افغانستان پر طالبان کا کنٹرول چند اہم سوالات
عشروں سے تباہ حال افغان قوم کی قسمت کا فیصلہ اب طالبان، چین، روس، ترکی، ایران اور پاکستان کریں گے۔
کسی کو بھی امید نہ تھی کہ طالبان اتنی جلدی پورے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے۔ افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے دانش وروں کی رائے یہی تھی کہ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا یعنی 31 اگست کے بعد طالبان دارالحکومت کابل کی طرف پیش قدمی شروع کریں گے۔
اس بات پر بھی سب کا اتفاق تھا کہ کابل کو اس بار فتح کرنا طالبان کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ خیال یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ طالبان کو مزارشریف میں رشید دوستم کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہرات میں اسماعیل خان مقابلہ کریں گے۔ عطا نور بھی طالبان کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ قندوز ، ہلمند اور قندھار کو قبضہ کرنے میں وقت لگے گا ۔
ایک خیال یہ بھی تھا کہ طالبان کو ایک بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا بھی کر نا پڑے گا جس کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی ایک رائے تھی کہ افغانستان کے پاس لاکھوں تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس فوجی موجود ہیں اس لئے طالبان کو کابل تک پہنچنے میں برسوں لگیں گے، یوں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد یہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جو برسوں تک جاری رہے گی۔
طالبان کو خود بھی امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اور امریکہ کی موجودگی میں کابل پر قابض ہو جائیں گے ۔ اس لئے انھوں نے منصوبہ بندی کی تھی کہ افغانستان کی معاشی راہداریوں پر قابض ہو جائیں۔ انھوں نے قندھار پر قبضہ کیا۔ یہاں چمن بارڈر کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت ہوتی ہے۔
افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی تجارت کے لئے بھی یہی شاہراہ استعمال کی جاتی ہے۔ واخان کوریڈور پر بھی طالبان قابض ہو گئے تھے۔ منصوبہ ان کا یہی تھا کہ افغانستان کی حکومت کو معاشی طور پر کمزور کیا جائے تاکہ وہ ان سے بات چیت کے لئے تیار ہو اور اپنے تمام مطالبات ان سے منوا سکیں لیکن ان کی توقعات سے بڑھ کر ان کو کامیابیاں حاصل ہوتی رہیں۔
مزار شریف میں کسی نے مزاحمت نہ کی۔ اسماعیل خان نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ عوام نے بھی مزاحمت نہیں کی۔ افغانستان کی تین لاکھ سے زیادہ فوج بھی طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار نے بھی صدر اشرف غنی کو طالبان کے ساتھ لڑنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ یوں کسی بڑی مزاحمت کے بغیر طالبان15 اگست کو کابل پر قابض ہوئے ۔ صدارتی محل میں مذاکرات کے بعد صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
صدر اشرف غنی ملک میں سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ کے ان کے ساتھ شدید اختلافات تھے۔ حکمت یار ان کا ساتھ دینے سے انکاری تھے۔ صلاح الدین ربانی ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔ سابق صدر حامد کرزئی بھی ان سے نالاں تھے۔
٭ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد
سقوط کابل کے بعد اکثر لوگوں کو خدشہ تھا کہ کابل کی گلیاں ایک مرتبہ پھر افغانوں کے خون سے رنگیں ہوںگی۔ سب اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ طالبان اپنے مخالفین سے انتقام لیں گے لیکن انھوں نے خون ریزی کی بجائے سب کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا ۔ بزورطاقت ایک مطلق العنان حکومت قائم کرنے کی بجائے کابل میں موجود سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
ان سے درخواست کی کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔ انھیں یقین دہانی کرائی کہ ان کے جان، مال، عزت و آبرو محفوظ رہیں گے۔ انھیں یہ بھی باور کرایا کہ حکومت سازی میں ان سے مشاورت کی جائے گی اور انھیں ان کے سیاسی حجم کے مطابق حصہ بھی دیا جائے گا۔
طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر عبداللہ، حکمت یار، حامد کرزئی اور دوسرے رہنماؤں نے افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کر تو لیا ہے۔ طالبان نے ان کے ساتھ حکومت سازی کے معاملے پر مشاور ت بھی کی ہے لیکن عملی طور پر صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک طالبان نے اہم عہدوں پر جو تقرریاں کی ہیں وہ سب ان کے اپنے ہی لوگ ہیں، ابھی تک انھوں نے ڈاکٹر عبداللہ، حکمت یار، حامد کرزئی یا کسی اور گروپ کے کسی نمائندے کو کوئی اہم عہدہ نہیں دیا، جس کی وجہ سے ان رہنماؤں میں بے چینی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان ان کے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف اگرچہ طالبان افغانستان میں اہم عہدوں پر تقرریاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف انھوں نے اعلان کیا ہے کہ بیرونی افواج کی موجودگی تک وہ حکومت کا اعلان نہیں کریں گے۔
٭ طالبان کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے یا امریکا نے پالیسی بدلی ہے؟
افغانستان پر قبضے کے بعد چونکہ طالبان نے تعلیمی اداروں کو کھول دیا ہے۔ ہسپتالوں میں خواتین اہلکاروں کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین صحافیوں کو بھی کام کرنے کی اجازت ہے۔ داڑھی نہ ہونے پر کسی کو تنگ نہیں کرتے۔خواتین کے پردے پر بھی زیادہ زور نہیں ۔اس لئے لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان نے اپنی پالیسی بدل لی ہے لیکن طالبان کے رہنما اور پاکستان میں سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ امریکہ نے اپنی پالیسی بدل لی ہے۔
اگر چہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ حالات بہتر ہونے تک ملازمت پیشہ خواتین گھروں میں رہیں جبکہ انھیں معاوضہ دیا جائے گا لیکن طالبان کا امتحان ابھی شروع نہیں ہوا ہے اس لئے کہ ابھی تک انھوں نے حکومت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد بھی طالبان اسی طرح نرم رویہ رکھیں گے یا ان کے موقف میں سختی آئے گی؟ اگر طالبان کا رویہ اسی طرح نرم اور شائستہ رہا تو رائے عامہ ان کا ساتھ دے گی جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے ۔
٭ کیا طالبان قومی حکومت تشکیل دیں گے؟
اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے اس لئے کہ پوری دنیا کا طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ ایک قومی حکومت تشکیل دیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومیتوں کی نمائندگی ہو۔ طالبان کوشش ضرور کریں گے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل دیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومیتوں کے افراد موجود ہو ں لیکن وہ ہرگز اس پر راضی نہیں ہوں گے کہ اہم عہدوں پر طالبان رہنماؤں کے علاوہ کسی اور کو نامزد کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کے سرکردہ سیاسی رہنما اور مختلف قومیتوں کے افراد طالبان کے زیر انتظام حکومت میں کم اہم عہدوں پر کام کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ نہیں؟
بالخصوص ڈاکٹر عبداللہ، حکمت یار اور حامد کرزئی کی شمولیت ایک اہم بات ہوگی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ طالبان کی حکومت میں خود شامل ہوںگے یا نہیں ؟ طالبان کی کوشش ہے کہ ان سیاسی رہنماؤں کو حکومت میں شامل کیا جائے تاکہ بین الاقوامی طور پر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں جو مشکلات ہیں وہ کم ہو سکیں لیکن ان بڑے قدکاٹھ کے رہنماؤں کی طالبان کی حکومت میں کسی غیر اہم عہدے پر شمولیت بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہی ۔
٭ طالبان حکومت کے حامی اور مخالف
مستقبل میں عالمی سیاست میں ایک واضح تقسیم نظر آنے کے امکانات ہیں۔ امریکا، برطانیہ، بھارت اور یورپ کی کوشش ہو گی کہ وہ طالبان کے لئے مشکلات پیدا کریں۔ وہ افغانستان پر پابندیاں لگائیں گے۔ان کے ساتھ تجارت سے گریز کریں گے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگائیں گے۔ خواتین کے حقوق کا بہانہ بنا کر انھیں تنگ کرنے کی کو شش کریں گے۔ مخالفین کو تنگ کرنے کے الزامات لگائیں گے لیکن اس کے برعکس چین ، روس ، ترکی، ایران اور پاکستان کی کوشش ہو گی کہ طالبان حکومت کو سپورٹ کریں۔ ان کے ساتھ دنیا تجارت کرے، افغانستان کی تعمیر و ترقی میں ان کا ساتھ دے۔ طالبان کی بھی کوشش ہو گی کہ چین ، روس ، ترکی، ایران اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھیں۔ اس خطے میں بھارت ، امریکی مفادات کے لئے موجود ہے۔
