عالمی سلامتی پر پاک امریکا تعاون
پاکستان اور امریکا نے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے پائیدار اشتراک عمل پر اتفاق کیا ہے
KARACHI:
پاکستان اور امریکا نے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے پائیدار اشتراک عمل پر اتفاق کیا ہے۔ یہ خوش آیند بریک تھرو متوقع تو تھا کیونکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز دوطرفہ اسٹرٹیجک تعلقات کی بحالی کے لیے خاصے متحرک تھے اور افغان جنگ کے اختتامی مرحلہ کے پیش نظر جہاں امریکی انخلا طے پا چکا تھا اور 60 ہزار سے زائد امریکی فوجی اپنے گھر پہنچ چکے تھے اس لیے افغان صورتحال سمیت خطے کی تبدیل شدہ حرکیات قابل توجہ ہیں جب کہ افغان فورسز کا امریکیوں کے بچے کھچے دستوں کی زیر تربیت انتظامی اور دفاعی ضروریات کے تحت قیام ایک بڑی پیش قدمی ہے تاہم ابھی ان پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی مزید بہنے کے امکانات، خطرات و خدشات کے باعث پاکستان کے لیے حالات پر نظر رکھنا ناگزیر ہے چنانچہ اس نئے تناظر میں پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا احیا اہمیت کا حامل ہے۔
آخری اسٹرٹیجک بات چیت 2010 ء میں ہوئی تھی جو افغانستان کی بدترین صورتحال، ایبٹ آباد ایڈونچر، سلالہ چوکی اور ڈرون حملوں کے باعث معطلی پر منتج ہوئی، اس میں پاکستان کی کوئی غلطی نہ تھی، بات امریکی مفادات، غلط جنگی حکمت عملی، اور افغان انتظامیہ کی کمزور ترجیحات اور مطالبات کی تھی۔ اب جب کہ واشنگٹن میں دونوں ممالک کے اسٹرٹیجک مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا ہے جس کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے وفود نے سلامتی، پائیدار استحکام اور پاکستان کی طرف سے مخدوش حالات کے خاتمے کی مسلسل کوششوں پر تعمیری مشاورت کی، اب تجدید تعلقات کا نیا باب کھولا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی امریکی وزیر دفاع سے بھی ملاقات ہوئی، ملاقات میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا، ایساف فورسز سے تعلقات سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔ فریقوں نے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کیا کہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے پائیدار اشتراک عمل ناگزیر ہے۔
انھوں نے خطے میں توانائی کے منصوبوں کے لیے کوششیں تیز کرنے پر بھی زور دیا تا کہ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے ڈھانچے کو جدید بنایا جائے، بجلی کی پیداوار میں تعاون، پاکستان کے گیس کے ذخائر کی تیزی سے ترقی، پن بجلی اور متبادل ذرایع سے بجلی کے استعمال میں اضافے اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات جاری رکھنے پر زور دیا تا کہ پاکستان میں مالیاتی استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ توانائی کے مسئلہ پر امریکا سمیت ہر اس ملک سے اقتصادی معاونت کے حصول کو ناگزیر سمجھنا چاہیے جو صدق دل سے پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ سابق صدر جارج بش بھی پاکستان آئے تو انھوں نے بطور خاص توانائی کے شعبے میں امریکی سرمایہ کاری اور ٹھوس امداد کا یقین دلایا تھا جب کہ چند ماہ پیشتر وزیر خارجہ جان کیری نے صدر ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف، سرتاج عزیز اور دیگر حکام سے سیکیورٹی، علاقائی اور اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جان کیری کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان کی اقتصادی ترقی امریکا کے مفاد میں ہے۔ منگل کو امریکی میڈیا نے پاک امریکا تعلقات کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں نجی شعبے کے لیے امریکی تعاون کا اعادہ کیا اور سرتاج عزیز کی طرف سے نجی شعبے کو شامل کر کے کاروباری اور سرمایہ کاری کے مشترکہ فورم کا باقاعدہ اجلاس بلانے کی تجویز کا خیرمقدم کیا۔
انھوں نے نیوکلیئر سیکیورٹی کے بارے میں پاکستان کے عزم پر اعتماد کا اظہار کیا اور اس کی اسٹرٹیجک کنٹرول میں بہتری کے لیے پاکستانی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ امریکا پاکستان کو دفاع، توانائی، اور معاشی استحکام میں مدد فراہم کرے گا، امریکا کو پاکستان میں تعلیم کے شعبوں میں باہمی تعاون اور عوامی رابطوں کو فروغ دینا چاہیے۔ امریکا نے نیوکلیئر سیفٹی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نواز حکومت کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان، توانائی، سیکیورٹی، اسٹرٹیجک استحکام، جوہری عدم پھیلاؤ، دفاع، قانون ، اقتصاد اور مالیات کے شعبوں میں تعاون کے لیے قائم پانچ ورکنگ گروپس کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں امریکا کی نائب وزیر خارجہ ہیتھر ہگن ہاٹم نے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستانی معیشت کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور کابینہ کے حالیہ مشکل فیصلوں کو سراہتا ہے، امریکا توانائی کی قلت کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
