بے بسی کے ساتھ چند مکالمے
ہمارا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں ہر دس میں نو افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں
ہمارا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر دس میں نو افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ دنیا بھر سے ستائیس ممالک کا انتخاب کیا گیا جس میں ذہنی اذیت کا لیول اور اس کو ابھارنے والے محرکات کا جائزہ لیا گیا۔ ان محرکات میں دہشت گردی، بڑھتے اخراجات، معیار زندگی، ملازمت، زندگی کا دہرا معیار، بدامنی وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں 71 فیصد لوگ اضطرابی کیفیت میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں کئی لوگ ایسے ملتے ہیں، جن کی باتوں میں کوئی تسلسل نہیں ہوتا۔ کوئی پریشانی کوئی تکلیف دہ سوچ انھیں مستقل پریشان کرتی ہے۔ ان کا موڈ بار بار بدلتا ہے۔ ان کے مزاج میں شک اور حد درجہ جارحیت پائی جاتی ہے۔ یہ گہری سوچ میں گم، اداس، غمگین، مضمحل نظر آتے ہیں۔ یہ ذہنی خلفشار کام کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے اور فیصلہ کرنے کی قوت الگ متاثر ہوتی ہے۔ اگر ان تمام تر کیفیات کو بر وقت نہ روکا جائے تو آگے چل کر سنگین نوعیت اختیار کر لیتے ہیں۔
سائرہ کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ والدہ کے انتقال کے بعد وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئی۔ مگر گھر والے اس کی کیفیت نہ سمجھ سکے۔ پھر بڑے کنبے کے گھروں میں انفرادی طور کسی پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ بیک وقت بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے لوگ مزاج کی تبدیلی و باریک بینی میں نہیں الجھتے۔ سائرہ کا جیسے ہی اچھا رشتہ آیا گھر والوں نے اس کی شادی کر دی۔ وہ خود بھی ملازمت کرتی ہے۔ میاں بھی خیال رکھنے والا ہے۔ سسرال سے بھی اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اس کی زندگی میں جو تبدیلیاں آئیں وہ نہ تو کسی سے شیئر کر پائی اور نہ ہی کوئی اس کے قریب تھا، جو اس کی کیفیات کو سمجھ پاتا۔
ایک سال بعد جب اس کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی تو اس پر عجیب سے دورے پڑنے لگے۔ اس حد تک کہ وہ کسی کو پہچان نہیں پاتی۔ اس کا نفسیاتی علاج شروع ہو گیا۔ تین چار مہینے کی بیماری کے بعد وہ کچھ بہتر ہوئی تو اس نے ملازمت جوائن کر لی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور اپنا مسئلہ بتانے لگی۔ اسے ڈاکٹر نے Bipolar Disorder بتایا تھا۔ یہ ڈپریشن کے بعد موڈ کی خرابیوں میں سے ایک پیچیدہ مرض ہے۔ بائی پولر کا مطلب ہے دو قطبی یعنی دو متضاد کنارے جس میں مزاج کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ خوشی و غم یا غصے میں شدت آ جاتی ہے۔ یہ سمجھ لیجیے کہ خوش مزاجی پر تصنع اور تنگ مزاجی و عدم یکسوئی پریشان کن صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ میں نے اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو زیادہ تر تصنع و بناوٹ کا شکار دیکھا ہے۔ یعنی ان کی اپنی اصلی شخصیت متضاد اور پرفریب ہو کے رہ جاتی ہے۔ پھر ایسے لوگ ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگتے ہیں جو بظاہر خوشی و تسکین کا سبب نظر آتی ہیں مگر ان کے نتائج بڑے سنگین ہوتے ہیں۔ میں سائرہ کو طویل عرصے سے جانتی ہوں۔ وہ سادہ، مخلص اور محنتی لڑکی ہے۔ اس کی شخصیت میں کوئی بناوٹ نہیں ہے۔ مگر باتوں میں ربط کی کمی، خوف، بے یقینی محسوس ہوئی۔ اسے قریبی رشتوں سے جو یقین چاہیے وہ نہیں مل پا رہا۔ یہ اس دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
''اب آپ بتائیے میں کیا کروں؟''
''اپنی بیماری کی حقیقت کو تسلیم کرو اور اس سے باتیں کرو'' وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔
''ہر کوئی بیماری سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔''
''یہی تو غلط رویہ ہے''۔ میں نے کہا۔
''میں جتنا بیماری کے بارے میں سوچتی ہوں یہ اتنا ہی بڑھتی ہے۔'' سائرہ نے اداسی سے کہا۔
''کسی چیز سے ہم جتنی شدت سے دور بھاگتے ہیں وہ اتنی ہی تیزی سے ہماری طرف لپکتی ہے۔''
''جی میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں''۔ شاید میرے الفاظ اس کے احساس تک رسائی پانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد وہ کافی بہتر ہو گئی۔ اس نے بیماری کی حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن یہ ذہنی تناؤ اس کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کی بیماری میں شدت پریگنینسی کے دوران ہوئی تھی جسے Antenatal Depression کہا جاتا ہے۔ جو ہر ماں کو لاحق ہو جاتا ہے جس میں چڑچڑا پن، تشویش، مزاج کا بدلنا، اداسی اور یکسوئی کی کمی شامل ہیں۔ اور یہ کیفیت ان عورتوں میں شدت اختیار کر جاتی ہے، جن میں موروثی طور پر ذہنی امراض نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ سائرہ کے خاندان میں اس کا بھائی اور والدین بھی بائی پولر مرض کا شکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سائرہ کے مرض میں اسی دوران شدت بڑھی۔ حاملہ ماؤں کی ذہنی و جسمانی صحت، بچے پر دونوں طرح سے اثرانداز ہوتی ہے۔ بعض اوقات اسی دوران ماں کے مرض میں شدت بچے کی ذہنی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ ایسے بچے چڑچڑے، زود رنج اور ضدی ہو جاتے ہیں۔ جو بڑے ہو کر اضطرابی کیفیت اور سیاست پسندی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کئی مرد حضرات اسی دوران بیویوں سے خائف ہو جاتے ہیں۔ اور حاملہ ماؤں کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد پھر ماں Postpartum Depression میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ مرض بھی بداحتیاطی کی وجہ سے شدت اختیار کر جاتا ہے۔
یہ مرض بھی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کی ایک شکل ہے۔ نئی ذمے داری کا بوجھ ماں میں خوف اور وسوسے پیدا کر دیتا ہے۔ ڈپریسڈ یا پریشان حال ماؤں کے بچے بھی افسردگی، موڈ کی خرابیوں، شخصی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آگے چل کر ان بچوں کو کئی ذہنی و جذباتی مشکلات درپیش رہتی ہیں۔ جنھیں دوست بنانے اور رشتوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ ایسے بچے کم گو، تنہائی پسند اور ناپسندیدہ بن جاتے ہیں۔ ماں کی زندگی کے یہ ادوار ذہنی، جذباتی و جسمانی طور پر بہت اہم ہوتے ہیں۔ جس کی نزاکت کو اکثر لوگ لاعلمی کے باعث نہیں سمجھ پاتے اور ان کے بچے کئی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سائرہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ حمل کے دوران جب یہ فطری ذہنی و جسمانی مسائل نے اس پر حملہ کر دیا تو اسے گھر میں شوہر اور سسرال سے توجہ اور وہ سمجھ نہیں مل پاتی، جس کی اسے ضرورت تھی۔ اس کی تکلیف کو سمجھنے کے بجائے اسے کڑوی کسیلی باتیں سننے کو ملیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا اور ایک ذہنی مریضہ ان کے بیٹے کے پلے باندھ دی گئی۔ جس سے اس کے مرض میں اور بھی شدت پیدا ہو گئی۔ اس کی بیٹی جب نو مہینے کی ہوئی تو وہ دوبارہ میرے پاس آئی۔ اس کا کہنا تھا کہ شوہر اور گھر والے اس کا خیال رکھتے رکھتے تلخ ہو جاتے ہیں اور اس سے ذہنی طور پر دور چلے جاتے ہیں۔ اسے اکثر طنزیہ گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ اس کی بیٹی کئی بار پلنگ سے زمین پر گر کر زخمی ہو چکی ہے۔ وہ جو خواب آور یا ذہنی سکون کے لیے دوائیں استعمال کرتی ہے، ان کے لینے کے بعد اسے نیند بہت آتی ہے اور اس سے گھر کے کام نہیں ہوتے۔ کہنے لگی ''مجھے گھر میں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ میکے میں بھی مجھے کوئی نہیں رکھے گا۔ میں کہاں جاؤں گی۔ میری بیٹی کا کیا بنے گا؟'' اس کی باتیں سن کر میں نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانی۔
''دیکھو سائرہ! تم حال میں رہنے کے بجائے مستقبل میں بھٹک رہی ہو۔ ابھی تم کچھ بہتر ہو۔ یہ واہمے اور وسوسے تمہیں ذہنی طور پر پیچھے کر دیں گے۔''
''میرے گھر والے تعاون نہیں کر رہے۔ میں دوا چھوڑنا چاہتی ہوں۔''
''دوا تم نہیں چھوڑو گی۔ البتہ تم ڈاکٹر سے کہو کہ دواؤں کی مقدار میں کمی کر دے۔''
سائرہ اب قدرے بہتر ہے مگر اس کے گھر والے اس کی ذہنی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کے حامل لوگوں کو یا تو بوجھ سمجھا جاتا ہے یا پھر ان کا مذاق اڑا کر ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ گھر ہوں یا باہر کی دنیا ایسے لوگ غیر انسانی سوچ اور رویوں کا شکار ہو کر بعض اوقات زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جرم کی نفسیات بھی ایسے لوگوں سے عبارت ہے۔ جنھیں معاشرے نے برا سمجھ کر دھتکار دیا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے لے کر آج تک دنیا کے اکثر بڑے سیاسی رہنما اکثریت میں کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار تھے۔ جوزف اسٹالن، ہٹلر، نپولین بونا پارٹ باڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار تھے۔ جس میں نرگسیت سرفہرست ہے۔ ایرانی نژاد ڈاکٹر نصیر اپنی کتاب "A First Rate Madness" میں ذہنی بیماری و لیڈرشپ کے حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''گاندھی اور مارٹن لوتھرکنگ نے جوانی میں خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ آگے چل کر انھیں ڈپریشن کے دورے پڑتے تھے۔ دنیا کے وہ لیڈر جو ذہنی بیماریوں کا شکار تھے۔ مشکل حالات میں صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔''
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی بیماریوں کا شکار اکثر لوگ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے پر منحصر ہے کہ ایسے لوگوں کو تحفظ اور مثبت رویہ فراہم کر کے انھیں کارآمد شہری بنائے یا بے یقینی دے کر غلط راستوں پر بھٹکنے کے لیے تنہا چھوڑ دے۔