یاد ہے مجھ کو
نیر علوی روزنامہ ایکسپریس کراچی کے پہلے ایڈیٹر تھے، صحافت میں ان کا بڑا نام ہے۔
ایک بزرگ عموماً کہا کرتے تھے'' میاں! وہ کیا بات کرتے ہیں ،آپ کو معلوم ہے وہ پیسہ اخبار ہیں۔'' پیسہ اخبار ان کی کہاوت بن گئی، میں نے ان سے پوچھا ''قبلہ بزرگوار! آپ ''پیسہ اخبار'' کی مثال دیتے ہیں، حقیقت میں تھا یا محاورتاً ہے۔
کہنے لگے'' تقسیم ہند سے قبل ہم دہلی میں رہا کرتے تھے، ایک پیسہ اخبار شایع ہوتا تھا اس کی لوح پر پیسہ کی تصویر ہوتی تھی دو بڑے 8 کالمی صفحات پر مشتمل ،کبھی کوئی بڑی خبر چھ، سات کالمی ہوتی تھی۔ دو کالمی خبریں اور ایک کالمی تو سب ہی خبریں۔ میاں صاحبزادے یہ ہماری جوانی کا اخبار تھا۔ اس کی قیمت 2 پیسے ہوگئی تب اس کے بڑے صفحات چار ہوگئے تھے۔ اب تو اخبارکی قیمت اتنی ہوتی جا رہی ہے، اخبارکے خریدار کم ہوتے جا رہے ہیں۔''
میں نے کہا '' حضرت! مہنگائی کس قدر ہے اور مہنگائی کا اثر ہر شے پر ہوتا ہے۔ پٹرول ، ڈیزل ، کروڈ آئل، کیروسین آئل کے علاوہ خوردنی اشیا ہر تین ماہ بعد مہنگی ہو جاتی ہیں۔ کتنے جریدے ایسے ہیں جو ڈمی ہوکر رہ گئے جو نگاہوں میں موجود ہیں وہ گزر کر رہے ہیں۔
'' نئی روشنی '' یہ شام کا اخبار تھا ، یہ دوپہر کو نہیں بلکہ شام 4 بجے شایع ہوتا تھا۔ کبھی بہت جلد شایع ہوا تو ساڑھے تین بجے، ورنہ چار بجے شام وقت بندھا ہوا تھا۔ اس وقت ایک بڑے اخبار کے علاوہ تمام اخبارات لیتھو پر چھپتے تھے۔ پیلے رنگ کا لیتھو کاغذ جس پر کتابت ہوتی اور پلیٹ بننے کے بعد لیتھو پرنٹنگ مشین پر چھپتے تھے۔ لائٹ ہاؤس سینما کے پاس آدم خان روڈ نالے کے اوپر لیتھو پرنٹنگ مشینیں لگی ہوئی تھیں۔
پہلے بجلی کے بغیر ہاتھ سے چلتی تھیں ایک آدمی کاغذ لگاتا، ہینڈل اپنی طرف نیچے کرتا ، کاغذ چھپ جانے کے بعد وہ ہینڈل اوپر کر کے چھپا ہوا کاغذ نکال کر پھر سادہ کاغذ لگاتا۔ ان پرنٹنگ پریس کے سامنے کاتب بھی تھے، زیادہ شادی کارڈ کی کتابت ہوتی اور وہیں سامنے مشینوں پر چھپ جاتے۔ بعدازاں آفسٹ کی چھوٹی مشینیں روٹا آئیں، پھر بڑی مشینیں آنے لگیں، اب لیتھو کو شاید کوئی نہیں جانتا ، کسی نے دیکھی بھی نہ ہوگی۔
ریگل بس اسٹاپ سے پہلے '' کیفے جہاں '' کے اوپر روزنامہ آغاز کا دفتر تھا جو ابھی بھی وہیں پر ہے۔ میں اور کلیم اشرف کلیمی ، پرویز مظہر سے آغاز اخبار کے آفس آتے تھے ، ایک پیسٹر بھی کلیمی کا دوست تھا۔ وہاں کالم دے آتے وہ شایع ہوتے تو بڑی خوشی ہوتی۔ روزنامہ صداقت کا آفس پہلے تبت سینٹر میں تھا پہلے ایڈیٹر نیر علوی رہے بعد میں ایڈیٹر بدلتے رہے۔ ایک چیف رپورٹر تھے جو ابھی ایک اخبار نکال رہے ہیں۔کلیم اشرف کلیمی میرے استاد تھے ان کے ساتھ صداقت میں کام کیا ، خاص طور سے پہیہ جام تحریک میں صداقت نے خبریں نمایاں شایع کیں جس کے باعث عوام میں بہت مقبول ہوا۔ یہ بشیر احمد رانا کا اخبار تھا بعد میں یہ کمال اتا ترک روڈ پر ایک بلڈنگ میں منتقل ہو گیا۔
