سچ بولنا مشکل
حب الوطنی کا ڈھول صرف چند لوگوں نے اپنے گلے میں ڈالا ہوا ہے، سچ بولنا اورلکھنا آج سقراط کے زمانے سے بھی زیادہ مشکل ہے
گزشتہ سال کے آخر میں جب ہم انڈیا گئے تو دہلی میں غالب اکیڈمی کے روح و رواں ڈاکٹر عقیل احمد نے ہمیشہ کی طرح ایک ادبی محفل سجائی، جس میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے مستند لکھاری وہاں موجود تھے۔ انھی میں ایک پیاری سی نمکین نین نقش کی حامل ترنم ریاض بھی شامل تھیں۔ جو پاکستان کے ایک اردو اخبار کے لیے ہفتہ وار کالم بھی لکھا کرتی تھیں۔ ان سے مل کر واقعی بہت خوشی ہوئی۔ انتہائی سادہ طبیعت اور تصنع سے عاری یہ خاتون دل میں اتر گئیں۔ اس کی تفصیل پھر کبھی بیان کروںگی فی الحال صرف یہ شعر ان کے لیے یاد آرہا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں ، مگر ایسے بھی ہیں
انھوں نے ایک سوال کیا۔ اگر آپس ہی میں لڑنا تھا تو اس کے لیے ایک علیحدہ ملک بنانے کی کیا ضرورت تھی، یہ کام تو یہاں رہ کر بھی کیا جاسکتا تھا۔ یہ کوئی مزاحیہ سوال نہیں تھا بلکہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی ادبی نشست میں ادب اور اردو زبان سے لاحق مسائل کو زیر بحث لانے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اس سوال کی اہمیت کو سب ہی نے محسوس کیا۔ خاص کر ہندی اور اردو کی یکساں مقبول شاعرہ (جن کا نام یاد نہیں آرہا) نے جب وہ نظمیں سنائیں جن میں انھوں نے اپنے بچپن اور اس سے جڑی یادوں کو تازہ کیا تھا، جس میں ہولی کے رنگ ان کی مسلمان ہم جولیوں کے بغیر پھیکے تھے اور دیوالی کے چراغ محبت کا وہ تیل مانگ رہے ہیں جو تقسیم کے بعد کہیں کھو گیا ہے۔
قلم کاروں کی یہ برادری مکمل طور پر یہ چاہتی تھی کہ دونوں طرف کے ادیب، صحافی، کالم نویس اور شاعر امن اور شانتی کی اس فضاء کو بازیافت کرنے میں مدد کریں، جسے بعض عناصر نے پروان چڑھانے کا خود ساختہ ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ محفل میں موجود ہر شخص (بشمول ٹی وی رپورٹر) سب اس بات پر متفق تھے کہ جن سنگھی لیڈر۔ بی جے پی، بال ٹھاکرے اور پاکستان میں موجود کچھ جماعتیں اور مختلف ایجنسیاں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ دونوں ممالک کا امن برباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں جب کہ دونوں طرف کے عوام امن چاہتے ہیں، ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں، وفود کا تبادلہ چاہتے ہیں اور کتب و رسائل کی با آسانی اور با کفایت ترسیل بھی چاہتے ہیں۔ بھارت میں کتابیں اور ڈاک کا خرچ سستا ہے جب کہ ہماری موجودہ حکومت نے پہلا مہنگائی بم ڈاک پر ہی گرایا تھا کیونکہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سوچ کے حامل حکمرانوں کو تشویش لاحق ہے کہ کسی طرح بھی تعلیم کا بجٹ سر سے ختم کردیا جائے تاکہ صرف کمی کاری اور غلام پیدا ہوتے رہیں۔
