اورنگی کی گٹر باجی پہلا حصہ
پروین نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ خون کا دریا تیر کرپار کیا۔
دو دن ہوئے یہ خبر نظر سے گزری کہ پروین رحمان پر ایک مختصر فلم Into Dust آئی بی اے میں دکھائی گئی ہے۔ کون پروین رحمان؟ وہ پروین جو 1957 کے ڈھاکا میں پیدا ہوئی، خون کا دریا عبور کرکے اپنے گھر والوں کے ساتھ کراچی پہنچی۔
ایک نہایت ذہین اور دل میں انسانوں کا درد رکھنے والی پروین رحمان جس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، لوٹ کر شہر کراچی آئی۔ دنیا اس کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن وہ اختر حمید خان کو اپنا ''گرو'' کہتی تھی اور سمجھتی تھی۔ اختر حمید خان عین جوانی میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرکے اسے رد کرچکے تھے اور خدمت خلق میں گرفتار ہوچکے تھے۔
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ سے پہلے وہ مشرقی پاکستان میں کومیلا پراجیکٹ کرچکے تھے اور دنیا ان کے سامنے سرجھکاتی تھی۔ انھوں نے پروین رحمان سے کہا کہ ''باہر تو سب جاتے ہیں اور کروڑوں کماتے ہیں میں تم سے کچھ اور امید رکھتا ہوں۔'' پروین نے گروکے حکم پر سر تسلیم خم کیا اور پھر اورنگی سے اٹھ کر کہیں نہیں گئیں۔
یہ مارچ 2013 کی بات ہے دبئی کے لیے روانہ ہورہی تھی کہ ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی ایک خبر نے دہلا کر رکھ دیا۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ کرکے قتل کردیا گیا جب وہ شام ڈھلے اورنگی میں اپنے دفتر سے گلستان جوہر کے لیے روانہ ہورہی تھیں، ہم دونوں ہم محلہ تھے۔ ایک چوڑی سڑک ہم دونوں کے فلیٹوں کے درمیان تھی۔ میرا ذہن اس ہولناک خبر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
انائونسر بتارہی تھی کہ کراچی کی مضافاتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کی طرف سے انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کو اگر عملی جامہ پہنادیا گیا تو اس لیے کہ پروین رحمان ایسے لوگوں کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھیں اور وہ ایسے ہر قبضے کی نشان دہی کرتی تھیں اور کالا دھندا کرنے والوں کے لیے ایک دردِ سر بنی ہوئی تھیں۔
پروین نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ خون کا دریا تیر کرپار کیا۔ اس سے پہلے کیمپ میں زندگی بسر کی، قریبی دوستوں اور عزیزوں کو جان سے گزرتے دیکھا اور جب کراچی پہنچیں تو پھر سے تنکا تنکا جوڑ کر اس خاندان نے اپنا آشیانہ بنایا۔ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے دائود انجینئرنگ کالج سے آرکیٹکچر کی ڈگری لی۔ اپنی ذہانت کی بناء پر روٹرڈیم کے انسٹی ٹیوٹ آف ہائوسنگ اسٹڈیز سے ہائوسنگ بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں مہارت حاصل کی۔
ان ڈگریوں کے بعد دوسرے متعدد پاکستانی ماہرین کی طرح وہ بھی پہلی دنیا کے کسی اہم ادارے سے وابستہ ہوسکتی تھیں اور کروڑوں کا بینک بیلنس رکھتے ہوئے ایک پر آسائش زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس کے برعکس وہ پاکستان پلٹ آئیں۔ یہاں پہنچ کر وہ اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ ہوگئیں۔
