کراچی سے بے اعتنائی
کراچی والوں کو بھی عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر ان سے بڑی توقعات تھیں جو پوری نہیں ہو سکی ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ کراچی کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کا کافی عرصے بعد کراچی چند گھنٹوں کے لیے آنا اور پھر واپس چلے جانا سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیوں کا باعث بن گیا ہے۔ سیاسی حلقے اعتراض کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ کراچی میں دو چار دن ٹھہرتے تو پتا چلتا کہ وہ کراچی کے معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔
انھوں نے کراچی میں نہ رک کر سابق روایت برقرار رکھی ہے اور صرف بڑا کام یہ کیا ہے کہ اپنے حالیہ دورے کے پانچ گھنٹوں میں دو صوبے سندھ اور بلوچستان نمٹا دیے۔ انھوں نے گجر نالے کی صفائی ستھرائی کا معائنہ کیا۔ کراچی کے لیے ان کا گیارہ سو ارب روپے کا جو پیکیج ہے،اس پر کبھی عمل نہیں ہو سکتا۔
دوسری جانب سیاسی اور عوامی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم نے پورے ملک کے معاملات سنبھالنے ہوتے ہیں،اندرونی اور بیرونی مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے اس لیے ان کے لیے کسی دوسرے علاقے میں طویل قیام کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگر وزیر اعظم ایک ایک علاقے میں طویل قیام کرنے لگ جائیں تو ملک کے دوسرے معاملات کون سنبھالے گا۔ پھر ہر صوبے میں صوبائی حکومت موجود ہوتی ہے جو تمام معاملات کی ذمے دار ہوتی ہے۔
صوبے کے مسائل حل کرنا اور نظام کو درست سمت میں چلانا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔دوسری جانب اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کراچی سے پی ٹی آئی کو بھاری مینڈیٹ ملا تھا وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ سندھ میں بھی ترقیاتی کام کرتے، تین سالوں میں پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے ڈلیور نہیں کیا گیا اگر یہ اب بھی کچھ نہیں کریں گے تو کراچی میں اپنا مینڈیٹ کھو دیں گے، اس وقت کوئی کراچی کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو بھی یہی شکایت تھی کہ کوئی کراچی کی اونر شپ نہیں لیتا۔ مصطفیٰ کمال کے سٹی ناظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو مکمل طور پر اون کیا تھا اور سٹی حکومت کو بھرپور مالی اعانت فراہم کرکے خود کو کراچی والا ثابت کیا تھا۔
کراچی میں پیدا ہونیوالے سیاستدانوں نے بھی کراچی کو اون نہیں کیا تھا اورکراچی میں پیدا ہونے والا بلاول زرداری بھی چیئرمین پی پی اور سندھ کی حکومت کا حقیقی سربراہ ہونے کے باوجود کراچی کو اس طرح حکومت کی طرف سے اتنی اہمیت کبھی نہیں ملی جتنی وہ اندرون سندھ کو دیتے آرہے ہیں۔ کراچی کو کسی بھی معاملے میں اس کا حق دیا جا رہا ہے نہ کوٹہ سسٹم پر عمل کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت کے حکمرانوں کا تعلق ہمیشہ اندرون سندھ سے رہا ہے جہاں پی پی کا ووٹ بینک ہے۔
عمران خان 2018 میں کراچی سے منتخب ہوئے تھے، ان کا تعلق کراچی سے نہیں تھا۔ کراچی والوں نے انھیں پہلی بار کراچی سے کامیاب کرایا مگر انھوں نے بھی کراچی کا حق ادا نہیں کیا اور کراچی کی نشست چھوڑ دی تھی۔ عمران خان لاہور اور میانوالی سے بھی منتخب ہوئے تھے ان کی چھوڑی گئی قومی اسمبلی کی نشست لاہور میں مسلم لیگ(ن) نے جیت لی تھی اور وہاں پی ٹی آئی ہاری تھی مگر کراچی نے ان کی چھوڑی ہوئی نشست پر دوبارہ پی ٹی آئی کو منتخب کرایا تھا مگر وزیر اعظم بن کر عمران خان نے پھر بھی کراچی کی قدر نہیں کی اور تین سال کی اپنی حکومت میں کراچی سے بے اعتنائی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم چند گھنٹوں کے لیے مہینوں بعد کراچی آتے ہیں ، سرکاری مصروفیات میں مصروف رہ کر رات کو ہی واپس چلے جاتے ہیں اور کبھی انھوں نے کراچی میں ایک رات بھی قیام نہیں کیا جب کہ وہ تفریحی مقام نتھیا گلی میں متعدد راتیں گزار چکے ہیں۔ تفریح کے لیے کراچی میں بھی ساحلی مقامات ہیں مگر وزیر اعظم کو تفریح کے لیے بھی کراچی شاید پسند نہیں ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں ان کے گھر ہیں۔