2 جنوری 1970کو میں نے ایک مجموعہ مشاغل '' مپس انٹرنیشنل'' شایع کیا۔ یہ بین الاقوامی جریدہ تھا اس میں انگلش کے علاوہ چار صفحات اردو میں تھے، کراچی کے ہر بک اسٹال پر گیا بہت مقبول ہوا۔ میکلوڈ روڈ جاتے ہوئے الٹے ہاتھ کو اخبارات کے دفاتر تھے جو ابھی بھی ہیں۔ روزنامہ اعلان میں مقصود یوسفی تھے میں اور کلیمی ملنے جایا کرتے، میرے کافی مضامین شایع کیے اب اعلان بند ہو چکا ہے۔ ایلنڈر روڈ میں جاتے ہوئے درمیان میں سیدھے ہاتھ پر روزنامہ امن ہے ، یہاں حبیب صاحب سے اکثر ملاقاتیں ہوئیں جو خبر دی وہ شایع کی، تمام سچی خبریں باقاعدہ ثبوت کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہاں سے آتے ہوئے کونے پر ''خیرآباد ٹی شاپ '' ہے۔
یہ ایرانی کا ہوٹل تھا ہم اکثر اس ہوٹل میں چائے پیتے اور سموسے کھاتے۔ یہاں کے سموسے بڑے ، قیمہ مٹر سے بھرے ہوتے تھے ، یہ ریسٹورنٹ ابھی بھی ہے،کئی دہائیوں سے اس ریسٹورنٹ میں زیادہ تر صحافی حضرات آتے ہیں۔ آتمارام پریتم داس روڈ کے کنارے پہلی منزل پر ''ہفت روزہ چمنستان'' کا آفس تھا۔ یہ فلمی ہفت روزہ تھا لئیق قریشی اس کے ایڈیٹر و پبلشر تھے۔ اس میں میرا بھی مضمون آتا بلکہ بعد میں خطوط کے جواب میں لکھنے لگا جس کی وجہ سے جریدے کی فروخت میں اضافہ ہوا۔
نیر علوی ایک اہم شخصیت جس اخبار میں رہے ملاقات رہی، یہ صداقت میں بھی شروع کے وقتوں میں ایڈیٹر رہے بعدازاں جب سنا '' انجام '' انعام درانی نکال رہے ہیں اور نیر علوی اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں ان کے پاس گیا بولے ''آج سے تم سٹی پیج پر میرے ماتحت کام کرو گے۔ میں ''انجام''میں ان کے ماتحت کام کرتا رہا۔ زیادہ عرصہ نہ چل سکا بلکہ ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر بند ہو گیا۔ چونکہ یہ ایک بڑے اخبار کا مقابل تھا بہت اچھا اخبار نکل رہا تھا عوام زیادہ پسند کرتے تھے، لہٰذا ایسے ہتھکنڈے استعمال ہوئے جس کے باعث قدغن لگ گیا بڑے اخبار کے کافی لوگ اس میں آئے تھے۔
ایک دن اچانک رات میں خبر آئی کہ اب یہ اخبار شایع نہیں ہوگا۔ میں نیر علوی صاحب کے پاس گیا بولے ''فکر کی بات نہیں دو چار دن میں دوبارہ شایع ہوگا۔ ایک ہفتہ باقاعدگی سے جاتا رہا رفتہ رفتہ لوگ کم ہوتے گئے، اقبال تبسم یاد آتے ہیں ہمیشہ مسکراتے پایا ، ان کو پرخلوص، ہمدردپایا۔ بالآخر میں نے بھی جانا چھوڑ دیا کیونکہ اخبار شایع نہیں ہورہا تھا ، بعد ازاں وہ روزنامہ نوائے وقت کراچی کے ایڈیٹر بن گئے ۔
مشیر احمد خان، المشیر پرنٹنگ پریس کے مالک تھے ساری آف سیٹ مشینیں نصب تھیں، ان کی پریس میں میرا مجموعہ مشاغل '' مپس انٹرنیشنل'' شایع ہوا لیکن اب وہ پریس ختم ہو چکا ہے۔ میرے '' مپس انٹرنیشنل'' کے اردو کے صفحات کی جنھوں نے کتابت کی سید سردار احمد وہ آج ایک پرنٹنگ پریس کے مالک ہیں۔
