قصہ بلوچ سرداروں کا پہلا حصہ
سردار صاحب کا بے قصور بیٹا کراچی میں اٹھایا گیا، مار دیا گیا اور اب تک اس کی قبر کا نشان نہیں ملا۔
دیدہ ور تھے چمن کے ہمارے سردار عطا اللہ مینگل۔ مورخہ دو ستمبر کو اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ بڑی عمر پائی، خوش نصیب ٹھہرے۔ پچاس کی دہائی سے سیاست کا آغاز ہوا، نوے کی دہائی میں سیاست کو خیر آباد کیا۔
ستر کی دہائی میں عروج پایا، بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ ہوئے پھر بھٹو نے حکومت توڑ دی اور موصوف، خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، ولی خان وغیرہ کے ساتھ بھٹو کے ا سیر بنے، حیدرآباد سازش کیس کا سامنا کیا ، ضیاء الحق کے زمانے میں جلا وطن ٹھہرے۔
جب بھٹو نے فوجی آپریشن کا بلوچستان میں آغاز کیا تو سردار صاحب کا بے قصور بیٹا کراچی میں اٹھایا گیا، مار دیا گیا اور اب تک اس کی قبر کا نشان نہیں ملا، مگر جب بھٹو ضیاء الحق کے ہاتھوں مارے گئے تو تعزیت کے لیے لاڑکانہ آئے اور نصرت بھٹو سے دکھ میں شریک ہوئے۔
باقی مانندہ تیس سال زندگی کے سیاست سے جدا رہے،ہاں لیکن کبھی کبھی کوئی بیان یا انٹرویو ، یا کوئی خطاب سننے کو مل جاتا تھا۔ بہت عرصہ ان زمانوں میں کراچی میں رہے، مگر آخری دہائی اپنے علاقے ''ودہ'' میں گذاری، اپنی جانشینی سیاست کے اعتبار سے اپنے بیٹے اختر مینگل کے حوالے کی۔ میرے والد کی بہت عزت کرتے تھے اور اس وجہ سے میرا ان سے ذاتی تعلق تھا مگر کچھ کچھ نالاں رہتے کہ شاید میں اپنے والد کی نقش قدم پر نہیںہوں، آخری بار جب انٹرویو کے لیے فون کیا تو کہنے لگے ''اب میں گائوں میں رہتا ہوں یہاں آسکو ں تو آجائو تمہیں انٹرویو دینے سے انکار نہیں کرسکتا۔''
کھل کے بولتے تھے ، لپیٹ کے بولنا انھیں کبھی نہیں آیا۔ سندھی فروانی سے بولتے ، سندھ مدرسہ کراچی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اس لیے سندھی بہتر تھی۔ مگر سندھ میں مشہور ہے کہ جب وزیر اعلیٰ بنے تو بلوچستان میں جو سندھی پڑھائی جاتی تھی اس پر پابندی عائد کی۔ وہ ان کا حق تھا ان کا صوبہ تھا ان کی تاریخ و تہذیب تھی، وہ جانے ان کا خیال جانے ۔ مگر آخری زمانوں میں سندھی، بلوچ و پختون اتحاد بنایا یا یوں کہیے کہ پاکستان میں موجود مظلوم قوموں کا اتحاد۔ یہ وہ اتحاد تھا جس کی بنیاد ڈالنے والوں میں بھٹو کے زمانے جو چند جلا وطن تھے، ان میں میرے والد بھی تھے۔
یوں کہیے کہ ابا کے انتقال کے بعد اس سلسلے کو سردار عطاء اللہ مینگل جاری رکھ سکے۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستان کی سیاست کرتے رہے جب کہ خیر بخش مری، عطا ء اللہ مینگل پاکستان کی سیاست خیر آباد کرگئے۔ ہاں پھر بھی اگر اختر مینگل ان کی سیاست کا عکس ہے تو اپنے حقوق کی بات کرنے کے لیے، وہ یہی سمجھتے رہے کہ اس ملک کے اندر جمہوری قوتوں کا حصہ بن کے رہنا ہے اور اس طرح اختر مینگل اور حاصل بزنجو گرچہ آپس میں تو ایک ساتھ نہیں بیٹھتے تھے مگر سیاست کے پیچ و خم ملتے جلتے ہیں۔
میرا انٹرویو ریکارڈ پر ہے ان کی بات کہ ''سندھ کی قوم پرستی میں آزادی کا نعرہ لگانا جی ایم سید کی طرف سے ،وقت سے پہلے تھا جو کہ کسی بھی لحاظ سے سنجیدہ قدم نہ تھا۔ اس نعرے نے بجائے کوئی مدد کی ہو بلکہ الجھایا اور توانائیاں زیادہ ضایع کیں۔''
