الحمرا اور فنون کے خاص نمبر
ہم سب جانتے ہیں مخزن کی طرح الحمرا بھی مختلف وقتوں میں نکلتا اور بند ہوتا رہا ہے
ایک زمانہ تھا کہ ادبی رسائل اور جرائد جیسے بہار کے موسم میں تھے اور یہ موسم تقریباً پوری بیسویں صدی پر پھیلا ہوا تھا۔ شیخ عبدالقادر کے ''مخزن'' سے شروع ہونے والے اس سفر کا پہلا پڑاؤ تقسیم پاک و ہند پر منتج ہوا کہ اس وقت تک اردو پورے برصغیر کی سب سے اہم مشترکہ زبان تھی اور ادبی رسائل کلکتہ، حیدر آباد (دکن) ممبئی (سابقہ بمبئی) علی گڑھ، مدراس' دہلی' لاہور' کراچی' پشاور جیسے بڑے مراکز کے ساتھ ساتھ برٹش انڈیا کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر سے نکلا کرتے تھے، آزادی اور تقسیم کے بعد بوجوہ بھارت میں اردو کی وہ حیثیت نہ رہی جو متحدہ ہندوستان میں تھی لیکن اس کے باوجود سوغات' شعر و جگت، آج کل، گفتگو، شاعر، انشأ، شب خون، ذہن جدید، اسباق، استعارہ، نیا ورق اور اثبات سمیت بے شمار اہم ادبی جرائد مختلف ادوار میں شایع ہو کر اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں حالات نسبتاً مختلف بھی رہے اور حوصلہ افزا بھی کہ یہاں سے شایع ہونے والے اہم جرائد کی فہرست بھی خاصی طویل ہے جب کہ درمیانے درجے اور مضافات سے شایع ہونے والوں کی تعداد تو اتنی زیادہ ہے کہ صرف ان کی فہرست ہی درج کرنے کے لیے کئی کالم کم پڑ جائیں گے چند بہت اہم نام کچھ اس طرح سے ہی نقوش، فنون، نیا دور، سیپ، اوراق، تخلیقی ادب، نگار، ساقی، سنگ میل، نیرنگ خیال، ادب لطیف، سویرا، افکار، اجرا، ارتقا، بازیافت، آج کل، معاصر، آثار، دنیا زاد، بیاض اور الحمرا۔
عمومی طور پر ضخیم جرائد اور مختلف رسالوں کے خاص نمبروں کی بات کیجیے تو یہ بات بھی بہت دور تک جائے گی سب رنگ، عالمی اور اردو ڈائجسٹ جیسے عوامی دلچسپی کے حامل رسالوں میں چھپنے والا ادب ان کے علاوہ ہے بیشتر رسائل کی ایک مشترکہ خوبی یہ بھی رہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً خاص نمبر اور ماہنامے بھی شایع کرتے رہے ہیں جن میں سے بعض بلا شبہ ادبی دستاویزوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں دو اہم ادبی رسالوں ماہنامہ الحمرا اور سہ ماہی فنون کے ایسے ہی خصوصی شمارے سامنے آئے ہیں۔ سو آج کا یہ کالم انھی دونوں کے نام، پہلے کچھ باتیں الحمرا کے سالنامے کے بارے میں ہو جائیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مخزن کی طرح الحمرا بھی مختلف وقتوں میں نکلتا اور بند ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ تیرہ برس سے مولانا حامد علی خان کے صاحبزادے شاہد علی خان نے اس کی اشاعت نو کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی ایک خوبی اس کے عمدہ مواد کے علاوہ اس کی ماہانہ اشاعت میں غیر معمولی باقاعدگی بھی ہے جو اس سے پہلے صرف صہبا لکھنوی کے ''افکار'' اور دور حاضر کے ''بیاض'' کی بھی پہچان بن چکی ہے۔ شاہد علی خان پیشے کے اعتبار سے ریٹائرڈ بینکر ہیں مگر روحانی طور پر وہ اپنے عظیم والد مولانا حامد علی خان تایا مولانا ظفر علی خان اور چچا پروفیسر حمید احمد خان کے پیرو کار ہیں۔ میں اس رسالے کا پہلے پرچے سے اب تک باقاعدہ قاری چلا آ رہا ہوں اور اس کا سارا کریڈٹ شاہد علی خان کو جاتا ہے کہ ہر مہینے کے پہلے ہفتے کی ڈاک میں الحمرا کا تازہ شمارہ ضرور شامل ہوتا ہے۔ اس سالنامے میں وہ تمام مستقل عنوانات بھی شامل ہیں جو اب الحمرا کی پہچان بن چکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ نئے اور قدرے مختلف گوشوں کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