نیر علوی روزنامہ ایکسپریس کراچی کے پہلے ایڈیٹر تھے، صحافت میں ان کا بڑا نام ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو اپنے سے زیادہ اپنے کام سے محبت ہوتی ہے، نیر علوی انھی میں سے ایک تھے اور میں نے ان سے یہ تو سیکھا ہی اس کے علاوہ اداریہ سیکھا ، خبروں کی سرخیاں بنانا زیادہ سیکھا۔
کہنے لگے'' تقسیم ہند سے قبل ہم دہلی میں رہا کرتے تھے، ایک پیسہ اخبار شایع ہوتا تھا اس کی لوح پر پیسہ کی تصویر ہوتی تھی دو بڑے 8 کالمی صفحات پر مشتمل ،کبھی کوئی بڑی خبر چھ، سات کالمی ہوتی تھی۔ دو کالمی خبریں اور ایک کالمی تو سب ہی خبریں۔ میاں صاحبزادے یہ ہماری جوانی کا اخبار تھا۔ اس کی قیمت 2 پیسے ہوگئی تب اس کے بڑے صفحات چار ہوگئے تھے۔ اب تو اخبارکی قیمت اتنی ہوتی جا رہی ہے، اخبارکے خریدار کم ہوتے جا رہے ہیں۔''
میں نے کہا '' حضرت! مہنگائی کس قدر ہے اور مہنگائی کا اثر ہر شے پر ہوتا ہے۔ پٹرول ، ڈیزل ، کروڈ آئل، کیروسین آئل کے علاوہ خوردنی اشیا ہر تین ماہ بعد مہنگی ہو جاتی ہیں۔ کتنے جریدے ایسے ہیں جو ڈمی ہوکر رہ گئے جو نگاہوں میں موجود ہیں وہ گزر کر رہے ہیں۔
'' نئی روشنی '' یہ شام کا اخبار تھا ، یہ دوپہر کو نہیں بلکہ شام 4 بجے شایع ہوتا تھا۔ کبھی بہت جلد شایع ہوا تو ساڑھے تین بجے، ورنہ چار بجے شام وقت بندھا ہوا تھا۔ اس وقت ایک بڑے اخبار کے علاوہ تمام اخبارات لیتھو پر چھپتے تھے۔ پیلے رنگ کا لیتھو کاغذ جس پر کتابت ہوتی اور پلیٹ بننے کے بعد لیتھو پرنٹنگ مشین پر چھپتے تھے۔ لائٹ ہاؤس سینما کے پاس آدم خان روڈ نالے کے اوپر لیتھو پرنٹنگ مشینیں لگی ہوئی تھیں۔
پہلے بجلی کے بغیر ہاتھ سے چلتی تھیں ایک آدمی کاغذ لگاتا، ہینڈل اپنی طرف نیچے کرتا ، کاغذ چھپ جانے کے بعد وہ ہینڈل اوپر کر کے چھپا ہوا کاغذ نکال کر پھر سادہ کاغذ لگاتا۔ ان پرنٹنگ پریس کے سامنے کاتب بھی تھے، زیادہ شادی کارڈ کی کتابت ہوتی اور وہیں سامنے مشینوں پر چھپ جاتے۔ بعدازاں آفسٹ کی چھوٹی مشینیں روٹا آئیں، پھر بڑی مشینیں آنے لگیں، اب لیتھو کو شاید کوئی نہیں جانتا ، کسی نے دیکھی بھی نہ ہوگی۔
ریگل بس اسٹاپ سے پہلے '' کیفے جہاں '' کے اوپر روزنامہ آغاز کا دفتر تھا جو ابھی بھی وہیں پر ہے۔ میں اور کلیم اشرف کلیمی ، پرویز مظہر سے آغاز اخبار کے آفس آتے تھے ، ایک پیسٹر بھی کلیمی کا دوست تھا۔ وہاں کالم دے آتے وہ شایع ہوتے تو بڑی خوشی ہوتی۔ روزنامہ صداقت کا آفس پہلے تبت سینٹر میں تھا پہلے ایڈیٹر نیر علوی رہے بعد میں ایڈیٹر بدلتے رہے۔ ایک چیف رپورٹر تھے جو ابھی ایک اخبار نکال رہے ہیں۔کلیم اشرف کلیمی میرے استاد تھے ان کے ساتھ صداقت میں کام کیا ، خاص طور سے پہیہ جام تحریک میں صداقت نے خبریں نمایاں شایع کیں جس کے باعث عوام میں بہت مقبول ہوا۔ یہ بشیر احمد رانا کا اخبار تھا بعد میں یہ کمال اتا ترک روڈ پر ایک بلڈنگ میں منتقل ہو گیا۔