خان صاحب کا ذکر اب کم کیا جاتا ہے لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے تقسیم سے پہلے انڈین سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی لیکن کمشنر یا کلکٹر کا عہدہ لینے کے بجائے سول سروس سے استعفیٰ دیا۔ پاگل اور خبطی کہلائے اور خدمت خلق میں مصروف ہوئے۔ پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کراچی ہر جگہ انھوں نے غریبوں کی آبادکاری اور انھیں عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا، یہ بتایا کہ اپنی زندگی کو تم ا پنی ہمت اور اپنی مدد آپ کے تحت بدل سکتے ہو، بہتر بناسکتے ہو۔
انھوں نے سابق مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے لیے اورنگی کی کچی آبادی میں کام شروع کیا۔ یہ ان کا وہ کارنامہ ہے جس پر انھیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ بڑے بڑے بین الاقوامی انعامات اور اعزازات انھیں دیے گئے اور وہ دنیا کے ایک شاندار شہری کے طور پر آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
او پی پی 1980میں قائم ہوا، پروین رحمان دسمبر 1981 میں روٹر ڈیم سے واپس آئیں اور او پی پی سے اس طرح وابستہ ہوئیں کہ جان بھی اسی کی ایک سڑک پر دی۔ وہ خان صاحب کو اپنا گرو کہتی تھیں اور ان ہی کی طرح کی سادہ زندگی خدمتِ خلق میں گزار دی۔ وہ اپنے ادارے کی ڈائریکٹر تھیں، ان کے بارے میں ڈاکٹر معصومہ حسن کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ 32 ہزار تھی اور مراعات کے نام پر انھیں دفتر سے ایک چھوٹی گاڑی ملی ہوئی تھی جس کے ڈرائیور کی تنخواہ اور ان کے موبائل کا بل او پی پی ادا کرتا تھا۔
پروین سے میری کبھی کبھی کی ملاقات تھی۔ اس سے کہیں زیادہ ہماری فون پر بات چیت ہوجاتی اور وہ بھی شہر کے کسی مسئلے کے بارے میں۔ ان سے کہیں زیادہ تعلق ان کی بہن عقیلہ اسماعیل سے تھا جو اب باہر رہتی ہیں۔ وہ انگریزی کی ادیب ہیں اور اردو کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتی ہیں۔ پروین اور عقیلہ سے آخری ملاقات آکسفورڈ کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہوئی۔ پروین ہمیشہ کی طرح مسکرا رہی تھیں۔
ان کا لہجہ نرم اور شائستہ ہوتا تھا۔ اس روز ہم تینوں حضرت محل اور 1857 کی جنگ آزادی پر کنیزے مراد کے نئے ناول کی تقریب اجراء میں کنیزے کی باتیں سننے کے لیے اس چھوٹے سے ہال میں داخل ہورہے تھے جس میں شہر کے متعدد جانے پہچانے چہرے نظر آرہے تھے۔
ہم دونوں نے جلدی میں ایکد وسرے سے ملنے کا وعدہ کیا اور پھر جدا ہوگئے۔ میرا خیال تھا کہ پروین سے کسی نہ کسی دن ملاقات ہوجائے گی لیکن کسی خیال کو خاک میں ملتے کتنی دیر لگتی ہے۔ نشانہ لے کر چلائی جانے والی چند گولیوں نے ملک اور شہر کے لیے طرۂ امتیاز بننے والی اور غریبوں کی دوست داری میں غرق ایک درد مند اور انسان دوست عورت کو مٹی میں سلادیا۔
پروین اس نسل سے تعلق رکھتی تھیں جسے نفسا نفسی کے اس دور میں بھی وہ لوگ پیارے تھے جو سماج کے حاشیوں پر زندگی گزارتے ہیں، جن کا کوئی پر سان حال نہیں اور جو ذلتوں کے مارے اور دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ اورنگی میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اورنگی کے وسیع علاقے میں انھوں نے پائپ بچھوائے جس سے بلا مبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ایک خاموش انقلاب آگیا۔ ان لوگوں نے غلاظت اور بدبو سے نجات پائی اور ان کے بچے نالیوں پر بیٹھ کر فارغ ہونے کی ذلت سے آزاد ہوئے۔ عورتوں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ انھوں نے غلاظت کی صفائی سے نجات پائی۔
