غزل
حواس کھل کے ٹٹولے بڑے سوال کیے
جنابِ عشق نے کیسے کڑے سوال کیے
یہ حکم تھا کہ سراسر خموش رہنا ہے
مگر فقیر تھے ضد پر اڑے، سوال کیے
مجھے جنون تھا ہر چیز جان لینے کا
سو میری عقل پہ پردے پڑے، سوال کیے
یہ دل اداس فلک کی طرح پڑا ہوا تھا
سو میں نے اس میں ستارے جڑے، سوال کیے
تمام رات نسوں میں لپکتے سناٹے
مرے حواس سے کھل کر لڑے، سوال کیے
اک التفات کا زر تھا ہمارے پیش نظر
سو خود سے جھوٹے مسائل گھڑے، سوال کیے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
یہ کیسی وحشت مرے تعاقب میں ایک عرصے سے چل رہی ہے
تمہیں پتہ ہے اسی کے باعث مری جوانی بھی ڈھل رہی ہے
تمہارا وعدہ تھا اچھے موسم میں پربتوں پر کہیں چلیں گے
تم آ کے دیکھو نا اپنی آنکھوں سے برف کیسے پگھل رہی ہے
تمہارے جانے کے بعد ہم نے اذیتوں میں سمے بِتایا
تمہارے آنے سے خستہ حالت حضور اب تو سنبھل رہی ہے
کہیں سے سونا، کہیں سے پانی، کہیں نمک اور کہیں سے گندم
یہ معجزہ ہے خدا کے بندے زمین کیا کیا اگل رہی ہے
ہے سوگواری تمام چہروں پہ، شہر سارا ہی مضطرب ہے
وہ صرف جانے کا کہہ رہے ہیں فضا ابھی سے بدل رہی ہے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
پہلے تو پھول نگر اور ندی آئے گی
اِن سے گزرو گے تو پھر اس کی گلی آئے گی
ایک مدّت سے خفا ہو کے گئی موجِ بہار
تیری آواز سنے گی تو چلی آئے گی
کتنا پیارا نظر آتا ہوں اداسی کے سبب
ہنس پڑوں تو میری تصویر بری آئے گی
اُس کی آواز نہیں پہنچی میرے کان تلک
اب یقیں جان! سماعت میں کمی آئے گی
یونہی بے کار نہیں ہوں گے ترے مصرعہ تراش
دیر سے آئے انہیں شعر گری، آئے گی!
یہ ہی کہتا تھا مجھے چھوڑ کے جانے والا
میں نہ آیا تو مری یاد بڑی آئے گی
(محمد طارق عزیز سلطانی۔ گڑھ موڑ)
۔۔۔
غزل
آنکھوں میں کوئی خواب نہ ہونٹوں پہ دعا ہے
اِک شخص نے اندر سے بہت توڑ دیا ہے
اک روز کوئی کام پڑا دنیا سے ہم کو
اُس رو زکھلا ہم پہ کہ ہر شخص خدا ہے
پھولوں کے مہکنے سے یہ خوشبو نہیں آتی
کس شوخ کا یہ بندِ قبا آج کھلا ہے
بھولی ہی نہیں پہلی محبت وہ کسی کی
اب تک مرے سینے میں کوئی زخم ہرا ہے
اُس شہر سے جب گزروں تو لگتا ہے وہ اب بھی
چپ چاپ کھڑا چھپ کے کہیں دیکھ رہا ہے
اس واسطے بھرنے ہی نہیں دیتا میں میثم ؔ
یہ زخم کسی چاند سے چہرے کی عطا ہے
(میثم علی آغا ۔ اٹلی)
۔۔۔
غزل
جن سے چھپیں معائبِ دیوار خال خال
ہوتے ہیں ایسے پیڑ ثمر بار خال خال
کچھ اس لئے بھی دام ہر اک شے کے کم ہوئے
آتے ہیں اس گلی میں خریدار خال خال
جائز ہے خوفِ تیزیٔ رفتار اس لئے