ان دونوں ممالک کی کوشش ہوگی کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں یا پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کریں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی پیدا ہو اور تعلقات خراب رہیں۔ اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو کنٹرول کرنا طالبان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی کارروائی سے گریز کرے لیکن امریکا اور بھارت کی پوری کوشش ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔
٭ کیا شکست کے بعد امریکا خاموش بیٹھے گا؟
یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ افغانستان میں شکست کے بعد امریکا اس خطے سے لاتعلق ہو کر خاموش بیٹھ جائے گا ؟ ایسا ہرگز نہیں ۔ انخلا کے بعد امریکا خاموش نہیں بیٹھے گا۔ افغانستان میں شکست کا ملبہ وہ اسلام آباد پر گرانے کی پوری کوشش کرتا رہے گا۔ مستقبل میں امریکا، پاکستان کے لئے مختلف بین الاقوامی فورمز پر مشکلات پید ا کرنے کی بھرپور کو شش کرے گا۔ امریکا کوشش کرے گا کہ اسلام آباد، چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) پر کام کرنے کی رفتار کم کرے۔ وہ افغانستان کو بھی اس منصوبے سے دور رکھنے کی کوشش کرے گا۔ ایران کو بھی طالبان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی وجہ سے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
٭ عالم اسلام کا ممکنہ ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
عالم اسلام کے بڑے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ردعمل بھی بہت زیادہ اہم ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی کیمپ کا حصہ ہوںگے یا وہ چین کی سربراہی میں روس، ترکی، ایران اور پاکستان کا ساتھ دیں گے۔ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے افغانستان کے ساتھ تجارت بحال رکھی اور وہاں سرمایہ کاری شروع کردی تو پھر کابل کو امن اور ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر ان دونوں ممالک نے ساتھ نہیں دیا تو پھر کابل کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر عالم اسلام نے ساتھ دیا۔ انھوں نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی تو پھر امریکا ، برطانیہ ، یورپ اور بھارت کو مجبوراً افغانستان کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ بہرکیف افغانستان کے معاملے پر عالمی سیاست میں ہلچل ہی رہے گی ۔ یہ اب طالبان ، چین ، روس، ترکی ، ایران اور پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ عالمی سیاست میں افغانستان کو کس مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ عالمی سطح پر یہ لڑائی برسوں جاری رہے گی۔
اس بات پر بھی سب کا اتفاق تھا کہ کابل کو اس بار فتح کرنا طالبان کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ خیال یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ طالبان کو مزارشریف میں رشید دوستم کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہرات میں اسماعیل خان مقابلہ کریں گے۔ عطا نور بھی طالبان کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ قندوز ، ہلمند اور قندھار کو قبضہ کرنے میں وقت لگے گا ۔
ایک خیال یہ بھی تھا کہ طالبان کو ایک بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا بھی کر نا پڑے گا جس کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی ایک رائے تھی کہ افغانستان کے پاس لاکھوں تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس فوجی موجود ہیں اس لئے طالبان کو کابل تک پہنچنے میں برسوں لگیں گے، یوں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد یہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جو برسوں تک جاری رہے گی۔
طالبان کو خود بھی امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اور امریکہ کی موجودگی میں کابل پر قابض ہو جائیں گے ۔ اس لئے انھوں نے منصوبہ بندی کی تھی کہ افغانستان کی معاشی راہداریوں پر قابض ہو جائیں۔ انھوں نے قندھار پر قبضہ کیا۔ یہاں چمن بارڈر کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت ہوتی ہے۔
افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی تجارت کے لئے بھی یہی شاہراہ استعمال کی جاتی ہے۔ واخان کوریڈور پر بھی طالبان قابض ہو گئے تھے۔ منصوبہ ان کا یہی تھا کہ افغانستان کی حکومت کو معاشی طور پر کمزور کیا جائے تاکہ وہ ان سے بات چیت کے لئے تیار ہو اور اپنے تمام مطالبات ان سے منوا سکیں لیکن ان کی توقعات سے بڑھ کر ان کو کامیابیاں حاصل ہوتی رہیں۔