اختر حمید خان کی رہنمائی میں پروین نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اورنگی کے نچلے متوسط طبقے کی بہتری کے لیے وقف کردیا۔ پاکستان کے مشہور ٹائون پلانر عارف حسن نے خان صاحب کی دنیا سے رخصت کے بعد پروین اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا ساتھ دیا جس کے لیے پروین ان کی بہت شکر گزار تھیں۔
انھوں نے جس مستقل مزاجی اور محنت کے ساتھ ساتھ اورنگی والوں کو تکنیکی امداد فراہم کی اس کی وجہ سے انھیں اس کام میں اختصاص حاصل ہوگیا اور اپنی اس مہارت کی بنیاد پر وہ بارہا پاکستان سے باہر بلائی گئیں۔ اورنگی والوں نے محبت میں انھیں ''گٹر باجی'' کا نام دے دیا تھا۔ یہ ایک ایسا نام ہے جسے سن کر پروین کی جگہ کوئی اور خاتون ہوتیں تو وہ چراغ پا ہوجاتیں اور شاید پھر کبھی اورنگی میں قدم نہ رکھتیں'' لیکن پروین کا چہرہ 'گٹر باجی' سن کر چمک اٹھتا۔
پروین کو مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے زمین پر بااثر لوگوں کے ناجائز قبضے کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔ کراچی کی بیشتر کچی آبادیاں جن کی نشاندہی 1985 میں کردی گئی تھی لیکن 90 کی دہائی سے ان آبادیوں اور گوٹھوں کو لینڈ مافیا کی حرص اور ہوس نے نگلنا شروع کردیا۔ پروین نے ان تمام زمینوں کی پیمائش کی، تفصیلات اکٹھی کی تھیں اور انھیں کمپیوٹرائزڈ کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15 برسوں کے درمیان کراچی کے 1500 سے زیادہ گوٹھوں پر ناجائز قبضہ ہوا اور زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو چھوٹے پلاٹوں میں تقسیم کرکے انھیں فروخت کردیا گیا جس سے لگ بھگ 25 ارب روپے حاصل کیے گئے۔ لینڈ مافیا کے خلاف فریاد لے کر لوگ جب او پی پی پہنچتے تو پروین تمام خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کے ساتھ قبضہ ہوجانے والی زمینوں پر جاتیں اور انھیں وا گزار کرانے کی کوشش کرتیں۔ (جاری ہے)
ایک نہایت ذہین اور دل میں انسانوں کا درد رکھنے والی پروین رحمان جس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، لوٹ کر شہر کراچی آئی۔ دنیا اس کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن وہ اختر حمید خان کو اپنا ''گرو'' کہتی تھی اور سمجھتی تھی۔ اختر حمید خان عین جوانی میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرکے اسے رد کرچکے تھے اور خدمت خلق میں گرفتار ہوچکے تھے۔
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ سے پہلے وہ مشرقی پاکستان میں کومیلا پراجیکٹ کرچکے تھے اور دنیا ان کے سامنے سرجھکاتی تھی۔ انھوں نے پروین رحمان سے کہا کہ ''باہر تو سب جاتے ہیں اور کروڑوں کماتے ہیں میں تم سے کچھ اور امید رکھتا ہوں۔'' پروین نے گروکے حکم پر سر تسلیم خم کیا اور پھر اورنگی سے اٹھ کر کہیں نہیں گئیں۔
یہ مارچ 2013 کی بات ہے دبئی کے لیے روانہ ہورہی تھی کہ ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی ایک خبر نے دہلا کر رکھ دیا۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ کرکے قتل کردیا گیا جب وہ شام ڈھلے اورنگی میں اپنے دفتر سے گلستان جوہر کے لیے روانہ ہورہی تھیں، ہم دونوں ہم محلہ تھے۔ ایک چوڑی سڑک ہم دونوں کے فلیٹوں کے درمیان تھی۔ میرا ذہن اس ہولناک خبر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