یوں کہیے کہ عطاء اللہ مینگل اگر آخری زمانوں میں بہت مایوس ہوئے بھی ہوں مگر بہت ہی حقیقت پسند سیاستدان تھے۔ ساتھ ساتھ اپنے اصولوں پہ کوئی بھی سودی بازی نہیں کی۔ خیر بخش مری نے جب مزاحمت کی راہ اختیار کی۔ اکبر بگٹی بھی جب جنرل پرویز مشرف کے زمانوں میں دیوار سے لگا دیے گئے تو مزاحمت کی اور اس طرح بلوچستان کا معاملہ بہت ہی بگڑ گیا۔
(جاری ہے)
ستر کی دہائی میں عروج پایا، بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ ہوئے پھر بھٹو نے حکومت توڑ دی اور موصوف، خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، ولی خان وغیرہ کے ساتھ بھٹو کے ا سیر بنے، حیدرآباد سازش کیس کا سامنا کیا ، ضیاء الحق کے زمانے میں جلا وطن ٹھہرے۔
جب بھٹو نے فوجی آپریشن کا بلوچستان میں آغاز کیا تو سردار صاحب کا بے قصور بیٹا کراچی میں اٹھایا گیا، مار دیا گیا اور اب تک اس کی قبر کا نشان نہیں ملا، مگر جب بھٹو ضیاء الحق کے ہاتھوں مارے گئے تو تعزیت کے لیے لاڑکانہ آئے اور نصرت بھٹو سے دکھ میں شریک ہوئے۔
باقی مانندہ تیس سال زندگی کے سیاست سے جدا رہے،ہاں لیکن کبھی کبھی کوئی بیان یا انٹرویو ، یا کوئی خطاب سننے کو مل جاتا تھا۔ بہت عرصہ ان زمانوں میں کراچی میں رہے، مگر آخری دہائی اپنے علاقے ''ودہ'' میں گذاری، اپنی جانشینی سیاست کے اعتبار سے اپنے بیٹے اختر مینگل کے حوالے کی۔ میرے والد کی بہت عزت کرتے تھے اور اس وجہ سے میرا ان سے ذاتی تعلق تھا مگر کچھ کچھ نالاں رہتے کہ شاید میں اپنے والد کی نقش قدم پر نہیںہوں، آخری بار جب انٹرویو کے لیے فون کیا تو کہنے لگے ''اب میں گائوں میں رہتا ہوں یہاں آسکو ں تو آجائو تمہیں انٹرویو دینے سے انکار نہیں کرسکتا۔''
کھل کے بولتے تھے ، لپیٹ کے بولنا انھیں کبھی نہیں آیا۔ سندھی فروانی سے بولتے ، سندھ مدرسہ کراچی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اس لیے سندھی بہتر تھی۔ مگر سندھ میں مشہور ہے کہ جب وزیر اعلیٰ بنے تو بلوچستان میں جو سندھی پڑھائی جاتی تھی اس پر پابندی عائد کی۔ وہ ان کا حق تھا ان کا صوبہ تھا ان کی تاریخ و تہذیب تھی، وہ جانے ان کا خیال جانے ۔ مگر آخری زمانوں میں سندھی، بلوچ و پختون اتحاد بنایا یا یوں کہیے کہ پاکستان میں موجود مظلوم قوموں کا اتحاد۔ یہ وہ اتحاد تھا جس کی بنیاد ڈالنے والوں میں بھٹو کے زمانے جو چند جلا وطن تھے، ان میں میرے والد بھی تھے۔
یوں کہیے کہ ابا کے انتقال کے بعد اس سلسلے کو سردار عطاء اللہ مینگل جاری رکھ سکے۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستان کی سیاست کرتے رہے جب کہ خیر بخش مری، عطا ء اللہ مینگل پاکستان کی سیاست خیر آباد کرگئے۔ ہاں پھر بھی اگر اختر مینگل ان کی سیاست کا عکس ہے تو اپنے حقوق کی بات کرنے کے لیے، وہ یہی سمجھتے رہے کہ اس ملک کے اندر جمہوری قوتوں کا حصہ بن کے رہنا ہے اور اس طرح اختر مینگل اور حاصل بزنجو گرچہ آپس میں تو ایک ساتھ نہیں بیٹھتے تھے مگر سیاست کے پیچ و خم ملتے جلتے ہیں۔
میرا انٹرویو ریکارڈ پر ہے ان کی بات کہ ''سندھ کی قوم پرستی میں آزادی کا نعرہ لگانا جی ایم سید کی طرف سے ،وقت سے پہلے تھا جو کہ کسی بھی لحاظ سے سنجیدہ قدم نہ تھا۔ اس نعرے نے بجائے کوئی مدد کی ہو بلکہ الجھایا اور توانائیاں زیادہ ضایع کیں۔''
یوں کہیے کہ عطاء اللہ مینگل اگر آخری زمانوں میں بہت مایوس ہوئے بھی ہوں مگر بہت ہی حقیقت پسند سیاستدان تھے۔ ساتھ ساتھ اپنے اصولوں پہ کوئی بھی سودی بازی نہیں کی۔ خیر بخش مری نے جب مزاحمت کی راہ اختیار کی۔ اکبر بگٹی بھی جب جنرل پرویز مشرف کے زمانوں میں دیوار سے لگا دیے گئے تو مزاحمت کی اور اس طرح بلوچستان کا معاملہ بہت ہی بگڑ گیا۔
(جاری ہے)