سِکھ مذہب

بابا گورونانک اور پاکستان میں موجود سکھوں کی عبادت گاہیں۔


شاہدہ قیصر September 05, 2021
 بابا گورونانک اور پاکستان میں موجود سکھوں کی عبادت گاہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں موجود سکھوں کی مذہبی عبادت گاہیں جنہیں گوردوارے کہا جاتا ہے اور سکھ یاتریوں کی وقتاً فوقتاً وہاں آمد کے بارے میں اگرچہ ہم سب کو پہلے سے کافی آگاہی ہے۔

تاہم جب سے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 9نومبر 2019ء کو کرتارپور راہ داری کا افتتاح کیا ہے ازسر نو تعمیر، آرائش و تزئین کے بعد گوردوارہ بابا دربار صاحب واقع شکر گڑھ ناروال کو بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو ویزا فری آمد کے لیے کھولا گیا جب سے سکھ مت کے پیروکاروں اور پاکستانیوں میں دوستی اور گرم جوشی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ مذہبی سیاحت کو فروغ ملا ہے اور عام ذہنوں میں سکھ مذہب کے بارے میں اور گوردواروں کے بارے میں جاننے کا کافی تجسس پایا جاتا ہے۔

میں نے کوشش کی ہے کہ سکھ مذہب اس کے بانی، باباگورونانک دیوجی اور پاکستان میں موجود گوردوارے جو کہ پنجاب میں لاہور اور دریائے راوی کی گزرگاہ پر یا دیگر علاقوں میں موجود ہیں، ان کی چیدہ چیدہ تفصیلات سے آپ کو آگاہ کروں۔ تاہم ایک ضروری عرض داشت پیش خدمت ہے کہ مذہبی معاملات پر لکھنا ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی واقعہ یا تفصیل بیان کرنے میں نادانستگی سے کوئی سہو یا بھول چوک ہوجائے تو میں معافی کی خواست گار ہوں۔

پاکستان میں سکھوں کی مرکزی عبادت گاہیں گوردوارے موجود ہیں جو سکھ مت کے بانی بابا گورونانک سے نسبت رکھتے ہیں جو بابا نانک کی جائے پیدائش وفات کی جگہ یا ان سے منسلک اہم واقعات سے مطابقت رکھتے ہیں، یہ تمام گوردوارے وفاقی وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے زیرانتظام آتے ہیں۔

حکومت پاکستان ان کی دیکھ بھال کرتی ہے، تاہم 2018ء سے 2019ء کے درمیان وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر باجوہ نے خصوصی دل چسپی لی اور انڈین پنجاب کے وزیر نجوت سنگھ کی آواز کو اہمیت دی۔ گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور پاکستان انڈین بارڈر سے5 کلومیٹر اندر واقع ہے مگر سکھ یاتریوں کو بذریعہ لاہور ویزا لے کر آنا پڑتا تھا۔

فرنٹیئر آرگنائزیشن (FWO) نے ایک سال کے قلیل عرصے میں 4.7کلو میٹر ویزا فری کوریڈور تعمیر کیا اور گوردوارہ دربار صاحب جو دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ مانا جاتا ہے جہاں جگت گرو بابا گرو نانک کا انتقال 22 ستمبر1529ء کو ہوا، اسی جگہ سے بابا نانک نے سکھ مذہب کو ایک باقاعدہ شکل دی۔ اس مذہب کے پیروکار منظم ہوئے اور یہ آگے چل کر دنیا کا چھٹا بڑا عالمی مذہب قرار پایا۔

اس کی بہترین تزئین و آرائش کی گئی ہے اور عبادت گاہ کا رقبہ 4 ایکڑ سے بڑھاکر 42 ایکڑ کردیا گیا ہے۔ پاکستان سکھ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی جس کے موجودہ صدر سردار تارا سنگھ ہیں، وہ اس گوردوارے کا انتظام سنبھالتی ہے۔ ایک شان دار تقریب میں جو 9 نومبر 2019ء کو منعقد ہوئی وزیراعظم پاکستان نے ویزا فری کوریڈور کا افتتاح کیا۔

