الیکٹرانک ووٹنگ
مشکل یہ ہے کہ سابقہ دور میں سیاسی اشرافیہ نے بددیانتی کا جو چلن اپنایا ہے، اس سے چھٹکارا نظر نہیں آتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ بہت تیزی سے بدل رہی ہے، توہم پرستی اور رواج پرستی کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے، توہمات کی جگہ حقیقت پسندی لے رہی ہے۔
پاکستان کا شمار انتہائی پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے یہاں پر جب سے پی ٹی آئی حکومت آئی ہے ،کچھ سائنسی علوم کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی الیکٹرانک ووٹنگ ہے، اسی حوالے سے وفاقی حکومت نے طریقہ انتخاب میں تبدیلی کی تجویز پیش کی ہے اور ایک الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایجاد کی گئی ہے جس کے ذریعے بے ایمانی سے پاک ووٹنگ کی جاسکتی ہے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اپوزیشن اس مشین کی اس شدت سے مخالفت کر رہی ہے ، اس مخالفت سے عام آدمی بھی یہ تاثر لے رہا ہے کہ اپوزیشن پرانے طریقہ کار کو استعمال کرکے ماضی کی روایات برقرار رکھنا چاہتی ہے یا نئی ووٹنگ میں بے ایمانی اور دھاندلی کرنا چاہتی ہے۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور میں ہر شعبہ زندگی تبدیل ہو رہا ہے لیکن ہماری اپوزیشن ووٹ کے طریقہ کار کو بے ایمانی سے پاک کرنے کو تیار نہیں ، یہ تاثر عام آدمی لے رہا ہے کہ اپوزیشن کی پارٹیاں شفاف انتخابات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
آج کی اپوزیشن کا طریقہ کار یہ ہے کہ جعلی ووٹوں کے ذریعے انتخابات جیتے جائیں ، پاکستان کو اس راستے پر ابھی بہت دور چلنا ہے لیکن اپوزیشن ابتدا ہی میں روڑے اٹکا رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن کو اگر الیکٹرانک مشین پر کسی قسم کا شک ہو تو اس کی ہر طرح سے تحقیق کرلی جاتی لیکن اس کے برخلاف الیکٹرانک مشین کی مخالفت کرکے اپوزیشن عوام میں بدنام ہو رہی ہے۔
اس مخالفت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اپوزیشن روایتی ہتھکنڈوں سے آنے والے انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔اپوزیشن وزیراعظم عمران خان پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ اسے کسی فرشتے کی حمایت حاصل ہے اس لیے اپوزیشن عمران خان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ، ہو سکتا ہے یہ تاثر صحیح ہو، لیکن اس بات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹنگ کا جو طریقہ ہے اس میں بددیانتیوں کی پوری پوری گنجائش ہے اور 72 سال سے اس گنجائش سے فائدہ اٹھا کر ہماری اشرافیہ اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے اب جب کہ حکومت اس بددیانتانہ طریقہ انتخاب کو تبدیل کرکے ایک دیانتدارانہ متبادل طریقہ پیش کر رہا ہے تو اس کی طرح طرح سے مخالفت کی جا رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن اقتدار سے باہر ہے اور اس کے لیے لوٹ مار کے تمام راستے بند ہوگئے ہیں کیونکہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے لہٰذا وہ اس قسم کے پھڈے کر رہی ہے پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں کا ہر شعبہ پسماندگی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ہماری اشرافیہ سیاستدان گھبرائے ہوئے ہیں اگر ایمانداری سے ووٹنگ ہوئی تو وہ انتخابی میدان سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو جائیں گے۔ اس خوف کی وجہ سے اشرافیہ اپوزیشن طرح طرح کے بہانے تراش رہی ہے۔
کوئی بھی معقول شخص اس بات کی حمایت نہیں کرسکتا کہ جدید الیکٹرانک ووٹنگ جو عوام کو بغیر کسی دباؤ کے ایماندارانہ ووٹنگ کے مواقع دیتی ہے ، اسے نہ استعمال کیا جائے اور اس کی جگہ بے ایمانی کی ووٹنگ کا 72 سالہ ریکارڈ چلایا جائے یہ ایک سیاسی بدقسمتی کے علاوہ عوام کی بھی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے فائدے اور نقصان سے غافل ہیں جس کا فائدہ اپوزیشن 72 سال سے اٹھا رہی ہے۔ اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور اس کی جگہ دیانتدارانہ اور شفاف طریقہ انتخاب کو اپنانا چاہیے۔ میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بغیر کسی حمایت یا تعصب کے عوام کی بے لوث رہنمائی کرے۔
مشکل یہ ہے کہ سابقہ دور میں سیاسی اشرافیہ نے بددیانتی کا جو چلن اپنایا ہے، اس سے چھٹکارا نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں جو انتخابی طریقہ رائج ہے اس میں بددیانتی کے سیکڑوں مواقع حاصل ہیں اور اپوزیشن ان مواقعوں کو چھوڑتی ہے تو وہ اقتدار سے باہر چلی جاتی ہے اور اصل مسئلہ ہی اقتدار کا ہے خواہ وہ کسی طریقے سے ہو اشرافیہ کو اس استفادے کا موقعہ ملے۔
اس پس منظر میں عوام کی ذمے داری ہے اور عوام سے بڑھ کر میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے بتائیں تاکہ عوام سیاسی اشرافیہ کے دھوکے میں نہ آئیں۔ حیرت ہے اس جدید دور میں جب کہ دنیا کے ہر شعبے اور ہر ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورا ہے اور آنے والے دنوں میں انسانی زندگی کا دارومدار مکمل طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہوگا۔ اس نئے دور کو روکنے کی اشرافیہ اس لیے کوشش کر رہی ہے کہ سابقہ راستوں پر چل کر اقتدار کی مسند پر بیٹھ جائیں اور بددیانتی اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع کردیں۔
