حُبّ رسول کریمؐ ایمان کی علامت
آپ ﷺ کو خاتم الانبیاء تسلیم کرنا اسلام کی بنیادی شرط ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد رب العالمین کا مفہوم ہے کہ جن لوگوں نے اﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت کی وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ تعالی نے انعام فرمایا۔ یعنی نبیوں کے ساتھ اور صدیقین کے ساتھ شہیدوں کے ساتھ اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے اور یہ بہترین ساتھ ہے۔
اس کی شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابیؓ رحمت عالم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کرنے لگے، مفہوم: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میں آپؐ کو اپنی جان، مال اور اپنے بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، جب گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپ ﷺ کو یاد کرتا ہوں تو جب تک آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا رخ انور نہیں دیکھ لیتا مجھے قرار نہیں آتا تو میں اپنے بال بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر آپ ﷺ کے پاس دوڑا آتا ہوں۔
آپ ﷺ کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے اور دل کو قرار آجاتا ہے تب میں واپس جاتا ہوں لیکن جب میں اپنی اور آپ ﷺ کی جدائی کو یاد کرتا ہوں تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپ ﷺ جنّت میں داخل ہوں گے تو آپؐ انبیائے کرامؑ کے ساتھ بڑے درجات میں ہوں گے اور اگر میں جنّت میں داخل ہوا بھی تو میں نہ آپ ﷺ دیکھ سکوں گا اور نہ آپ ﷺ تک پہنچ سکوں گا تو بڑی تکلیف ہوگی۔
اس پر اﷲ تعالٰی نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا کہ جو اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوگا۔ اطاعت سے محبت کو مشروط کرکے یہ واضح کیا گیا کہ بغیر اطاعت و فرماں برداری حب رسول ﷺ کسی کام نہیں آنے والی ہے اور اطاعت و فرماں برداری بغیر محبّت کے ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ حبِ رسول ﷺ کی فضیلت ہے کہ محّب اگر مطیع ہوگا تو جنّت میں بھی قرب رسول ﷺ حاصل کر سکے گا۔
سیدنا انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابیؓ خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اﷲ ﷺ قیامت کب آ ئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی تم نے کیا تیاری کررکھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے قیامت کے لیے زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کرکے تیاری تو نہیں کی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبّت رکھتا ہوں، میرے پاس بس یہی محبّت رسول ﷺ کا سرمایہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے ساتھ تم محبت رکھو اس کے ساتھ تم جنّت میں جاؤگے۔
(ترمذی) قرآن مجید اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سچی محبت رسول ﷺ ناصرف جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے بلکہ رحمت عالم ﷺ کی دائمی رفاقت کے حصول کا بھی سبب ہے۔ یقیناً اس شخص سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہو سکتا ہے جسے جنّت میں سیّد العالمین ﷺ کی قُربت حاصل ہوجائے۔ مسند احمد میں ہے، مفہوم : رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبّت رکھتا ہو۔
خادم رسول ﷺ سیدنا انس ؓفرماتے ہیں کہ اﷲ کی قسم میری محبّت جو رسول ﷺ کے ساتھ ہے اور سیّدنا ابوبکرؓ اور عمرفاروقؓ کے ساتھ ہے مجھے اُمید ہے اﷲ تعالی مجھے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا، گو میرے اعمال اُن جیسے نہیں ہیں۔
ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، مفہوم: سچ ہے یہی محبّت معیار ہے حق اور ناحق کے لیے جنہیں اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ سے محبت ہے وہی سچے مطیع و فرماں بردار ہیں اور جو اﷲ اور رسول ﷺ کے فرماں بردار نہیں ہیں وہ محّب رسول ﷺ نہیں ہیں۔ اسی طرح کسی نے کیا خوب کہا ہے: افسوس! تم خاتم الانبیاء رسول کریم جناب محمد ﷺ کی نافرمانی کے باوجود آپؐ سے اپنی محبت ظاہر کرتے ہو۔