یہ افتتاح بابا گورونانک کی 550 یوم پیدائش کی تقریبات سے 5 دن قبل کیا گیا۔ اس میں بھارت سے سکھ یاتریوں کے 550 نفوس پر مشتمل جتھے نے شرکت کی اور اس میں بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن، سنگھ انڈین پنجاب وزیراعلیٰ امریندر سنگھ، وزیرنجوت سنگھ اور ایکٹر و سماجی راہ نما سنی دیول بھی موجود تھے۔ بابا گورونانک دیوجی۔ بابا نانک موجودہ ننکانہ صاحب میں 15اپریل 1469ء میں پیدا ہوئے اس قصبہ کو رائے بھوی نے آباد کیا تھا جسے رائے بھوی دی تلو ندی کہا جانے لگا تاہم بعد میں بابا صاحب کے پڑپوتے نے جب ابتدائی گوردوارہ تعمیر کرایا تو اس کا نام ننکانہ صاحب پڑگیا۔

بابانانک کے والد کا نام مہتا کالو اور والدہ کا ماتا ٹرپٹا (Tripta) تھا دونوں ہندو کھتری تھے۔ والد پٹواری تھے اور تلوندی گاؤں میں فصل کی آمدن کا حساب کتاب رکھتے تھے۔ بابا نانک کی ایک ہی بڑی بہن بی بی ناناکی تھیں جو بیاہ کر سلطان پور چلی گئیں، وہاں ان کے شوہر بھاتی جے رام سلطنت دہلی کے گورنر دولت خان کی سرکار میں ملازم تھے وہیں انہوں نے بابا نانک کو ملازمت دلا دی اور وہ وہاں 1500ء تک مقیم پذیر رہے۔ بابا نانک نے وہیں ایک خاتون سلیخانی سے شادی کی جس سے 2 بچے ہوئے جن کے نام سری چند اور لکشمی چند ہیں۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ بابا گورو نانک میں بچپن سے ہی روحانیت غالب تھی۔ وہ اپنی ذات اور دوسرے انسانوں کے وجود اور افادیت پر غور و فکر اور گیان کرتے تھے۔ شروع سے ہی دوسرے انسانوں کی بھلائی کرنا اور خصوصاً بھوکوں کو کھانا کھلانا اور بے لوث خدمت کرنا اور نیک اعمال کرنا بابا نانک کی شخصیت کی پہچان بنے۔

بابا گورونانک نے بے شمار سفر کیے جنہیں Udasis کہا جاتا ہے۔27 سال کی عمر سے یہ سفر شروع کیے اور انڈیا کے مختلف شہروں تبت اور عرب ممالک گئے۔ بالخصوص ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر وقت گزارا جن شہروں کا ذکر تاریخ دانوں نے کیا ہے وہ تبت ، مکہ، بغداد، اٹل بٹالہ، ملتان، یروشلم، ویٹیکن سٹی، آذر بائیجان، بنگال میں واقع سلہٹ، ماؤنٹ سمیرا، ایودھیہ ہیں۔ ان میں سے کچھ مقامات کے سفر کی روایات غیرمستند ہیں لیکن یہ طے ہے کہ بابا نانک نے تقریباً 28000 کلو میٹر کا فاصلہ زیادہ تر پیدل یا سواری کے ذریعہ طے کیا۔

بالآخر 55 سال کی عمر میں بابا نانک کرتارپور میں آباد ہوگئے۔ کھیتی باڑی کے کام سے منسلک رہے۔ اس دوران چھوٹے چھوٹے سفر کیے اور اچل میں ناتھ یوگی، پنجاب میں ملتان اور صوفیا کے مزارات تک گئے۔ کرتارپور ان کا مرکز رہا یہیں سکھ مذہب کی باقاعدہ بنیاد پڑی۔ سکھ مذہب کے عقائد تصورات یہیں واضح ہوئے۔ بابا نانک نے سکھ پیروکاروں کو منظم کیا اور بالآخر یہیں ستمبر 1539ء کو وفات پائی۔

اسی وجہ سے کرتارپور میں واقع گوردوارہ دربارصاحب کو سکھ مت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ عالمی شہرت کا باعث ہے۔ سکھ یاتری یہاں دوردراز سے کھنچے آتے ہیں۔ یہاں اور اردگرد کے علاقوں میں سکھوں کی آبادی کافی تیزی سے بڑھی۔ تاہم 1947ء کی تقسیم کے بعد سکھوں کی کثیر تعداد مشرقی پنجاب میں آباد ہوگئی۔ اس وقت یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں سکھوں کی آبادی تقریباً 16 ملین کے لگ بھگ ہے۔

سکھ مذہب: یہ جاننا بیشتر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوگا کہ سکھ مذہب کا بنیادی عقیدہ وحدانیت یعنی ایک خدا 'اک انکر' ہے۔ بابا نانک نے اس امر کا پرچار کیا کہ خدا ہر انسان کے دل میں موجود ہے اور ایک سچے سکھ کو اس کی موجودگی اپنے دل میں محسوس کرنی چاہیے۔ بابا نانک کی تعلیمات تین اعمال یا احکام پر مشتمل ہے: نمبر1'وندشکو' یعنی شیئر کرو یا دوسروں میں بانٹو اور مل بانٹ کر استعمال کرو، نمبر2 'کرت کرو' دیانت داری سے کام کرو اور دھوکا فریب سے دور رہو، نمبر3 ' نام جیو' یعنی خدا کا نام لو اس کی موجودگی محسوس کرو اور انسان کے اندر جو 5چور چھپے بیٹھے ہیں ان پر قابو پاؤ۔

سکھوں کے لیے 5 کاف یا پانچ نشانیاں ہیں جو کہ بال نہ کاٹنا، لکڑی کا کنگھا، ہاتھ میں اسٹیل کنگن پہننا، کاٹن کا جانگیہ پہننا اور اسٹیل کی تلوار یا کرپان ہیں۔

سکھوں کی سالانہ معروف تقریب بیساکھی یا ویساکھی کا میلہ ہے جو ہر سال 13یا 14 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ یہ پنجاب میں موسم بہار کا ہار ویسٹ میلہ بھی ہے اور نئے شمسی سال کا آغاز بھی ۔ دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد تقریباً 30 ملین ہے، سب سے زیادہ تعداد بھارت کے مشرقی پنجاب میں ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں تقریباً 12لاکھ سکھ آباد بتائے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ سکھ برٹش کولمبیا میں ہیں۔ اس کے بعد اونٹاریو اور ابرٹا میں موجود ہیں۔ اگر شہروں کی بات کی جائے تو سرّے، بریمپٹن، کیلگری اور ایبٹ فورڈ میں ان کی اکثریت آباد ہے۔

کینیڈا کے تمام اسکولوں میں ماہ اپریل کو سکھ ورثہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ بیساکھی کا میلہ پورے کینیڈا میں جہاں سکھوں کی اکثریت ہے بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ 2018ء میں Surreyکے شہر میں بیساکھی کا میلے میں5 لاکھ کے قریب سکھ پیروکار شریک ہوئے، امریکا میں سکھوں کی تعداد 5 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان کی زیادہ تر آبادی کیلیفورنیا میں ہے اور پولیس میں ان کو پگڑی باندھنے کی سرکاری اجازت ہے۔ تقریباً 5 لاکھ سے زیادہ سکھ برطانیہ میں آباد ہیں۔ تاہم دنیا کے تمام ممالک میں سکھ موجود ہیں جیسے ملائیشیا، وسطی ایشیا، آسٹریلیا وغیرہ۔

پاکستان میں موجود سکھ گوردوارے:

سکھ گوردواروں کا ذکر کرنے سے پہلے مہاراجا رنجیت سنگھ کے بارے میں کچھ تفصیلات جان لینا بہتر ہوگا، کیوںکہ زیادہ تر گوردوارے رنجیت سنگھ نے ہی تعمیر کروائے۔ سکھوں کی حکومت یا خالصہ راج پنجاب میں مہا راجا رنجیت سنگھ کی زیرقیادت 1799ء سے1849ء تک قائم رہا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے انتقال کے بعد مغلیہ سلطنت جب کم زور پڑی تو فوج میں موجود سکھ سپاہیوں، جنہیں خالصہ دل کہا جاتا تھا اپنے الگ الگ جتھے ترتیب دیے اور ادھر ادھر لڑائیوں میں مصروف ہوگئے۔ یہ 1762ء سے 1799ء عیسوی کا درمیانی عرصہ تھا۔

اس دوران مہاراجا رنجیت سنگھ نے افغان حکم راں زماں شاہ درانی کو لاہور میں شکست دی۔ بعدازآں افغان سکھ لڑائیوں کا ایک دور شروع ہوا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے تمام سکھ جتھوں کو متحد کیا اور ایک شان دار سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی جو مغرب میں خیبر پاس سے لے کر مشرق میں مغربی تبت تک، جنوب میں میٹھا کنڈ سے شمال میں کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت اس گنجان آباد ملک کی آبادی کا تخمینہ 35 لاکھ تھا۔ رنجیت سنگھ نے سکھ پیروکاری کی بہتری کے لیے بہت سے عملی اقدامات کیے۔ زیادہ تر گوردوارے اسی دور میں تعمیر ہوئے جن کا ذکر بعد میں آئے گا۔ اس کے انتقال کے بعد 1849ء میں کئی اینگلو سکھ لڑائیاں ہوئیں اور بالآخر سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھرگیا۔

سکھ مذہب کی تفصیلات میں ابھی تک بابا گرونانک کا ذکر آیا ہے تاہم یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سکھ مت میں 10ماسٹرز یا گرو کی اہمیت ہے اور اکثر گوردوارے ان سے ہی منسوب ہیں۔ ان میں سب سے پہلے بابا گرو نانک ہیں، دوسرے گرو انگددیو (1504ء سے1539ء ) تیسرے گرو امرداس (1479ء سے1552ء) چوتھے نمبر پر گرو رام داس (1534ء سے1574ء ) پانچویں گرو ارجن داس (1563ء سے 1581ء) چھٹے گرو ہرگوبند (1595ء سے1606ء ) ساتویں نمبر پر گرو ہررائے (1630ء سے1644ء ) آٹھویں گرو ہرکشن (1656ء سے1661ء ) نویں نمبر پر گرو تیغ بہادر (1621ء سے1664ء ) اور دسویں نمبر پر گرو گوبند سنگھ (1666ء سے1675ء ) ہیں۔

سکھوں کی مقدس کتاب کا نام گرو گرنتھ صاحب ہے جس کو زندہ گرو تصور کیا جاتا ہے۔ یہ 1430 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں 10گروؤں کے اقوال کے علاوہ کچھ دوسرے مذاہب بشمول مسلم صوفیا کے اقوال بھی شامل ہیں۔ اس کو ہر گوردوارے میں مرکزی ہال میں ایک تخت یا سنہری پالکی میں رکھا جاتا ہے، جس کے اوپر چھتری کا سایہ ہوتا ہے اور پنکھا لگا ہوتا ہے۔ ہر گوردوارہ میں تعینات گرانتھی اس کی حفاظت و دیکھ بھال کرتا ہے اور روزانہ اس کو پڑھتا ہے۔ تمام سکھ یاتری اس کا احترام کرتے اور عزت سے چاروں طرف بیٹھتے ہیں یہ سکھ عبادت کا بنیادی پہلو ہے۔

اب ہم گوردواروں کی تفصیلات بیان کرتے ہیں:

1۔ جنم آستھان :

گوردوارہ ننکانہ صاحب سکھوں کی سب سے اہم مقدس عبادت گاہ ہے۔ یہ گوردوارہ بابا گورو نانک کی جائے پیدائش ہے۔ یہ ننکانہ صاحب میں واقع اور لاہور سے تقریباً91 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ننکانہ صاحب کو پنجاب کی صوبائی حکومت نے 2005ء میں ایک ضلع کا درجہ دیا۔ اس کی آبادی تقریباً ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

ابتداً ایک قصبہ رائے بھوی نے آباد کیا تھا جس کا نام رائے بھوی تلوندی تھا بعد ازآں جب بابا نانک کے پڑپوتے نے یہاں گوردوارہ تعمیر کیا تو اس کو ننکانہ صاحب کا نام دیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس کو از سرنو تعمیر کروایا۔ یہ عبادت گاہ مغلوں کی شاہی گزرگاہ کے راستے میں ہے جو دہلی گیٹ سے شاہی قلعہ تک جاتی ہے ۔ مرکزی عبادت گاہ کے دونوں طرف 2 منزلہ عمارت ہے یہاں یاتریوں کی رہائش گاہ ہے۔ ایک اسکول ہے اور باقاعدگی سے لنگر کُھلتا ہے۔