دیکھے ہیں تم نے صاحبِ رفتار خال خال
جو مدّعائے دل کو سمجھتے ہیں اچھے سے
اس مدّعا پہ کرتے ہیں تکرار خال خال
میں سوچتا ہوں وقت کی رفتار سے بھی تیز
کچھ اس لئے ہیں میرے طر ف دار خال خال
روشن میں خود کو کرتا رہا خود کی آگ سے
مجھ ایسا ہو گا کوئی چمک دار خال خال
(توحید زیب ۔بہاولپور)
۔۔۔
غزل
آپ کا عشق حقیقت سے زیادہ ہے کہیں
سو عقیدت یہ محبت سے زیادہ ہے کہیں
تو مجھے جتنی سہولت سے ملا شکر ترا
تو مجھے میری ضرورت سے زیادہ ہے کہیں
یار حد درجہ تکلف کی ضرورت تو نہ تھی
یار یہ سب تو مروت سے زیادہ ہے کہیں
ایک دریا کی تڑپ ہے کسی پیاسے کے لئے
اور یہ حق اسے حسرت سے زیادہ ہے کہیں
رازقِ شعر و سخن شکریہ مولا تیرا
رزق اب تیری عنایت سے زیادہ ہے کہیں
زندگی میرے لئے اتنی بڑی بات نہیں
زندگی مجھ کو سہولت سے زیادہ ہے کہیں
نجم سالار کے تلوے نہیں چاٹے میں نے
جرم یہ میرا بغاوت سے زیادہ ہے کہیں
(نجم الحسن کاظمی۔ حویلیاں)
۔۔۔
غزل
میں خاک ہو گیا ہوں یہاں خاک چھان کر
اب تو زمین زاد! مجھے آسمان کر
دو چار دن کے بعد ہی موسم بدل گئے
لیکن تُو شہر چھوڑ گیا ہار مان کر
یہ روز سوچتا ہوں گزاروں گا آج سے
اے زندگی! تجھے میں سلیقے سے چھان کر
جب تُو نہیں تو جھیل کے پانی میں کون ہے
یہ کون دیکھتا ہے مجھے آنکھ تان کر
کچھ دیر کے لیے مجھے دنیا سے دور رکھ
کچھ دیر کے لیے مجھے اپنا گمان کر
عادسؔ مرے سفر کو ٹھکانے سے تو لگا
گاؤں سے شہر آیا ہوں کچھ خواب دان کر
(امجد عادس۔ راولاکوٹ)
۔۔۔
غزل
حسن باقی شباب ہے باقی
شوقِ محفل جناب ہے باقی
اے مرے چارہ گر مرے محسن
تجھ سے پہلا حساب ہے باقی
خار تو بچ گئے خزائوں سے
شاخ گل پہ عتاب ہے باقی
میری تنہا اداس راتوں میں
تجھ کو پانے کا خواب ہے باقی
ساقیا گھونٹ گھونٹ رہنے دے
رات باقی شراب ہے باقی
تیرے اظہار شوق میں عنبر
اب بھی تھوڑا حجاب ہے باقی
(فرحانہ عنبر ۔گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
وفا کے رنگوں سے گر وہ آراستہ نہ ہوتا
تو عالمِ عشق میں مرا ہمنوا نہ ہوتا
مرے لبوں پر وہ مثلِ حرفِ دعا نہ ہوتا
جو گلستانِ زماں میں سب سے جدا نہ ہوتا
دلِ شکستہ کے آئنے میں بسا نہ ہوتا
تو مجھ پہ اُس کی نظر کا جادو چلا نہ ہوتا
مری محبت کے سحر میں مبتلا نہ ہوتا
جو اُس کے دل میں بھی پھول کوئی کِھلا نہ ہوتا
تو دردِ فرقت کو رتجگوں میں پناہ ملتی
اگر وہ آنکھوں کو خواب دے کر گیا نہ ہوتا
حیا سے لبریز ہو کے میری نظر نہ جھکتی
تو ساری دنیا بھلا کے وہ مر مٹا نہ ہوتا
جو اُس کو ڈمپل پسند ہوتے نہ بے تحاشا