اس موقع پر سرتاج عزیز نے کہا کہ باہمی اعتماد میں اضافہ دونوں ممالک کے تعلقات کو اسٹرٹیجک لانگ ٹرم پارٹنرشپ میں بدل دیگا۔ مشیر سرتاج عزیز کا یہ کہنا صائب ہے کہا افغانستان سے اتحادی افواج کے جانے کے بعد خلاء پیدا ہو گا، اس خلاء کو کوئی تیسرا ملک پْر کرنے کی کوشش نہ کرے، افغان آپس میں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کر لیں تو پاکستان اس کی تعمیل کریگا، افغانستان خود مختار ملک ہے، پاکستان معاہدے پر دستخط کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ امریکا کو جہاں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خدشات سے آگاہ کیا گیا وہاں اوباما انتظامیہ کو جوہری تعاون میں بھارت کی طرح پاکستان پر بھی جائز نظر التفات کرنی چاہیے ۔ پاک امریکا تاریخی تعلقات میں نشیب و فراز کی داستان بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
اس ضمن میں امریکی دانشور ڈینیل مرکی نے اپنی کتاب ''نو ایکزٹ فرام پاکستان'' میں زمینی حقائق سے جڑا ہوا فکر انگیز تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ پاک امریکا تعلقات ایک ایسی صورتحال ہے جسے تدبر سے سمجھا اور برتا جائے نہ کہ ایک درد سر مسئلہ کے طور پر اس کے حل میں توانائی صرف کی جائے۔ اب صدر اوباما کو یہ ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان کو توانائی اور دیگر سماجی و اقتصادی شعبوں میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ امریکا کی حد سے بڑی ہوئی بھارت نوازی ناقابل فہم ہے۔ پاکستان دو طرفہ تعلقات میں اپنے وقار اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ پاک امریکا اسٹرٹیجک پارٹنرشپ مستحکم ہو گی اور پاکستان کی معاشی، عسکری اور سماجی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔
پاکستان اور امریکا نے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے پائیدار اشتراک عمل پر اتفاق کیا ہے۔ یہ خوش آیند بریک تھرو متوقع تو تھا کیونکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز دوطرفہ اسٹرٹیجک تعلقات کی بحالی کے لیے خاصے متحرک تھے اور افغان جنگ کے اختتامی مرحلہ کے پیش نظر جہاں امریکی انخلا طے پا چکا تھا اور 60 ہزار سے زائد امریکی فوجی اپنے گھر پہنچ چکے تھے اس لیے افغان صورتحال سمیت خطے کی تبدیل شدہ حرکیات قابل توجہ ہیں جب کہ افغان فورسز کا امریکیوں کے بچے کھچے دستوں کی زیر تربیت انتظامی اور دفاعی ضروریات کے تحت قیام ایک بڑی پیش قدمی ہے تاہم ابھی ان پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی مزید بہنے کے امکانات، خطرات و خدشات کے باعث پاکستان کے لیے حالات پر نظر رکھنا ناگزیر ہے چنانچہ اس نئے تناظر میں پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا احیا اہمیت کا حامل ہے۔
آخری اسٹرٹیجک بات چیت 2010 ء میں ہوئی تھی جو افغانستان کی بدترین صورتحال، ایبٹ آباد ایڈونچر، سلالہ چوکی اور ڈرون حملوں کے باعث معطلی پر منتج ہوئی، اس میں پاکستان کی کوئی غلطی نہ تھی، بات امریکی مفادات، غلط جنگی حکمت عملی، اور افغان انتظامیہ کی کمزور ترجیحات اور مطالبات کی تھی۔ اب جب کہ واشنگٹن میں دونوں ممالک کے اسٹرٹیجک مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا ہے جس کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے وفود نے سلامتی، پائیدار استحکام اور پاکستان کی طرف سے مخدوش حالات کے خاتمے کی مسلسل کوششوں پر تعمیری مشاورت کی، اب تجدید تعلقات کا نیا باب کھولا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی امریکی وزیر دفاع سے بھی ملاقات ہوئی، ملاقات میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا، ایساف فورسز سے تعلقات سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔ فریقوں نے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کیا کہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے پائیدار اشتراک عمل ناگزیر ہے۔