2۔ گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور:

یہ گوردوارہ ناروال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع ہے۔ یہ سکھ پیروکاروں کی دوسری بڑی مقدس عبادت گاہ ہے۔ یہاں سکھ اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ یہ انڈیا پاکستان کے بارڈر سے 5 میل اندر واقع ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ بابا گورونانک کافی عرصہ یہاں مقیم رہے۔ سکھ مذہب اور اس کے پیروکاروں کو منظم کیا، باقاعدہ لنگر کا آغاز کیا اور یہیں وفات پائی۔ 2 صدیوں تک یہاں سکھوں کی آبادی کافی پھیلی، تاہم تقسیم ہند کے بعد وہ بھارتی مشرقی پنجاب منتقل ہوگئے۔

یہ گوردوارہ 1925ء میں پٹیالہ کے مہاراجا سردار بھوپندر سنگھ نے تعمیر کروایا۔ اسی جگہ پر جہاں بابا گورو نانک نے 1515ء میں دریا راوی کے کنارے کرتارپور قصبہ کی بنیاد رکھی اس گوردوارے میں اصلی گرو گرنتھ صاحب کی کچھ کاپیاں رکھی ہیں۔ حکومت پاکستان نے 1995ء میں ضروری تعمیرومرمت کروائی اور کافی رقم لگا کر 2004ء میں اس کو اس کی اصلی حالت میں گوردوارے کو بحال کردیا۔ بعد میں سکھوں کی بین الاقوامی تنظیم کی مالی اعانت سے گوردوارے کے ارد گرد 100ایکڑ جنگلات اُگائے گئے۔

تاہم دربار صاحب گوردوارہ کی موجودہ پراثر، خوب صورت اور تقدس آمیز ہیئت 2019-2018ء کے درمیان آئی جب پاکستانی حکومت اور آرمی چیف نے بھارتی پنجاب سکھ وزیر نجوت سنگھ سے کیا وعدہ نبھایا جو کہ دراصل تمام سکھ پیروکاروں کی خواہش کا آئینہ دار تھا اور کافی عرصہ سے معاملہ دونوں حکومتوں کے درمیان چل رہا تھا۔ نئی تعمیرات میں ایک بڑا صحن، میوزیم، لائبریری، رہائشی کمرے اور لاکر روم واقع ہیں۔ اب اس کا رقبہ 42 ایکڑ ہے جس میں سرخ اینٹوں سے بنا 20 فٹ گہرا ایک کنواں موجود ہے جس کی ایک علیحدہ تاریخ ہے۔ کرتارپور کوریڈور اگرچہ ویزا فری ہے تاہم یاتریوں کو الیکٹرونک وزٹ اتھارٹی لینی پڑتی ہے۔

دربار صاحب گوردوارے کے لیے حکومت پاکستان نے 400 ایکڑ زمین وقف کی ہے اور ماسٹر پلان کے مطابق اس میں بین الاقوامی معیار کے ہوٹل، اپارٹمنٹس 2کمرشل مقامات، پاور گرڈ اسٹیشن اور پارکنگ ایریاز قائم کیے جائیں گے۔ بہرحال یہ ابھی پلان کی حد تک ہے ۔ اس وقت 800 میٹر لمبا ایکسپریس وے یا کاریڈور جو بھارت کی سرحد سے گوردوارہ تک ہے وہ یاتریوں کی آمد کے لیے زیر استعمال ہے۔

3۔گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال:

یہ گوردوارہ میرے بچپن کے شہر اور جہاں دور طالب علمی گزرا راولپنڈی سے 45کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس گوردوارے کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ بابا نانک کا ہاتھ کا نشان ایک بڑے پتھر یا چھوٹی چٹان پر چسپاں بتایا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ بابا نانک جب اپنے دیرینہ ساتھی بھائی مردانہ کے ہمراہ 1521ء میں حسن ابدال پہنچے تو ان کے پنجے کا نشان پتھر پر چسپاں ہوگیا۔