سردار کی پگڑی اور جاگیردار کا شملہ ہمیشہ اونچا رہے۔ وڈیرہ پیر سائیں بنا رہے ۔ سول سوسائٹی کے دو فیصد لوگ اپنی خاندانی وراثت، تہذیب اور علمی روایات کو پھیلانا چاہیں تو ان کے ہاتھوں سے علم کی روشنی پھیلانے والی لالٹین چھین کر جہالت اور تعصب کی بندوقیں تھما دی جائیں کیوںکہ وڈیرہ شاہی کلچر میں علم کی روشنی کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلوچستان کے دشوار گزار پہاڑوں پہ رہنے والے معصوم نوجوانوں نے اگر بندوقیں پھینک کر کاغذ، قلم، دوات سنبھال لی تو سرداروں کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔ صرف نفرتوں کی پرورش کرو اور پاکستانی پرچم کی توہین کرو کیوں کہ عالمی طاقتوں کا ایجنڈا یہی ہے کہ زبانوں کی بنیادوں پر قائم صوبوں میں توسیع کرو، صوبوں کے نام بدل دو لیکن بد قسمتی سے اردو بولنے والوں کا نہ پہلے کوئی صوبہ تھا نہ آیندہ ہوگا۔ مشرقی پنجاب سے آنے والے اپنی اپنی زبان بولنے والے صوبے میں بس کر اجنبی نہ رہے لیکن سندھ تقسیم نہ ہو، اردو بولنے والوں کے لیے صرف سمندر ہے۔ یہ تو ایوب خان کا فرمان تھا۔
سندھ میں نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ کرنے والے غدار ٹھہرائے جائیں اور پاکستان دولخت کرنے والوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سلامی دے کر پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا جائے۔ کیا یہی انصاف ہے کیونکہ حب الوطنی کا ڈھول صرف چند لوگوں نے اپنے گلے میں ڈالا ہوا ہے۔ سچ بولنا اور سچ لکھنا آج سقراط کے زمانے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ نہ رہے حسرت موہانی اور ظفر علی خاں جو صحافت کی آبرو تھے۔ لکھنے والے کے خیالات کو بعینہ چھاپ دیتے تھے کہ یہی صحافت کا اصول ہے کہ ایڈیٹر کا ہر بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی پیشہ ورانہ ایمانداری کو نبھاتے ہوئے کڑوا گھونٹ پی کر سچ اور حق گوئی کو زندہ رکھتا تھا۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی، ہم دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی انارکی کی مذمت کی بات کررہے تھے لیکن دلی کی اس محفل میں ایک مسلمان ادیب نے یہ کہہ کر ہمیں شرمندہ کردیا کہ ... ''معاف کیجیے گا آپ کے ہاں تو ابھی تک وہی سوچ باقی ہے کہ ہندو پانی، مسلم پانی جب تک آپ کے ادیب اور کالم نویس، ہندو پیاز ہندو ٹماٹر کی زہریلی سوچ سے باہر نہیں آئیں گے۔ امن کبھی نہیں ہوگا''سچ کہا انھوں نے ہندو ٹماٹر اور ہندو پیاز کا نعرہ لگانے والے وہی ہیں جو پاکستان کے وجود کے خلاف تھے' قائد اعظم کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے تھے لیکن آج سب سے زیادہ پاکستان کی محبت کا نعرہ یہی لگاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو علیحدگی پسند قوتوں کے آلۂ کار ہیں۔ ان کا مسلک، عقیدہ اور مذہب صرف تعصب اور نفرت ہے۔
یہ وہ خوں آشام چمگادڑیں ہیں جو خون پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ ان کے پنجے ہر جگہ گڑے ہیں۔ ان کا ایک نہ ایک نمایندہ اپنی گول گول آنکھیں نکال کر ہر چینل پہ بیٹھا اپنا راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان ہونا کافی نہیں۔ یہ انسان کو مذہب کے خانوں میں بانٹ کر خود دیوتا بن بیٹھتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کو بھی ان کا علم تھا، زرداری کو بھی، میاں صاحب کو بھی، اسفند یار ولی کو بھی اور عمران خان کو بھی۔ لیکن کوئی بھی ان کی بیخ کنی نہیں چاہتا کیونکہ ہر حاکم کا اقتدار انھی کا مرہون منت ہے۔ کبڈی کبڈی کھیل کر ان کو فارغ نہیں کیا جاسکتا البتہ ان عناصر کو شیشے اور فولاد کے گھروں میں بیٹھ کر گیدڑ بھپکیاں دینے سے ''بچے'' اپنی سیاست ضرور چمکا سکتے ہیں اور آیندہ کی حکومت کی ڈیل بھی با آسانی کرسکتے ہیں تاکہ اگلی باری پھر ...؟ خدا رحم کرے ہم پر۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں ، مگر ایسے بھی ہیں
انھوں نے ایک سوال کیا۔ اگر آپس ہی میں لڑنا تھا تو اس کے لیے ایک علیحدہ ملک بنانے کی کیا ضرورت تھی، یہ کام تو یہاں رہ کر بھی کیا جاسکتا تھا۔ یہ کوئی مزاحیہ سوال نہیں تھا بلکہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی ادبی نشست میں ادب اور اردو زبان سے لاحق مسائل کو زیر بحث لانے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اس سوال کی اہمیت کو سب ہی نے محسوس کیا۔ خاص کر ہندی اور اردو کی یکساں مقبول شاعرہ (جن کا نام یاد نہیں آرہا) نے جب وہ نظمیں سنائیں جن میں انھوں نے اپنے بچپن اور اس سے جڑی یادوں کو تازہ کیا تھا، جس میں ہولی کے رنگ ان کی مسلمان ہم جولیوں کے بغیر پھیکے تھے اور دیوالی کے چراغ محبت کا وہ تیل مانگ رہے ہیں جو تقسیم کے بعد کہیں کھو گیا ہے۔
قلم کاروں کی یہ برادری مکمل طور پر یہ چاہتی تھی کہ دونوں طرف کے ادیب، صحافی، کالم نویس اور شاعر امن اور شانتی کی اس فضاء کو بازیافت کرنے میں مدد کریں، جسے بعض عناصر نے پروان چڑھانے کا خود ساختہ ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ محفل میں موجود ہر شخص (بشمول ٹی وی رپورٹر) سب اس بات پر متفق تھے کہ جن سنگھی لیڈر۔ بی جے پی، بال ٹھاکرے اور پاکستان میں موجود کچھ جماعتیں اور مختلف ایجنسیاں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ دونوں ممالک کا امن برباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں جب کہ دونوں طرف کے عوام امن چاہتے ہیں، ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں، وفود کا تبادلہ چاہتے ہیں اور کتب و رسائل کی با آسانی اور با کفایت ترسیل بھی چاہتے ہیں۔ بھارت میں کتابیں اور ڈاک کا خرچ سستا ہے جب کہ ہماری موجودہ حکومت نے پہلا مہنگائی بم ڈاک پر ہی گرایا تھا کیونکہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سوچ کے حامل حکمرانوں کو تشویش لاحق ہے کہ کسی طرح بھی تعلیم کا بجٹ سر سے ختم کردیا جائے تاکہ صرف کمی کاری اور غلام پیدا ہوتے رہیں۔
سردار کی پگڑی اور جاگیردار کا شملہ ہمیشہ اونچا رہے۔ وڈیرہ پیر سائیں بنا رہے ۔ سول سوسائٹی کے دو فیصد لوگ اپنی خاندانی وراثت، تہذیب اور علمی روایات کو پھیلانا چاہیں تو ان کے ہاتھوں سے علم کی روشنی پھیلانے والی لالٹین چھین کر جہالت اور تعصب کی بندوقیں تھما دی جائیں کیوںکہ وڈیرہ شاہی کلچر میں علم کی روشنی کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلوچستان کے دشوار گزار پہاڑوں پہ رہنے والے معصوم نوجوانوں نے اگر بندوقیں پھینک کر کاغذ، قلم، دوات سنبھال لی تو سرداروں کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔ صرف نفرتوں کی پرورش کرو اور پاکستانی پرچم کی توہین کرو کیوں کہ عالمی طاقتوں کا ایجنڈا یہی ہے کہ زبانوں کی بنیادوں پر قائم صوبوں میں توسیع کرو، صوبوں کے نام بدل دو لیکن بد قسمتی سے اردو بولنے والوں کا نہ پہلے کوئی صوبہ تھا نہ آیندہ ہوگا۔ مشرقی پنجاب سے آنے والے اپنی اپنی زبان بولنے والے صوبے میں بس کر اجنبی نہ رہے لیکن سندھ تقسیم نہ ہو، اردو بولنے والوں کے لیے صرف سمندر ہے۔ یہ تو ایوب خان کا فرمان تھا۔