مزار شریف میں کسی نے مزاحمت نہ کی۔ اسماعیل خان نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ عوام نے بھی مزاحمت نہیں کی۔ افغانستان کی تین لاکھ سے زیادہ فوج بھی طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار نے بھی صدر اشرف غنی کو طالبان کے ساتھ لڑنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ یوں کسی بڑی مزاحمت کے بغیر طالبان15 اگست کو کابل پر قابض ہوئے ۔ صدارتی محل میں مذاکرات کے بعد صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
صدر اشرف غنی ملک میں سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ کے ان کے ساتھ شدید اختلافات تھے۔ حکمت یار ان کا ساتھ دینے سے انکاری تھے۔ صلاح الدین ربانی ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ۔ سابق صدر حامد کرزئی بھی ان سے نالاں تھے۔
٭ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد
سقوط کابل کے بعد اکثر لوگوں کو خدشہ تھا کہ کابل کی گلیاں ایک مرتبہ پھر افغانوں کے خون سے رنگیں ہوںگی۔ سب اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ طالبان اپنے مخالفین سے انتقام لیں گے لیکن انھوں نے خون ریزی کی بجائے سب کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا ۔ بزورطاقت ایک مطلق العنان حکومت قائم کرنے کی بجائے کابل میں موجود سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
ان سے درخواست کی کہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔ انھیں یقین دہانی کرائی کہ ان کے جان، مال، عزت و آبرو محفوظ رہیں گے۔ انھیں یہ بھی باور کرایا کہ حکومت سازی میں ان سے مشاورت کی جائے گی اور انھیں ان کے سیاسی حجم کے مطابق حصہ بھی دیا جائے گا۔
طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر عبداللہ، حکمت یار، حامد کرزئی اور دوسرے رہنماؤں نے افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کر تو لیا ہے۔ طالبان نے ان کے ساتھ حکومت سازی کے معاملے پر مشاور ت بھی کی ہے لیکن عملی طور پر صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک طالبان نے اہم عہدوں پر جو تقرریاں کی ہیں وہ سب ان کے اپنے ہی لوگ ہیں، ابھی تک انھوں نے ڈاکٹر عبداللہ، حکمت یار، حامد کرزئی یا کسی اور گروپ کے کسی نمائندے کو کوئی اہم عہدہ نہیں دیا، جس کی وجہ سے ان رہنماؤں میں بے چینی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان ان کے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف اگرچہ طالبان افغانستان میں اہم عہدوں پر تقرریاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف انھوں نے اعلان کیا ہے کہ بیرونی افواج کی موجودگی تک وہ حکومت کا اعلان نہیں کریں گے۔
٭ طالبان کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے یا امریکا نے پالیسی بدلی ہے؟
افغانستان پر قبضے کے بعد چونکہ طالبان نے تعلیمی اداروں کو کھول دیا ہے۔ ہسپتالوں میں خواتین اہلکاروں کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ خواتین صحافیوں کو بھی کام کرنے کی اجازت ہے۔ داڑھی نہ ہونے پر کسی کو تنگ نہیں کرتے۔خواتین کے پردے پر بھی زیادہ زور نہیں ۔اس لئے لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان نے اپنی پالیسی بدل لی ہے لیکن طالبان کے رہنما اور پاکستان میں سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا ہے کہ طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ امریکہ نے اپنی پالیسی بدل لی ہے۔
اگر چہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ حالات بہتر ہونے تک ملازمت پیشہ خواتین گھروں میں رہیں جبکہ انھیں معاوضہ دیا جائے گا لیکن طالبان کا امتحان ابھی شروع نہیں ہوا ہے اس لئے کہ ابھی تک انھوں نے حکومت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد بھی طالبان اسی طرح نرم رویہ رکھیں گے یا ان کے موقف میں سختی آئے گی؟ اگر طالبان کا رویہ اسی طرح نرم اور شائستہ رہا تو رائے عامہ ان کا ساتھ دے گی جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے ۔
٭ کیا طالبان قومی حکومت تشکیل دیں گے؟
اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے اس لئے کہ پوری دنیا کا طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ ایک قومی حکومت تشکیل دیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومیتوں کی نمائندگی ہو۔ طالبان کوشش ضرور کریں گے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل دیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومیتوں کے افراد موجود ہو ں لیکن وہ ہرگز اس پر راضی نہیں ہوں گے کہ اہم عہدوں پر طالبان رہنماؤں کے علاوہ کسی اور کو نامزد کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کے سرکردہ سیاسی رہنما اور مختلف قومیتوں کے افراد طالبان کے زیر انتظام حکومت میں کم اہم عہدوں پر کام کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ نہیں؟