انائونسر بتارہی تھی کہ کراچی کی مضافاتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کی طرف سے انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کو اگر عملی جامہ پہنادیا گیا تو اس لیے کہ پروین رحمان ایسے لوگوں کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھیں اور وہ ایسے ہر قبضے کی نشان دہی کرتی تھیں اور کالا دھندا کرنے والوں کے لیے ایک دردِ سر بنی ہوئی تھیں۔
پروین نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ خون کا دریا تیر کرپار کیا۔ اس سے پہلے کیمپ میں زندگی بسر کی، قریبی دوستوں اور عزیزوں کو جان سے گزرتے دیکھا اور جب کراچی پہنچیں تو پھر سے تنکا تنکا جوڑ کر اس خاندان نے اپنا آشیانہ بنایا۔ مسائل کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے دائود انجینئرنگ کالج سے آرکیٹکچر کی ڈگری لی۔ اپنی ذہانت کی بناء پر روٹرڈیم کے انسٹی ٹیوٹ آف ہائوسنگ اسٹڈیز سے ہائوسنگ بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں مہارت حاصل کی۔
ان ڈگریوں کے بعد دوسرے متعدد پاکستانی ماہرین کی طرح وہ بھی پہلی دنیا کے کسی اہم ادارے سے وابستہ ہوسکتی تھیں اور کروڑوں کا بینک بیلنس رکھتے ہوئے ایک پر آسائش زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس کے برعکس وہ پاکستان پلٹ آئیں۔ یہاں پہنچ کر وہ اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ ہوگئیں۔
خان صاحب کا ذکر اب کم کیا جاتا ہے لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے تقسیم سے پہلے انڈین سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی لیکن کمشنر یا کلکٹر کا عہدہ لینے کے بجائے سول سروس سے استعفیٰ دیا۔ پاگل اور خبطی کہلائے اور خدمت خلق میں مصروف ہوئے۔ پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کراچی ہر جگہ انھوں نے غریبوں کی آبادکاری اور انھیں عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا، یہ بتایا کہ اپنی زندگی کو تم ا پنی ہمت اور اپنی مدد آپ کے تحت بدل سکتے ہو، بہتر بناسکتے ہو۔
انھوں نے سابق مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے لیے اورنگی کی کچی آبادی میں کام شروع کیا۔ یہ ان کا وہ کارنامہ ہے جس پر انھیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ بڑے بڑے بین الاقوامی انعامات اور اعزازات انھیں دیے گئے اور وہ دنیا کے ایک شاندار شہری کے طور پر آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
او پی پی 1980میں قائم ہوا، پروین رحمان دسمبر 1981 میں روٹر ڈیم سے واپس آئیں اور او پی پی سے اس طرح وابستہ ہوئیں کہ جان بھی اسی کی ایک سڑک پر دی۔ وہ خان صاحب کو اپنا گرو کہتی تھیں اور ان ہی کی طرح کی سادہ زندگی خدمتِ خلق میں گزار دی۔ وہ اپنے ادارے کی ڈائریکٹر تھیں، ان کے بارے میں ڈاکٹر معصومہ حسن کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ 32 ہزار تھی اور مراعات کے نام پر انھیں دفتر سے ایک چھوٹی گاڑی ملی ہوئی تھی جس کے ڈرائیور کی تنخواہ اور ان کے موبائل کا بل او پی پی ادا کرتا تھا۔
پروین سے میری کبھی کبھی کی ملاقات تھی۔ اس سے کہیں زیادہ ہماری فون پر بات چیت ہوجاتی اور وہ بھی شہر کے کسی مسئلے کے بارے میں۔ ان سے کہیں زیادہ تعلق ان کی بہن عقیلہ اسماعیل سے تھا جو اب باہر رہتی ہیں۔ وہ انگریزی کی ادیب ہیں اور اردو کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتی ہیں۔ پروین اور عقیلہ سے آخری ملاقات آکسفورڈ کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہوئی۔ پروین ہمیشہ کی طرح مسکرا رہی تھیں۔