سندھ میں نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ کرنے والے غدار ٹھہرائے جائیں اور پاکستان دولخت کرنے والوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سلامی دے کر پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا جائے۔ کیا یہی انصاف ہے کیونکہ حب الوطنی کا ڈھول صرف چند لوگوں نے اپنے گلے میں ڈالا ہوا ہے۔ سچ بولنا اور سچ لکھنا آج سقراط کے زمانے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ نہ رہے حسرت موہانی اور ظفر علی خاں جو صحافت کی آبرو تھے۔ لکھنے والے کے خیالات کو بعینہ چھاپ دیتے تھے کہ یہی صحافت کا اصول ہے کہ ایڈیٹر کا ہر بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی پیشہ ورانہ ایمانداری کو نبھاتے ہوئے کڑوا گھونٹ پی کر سچ اور حق گوئی کو زندہ رکھتا تھا۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی، ہم دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی انارکی کی مذمت کی بات کررہے تھے لیکن دلی کی اس محفل میں ایک مسلمان ادیب نے یہ کہہ کر ہمیں شرمندہ کردیا کہ ... ''معاف کیجیے گا آپ کے ہاں تو ابھی تک وہی سوچ باقی ہے کہ ہندو پانی، مسلم پانی جب تک آپ کے ادیب اور کالم نویس، ہندو پیاز ہندو ٹماٹر کی زہریلی سوچ سے باہر نہیں آئیں گے۔ امن کبھی نہیں ہوگا''سچ کہا انھوں نے ہندو ٹماٹر اور ہندو پیاز کا نعرہ لگانے والے وہی ہیں جو پاکستان کے وجود کے خلاف تھے' قائد اعظم کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے تھے لیکن آج سب سے زیادہ پاکستان کی محبت کا نعرہ یہی لگاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو علیحدگی پسند قوتوں کے آلۂ کار ہیں۔ ان کا مسلک، عقیدہ اور مذہب صرف تعصب اور نفرت ہے۔
یہ وہ خوں آشام چمگادڑیں ہیں جو خون پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ ان کے پنجے ہر جگہ گڑے ہیں۔ ان کا ایک نہ ایک نمایندہ اپنی گول گول آنکھیں نکال کر ہر چینل پہ بیٹھا اپنا راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان ہونا کافی نہیں۔ یہ انسان کو مذہب کے خانوں میں بانٹ کر خود دیوتا بن بیٹھتے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کو بھی ان کا علم تھا، زرداری کو بھی، میاں صاحب کو بھی، اسفند یار ولی کو بھی اور عمران خان کو بھی۔ لیکن کوئی بھی ان کی بیخ کنی نہیں چاہتا کیونکہ ہر حاکم کا اقتدار انھی کا مرہون منت ہے۔ کبڈی کبڈی کھیل کر ان کو فارغ نہیں کیا جاسکتا البتہ ان عناصر کو شیشے اور فولاد کے گھروں میں بیٹھ کر گیدڑ بھپکیاں دینے سے ''بچے'' اپنی سیاست ضرور چمکا سکتے ہیں اور آیندہ کی حکومت کی ڈیل بھی با آسانی کرسکتے ہیں تاکہ اگلی باری پھر ...؟ خدا رحم کرے ہم پر۔