یوں تو تقریباً ہر ادبی رسالے کے آخر میں ادیبوں اور قارئین کے منتخب خطوط شامل کیے جاتے ہیں لیکن ''الحمرا'' نے اس روایت کو ایک ایسے انداز میں نبھایا ہے کہ اس کی ایک خاص وضع تشکیل پا گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس حصے کا آغاز ہمیشہ ڈاکٹر انور سدید کے ایک یا دو اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ خطوط سے ہوتا ہے اس کے علاوہ ان کے مضامین، تبصرے، انشائیے، تعزیتی مضامین، افسانے بلکہ شاعری تک بھی تقریباً تسلسل کے ساتھ پڑھنے کو ملتی ہے۔
اس سالنامے میں مرحوم ڈاکٹر صدیق جاوید کے بارے میں تین مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ دو کا تعلق ڈاکٹر انور محمود خالد اور تیسرے کا ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سے ہے اور تینوں ہی خاصے کی چیزیں ہیں۔ چار مضامین ادیبوں کے خطوط سے متعلق ہیں جب کہ ایک خصوصی گوشۂ اعزاز احمد آذر کے فکر و فن اور شخصیت کے نام ہے جو ایک بہت خوش آیند بات ہے کہ اہل قلم کی خدمات کو اگر ان کی زندگی میں بھی سراہا جائے تو اس سے ایک مہذب اور علم دوست معاشرے کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ بیشتر قارئین کی طرح میں بھی سب سے پہلے پورتاژ اور آپ بیتی والے حصے سے ہی آغاز کرتا ہوں کہ اس میں شامل بہت سی تحریریں بیک وقت دلچسپ بھی ہوتی ہیں اور معلومات افزا بھی۔
محفل احباب میں ڈاکٹر انور محمود خالد اور بریگیڈیئر حامد سعید اختر کے خطوط اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے زیادہ قابل توجہ رہے۔ مجموعی طور پر الحمرا کا یہ سالنامہ دور جدید کے ادب کا ایک خوبصورت، متنوع اور دلچسپ منظر نامہ ہے۔
''فنون'' کے زیر نظر شمارے کے لیے جگہ چونکہ کم پڑگئی ہے اس لیے میں اس کے مشمولات پر تفصیل سے بات نہیں کر سکوں گا۔ سب سے پہلی اور خوش آیند بات تو یہی ہے کہ اپنے دور کے دو بڑے پرچوں نقوش اور اوراق کی طرح یہ اپنے ایڈیٹروں کی وفات کے ساتھ یہی ختم نہیں ہو گیا۔ مرحومہ منصورہ احمد کے ''کولاج'' اور اس سے جڑے ہوئے کچھ مسائل کے باعث اس کی اشاعت میں تین چار سال کا وقفہ ضرور آ گیا مگر اب جس طرح سے ڈاکٹر ناہید قاسمی اور ان کے صاحبزادے منیر حیات قاسمی اس کے معیار اور تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہیں، وہ یقینا داد کے قابل ہے۔ قاسمی صاحب مرحوم نے اپنے 42 سالہ دور ادارت میں تقریباً 128 پرچے مرتب کیے تھے۔ آج ان کے مستقل لکھنے والوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالی جائے تو آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ہر دور کے اہم، نامور اور ابھرتے ہوئے لکھاری جب جب اس سفر میں شامل ہوئے پھر کسی نے مڑ کر یا ادھر ادھر نہیں دیکھا اور پھر یہ نام مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے ایسے ہیں کہ شاید ہی اردو کا کوئی اور ادبی رسالہ اس کی برابری کر سکے۔ اس پرچے کو اشاعت کے حوالے سے گولڈن جوبلی کا نام دیا گیا ہے جو 427 صفحات پر مشتمل ہے جن میں 150 سے زیادہ لکھنے والوں کی نثری اور شعری تخلیقات کو پیش کیا گیا ہے۔ بیشتر تحریریں اس قدر عمدہ ہیں کہ صرف چند ایک کے ذکر سے بات نہیں بنے گی۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ادبی تاریخ میں ''فنون'' نے جو مقام حاصل کیا ہے اس کا موازنہ ماضی کے دوچار جرائد سے تو شائد ممکن ہو مگر دور حاضر میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اردو ادب کے قارئین کی تعداد بوجوہ کم ہوتی جا رہی ہے لیکن فنون اور الحمرا جیسے رسالوں میں چھپنے والے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات بلا شبہ اس اندھیرے میں روشنی کا کام کر رہی ہیں کہ یہ زندگی آمیز ہیں اور زندگی آموز بھی۔
عمومی طور پر ضخیم جرائد اور مختلف رسالوں کے خاص نمبروں کی بات کیجیے تو یہ بات بھی بہت دور تک جائے گی سب رنگ، عالمی اور اردو ڈائجسٹ جیسے عوامی دلچسپی کے حامل رسالوں میں چھپنے والا ادب ان کے علاوہ ہے بیشتر رسائل کی ایک مشترکہ خوبی یہ بھی رہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً خاص نمبر اور ماہنامے بھی شایع کرتے رہے ہیں جن میں سے بعض بلا شبہ ادبی دستاویزوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں دو اہم ادبی رسالوں ماہنامہ الحمرا اور سہ ماہی فنون کے ایسے ہی خصوصی شمارے سامنے آئے ہیں۔ سو آج کا یہ کالم انھی دونوں کے نام، پہلے کچھ باتیں الحمرا کے سالنامے کے بارے میں ہو جائیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مخزن کی طرح الحمرا بھی مختلف وقتوں میں نکلتا اور بند ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ تیرہ برس سے مولانا حامد علی خان کے صاحبزادے شاہد علی خان نے اس کی اشاعت نو کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی ایک خوبی اس کے عمدہ مواد کے علاوہ اس کی ماہانہ اشاعت میں غیر معمولی باقاعدگی بھی ہے جو اس سے پہلے صرف صہبا لکھنوی کے ''افکار'' اور دور حاضر کے ''بیاض'' کی بھی پہچان بن چکی ہے۔ شاہد علی خان پیشے کے اعتبار سے ریٹائرڈ بینکر ہیں مگر روحانی طور پر وہ اپنے عظیم والد مولانا حامد علی خان تایا مولانا ظفر علی خان اور چچا پروفیسر حمید احمد خان کے پیرو کار ہیں۔ میں اس رسالے کا پہلے پرچے سے اب تک باقاعدہ قاری چلا آ رہا ہوں اور اس کا سارا کریڈٹ شاہد علی خان کو جاتا ہے کہ ہر مہینے کے پہلے ہفتے کی ڈاک میں الحمرا کا تازہ شمارہ ضرور شامل ہوتا ہے۔ اس سالنامے میں وہ تمام مستقل عنوانات بھی شامل ہیں جو اب الحمرا کی پہچان بن چکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ نئے اور قدرے مختلف گوشوں کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
یوں تو تقریباً ہر ادبی رسالے کے آخر میں ادیبوں اور قارئین کے منتخب خطوط شامل کیے جاتے ہیں لیکن ''الحمرا'' نے اس روایت کو ایک ایسے انداز میں نبھایا ہے کہ اس کی ایک خاص وضع تشکیل پا گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس حصے کا آغاز ہمیشہ ڈاکٹر انور سدید کے ایک یا دو اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ خطوط سے ہوتا ہے اس کے علاوہ ان کے مضامین، تبصرے، انشائیے، تعزیتی مضامین، افسانے بلکہ شاعری تک بھی تقریباً تسلسل کے ساتھ پڑھنے کو ملتی ہے۔