اس گوردوارے کو 'پنجہ صاحب' کا نام ہری سنگھ تلوا نے دیا جو سکھ سلطنت کے مشہور جرنیل تھے، جنہوں نے ابتدائی گوردوارہ تعمیر کروایا۔ تاہم بعد میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے مغل تعمیری انداز میں اس گوردوارے کی عمارت کو کھڑا کیا۔ یہاں ہوسٹل موجود ہے۔ سکھ یاتری خصوصاً ویساکھی کے میلے میں یہاں بہت بڑی تعداد میں آتے ہیں اور حسن ابدال کی مقامی انتظامیہ ان کی بھرپور پذیرائی اور مہمان نوازی کرتی ہے۔

4۔ گوردوارہ ڈیرہ صاحب۔ لاہور:

یہ گوردوارہ لاہور میں اس جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو نے 1606ء میں جان دی۔ لاہور میں تاریخی مشہور عمارتوں کے جھرمٹ میں جس میں شاہی قلعہ، رنجیت سنگھ کی سمادھی، حضوری باغ، روشنی گیٹ اور بادشاہی مسجد موجود ہیں، وہیں گوردوارہ ڈیرہ صاحب بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گرو ارجن دیو ایک مغل بادشاہ کے دور میں زیرعتاب تھے اور تشدد سہہ رہے تھے، تاہم گرو کے مسلم دوست میاں میر کی درخواست پر اور گرو کی خواہش پر انہیں دریا میں نہانے کی اجازت مل گئی۔ تاہم وہ دریا برد ہوگئے اور باہر نہ آسکے۔ ان کی یاد میں اسی جگہ گرو ہرگوبند سنگھ نے جب وہ 1619ء میں جنم استھان کے دورے پر لاہور آئے تو یہ گوردوارہ تعمیر کروایا۔

یہ گوردوارہ بہت وسیع ہے جس کی طرزتعمیر بہت عمدہ اور دل آویز ہے ۔ مرکزی عبادت گاہ میں سنہری خوب صورت پالکی موجود ہے جس میں گرو گرنتھ صاحب رکھی ہے۔ دربار ہال کے اوپر دوسری منزل میں مہاراجا رنجیت سنگھ کی سمادھی ہے۔ اس کی ازسرنو تعمیر 1930ء میں ہوئی اور 1934ء میں مکمل ہوئی۔ سامنے کا حصہ تمام تر ماربل کا ہے۔ یہاں محکمہ اوقاف نے 2گرانتھی تعینات کیے ہیں۔ یہاں سالانہ سنگت میلہ باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے، جس کا انعقاد شیری حور میلہ، ویساکھی، مہاراجا رنجیت سنگھ کی برسی اور بابا نانک کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ہوتا ہے۔

1996ء میں حکومت پاکستان نے 47 کمروں پر مشتمل میاں میر بلاک تعمیر کروایا۔24گھنٹے لنگر جاری و ساری رہتا ہے۔

5۔ گوردوارہ سچا سودا فاروق آباد:

یہ جگہ لاہور سے37 میل دور ہے۔ یہ علاقہ پہلے چورن کھانہ Choor Khana کہلاتا تھا۔ روایت ہے کہ جب بابا نانک 18سال کے تھے تو ان کے والد نے تجارت سکھانے کی غرض سے انہیں کچھ رقم، جو 20 روپے بیان کی جاتی ہے، دے کر مال خریدنے دوسرے شہر بھیجا تاکہ واپس آکر اس کو کچھ منافع پر بیچا جاسکے۔ تاہم جب بابا نانک اپنی منزل مقصود سے کچھ دوری پر تھے تو ان کی ملاقات کچھ بھوکے سادھوؤں سے ہوئی۔ بابا نانک نے اسی رقم سے کھانے پینے اور دیگر ضروری سامان خریدا اور ایک لنگر قائم کردیا۔

جب بابا نانک خالی ہاتھ واپس لوٹے تو والد نے پوچھ گچھ کی۔ بابا نانک نے بتایا کہ انہوں نے نہایت نفع بخش عمل کیا اور بھوکوں کو کھانا کھلایا۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ان کے والد نے کبھی دوبارہ تردد نہ کیا۔ اس جگہ جہاں لنگر قائم کیاگیا تھا مہاراجا رنجیت سنگھ نے ایک عالی شان قلعے کی مانند گوردوارہ تعمیر کروایا جس کا نام گوردوارہ سچا سودا پڑگیا۔