ان کا تعلق میانوالی سے ضرور ہے جہاں وہ اپنے نجی ادارے بھی بنا رہے ہیں اور وفاق اور پنجاب میانوالی میں تعمیری و ترقیاتی کام بھی کرا رہا ہے مگر کراچی کو میانوالی جتنی بھی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا بھی کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب میں اربوں روپے سے سڑکیں بنوا رہی ہے اور کراچی میں محض نالے صاف کرائے جا رہے ہیں۔ کراچی میں وفاقی حکومت ترقیاتی کام تو کیا کراتی حکومت تین سالوں میں گرین لائن بسوں کا منصوبہ مکمل کرانے میں ناکام رہی ہے اور کراچی والے لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان اور پشاور جیسی سفر کی سہولت سے بھی محروم چلے آ رہے ہیں۔
کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وفاقی حکومتیں چلتی ہیں مگر کراچی پر حاصل ہونے والی آمدنی سے کراچی پر دس فیصد بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ تین سالوں میں کراچی نے وزیر اعظم کے کینسر اسپتال کے لیے جتنی بڑی تعداد میں عطیات دیے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ عمران خان نے اب تک کراچی سے متعلق کیا گیا کوئی وعدہ پورا کیا ہے اور نہ کراچی پیکیج کے گیارہ سو ارب روپے کے منصوبوں کا کچھ پتا ہے کہ وہ دو سال بعد شروع ہوں گے؟
کراچی والوں کو بھی عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر ان سے بڑی توقعات تھیں جو پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ کراچی سے جاری بے اعتنائی کی وجہ یہ تو نہیں کہ انھیں پتا ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کا وہ ووٹ بینک نہیں ہے جو انھیں دلوایا گیا تھا اگر شہری نمایندگی واقعی ان کی ہوتی تو کراچی پر توجہ دی جاتی۔
انھوں نے کراچی میں نہ رک کر سابق روایت برقرار رکھی ہے اور صرف بڑا کام یہ کیا ہے کہ اپنے حالیہ دورے کے پانچ گھنٹوں میں دو صوبے سندھ اور بلوچستان نمٹا دیے۔ انھوں نے گجر نالے کی صفائی ستھرائی کا معائنہ کیا۔ کراچی کے لیے ان کا گیارہ سو ارب روپے کا جو پیکیج ہے،اس پر کبھی عمل نہیں ہو سکتا۔
دوسری جانب سیاسی اور عوامی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم نے پورے ملک کے معاملات سنبھالنے ہوتے ہیں،اندرونی اور بیرونی مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے اس لیے ان کے لیے کسی دوسرے علاقے میں طویل قیام کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگر وزیر اعظم ایک ایک علاقے میں طویل قیام کرنے لگ جائیں تو ملک کے دوسرے معاملات کون سنبھالے گا۔ پھر ہر صوبے میں صوبائی حکومت موجود ہوتی ہے جو تمام معاملات کی ذمے دار ہوتی ہے۔
صوبے کے مسائل حل کرنا اور نظام کو درست سمت میں چلانا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔دوسری جانب اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کراچی سے پی ٹی آئی کو بھاری مینڈیٹ ملا تھا وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ سندھ میں بھی ترقیاتی کام کرتے، تین سالوں میں پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے ڈلیور نہیں کیا گیا اگر یہ اب بھی کچھ نہیں کریں گے تو کراچی میں اپنا مینڈیٹ کھو دیں گے، اس وقت کوئی کراچی کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں ہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو بھی یہی شکایت تھی کہ کوئی کراچی کی اونر شپ نہیں لیتا۔ مصطفیٰ کمال کے سٹی ناظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو مکمل طور پر اون کیا تھا اور سٹی حکومت کو بھرپور مالی اعانت فراہم کرکے خود کو کراچی والا ثابت کیا تھا۔