تو جان و دل سے مری ہنسی پر فدا نہ ہوتا
یقین و امکاں کے وسوسوں سے نجات ملتی
مرے رقیبوں سے گر وہ ہنس کر ملا نہ ہوتا
(منزہ سید۔ ساہیوال)
۔۔۔
غزل
دیتا ہے کناروں کو بہت مات سمندر
ہر لمحہ کچلتا ہے مضافات سمندر
ہم وقت کی اس دھوپ میں تبدیل ہوئے ہیں
بنتا چلا جاتا ہے بخارات سمندر
ہیں وصل میں اک بوند برابر سبھی لمحے
ہیں موسمِ فرقت میں یہ لمحات سمندر
ہر بار سوالات مٹا دیتی ہیں موجیں
یوں دیتا ہے ساحل کو جوابات سمندر
قدرت کے ترازو میں سبھی کچھ ہے برابر
حیوان، ہَوا، خاک، نباتات، سمندر
کیا جانیے کیسے یہ سفر ساتھ کٹے گا
حالت مری صحرا، ترے حالات سمندر
اک خواہش ِ منزل نے جکڑ رکھاہے ذیشاں
اک چاند کے ہے زیرِ طلسمات سمندر
(ذیشان ساجد۔خوشاب)
۔۔۔
غزل
بوجھ اشکوں کا سینے پہ ڈھویا گیا
سامنے اُس کے مجھ سے نہ رویا گیا
عشق پھر جاکے سونے سے کندن بنا
پہلے آتش میں اِس کو ڈبویا گیا
مجھ سے بچھڑا تھا اک رات وہ خواب میں
زندگی بھر نہ پھر مجھ سے سویا گیا
کونپلیں ہجر کی لہلہانے لگیں
بیج جب بھی محبت کا بویا گیا
پھر امیدِ شجر کب ہرا ہو سکا
لاکھ اشکوں سے اِس کو بھگویا گیا
چھوڑ کر کوٹھا اُس نے بیاہ کر لیا
داغ تہمت کا پھر بھی نہ دھویا گیا
میرے مرنے پہ سارے تھے ماتم کناں
ہائے پھر بھی عدمؔ سے نہ رویا گیا
(ظفر اقبال عدم۔ کروڑ لعل عیسن)
۔۔۔
غزل
حروف ابھرے ہوئے ہیں اداس چہروں پر
ہے کس کتاب کا یہ اقتباس چہروں پر
ہوس پرستوں کو محفل سے دور رکھنے کو
نگاہ رکھتی ہوں میں آس پاس چہروں پر
عجیب قسم کا موسم ادھر سے گزرا ہے
ہر ایک سمت برستی ہے یاس چہروں پر
انھیں غموں کو چھپانے کا ہے سلیقہ جو
ہنسی سجائے ہوئے ہیں اداس چہروں پر
نہ جانے کیسی وبا آئی ہے زمانے میں
پہننا پڑتا ہے اب تو لباس چہروں پر
ولاؔ ثمر ہے مرے دل کی کاوشوں کا یہی
سکون لاتی ہوں میں بدحواس چہروں پر
(ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی،قاہرہ۔ مصر)
۔۔۔
غزل
جدھر بھی دھیان لگاؤ صدائے حیرت ہے
یہاں پہ چار سُو حیرت برائے حیرت ہے
مرے وجود پہ کرنے لگے ہیں مجھ سے سوال
کسی نگاہ کے مبہم سے سائے، حیرت ہے!
بھرے جہان میں تجھ سا غریب کوئی نہیں
کہ جس کے پاس سبھی کچھ سوائے حیرت ہے
اب اس سے بڑھ کے کرامت نہیں دکھا سکتے
کہ منکروں کے لبوں پر ثنائے حیرت ہے
خدا کی ذات پہ یہ جان کر یقین بڑھا
وہ بس خدا ہی نہیں ہے، خدائے حیرت ہے
وفا شناس بھی ہو یہ کوئی ضروری نہیں
یہی بہت ہے کہ تُو آشنائے حیرت ہے
(غلام نبی اسیر ۔سرگودھا)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی