پروفیسر خیال آفاقی کی دو معرکۃ الآرا کتابیں

حمد و نعت کا یہ انداز عام شاعری سے ہٹ کر اور خیال آفاقی صاحب کے اسلوب نگارش کا ایک منفرد شاہکار ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

مزاج کے اعتبار سے مرد درویش اور فن شعر و ادب کے لحاظ سے ایک منفرد شاہانہ انداز رکھنے والے لکھاری پروفیسر خیال آفاقی کہ اقلیم ادب کا کون سا دیار ہے جس کی ان کے رہوارِ قلم نے سیاحت نہیں کی۔

آٹھ شعری مجموعے، درجنوں ناول، ناول نگاری پر تو وہ پی ایچ ڈی کی سند کے حقدار ہیں۔ نقد و نظر پر ان کی کتاب ''حد ادب '' میں ان کی شوخی تحریر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے والد بزرگوار کی سوانح ، سوانح نگاری کا ایک منفرد شاہکار سے کم نہیں۔ مرحوم و مغفور قبلہ آزاد بن حیدر بارہا فرمایا کرتے تھے ''آفاقی صاحب نے جس انداز میں اپنے والد گرامی کی داستان حیات قلم بند کی ہے ایسا انداز اور لب و لہجہ پہلے میری نظر سے نہیں گزرا۔''

''سفرنامہ حجاز'' اپنے والد صاحب کی رفاقت میں حرمین شریفین کے سفر کی روداد عشق رسولؐ کی ایک روح نواز تحریر ہے۔ لگتا ہے سینے سے دل نکال کرکاغذ پر رکھ دیا ہے۔

علاوہ ازیں مختلف موضوعات پر متعدد مضامین بھی آپ کی طرز نگارش کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ٹی وی کے لیے بھی درجنوں ڈرامے لکھے جو ان کی پاکیزہ خیالی کی روشن مثال ہیں۔ اقبالیات تو پروفیسر صاحب کا ایک خاص موضوع ہے جو ان کی پہچان بن چکا ہے۔ '' اذان اقبال '' میں فکر اقبال کو بالکل نئے زاویے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ''شاعر اسلام'' علامہ صاحب کی مربوط داستان حیات اور ان کے ادبی سفر کی مرحلہ وار روداد ہے۔

پروفیسر صاحب کو جو سب سے بڑا شرف حاصل ہے وہ ان کی تالیف کردہ کتاب سیرت النبیؐ ہے جو ''رسول اعظم'' کے عنوان سے اہل ذوق اور عاشقان رسولؐ کے لیے ایک عظیم تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروفیسر صاحب اقبال کو اپنا مرشد کہتے ہیں۔ علامہ صاحب کے مشہور اشعار کی شرح پر مبنی کتاب '' نشان اقبال '' طباعت کے مرحلے میں ہے مرزا غالب کے اردو کلام کی شرح ''کلام غالب، کمال غالب'' اشاعت کے لیے تیار ہے۔ ناولوں میں ''جو دلوں کو فتح کرلے'' پریس میں جاچکی ہے۔

'' امن کا پرچم'' ابھی کمپوزنگ سے گزر رہا ہے۔ مختصر یہ کہ بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ لکھنے کا عزم رکھے ہوئے ہیں لیکن لکھتے وہ ہیں جو قلم کے شایان شان ہو۔ آپ نے اپنے پورے ادبی دورانیے میں قلم کو کسی '' بے ادبی'' چیز سے آلودہ نہیں کیا۔ قلم کی حرمت کو ہمیشہ ایمان کی طرح عزیز رکھا۔ اس وقت ہمارے پیش نظر آپ کی دو کتابیں ہیں۔ ایک حمدیہ کلام ''آہِ سحر گاہی'' اور دوسرا نعتیہ شعری مجموعہ ''یا سیدی'' ہے۔

دونوں کتابیں اس دعوے کی روشن دلیل ہیں کہ حمد و نعت کا یہ انداز عام شاعری سے ہٹ کر اور خیال آفاقی صاحب کے اسلوب نگارش کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ پورے کلام میں بلند خیالی کے ساتھ ساتھ عقیدت و محبت کا ایسا اظہار پایا جاتا ہے جس میں شاعرانہ غلو اور تصنع کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں ہے۔ حمد و نعت کے اشعار پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر گویا وجدانی کیفیت میں جھومتا ہوا مدح خوانی کرتا چلا جا رہا ہے اور روح جیسے نغمہ خوانی نہیں کررہی بلکہ خود ہی نغمہ بن گئی ہے۔

روانی کا یہ عالم ہے گویا ایک جھرنا ہے جو ریشم کی طرح گر رہا ہے۔ خیال آفاقی عزلت نشین ہوکر بھی حمد سرائی کی محفل میں فقط اپنی ذات کو ہی اپنے رب کے حضور محدود نہیں رکھتے بلکہ اپنی آہ سحر گاہی میں درد ملت کو بھی سمو کر گویا فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر حمد کا لہجہ مناجات کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

مشکل میں گھری ہے ترے محبوب کی امت

ہے عالم اسلام میں اک شورِ قیامت

بڑھتا ہی چلا آتا ہے اسلام کی جانب

طاغوتِ بلاخیز ترے نام کی جانب

حمد کی طرح نعت میں بھی خیال آفاقی آقائے دو جہاں سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار عام روش سے ہٹ کر اپنے خاص وجدانی انداز میں کرتے نظر آتے ہیں:

اگر نہ عشق محمدؐ مجھے عطا ہوتا


تو سوچتا ہوں مری زندگی کا کیا ہوتا

ہنر ملا ہے مجھے شعر گوئی کا لیکن

اگر میں نعت نہ کہتا تو مر گیا ہوتا

عشق رسول ہر مومن کی جان اور روح ایمان ہے۔ کون صاحب ایمان ایسا ہے جو حرمت رسولؐ پر جان نثار ہونے کو تیار نہیں لیکن محبوب کی ادا کو اپنائے بغیر محبت کا دعویٰ سند کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اس حقیقت کو خیال آفاقی نعت کے مضمون میں بھی بڑی شد و مد کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

عشق کرتے ہو نبیؐ سے تو سنو اے عاشقو

ہے ضروری آپؐ کی سیرت پہ چلنا چاہیے

جامی علیہ رحمہ نے فرمایا تھا '' میرا دل حضور نبی کریمؐ کی حضوری میں حاضری کی وجہ سے زندہ ہے۔''

حقیقت بھی یہی ہے کہ دل مومن کی زندگی کا دار و مدار حضورؐ کی نسبت اور تعلق پر ہے۔ عشق رسولؐ کی تعریف ہزار کوشش کے بعد بھی اہل دل پوری طرح بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ دراصل یہ وہ جذبہ اور کیف ہے کہ اس کا اظہار لفظ و بیان سے ماورا ہے۔ ثنائے رسولؐ ایک ایسا وظیفہ ہے کہ اس کا حق کسی صورت ممکن نہیں۔ خیال آفاق ہر عاشق رسول کو اپنا سرتاج سمجھتے ہیں لیکن علامہ اقبال سے انھیں خاص نسبت ہے۔ اقبال کو وہ اپنا مرشد بنا چکے ہیں اس لیے ان کے کلام میں بھی اقبال کا رنگ پایا جاتا ہے۔

نعتیہ مجموعہ ''یا سیدی'' کا ورق ورق ایسے ہی گلہائے عقیدت سے معطر ہے۔ خیال آفاقی خیمہ عشق رسولؐ میں سانس لیتے ہوئے قلب و جاں کو سجائے رہتے ہیں لیکن یہاں بھی وہ ملت اسلامیہ کے حال زار کو فراموش نہیں کرتے۔ ''یا سیدی'' کے آخر میں ایک طویل قصیدہ ''رود نور'' کے عنوان سے شامل ہے جو 68 صفحات میں تین تین اشعار پر مشتمل بند کے ساتھ ہے۔ آخر میں ایک التجائی اختتامیہ بھی ہے۔

عندلیبانِ مصطفیٰ اپنی اپنی بولی میں حضورؐ کی نغمہ سرائی کرکے آپ کی غلامی کا ثبوت پیش کرتے رہتے ہیں۔ خیال آفاقی بھی انھی عندلیبان میں سے ایک ہیں۔ آپ باکمال ثنا خوان مصطفیٰ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ثنائے آقا میں اپنا حصہ اس طرح ڈالتے ہیں:

وہ سعدیؒ ہوں کہ جامیؒ وہ خسرو ہوں کہ بوصیریؒ

وہ جیسی کہہ گئے ہیں نعت ہم سے ایسی کیا ہوگی

خدا تعریف خود کرتا ہے جب اپنے محمد کی

تو پھر ہم کیا ہیں ، ہم سے کیا محمدؐ کی ثنا ہوگی

راقم بے مثال حمدیہ اور نعتیہ مجموعوں کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے پروفیسر صاحب کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہے اور دعا ہے کہ آپ تادیر اسی طرح قلم فرسائی کرتے رہیں اور عاشقان رسولؐ کے دل گرماتے رہیں۔
Load Next Story