پاکستان کا شمار انتہائی پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے یہاں پر جب سے پی ٹی آئی حکومت آئی ہے ،کچھ سائنسی علوم کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی الیکٹرانک ووٹنگ ہے، اسی حوالے سے وفاقی حکومت نے طریقہ انتخاب میں تبدیلی کی تجویز پیش کی ہے اور ایک الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایجاد کی گئی ہے جس کے ذریعے بے ایمانی سے پاک ووٹنگ کی جاسکتی ہے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اپوزیشن اس مشین کی اس شدت سے مخالفت کر رہی ہے ، اس مخالفت سے عام آدمی بھی یہ تاثر لے رہا ہے کہ اپوزیشن پرانے طریقہ کار کو استعمال کرکے ماضی کی روایات برقرار رکھنا چاہتی ہے یا نئی ووٹنگ میں بے ایمانی اور دھاندلی کرنا چاہتی ہے۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور میں ہر شعبہ زندگی تبدیل ہو رہا ہے لیکن ہماری اپوزیشن ووٹ کے طریقہ کار کو بے ایمانی سے پاک کرنے کو تیار نہیں ، یہ تاثر عام آدمی لے رہا ہے کہ اپوزیشن کی پارٹیاں شفاف انتخابات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
آج کی اپوزیشن کا طریقہ کار یہ ہے کہ جعلی ووٹوں کے ذریعے انتخابات جیتے جائیں ، پاکستان کو اس راستے پر ابھی بہت دور چلنا ہے لیکن اپوزیشن ابتدا ہی میں روڑے اٹکا رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن کو اگر الیکٹرانک مشین پر کسی قسم کا شک ہو تو اس کی ہر طرح سے تحقیق کرلی جاتی لیکن اس کے برخلاف الیکٹرانک مشین کی مخالفت کرکے اپوزیشن عوام میں بدنام ہو رہی ہے۔
اس مخالفت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اپوزیشن روایتی ہتھکنڈوں سے آنے والے انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔اپوزیشن وزیراعظم عمران خان پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ اسے کسی فرشتے کی حمایت حاصل ہے اس لیے اپوزیشن عمران خان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ، ہو سکتا ہے یہ تاثر صحیح ہو، لیکن اس بات سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹنگ کا جو طریقہ ہے اس میں بددیانتیوں کی پوری پوری گنجائش ہے اور 72 سال سے اس گنجائش سے فائدہ اٹھا کر ہماری اشرافیہ اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے اب جب کہ حکومت اس بددیانتانہ طریقہ انتخاب کو تبدیل کرکے ایک دیانتدارانہ متبادل طریقہ پیش کر رہا ہے تو اس کی طرح طرح سے مخالفت کی جا رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن اقتدار سے باہر ہے اور اس کے لیے لوٹ مار کے تمام راستے بند ہوگئے ہیں کیونکہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے لہٰذا وہ اس قسم کے پھڈے کر رہی ہے پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں کا ہر شعبہ پسماندگی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ہماری اشرافیہ سیاستدان گھبرائے ہوئے ہیں اگر ایمانداری سے ووٹنگ ہوئی تو وہ انتخابی میدان سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو جائیں گے۔ اس خوف کی وجہ سے اشرافیہ اپوزیشن طرح طرح کے بہانے تراش رہی ہے۔
کوئی بھی معقول شخص اس بات کی حمایت نہیں کرسکتا کہ جدید الیکٹرانک ووٹنگ جو عوام کو بغیر کسی دباؤ کے ایماندارانہ ووٹنگ کے مواقع دیتی ہے ، اسے نہ استعمال کیا جائے اور اس کی جگہ بے ایمانی کی ووٹنگ کا 72 سالہ ریکارڈ چلایا جائے یہ ایک سیاسی بدقسمتی کے علاوہ عوام کی بھی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے فائدے اور نقصان سے غافل ہیں جس کا فائدہ اپوزیشن 72 سال سے اٹھا رہی ہے۔ اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور اس کی جگہ دیانتدارانہ اور شفاف طریقہ انتخاب کو اپنانا چاہیے۔ میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بغیر کسی حمایت یا تعصب کے عوام کی بے لوث رہنمائی کرے۔
مشکل یہ ہے کہ سابقہ دور میں سیاسی اشرافیہ نے بددیانتی کا جو چلن اپنایا ہے، اس سے چھٹکارا نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں جو انتخابی طریقہ رائج ہے اس میں بددیانتی کے سیکڑوں مواقع حاصل ہیں اور اپوزیشن ان مواقعوں کو چھوڑتی ہے تو وہ اقتدار سے باہر چلی جاتی ہے اور اصل مسئلہ ہی اقتدار کا ہے خواہ وہ کسی طریقے سے ہو اشرافیہ کو اس استفادے کا موقعہ ملے۔
اس پس منظر میں عوام کی ذمے داری ہے اور عوام سے بڑھ کر میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے بتائیں تاکہ عوام سیاسی اشرافیہ کے دھوکے میں نہ آئیں۔ حیرت ہے اس جدید دور میں جب کہ دنیا کے ہر شعبے اور ہر ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورا ہے اور آنے والے دنوں میں انسانی زندگی کا دارومدار مکمل طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہوگا۔ اس نئے دور کو روکنے کی اشرافیہ اس لیے کوشش کر رہی ہے کہ سابقہ راستوں پر چل کر اقتدار کی مسند پر بیٹھ جائیں اور بددیانتی اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع کردیں۔