کراچی میں پیدا ہونیوالے سیاستدانوں نے بھی کراچی کو اون نہیں کیا تھا اورکراچی میں پیدا ہونے والا بلاول زرداری بھی چیئرمین پی پی اور سندھ کی حکومت کا حقیقی سربراہ ہونے کے باوجود کراچی کو اس طرح حکومت کی طرف سے اتنی اہمیت کبھی نہیں ملی جتنی وہ اندرون سندھ کو دیتے آرہے ہیں۔ کراچی کو کسی بھی معاملے میں اس کا حق دیا جا رہا ہے نہ کوٹہ سسٹم پر عمل کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت کے حکمرانوں کا تعلق ہمیشہ اندرون سندھ سے رہا ہے جہاں پی پی کا ووٹ بینک ہے۔
عمران خان 2018 میں کراچی سے منتخب ہوئے تھے، ان کا تعلق کراچی سے نہیں تھا۔ کراچی والوں نے انھیں پہلی بار کراچی سے کامیاب کرایا مگر انھوں نے بھی کراچی کا حق ادا نہیں کیا اور کراچی کی نشست چھوڑ دی تھی۔ عمران خان لاہور اور میانوالی سے بھی منتخب ہوئے تھے ان کی چھوڑی گئی قومی اسمبلی کی نشست لاہور میں مسلم لیگ(ن) نے جیت لی تھی اور وہاں پی ٹی آئی ہاری تھی مگر کراچی نے ان کی چھوڑی ہوئی نشست پر دوبارہ پی ٹی آئی کو منتخب کرایا تھا مگر وزیر اعظم بن کر عمران خان نے پھر بھی کراچی کی قدر نہیں کی اور تین سال کی اپنی حکومت میں کراچی سے بے اعتنائی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم چند گھنٹوں کے لیے مہینوں بعد کراچی آتے ہیں ، سرکاری مصروفیات میں مصروف رہ کر رات کو ہی واپس چلے جاتے ہیں اور کبھی انھوں نے کراچی میں ایک رات بھی قیام نہیں کیا جب کہ وہ تفریحی مقام نتھیا گلی میں متعدد راتیں گزار چکے ہیں۔ تفریح کے لیے کراچی میں بھی ساحلی مقامات ہیں مگر وزیر اعظم کو تفریح کے لیے بھی کراچی شاید پسند نہیں ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں ان کے گھر ہیں۔
ان کا تعلق میانوالی سے ضرور ہے جہاں وہ اپنے نجی ادارے بھی بنا رہے ہیں اور وفاق اور پنجاب میانوالی میں تعمیری و ترقیاتی کام بھی کرا رہا ہے مگر کراچی کو میانوالی جتنی بھی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا بھی کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب میں اربوں روپے سے سڑکیں بنوا رہی ہے اور کراچی میں محض نالے صاف کرائے جا رہے ہیں۔ کراچی میں وفاقی حکومت ترقیاتی کام تو کیا کراتی حکومت تین سالوں میں گرین لائن بسوں کا منصوبہ مکمل کرانے میں ناکام رہی ہے اور کراچی والے لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان اور پشاور جیسی سفر کی سہولت سے بھی محروم چلے آ رہے ہیں۔
کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وفاقی حکومتیں چلتی ہیں مگر کراچی پر حاصل ہونے والی آمدنی سے کراچی پر دس فیصد بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ تین سالوں میں کراچی نے وزیر اعظم کے کینسر اسپتال کے لیے جتنی بڑی تعداد میں عطیات دیے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ عمران خان نے اب تک کراچی سے متعلق کیا گیا کوئی وعدہ پورا کیا ہے اور نہ کراچی پیکیج کے گیارہ سو ارب روپے کے منصوبوں کا کچھ پتا ہے کہ وہ دو سال بعد شروع ہوں گے؟
کراچی والوں کو بھی عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر ان سے بڑی توقعات تھیں جو پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ کراچی سے جاری بے اعتنائی کی وجہ یہ تو نہیں کہ انھیں پتا ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کا وہ ووٹ بینک نہیں ہے جو انھیں دلوایا گیا تھا اگر شہری نمایندگی واقعی ان کی ہوتی تو کراچی پر توجہ دی جاتی۔