بالخصوص ڈاکٹر عبداللہ، حکمت یار اور حامد کرزئی کی شمولیت ایک اہم بات ہوگی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ طالبان کی حکومت میں خود شامل ہوںگے یا نہیں ؟ طالبان کی کوشش ہے کہ ان سیاسی رہنماؤں کو حکومت میں شامل کیا جائے تاکہ بین الاقوامی طور پر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں جو مشکلات ہیں وہ کم ہو سکیں لیکن ان بڑے قدکاٹھ کے رہنماؤں کی طالبان کی حکومت میں کسی غیر اہم عہدے پر شمولیت بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہی ۔
٭ طالبان حکومت کے حامی اور مخالف
مستقبل میں عالمی سیاست میں ایک واضح تقسیم نظر آنے کے امکانات ہیں۔ امریکا، برطانیہ، بھارت اور یورپ کی کوشش ہو گی کہ وہ طالبان کے لئے مشکلات پیدا کریں۔ وہ افغانستان پر پابندیاں لگائیں گے۔ان کے ساتھ تجارت سے گریز کریں گے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگائیں گے۔ خواتین کے حقوق کا بہانہ بنا کر انھیں تنگ کرنے کی کو شش کریں گے۔ مخالفین کو تنگ کرنے کے الزامات لگائیں گے لیکن اس کے برعکس چین ، روس ، ترکی، ایران اور پاکستان کی کوشش ہو گی کہ طالبان حکومت کو سپورٹ کریں۔ ان کے ساتھ دنیا تجارت کرے، افغانستان کی تعمیر و ترقی میں ان کا ساتھ دے۔ طالبان کی بھی کوشش ہو گی کہ چین ، روس ، ترکی، ایران اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھیں۔ اس خطے میں بھارت ، امریکی مفادات کے لئے موجود ہے۔
ان دونوں ممالک کی کوشش ہوگی کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں یا پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کریں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی پیدا ہو اور تعلقات خراب رہیں۔ اس وقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو کنٹرول کرنا طالبان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی کارروائی سے گریز کرے لیکن امریکا اور بھارت کی پوری کوشش ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔
٭ کیا شکست کے بعد امریکا خاموش بیٹھے گا؟
یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ افغانستان میں شکست کے بعد امریکا اس خطے سے لاتعلق ہو کر خاموش بیٹھ جائے گا ؟ ایسا ہرگز نہیں ۔ انخلا کے بعد امریکا خاموش نہیں بیٹھے گا۔ افغانستان میں شکست کا ملبہ وہ اسلام آباد پر گرانے کی پوری کوشش کرتا رہے گا۔ مستقبل میں امریکا، پاکستان کے لئے مختلف بین الاقوامی فورمز پر مشکلات پید ا کرنے کی بھرپور کو شش کرے گا۔ امریکا کوشش کرے گا کہ اسلام آباد، چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) پر کام کرنے کی رفتار کم کرے۔ وہ افغانستان کو بھی اس منصوبے سے دور رکھنے کی کوشش کرے گا۔ ایران کو بھی طالبان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی وجہ سے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
٭ عالم اسلام کا ممکنہ ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
عالم اسلام کے بڑے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ردعمل بھی بہت زیادہ اہم ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی کیمپ کا حصہ ہوںگے یا وہ چین کی سربراہی میں روس، ترکی، ایران اور پاکستان کا ساتھ دیں گے۔ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے افغانستان کے ساتھ تجارت بحال رکھی اور وہاں سرمایہ کاری شروع کردی تو پھر کابل کو امن اور ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر ان دونوں ممالک نے ساتھ نہیں دیا تو پھر کابل کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر عالم اسلام نے ساتھ دیا۔ انھوں نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی تو پھر امریکا ، برطانیہ ، یورپ اور بھارت کو مجبوراً افغانستان کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ بہرکیف افغانستان کے معاملے پر عالمی سیاست میں ہلچل ہی رہے گی ۔ یہ اب طالبان ، چین ، روس، ترکی ، ایران اور پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ عالمی سیاست میں افغانستان کو کس مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ عالمی سطح پر یہ لڑائی برسوں جاری رہے گی۔