اﷲ ہمیں سچی اطاعت و محبت کی توفیق عطا فرمادے اﷲ کے رسول ﷺ اﷲ کے آخری رسول ہیں اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اﷲ تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ پر نبوت کا دروازہ بند کر دیا ہے اور آپ ﷺ کو خاتم الانبیاء تسلیم کرنا اسلام کی بنیادی شرط ہے۔
اس کی شان نزول یہ ہے کہ ایک صحابیؓ رحمت عالم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کرنے لگے، مفہوم: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میں آپؐ کو اپنی جان، مال اور اپنے بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، جب گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپ ﷺ کو یاد کرتا ہوں تو جب تک آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا رخ انور نہیں دیکھ لیتا مجھے قرار نہیں آتا تو میں اپنے بال بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر آپ ﷺ کے پاس دوڑا آتا ہوں۔
آپ ﷺ کو دیکھ کر تسلی ہوتی ہے اور دل کو قرار آجاتا ہے تب میں واپس جاتا ہوں لیکن جب میں اپنی اور آپ ﷺ کی جدائی کو یاد کرتا ہوں تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپ ﷺ جنّت میں داخل ہوں گے تو آپؐ انبیائے کرامؑ کے ساتھ بڑے درجات میں ہوں گے اور اگر میں جنّت میں داخل ہوا بھی تو میں نہ آپ ﷺ دیکھ سکوں گا اور نہ آپ ﷺ تک پہنچ سکوں گا تو بڑی تکلیف ہوگی۔
اس پر اﷲ تعالٰی نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا کہ جو اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوگا۔ اطاعت سے محبت کو مشروط کرکے یہ واضح کیا گیا کہ بغیر اطاعت و فرماں برداری حب رسول ﷺ کسی کام نہیں آنے والی ہے اور اطاعت و فرماں برداری بغیر محبّت کے ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ حبِ رسول ﷺ کی فضیلت ہے کہ محّب اگر مطیع ہوگا تو جنّت میں بھی قرب رسول ﷺ حاصل کر سکے گا۔
سیدنا انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابیؓ خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اﷲ ﷺ قیامت کب آ ئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی تم نے کیا تیاری کررکھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے قیامت کے لیے زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کرکے تیاری تو نہیں کی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبّت رکھتا ہوں، میرے پاس بس یہی محبّت رسول ﷺ کا سرمایہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے ساتھ تم محبت رکھو اس کے ساتھ تم جنّت میں جاؤگے۔
(ترمذی) قرآن مجید اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سچی محبت رسول ﷺ ناصرف جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے بلکہ رحمت عالم ﷺ کی دائمی رفاقت کے حصول کا بھی سبب ہے۔ یقیناً اس شخص سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہو سکتا ہے جسے جنّت میں سیّد العالمین ﷺ کی قُربت حاصل ہوجائے۔ مسند احمد میں ہے، مفہوم : رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبّت رکھتا ہو۔
خادم رسول ﷺ سیدنا انس ؓفرماتے ہیں کہ اﷲ کی قسم میری محبّت جو رسول ﷺ کے ساتھ ہے اور سیّدنا ابوبکرؓ اور عمرفاروقؓ کے ساتھ ہے مجھے اُمید ہے اﷲ تعالی مجھے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا، گو میرے اعمال اُن جیسے نہیں ہیں۔
ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، مفہوم: سچ ہے یہی محبّت معیار ہے حق اور ناحق کے لیے جنہیں اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ سے محبت ہے وہی سچے مطیع و فرماں بردار ہیں اور جو اﷲ اور رسول ﷺ کے فرماں بردار نہیں ہیں وہ محّب رسول ﷺ نہیں ہیں۔ اسی طرح کسی نے کیا خوب کہا ہے: افسوس! تم خاتم الانبیاء رسول کریم جناب محمد ﷺ کی نافرمانی کے باوجود آپؐ سے اپنی محبت ظاہر کرتے ہو۔
اﷲ ہمیں سچی اطاعت و محبت کی توفیق عطا فرمادے اﷲ کے رسول ﷺ اﷲ کے آخری رسول ہیں اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اﷲ تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ پر نبوت کا دروازہ بند کر دیا ہے اور آپ ﷺ کو خاتم الانبیاء تسلیم کرنا اسلام کی بنیادی شرط ہے۔