گھر سے گور قید زنداں اور زنجیریں

سید علی گیلانی کی رحلت سے جہاں کشمیریوں کو نقصان ہوا ہے، وہیں بھارت کو بھی صدیوں تک اس کا نقصان بھگتنا پڑے گا

سید گیلانی نے اپنے مقصد اور تحریک کو اپنی ذات پر ہمیشہ ترجیح دی۔ (فوٹو: فائل)

''بابا انتقال کرگئے''، مجھے لاش سے لپٹ کر رونے تو دو۔ مجھے سلاخوں میں بند کردیا، میرے آنسوؤں کو تو نہ قید کرو۔ یکم ستمبر کو شب گیارہ بجے جویریہ کا سسکیوں اور آہوں سے بھرپور ٹیلی فون آیا۔ میں خود کو سنبھال نہیں پایا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جویریہ کو تسلی دوں یا خود کو سہارا دوں۔ میری آنکھوں سے سیل رواں بہہ رہا تھا جبکہ ہونٹ مسلسل کپکپا رہے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں آج ہی یتیم ہوگیا ہوں۔

کوہساروں کا شیر، کشمیر کا عمر مختار، سرینگر کا ارطغرل غازی، مجاہد حریت، تمثیل پاکستان سید علی گیلانی رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔

بانڈی پورہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے سید علی گیلانی، جنہوں نے حصول علم کےلیے لاہور کا انتخاب کیا۔ جن کی علم کی پیاس اورینٹل کالج کے سبزہ زار میں بجھی۔ اقبال کے شیدائی سید علی گیلانی، جن کی تربیت ابوالاعلیٰ مودودی نے کی، جنہوں نے شہر لاہور میں صحافت کے پیشے کو اختیار کیا۔ لاہور کی صحافت میں نام پیدا کرنے کے بعد سید علی گیلانی نے سرینگر کا رخ کیا، جہاں سید نے جوانی سے وفات تک اپنا وقت گزرا۔ آج حریت پسندوں کے مرشد، سیاسی قیادت کے استاد، نوجوانوں کے محبوب قائد، بزرگوں کےلیے قابل احترام سید علی گیلانی نے لاکھوں کشمیری اور کروڑوں پاکستانیوں کو افسردہ کردیا ہے۔

سید علی گیلانی کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی، جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر تیسرا دن جیل میں گزارا۔ انہیں پہلی بار 1962 میں حراست میں لیا گیا۔ سید علی گیلانی پہلے کشمیری لیڈر تھے جنہیں 1965 میں پہلی بار مسلسل 22 ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ مجاہد حریت گزشتہ دس برس سے مسلسل نظر بند تھے۔ بدھ کی شب ساڑھے دس بجے سید علی گیلانی کا انتقال ہوا۔ ان کی رحلت کی خبر سنتے ہی بھارتی فوج نے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا۔ کشمیر بھرمیں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کردی جبکہ اہل خانہ سے سید علی گیلانی کی میت چھین لی، خواتین کو زدو کوب کیا، مردوں کو کمروں میں بند کرکے چند افراد کے ساتھ گھر سے تین سو میٹر کی دوری پر دفن کردیا۔ اپنے آپ کو دنیا کی بڑی جمہوریت کہنے والے انڈیا کی جنونی مودی سرکار، مرد حریت سید علی گیلانی کی لاش سے بھی خوفزدہ ہے۔ جنازے کی اجازت نہ دے کر اور خفیہ تدفین کرکے مودی سرکار نے گیلانی صاحب کو ہمیشہ کےلیے امر کردیا۔ سید علی گیلانی آپ تاقیامت ہر کشمیری اور ہر پاکستانی کے دل میں زندہ رہیں گے۔

