پراجیکٹ کا دورانیہ ایک سال ہو گا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کو بھی پائلٹ پراجیکٹ کے بغیر عوامی سطح پر قرض فراہمی اور بینک نقصانات کی سو فیصد حکومتی ضمانت پر تحفظات تھے۔گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے بھی سو فیصد حکومتی ضمانت کی مخالفت کی تھی تاہم وفاقی کابینہ نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اس کی منظوری دیدی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