انھوں نے خطے میں توانائی کے منصوبوں کے لیے کوششیں تیز کرنے پر بھی زور دیا تا کہ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے ڈھانچے کو جدید بنایا جائے، بجلی کی پیداوار میں تعاون، پاکستان کے گیس کے ذخائر کی تیزی سے ترقی، پن بجلی اور متبادل ذرایع سے بجلی کے استعمال میں اضافے اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات جاری رکھنے پر زور دیا تا کہ پاکستان میں مالیاتی استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ توانائی کے مسئلہ پر امریکا سمیت ہر اس ملک سے اقتصادی معاونت کے حصول کو ناگزیر سمجھنا چاہیے جو صدق دل سے پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ سابق صدر جارج بش بھی پاکستان آئے تو انھوں نے بطور خاص توانائی کے شعبے میں امریکی سرمایہ کاری اور ٹھوس امداد کا یقین دلایا تھا جب کہ چند ماہ پیشتر وزیر خارجہ جان کیری نے صدر ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف، سرتاج عزیز اور دیگر حکام سے سیکیورٹی، علاقائی اور اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جان کیری کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان کی اقتصادی ترقی امریکا کے مفاد میں ہے۔ منگل کو امریکی میڈیا نے پاک امریکا تعلقات کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں نجی شعبے کے لیے امریکی تعاون کا اعادہ کیا اور سرتاج عزیز کی طرف سے نجی شعبے کو شامل کر کے کاروباری اور سرمایہ کاری کے مشترکہ فورم کا باقاعدہ اجلاس بلانے کی تجویز کا خیرمقدم کیا۔
انھوں نے نیوکلیئر سیکیورٹی کے بارے میں پاکستان کے عزم پر اعتماد کا اظہار کیا اور اس کی اسٹرٹیجک کنٹرول میں بہتری کے لیے پاکستانی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ امریکا پاکستان کو دفاع، توانائی، اور معاشی استحکام میں مدد فراہم کرے گا، امریکا کو پاکستان میں تعلیم کے شعبوں میں باہمی تعاون اور عوامی رابطوں کو فروغ دینا چاہیے۔ امریکا نے نیوکلیئر سیفٹی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نواز حکومت کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان، توانائی، سیکیورٹی، اسٹرٹیجک استحکام، جوہری عدم پھیلاؤ، دفاع، قانون ، اقتصاد اور مالیات کے شعبوں میں تعاون کے لیے قائم پانچ ورکنگ گروپس کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں امریکا کی نائب وزیر خارجہ ہیتھر ہگن ہاٹم نے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستانی معیشت کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور کابینہ کے حالیہ مشکل فیصلوں کو سراہتا ہے، امریکا توانائی کی قلت کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
اس موقع پر سرتاج عزیز نے کہا کہ باہمی اعتماد میں اضافہ دونوں ممالک کے تعلقات کو اسٹرٹیجک لانگ ٹرم پارٹنرشپ میں بدل دیگا۔ مشیر سرتاج عزیز کا یہ کہنا صائب ہے کہا افغانستان سے اتحادی افواج کے جانے کے بعد خلاء پیدا ہو گا، اس خلاء کو کوئی تیسرا ملک پْر کرنے کی کوشش نہ کرے، افغان آپس میں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کر لیں تو پاکستان اس کی تعمیل کریگا، افغانستان خود مختار ملک ہے، پاکستان معاہدے پر دستخط کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ امریکا کو جہاں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خدشات سے آگاہ کیا گیا وہاں اوباما انتظامیہ کو جوہری تعاون میں بھارت کی طرح پاکستان پر بھی جائز نظر التفات کرنی چاہیے ۔ پاک امریکا تاریخی تعلقات میں نشیب و فراز کی داستان بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
اس ضمن میں امریکی دانشور ڈینیل مرکی نے اپنی کتاب ''نو ایکزٹ فرام پاکستان'' میں زمینی حقائق سے جڑا ہوا فکر انگیز تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ پاک امریکا تعلقات ایک ایسی صورتحال ہے جسے تدبر سے سمجھا اور برتا جائے نہ کہ ایک درد سر مسئلہ کے طور پر اس کے حل میں توانائی صرف کی جائے۔ اب صدر اوباما کو یہ ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان کو توانائی اور دیگر سماجی و اقتصادی شعبوں میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ امریکا کی حد سے بڑی ہوئی بھارت نوازی ناقابل فہم ہے۔ پاکستان دو طرفہ تعلقات میں اپنے وقار اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ پاک امریکا اسٹرٹیجک پارٹنرشپ مستحکم ہو گی اور پاکستان کی معاشی، عسکری اور سماجی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