بھارت اگر یہ سمجھ رہا ہے کہ سید علی گیلانی کے دنیائے فانی سے رخصت ہونے کے بعد تحریک آزادی کشمیر ختم ہوجائے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ گیلانی ایک شخصیت نہیں سوچ اور تحریک کا نام ہے، جسے ختم کرنا یا کچلنا دہشت گرد ریاست بھارت کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹی سید علی گیلانی کی لاش بھارتی جمہوریت کے منہ پر طمانچے رسید کررہی تھی۔ یہ لواحقین سے لاش چھینتے سیکیورٹی اہلکار عالمی ضمیر پر دستک دے رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم میں لپٹی سید زادے کی لاش سوال کر رہی تھی کہ بھارت زندہ گیلانی سے خوفزدہ تھا، شیر کی موت سے بھارتی ایوان کیوں لرزاں ہے؟ کہاں ہیں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار؟ کہاں ہیں انصاف کے دعویدار؟ عالمی برادری کے لب کیوں سلے ہوئے ہیں؟ گیلانی کی لحد کے سامنے کھڑے کشمیری آج زخمی دل سے آسمان کی طرف طلب بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں۔ اب کون کشمیر کےلیے آواز بلند کرے گا؟ اب کون 'پاکستان ہمارا ہے' کا نعرہ زندہ رکھے گا؟ سری نگر کے جلسوں میں شرکا کا لہو کون گرمائے گا؟ مقبوضہ وادی میں پاکستان کی سفارت کاری کون کرے گا؟ حیدر پورا کے سید زادے نے سید ہونے کا حق ادا کیا۔ جسے حق سمجھا تو پھر مرتے دم تو اُسی پر قائم رہا۔ وہ کسی بھی قسم کے کمپرومائز کے قائل نہیں تھے۔ وہ بالکل واضح انداز میں حق خودارادیت کی بات کرتے تھے اور بسا اوقات اپنے بھی ان سے ناراض ہوجاتے تھے۔


گیلانی مزاحمت کی علامت تھے۔ وہ عوام کو متحرک کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ علی گیلانی کی شخصیت میں ایک سحر تھا۔ وہ ڈرتے نہیں تھے بلکہ وہ چھا جاتے تھے۔ پاکستان کی محبت جس کی گھٹی میں شامل تھی۔ اقبال سے عشق جس کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ آج سید علی گیلانی کا انتقال نہیں ہوا بلکہ آج حریت کا ایک باب بند ہوا ہے۔ سید علی گیلانی کی وفات پر آج پوری قوم افسردہ ہے۔ آج پاکستان کا قومی پرچم سرنگوں ہے۔ آج پارلیمان سے گھروں کے کمروں تک پاکستان میں ہر جگہ آہیں اور سسکیاں ہیں، کیونکہ آج کشمیر یتیم ہوگیا ہے۔ آج ایشیا کا نیلسن منڈیلا دنیا سے چلا گیا ہے۔ سید علی گیلانی کی رحلت سے کشمیر میں قیادت کا خلا پیدا ہوچکا ہے۔ علی گیلانی کی موجودگی کشمیریوں کےلیے سہارا تھی۔ سید علی گیلانی نے کشمیر کی سیاست میں وہ مقام بنایا جو ان سے قبل شیخ عبداللہ کے علاوہ کوئی نہ بنا سکا لیکن اب پیچھے رہ جانے والی قیادت میں ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ سید علی گیلانی تو اندھیروں کے ٹھیکیدار نہیں بلکہ روشنیوں کے تاجر تھے۔ وہ ہمیشہ سے ہی آزادی کی روشنی کے متلاشی رہے ہیں۔