اس سالنامے میں مرحوم ڈاکٹر صدیق جاوید کے بارے میں تین مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ دو کا تعلق ڈاکٹر انور محمود خالد اور تیسرے کا ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سے ہے اور تینوں ہی خاصے کی چیزیں ہیں۔ چار مضامین ادیبوں کے خطوط سے متعلق ہیں جب کہ ایک خصوصی گوشۂ اعزاز احمد آذر کے فکر و فن اور شخصیت کے نام ہے جو ایک بہت خوش آیند بات ہے کہ اہل قلم کی خدمات کو اگر ان کی زندگی میں بھی سراہا جائے تو اس سے ایک مہذب اور علم دوست معاشرے کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ بیشتر قارئین کی طرح میں بھی سب سے پہلے پورتاژ اور آپ بیتی والے حصے سے ہی آغاز کرتا ہوں کہ اس میں شامل بہت سی تحریریں بیک وقت دلچسپ بھی ہوتی ہیں اور معلومات افزا بھی۔
محفل احباب میں ڈاکٹر انور محمود خالد اور بریگیڈیئر حامد سعید اختر کے خطوط اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے زیادہ قابل توجہ رہے۔ مجموعی طور پر الحمرا کا یہ سالنامہ دور جدید کے ادب کا ایک خوبصورت، متنوع اور دلچسپ منظر نامہ ہے۔
''فنون'' کے زیر نظر شمارے کے لیے جگہ چونکہ کم پڑگئی ہے اس لیے میں اس کے مشمولات پر تفصیل سے بات نہیں کر سکوں گا۔ سب سے پہلی اور خوش آیند بات تو یہی ہے کہ اپنے دور کے دو بڑے پرچوں نقوش اور اوراق کی طرح یہ اپنے ایڈیٹروں کی وفات کے ساتھ یہی ختم نہیں ہو گیا۔ مرحومہ منصورہ احمد کے ''کولاج'' اور اس سے جڑے ہوئے کچھ مسائل کے باعث اس کی اشاعت میں تین چار سال کا وقفہ ضرور آ گیا مگر اب جس طرح سے ڈاکٹر ناہید قاسمی اور ان کے صاحبزادے منیر حیات قاسمی اس کے معیار اور تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہیں، وہ یقینا داد کے قابل ہے۔ قاسمی صاحب مرحوم نے اپنے 42 سالہ دور ادارت میں تقریباً 128 پرچے مرتب کیے تھے۔ آج ان کے مستقل لکھنے والوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالی جائے تو آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ہر دور کے اہم، نامور اور ابھرتے ہوئے لکھاری جب جب اس سفر میں شامل ہوئے پھر کسی نے مڑ کر یا ادھر ادھر نہیں دیکھا اور پھر یہ نام مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے ایسے ہیں کہ شاید ہی اردو کا کوئی اور ادبی رسالہ اس کی برابری کر سکے۔ اس پرچے کو اشاعت کے حوالے سے گولڈن جوبلی کا نام دیا گیا ہے جو 427 صفحات پر مشتمل ہے جن میں 150 سے زیادہ لکھنے والوں کی نثری اور شعری تخلیقات کو پیش کیا گیا ہے۔ بیشتر تحریریں اس قدر عمدہ ہیں کہ صرف چند ایک کے ذکر سے بات نہیں بنے گی۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ادبی تاریخ میں ''فنون'' نے جو مقام حاصل کیا ہے اس کا موازنہ ماضی کے دوچار جرائد سے تو شائد ممکن ہو مگر دور حاضر میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اردو ادب کے قارئین کی تعداد بوجوہ کم ہوتی جا رہی ہے لیکن فنون اور الحمرا جیسے رسالوں میں چھپنے والے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات بلا شبہ اس اندھیرے میں روشنی کا کام کر رہی ہیں کہ یہ زندگی آمیز ہیں اور زندگی آموز بھی۔