ان کا لہجہ نرم اور شائستہ ہوتا تھا۔ اس روز ہم تینوں حضرت محل اور 1857 کی جنگ آزادی پر کنیزے مراد کے نئے ناول کی تقریب اجراء میں کنیزے کی باتیں سننے کے لیے اس چھوٹے سے ہال میں داخل ہورہے تھے جس میں شہر کے متعدد جانے پہچانے چہرے نظر آرہے تھے۔
ہم دونوں نے جلدی میں ایکد وسرے سے ملنے کا وعدہ کیا اور پھر جدا ہوگئے۔ میرا خیال تھا کہ پروین سے کسی نہ کسی دن ملاقات ہوجائے گی لیکن کسی خیال کو خاک میں ملتے کتنی دیر لگتی ہے۔ نشانہ لے کر چلائی جانے والی چند گولیوں نے ملک اور شہر کے لیے طرۂ امتیاز بننے والی اور غریبوں کی دوست داری میں غرق ایک درد مند اور انسان دوست عورت کو مٹی میں سلادیا۔
پروین اس نسل سے تعلق رکھتی تھیں جسے نفسا نفسی کے اس دور میں بھی وہ لوگ پیارے تھے جو سماج کے حاشیوں پر زندگی گزارتے ہیں، جن کا کوئی پر سان حال نہیں اور جو ذلتوں کے مارے اور دھتکارے ہوئے لوگ ہیں۔ اورنگی میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اورنگی کے وسیع علاقے میں انھوں نے پائپ بچھوائے جس سے بلا مبالغہ ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ایک خاموش انقلاب آگیا۔ ان لوگوں نے غلاظت اور بدبو سے نجات پائی اور ان کے بچے نالیوں پر بیٹھ کر فارغ ہونے کی ذلت سے آزاد ہوئے۔ عورتوں نے اس بات پر شکر ادا کیا کہ انھوں نے غلاظت کی صفائی سے نجات پائی۔
اختر حمید خان کی رہنمائی میں پروین نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اورنگی کے نچلے متوسط طبقے کی بہتری کے لیے وقف کردیا۔ پاکستان کے مشہور ٹائون پلانر عارف حسن نے خان صاحب کی دنیا سے رخصت کے بعد پروین اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کا ساتھ دیا جس کے لیے پروین ان کی بہت شکر گزار تھیں۔
انھوں نے جس مستقل مزاجی اور محنت کے ساتھ ساتھ اورنگی والوں کو تکنیکی امداد فراہم کی اس کی وجہ سے انھیں اس کام میں اختصاص حاصل ہوگیا اور اپنی اس مہارت کی بنیاد پر وہ بارہا پاکستان سے باہر بلائی گئیں۔ اورنگی والوں نے محبت میں انھیں ''گٹر باجی'' کا نام دے دیا تھا۔ یہ ایک ایسا نام ہے جسے سن کر پروین کی جگہ کوئی اور خاتون ہوتیں تو وہ چراغ پا ہوجاتیں اور شاید پھر کبھی اورنگی میں قدم نہ رکھتیں'' لیکن پروین کا چہرہ 'گٹر باجی' سن کر چمک اٹھتا۔
پروین کو مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے زمین پر بااثر لوگوں کے ناجائز قبضے کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔ کراچی کی بیشتر کچی آبادیاں جن کی نشاندہی 1985 میں کردی گئی تھی لیکن 90 کی دہائی سے ان آبادیوں اور گوٹھوں کو لینڈ مافیا کی حرص اور ہوس نے نگلنا شروع کردیا۔ پروین نے ان تمام زمینوں کی پیمائش کی، تفصیلات اکٹھی کی تھیں اور انھیں کمپیوٹرائزڈ کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15 برسوں کے درمیان کراچی کے 1500 سے زیادہ گوٹھوں پر ناجائز قبضہ ہوا اور زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو چھوٹے پلاٹوں میں تقسیم کرکے انھیں فروخت کردیا گیا جس سے لگ بھگ 25 ارب روپے حاصل کیے گئے۔ لینڈ مافیا کے خلاف فریاد لے کر لوگ جب او پی پی پہنچتے تو پروین تمام خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کے ساتھ قبضہ ہوجانے والی زمینوں پر جاتیں اور انھیں وا گزار کرانے کی کوشش کرتیں۔ (جاری ہے)