سید گیلانی کی اپنے مقصد اور تحریک سے وابستگی اس قدر تھی کہ انہوں نے تحریک کو اپنی ذات پر ہمیشہ ترجیح دی۔ سینئر کشمیری صحافی صغیر قمر، سید علی گیلانی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کا اصول ہے کہ ہر رکن جماعت اپنی سال بھر کی آمدنی میں سے ایک ماہ کی آمدنی بیت المال میں داخل کراتا ہے۔ سید علی گیلانی ممبر اسمبلی تھے۔ ان کا پرانا مکان خستہ ہوچکا تھا، اس لیے نیا مکان بنوا رہے تھے۔ جماعت کے بیت المال میں رقم جمع نہ کرا سکے۔ حکیم غلام نبی امیر جماعت تھے۔ انہوں نے سید علی گیلانی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرتے ہوئے ان کی رکنیت معطل کردی۔ یہ جماعت اسلامی کے مثالی نظم کی ایک مثال تھی۔ اس کارروائی سے پہلے ایک جگہ ان کا پروگرام تھا۔ وہ پروگرام میں تو گئے لیکن خطاب نہیں کیا۔ یہ اطاعت نظم تھا۔ رکنیت سے معطل کیے جانے کے عرصے میں اسمبلی میں آپ نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ایک مرحلے پر جب آپ کسی کو جواب دیتے ہوئے جماعت اسلامی کا دفاع کررہے تھے، مخالف ممبران اسمبلی نے کہا ''آپ کس جماعت کی بات کررہے ہیں۔ اس نے تو آپ کو نکال دیا ہے''۔ آپ نے بڑی متانت سے مگر برجستہ جواب دیا کہ جماعت نے مجھے نکالا ہے لیکن میں تو نہیں نکلا ہوں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی مجھے اپنے نصب العین اور مقصد کی آبیاری کرتی نظر آتی تو میں نکل بھی جاتا۔ لیکن اب تو یہ معاملہ ہے کہ جماعت مجھے دروازے سے نکالے گی، میں کھڑکی سے اندر آجاؤں گا۔ ایک موقع پر جماعت اسلامی کی طرف سے مالی امداد کا تقاضا ہوا۔ سید علی گیلانی کے پاس ایک اوور کوٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے وہی چندے میں دے دیا۔

سید علی گیلانی کی رحلت سے جہاں کشمیریوں کو نقصان ہوا ہے، وہیں بھارت کو بھی صدیوں تک اس کا نقصان بھگتنا پڑے گا۔ کیونکہ سید علی گیلانی وہ عظیم شخصیت تھے، جن کی بات تمام کشمیری دھڑے مانتے تھے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت کا ایک اہم موقع ضائع کردیا۔ کشمیری قیادت کا جائزہ لیا جائے تو جے کے ایل ایف کے چیئرمین یاسین ملک طویل عرصے سے جیل میں ہیں۔ شبیر شاہ بھی قید کاٹ رہے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق جارحانہ مزاحمت کے بجائے مذاکراتی عمل کے حامی رہنما ہیں۔ اس کے علاوہ مسرت عالم، نعیم احمد خان اور میاں عبدالقیوم ہیں، لیکن وہ سب جیل میں ہیں۔

سید علی گیلانی کی جگہ اب وہی لے سکتا ہے جو انہی کی طرح کشمیریوں کے حق خودارایت کے بارے میں واضح موقف رکھتا ہو اور اس معاملے میں وہ کسی کو خاطر میں نہ لائے، خواہ کوئی راضی ہو یا ناراض۔ سید علی گیلانی جنہیں بھارت کی جانب سے کئی بار بڑی بڑی پیشکشیں کی گئیں، لیکن کرائے کے مکان میں رہنے والے اس سید زادے نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ انڈیا اگر کشمیر کی سڑکوں پر سونا اور چاندی بھی بچھا دے، ہم پھر بھی اپنے حق خودارادیت کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

بھارت کشمیر میں حریت کا سلسلہ ختم کرنے کا تاثر دے گا۔ لیکن پابند سلاسل کشمیری قیادت کے جذبوں کو جیل کی سلاخیں روک نہیں سکیں گی۔ کشمیر اٹھے گا، نوجوان آگے بڑھیں گے۔ ایک گیلانی کے بجائے ہزاروں گیلانی پیدا ہوں گے۔ الوداع سید گیلانی الوداع، پاکستان کی پہچان گیلانی آپ کو پاکستان کا سلام۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story