2 جنوری 1970کو میں نے ایک مجموعہ مشاغل '' مپس انٹرنیشنل'' شایع کیا۔ یہ بین الاقوامی جریدہ تھا اس میں انگلش کے علاوہ چار صفحات اردو میں تھے، کراچی کے ہر بک اسٹال پر گیا بہت مقبول ہوا۔ میکلوڈ روڈ جاتے ہوئے الٹے ہاتھ کو اخبارات کے دفاتر تھے جو ابھی بھی ہیں۔ روزنامہ اعلان میں مقصود یوسفی تھے میں اور کلیمی ملنے جایا کرتے، میرے کافی مضامین شایع کیے اب اعلان بند ہو چکا ہے۔ ایلنڈر روڈ میں جاتے ہوئے درمیان میں سیدھے ہاتھ پر روزنامہ امن ہے ، یہاں حبیب صاحب سے اکثر ملاقاتیں ہوئیں جو خبر دی وہ شایع کی، تمام سچی خبریں باقاعدہ ثبوت کے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہاں سے آتے ہوئے کونے پر ''خیرآباد ٹی شاپ '' ہے۔
یہ ایرانی کا ہوٹل تھا ہم اکثر اس ہوٹل میں چائے پیتے اور سموسے کھاتے۔ یہاں کے سموسے بڑے ، قیمہ مٹر سے بھرے ہوتے تھے ، یہ ریسٹورنٹ ابھی بھی ہے،کئی دہائیوں سے اس ریسٹورنٹ میں زیادہ تر صحافی حضرات آتے ہیں۔ آتمارام پریتم داس روڈ کے کنارے پہلی منزل پر ''ہفت روزہ چمنستان'' کا آفس تھا۔ یہ فلمی ہفت روزہ تھا لئیق قریشی اس کے ایڈیٹر و پبلشر تھے۔ اس میں میرا بھی مضمون آتا بلکہ بعد میں خطوط کے جواب میں لکھنے لگا جس کی وجہ سے جریدے کی فروخت میں اضافہ ہوا۔
نیر علوی ایک اہم شخصیت جس اخبار میں رہے ملاقات رہی، یہ صداقت میں بھی شروع کے وقتوں میں ایڈیٹر رہے بعدازاں جب سنا '' انجام '' انعام درانی نکال رہے ہیں اور نیر علوی اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں ان کے پاس گیا بولے ''آج سے تم سٹی پیج پر میرے ماتحت کام کرو گے۔ میں ''انجام''میں ان کے ماتحت کام کرتا رہا۔ زیادہ عرصہ نہ چل سکا بلکہ ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر بند ہو گیا۔ چونکہ یہ ایک بڑے اخبار کا مقابل تھا بہت اچھا اخبار نکل رہا تھا عوام زیادہ پسند کرتے تھے، لہٰذا ایسے ہتھکنڈے استعمال ہوئے جس کے باعث قدغن لگ گیا بڑے اخبار کے کافی لوگ اس میں آئے تھے۔
ایک دن اچانک رات میں خبر آئی کہ اب یہ اخبار شایع نہیں ہوگا۔ میں نیر علوی صاحب کے پاس گیا بولے ''فکر کی بات نہیں دو چار دن میں دوبارہ شایع ہوگا۔ ایک ہفتہ باقاعدگی سے جاتا رہا رفتہ رفتہ لوگ کم ہوتے گئے، اقبال تبسم یاد آتے ہیں ہمیشہ مسکراتے پایا ، ان کو پرخلوص، ہمدردپایا۔ بالآخر میں نے بھی جانا چھوڑ دیا کیونکہ اخبار شایع نہیں ہورہا تھا ، بعد ازاں وہ روزنامہ نوائے وقت کراچی کے ایڈیٹر بن گئے ۔
مشیر احمد خان، المشیر پرنٹنگ پریس کے مالک تھے ساری آف سیٹ مشینیں نصب تھیں، ان کی پریس میں میرا مجموعہ مشاغل '' مپس انٹرنیشنل'' شایع ہوا لیکن اب وہ پریس ختم ہو چکا ہے۔ میرے '' مپس انٹرنیشنل'' کے اردو کے صفحات کی جنھوں نے کتابت کی سید سردار احمد وہ آج ایک پرنٹنگ پریس کے مالک ہیں۔
نیر علوی روزنامہ ایکسپریس کراچی کے پہلے ایڈیٹر تھے، صحافت میں ان کا بڑا نام ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو اپنے سے زیادہ اپنے کام سے محبت ہوتی ہے، نیر علوی انھی میں سے ایک تھے اور میں نے ان سے یہ تو سیکھا ہی اس کے علاوہ اداریہ سیکھا ، خبروں کی سرخیاں بنانا زیادہ سیکھا۔