عمارت کا سامنے کا مرکزی حصہ درشنی ڈیوڑھی یا مجلس گاہ بہت متاثر کن ہے۔ تقسیم 1947ء سے پہلے اس کا انتظام گوردوارہ ریفارم موومنٹ کمیٹی سنبھالتی تھی تاہم بعد میں کافی عرصہ بند رہا اور اپریل 1993ء میں کھولا گیا اور 46 سال بعد سنگت کی اجازت دے دی گئی۔ یہ3 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے جو 2 مینار نما گنبدوں کے ساتھ ہے۔ دوسری منزل پر دیوان ہال ہے۔ 2017ء تک اس کے نگراں بھاتی گرداس دیپ سنگھ تھے۔

6۔ گوردوارہ چوا صاحب Chowa Saheb:

یہ گوردوارہ جہلم کے قریب تاریخی روہتاس قلعے کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ یہ اس واقعے کی یادگار ہے جب بابا گورو نانک نے اپنے ایک معروف سفر جسے Udasis کہا جاتا ہے کے دوران ایک پانی کا چشمہ جاری کرایا۔ روایت ہے کہ بابا گورو نانک نے اپنے دیرینہ ہم سفر بھائی مردانہ کے ہمراہ 40 دن تک قریبی واقع تلہ جوگیا مندر میں قیام کیا۔

اس جگہ وہ پتھروں پر بیٹھتے تھے۔ ایک دن بھائی مردانہ نے پیاس کی شکایت کی۔ بابا نانک نے اپنی چھڑی زمین پر ماری اور ایک پتھر سرکایا تو نیچے سے شفاف پانی ابل پڑا اور قدرتی چشمہ بن گیا اس گوردوارے کی ابتدائی تعمیر چرن سنگھ نے کی۔ تاہم اس کی موجودہ عمارت مہاراجا رنجیت سنگھ کی تعمیرکردہ ہے جو 1834ء میں مکمل ہوئی۔ اس کا انتظام محکمہ اوقاف کی زیرنگرانی پاکستان سکھ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے پاس ہے اور بتایا جاتا ہے کہ 2020ء سے ایک بین الاقوامی سکھ تنظیم کی اعانت سے ضروری تعمیرات کا کام جاری ہے۔

مذہبی سیاحت کا فروغ:

مذہبی مقامات کی سیاحت اس وقت دنیا میں بہت بڑی منظم صنعت کی صورت اختیار کرگئی ہے جس کا تخمینہ اندازاً 18بلین ڈالرز لگایا گیا ہے اور تقریباً 300 ملین سیاح مذہبی مقامات پر گئے۔ مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے مقدس مقامات کے رخ کرنے کا چلن قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ یا دوسرے ممالک یا مقامات پر جانے کے لیے مختلف قواعد وضوابط بالخصوص ویزا اور سفری وسائل پر عمل درآمد لازمی قرار پایا، اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک نے اپنے مذہبی مقامات کو سیاحت کے لیے ایک پرکشش مقام بناکر پیش کیا ہے۔ سوشل میڈیا، نیوزچینلز، اخبارات اور ویب سائٹس کے ذریعے ان مقامات بھرپور تشہیر کی جاتی ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں بدھ مت کے اہم مقامات، ہندوؤں کی عبادت گاہیں بالخصوص سکھ پیروکاروں کی مرکزی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ اس وقت سیکیوریٹی کی صورت حال بہتر ہے۔

پاکستان کو سیاحت کے لحاظ سے ایک ممکنہ ٹاپ درجہ میں رکھاگیا ہے اور ورلڈ اکنامک فارم اور ٹور مسابقتی ایریکیٹرز کے مطابق برٹش بیک پیپر سوسائٹی اور فارنر نے پاکستان کو اس کی جغرافیائی محل وقوع ، ثقافتی ورثہ ، متنوع مذہبی مقامات کی موجودگی اور قدیم تہذیبوں کے آثار کی وجہ سے آنے والے سالوں میں ایک بہترین سیاحت کی جگہ قرار دیا ہے۔

ہم عام طور پر مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ عمدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جائے اور تمام سہولتیں بشمول ون ونڈو سروس بہم پہنچائی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں