دوران حمل توہم پرست نظریات بڑا مسئلہ…

مریضوں کو سائنسی حقائق بتانا ہونگے!


احسن کامرے September 05, 2021
ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام Martin Dowاور سوسائٹی آف آبسٹیٹریشیئنز اینڈ گائناکالوجسٹس آف پاکستان کے تعاون سے منعقد کردہ سیمینار کا آنکھوں دیکھا احوال۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام Martin Dow اور سوسائٹی آف آبسٹیٹریشیئنز اینڈ گائناکالوجسٹس آف پاکستان کے تعاون سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں "دوران حمل پائے جانے والے توہم پرست نظریات اور اصل حقائق و بچوں کی ابتدائی افزائش" کے موضوع پر سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔

سمپوزیم میں سابق صدر ایس او جی پی پروفیسر ڈاکٹر فرخ زمان ، چیئرمین ایس او جی پی لاہور چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد چوہان ، ایگزیکٹیو ممبر ایس او جی پی لاہور چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر فرحت ناز، ایگزیکٹیو ممبر ایس او جی پی لاہور چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر طیبہ وسیم، ایگزیکٹیو ممبر ایس او جی پی لاہور چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر عالیہ بشیر، ایگزیکٹیو ممبر ایس او جی پی لاہور چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر شمیلہ اعجازمنیر، ایگزیکٹو ممبر ا یس او جی پی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ سہیل ، سربراہ شعبہ گائناکالوجی سر گنگا رام ہسپتال و فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی ، نائب صدر ایس او جی پی پنجاب پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں ، چیئرپرسن شعبہ گائناکالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، جوائنٹ سیکرٹری ایس او جی پی لاہور چیپٹر پروفیسر ڈاکٹر عائشہ ملک، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ امراض بچہ چلڈرن ہسپتال ملتان ڈاکٹر حسن سلیمان ، گروپ ایم ڈی و چیف ایگزیکٹو آفیسر Martin Dowجاوید غلام محمد، گروپ ڈائریکٹر Martin Dow ڈاکٹر انعم اکھائی، چیف کمرشل آفیسر Martin Dow عاصم مصطفی سمیت ڈاکٹرز، میڈیکل طلبہ اور عام شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔جنرل سیکرٹری ایس او جی پی لاہور چیپٹرپروفیسر ڈاکٹر شہلا انور نے میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ اس موقع پر صدر ایس او جی پی پروفیسر ڈاکٹر رضیہ کوریجو کا ویڈیو پیغام بھی چلایا گیا۔

پروفیسر ڈاکٹر رضیہ کوریجو

سب سے پہلے ایس او جی پی کے تمام ممبران، سپیکرز، ڈاکٹرز اور سمپوزیم کے تمام شرکاء کو خوش آمدید ۔ اس سمپوزیم کاانعقاد Martin Dow کی طرف سے کیا گیا جس میں ایسے''دوران حمل پائے جانے والے توہم پرست نظریات اور اصل حقائق و بچوں کی ابتدائی افزائش'' پر بات کی جائے گی۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں taboos ایک بڑا مسئلہ ہیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں بتانا اور آگاہ کرنا ایک بہتر بڑا چیلنج ہے۔ لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے ہم نے اس سمپوزیم کا انعقاد کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سب کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ایس او جی پی ہمیشہ سے ایسے پروگرامز کا انعقاد کرتی ہے جن سے لوگوں کو آگاہی اور ہیلتھ کیئر پرووائڈرز کو علم دیا جاتا ہے۔ یہ ان میں سے ایک سمپوزیم ہے۔ میں تمام معزز سپیکرز کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اس سموزیم کیلئے وقت نکالا ۔ میں آپ سب کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جو یہاں موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ یہاں سے بہت کچھ سیکھ کر جائیں گے۔ میں اس سمپوزیم کے انعقاد پرMartin Dow کی مشکور ہوں جس نے نہ صرف بہترین پروگرام کا انعقاد کیا بلکہ ایک بہترین موضوع بھی دیا۔ ایس او جی پی ہمیشہ سے تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ Martin Dow نے ہمیں ہمیشہ سپورٹ کیا اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی عوامی بہتری کیلئے ہمارے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔

جاوید غلام محمد

Martin Dow کی جانب سے میں تمام مقررین، معزز مہمانان گرامی اور تمام شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس سمپوزیم کا موضوع انتہائی اہم ہے اور ہمارے علم کے مطابق آج سے پہلے اس موضوع پر اتنے پرزور انداز میں کسی بھی سمپوزیم پر اس حوالے سے گفتگو نہیں ہوئی۔ Martin Dow پاکستان کا چھٹا بڑا اور لیڈنگ فارماسیوٹیکل گروپ ہے۔ ہماری پاکستان میں چار مینوفیکچرنگ فیسلیٹیز ہیں جو کسی بھی فارماسیوٹیکل کمپنی سے زیادہ ہے۔کراچی میں دوجبکہ کوئٹہ اور لاہور میں ایک ،ایک مینوفیکچرنگ فیسیلٹی ہے۔ پاکستان کے علاوہ نیویارک میں بھی Marin Dow موجود ہے۔ فرانس میں ہماری دو مینوفیکچرنگ فیسلیٹیز ہیں۔

ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ Martin Dow ایک ایسی ملٹی نیشنل کمپنی ہیں جو پاکستان سے چل رہی ہے اور یہ واحد پاکستانی ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی ہے جو پاکستان سے ہے مگر نیویارک سمیت دنیا میں اس کی موجودگی ہے۔ ہمیشہ سے ہماری توجہ معیار پر ہوتی ہے کہ ایسی ادویات تیار کی جائیں جو موثر ترین ہوں اور ان کا معیار بھی بہترین ہو ۔ ہماری تمام مینوفیکچرنگ فیسیلیٹز میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکٹر بھی قائم ہے جہاں ہم مریضوں کی صحت کیلئے اعلیٰ معیار کی ادویات تیار کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ فارماسیوٹیکلز کی مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ کے علاوہ Martin Dow کارپوریٹ سوشل رسپانسیبیلٹی پر ٹھوس یقین رکھتی ہے لہٰذا ہم جو کماتے ہیں اس میں سے سوسائٹی پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری توجہ صحت اور تعلیم پر ہے جس کیلئے ہم بڑے اداروں کے ساتھ مل کر اپنا بہترین کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد چوہان

سوسائٹی آف آبسٹیٹریشئینزاینڈ گائناکالوجسٹس آف پاکستان (ایس او جی پی) 1956ء میں قائم کی گئی۔ یہ سوسائٹی چاروں صوبوں میں موجود ہے اور چاروں صوبوں سے باری باری اس کا مرکزی صدر منتخب کیا جاتا ہے، اگر اس سال صدر کراچی سے ہے تو آئندہ برس پشاور سے ہوگا، اسی طرح دیگر صوبوں کی باری آئے گی۔ ہر بڑے شہر میں اس سوسائٹی کا ایک چیپٹر ہے جو وہاں کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور مقامی سطح پر سرگرمیوں کو دیکھتا ہے۔ ہماری بنیادی مقصد ماں کی صحت کا خیال رکھنا اور حاملہ خواتین کی صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔لاہور چیپٹر کی بات کریں تو جب سے میں اس کا حصہ بنا ہوں دل سے کام کیا ہے۔ کورونا کی وباء اور چیلنج کے باوجود ہم نے گزشتہ دو برسوں میں ہر ماہ لازمی میٹنگ کی۔ ہم نے مختلف موضوعات کا انتخاب کیا، پروفیسرز کو ساتھ لیا اور ہم ہر ادارے میں گئے۔ کسی بھی ادارے کی سب سے اچھی بات ہوتی ہے کہ آپ ایک ساتھ بیٹھیں، ایک ساتھ چلیں، ایک ساتھ کام کریں اور ایک ساتھ معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سوسائٹی کی سب سے بہترین چیز یہی ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں اور آج اس تقریب میں بھی موجود ہیں۔

ہمارا ایک ہی مشن ہے اور وہ ملک بھر میں 'یونیفارم میٹرنل ہیلتھ کیئر' ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ڈاکٹرز کو اس لیول تک لے کر جائیں کہ لاہور میں موجود ڈاکٹر جو سروس اور معیار دے رہا ہے وہی بھکر یا کسی دور دراز علاقے میں موجود ڈاکٹر بھی دے کیونکہ تمام لوگ علاج کیلئے لاہور نہیں آسکتے یا ایک پروفیسر کے پاس نہیں جاسکتے۔ ہم یہاں کھڑے ہوکر اپنی پروموشن نہیں کرتے اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ سارے مریض ہمارے پاس بھیجیں کیونکہ ہم تمام مریضوں کا علاج نہیں کرسکتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ معیاری ڈاکٹرز پیدا کیے جائیں جو اپنے اپنے علاقے میں وہی سہولت اور معیار دیں جو ہم یہاں دے رہے ہیں، یہ بہت بڑی قومی خدمت ہوگی اور یہی ایس او جی پی کا لاہور ریجن میں مشن ہے جس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔ Martin Dow کا شکریہ کیونکہ فارماسیوٹیکل کے تعاون کے بغیر ہم نہ ریسرچ پر جاسکتے ہیں، نہ کانفرنسوں میں شرکت کر سکتے ہیں ، نہ اپنا علم شیئر کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو مل سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہیلتھ سسٹم میں ایسی سہولیات نہیں دی گئی جو پروفیسرز کی ٹریننگ اور ٹیچنگ اور میڈیکل ایجوکیشن کو لے کر چل سکے۔ اس لیے ملک بھر میں میڈیکل ایجوکیشن کے فروغ کیلئے فارماسیوٹیکلز کا کردار انتہائی اہم ہے۔

پاکستان myths سے بھرا پڑا ہے۔ Myth سے مراد کوئی ایسا بیان یا اعتقاد ہے جو سائنسی لحاظ سے ثابت نہ ہو۔ میں نے ایک چیز دیکھی یا میرے ساتھ ہوئی، میں نے کسی کو بتائی، اس نے آگے بتائی اور اس طرح ایک mythبن گئی۔ سائنٹفک سٹیٹمنٹ سے مرادایسی بات ہے جو کسی چیز کے 'رینڈمائزڈ کنٹرول ٹرائل' کے ذریعے مشاہدے اور تجزیے کے بعد دی جائے۔ اس کے علاوہ دیگر باتیں myths ہیں۔ ہمارے ہاں mythکی بہت ساری اشکال ہیں۔ بچے کی پیدائش ہر گھر میں ہوتی ہے، تقریباََ ہر خاتون نے بچے کو جنم دیا ہے جس کے پاس دوسروں کو بتانے کیلئے ذاتی تجربہ بھی ہوتا ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ بیٹی صبح اٹھ کر اگر پیپل کے پتے ابال کر پانی پئیں تو لڑکا ہوگا، میں نے ایسا کیا تو میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ حالانکہ 50فیصد لوگوں کے ہاں لڑکا پیدا ہو جاتا ہے، اس میں پیپل کے پتوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ایک myth روایتی ہوتی ہے جو ان پڑھ لوگوں سے بنتی ہے جبکہ دوسری myth تعلیم یافتہ لوگوں کے ذریعے بنتی ہے یا تقویت پکڑتی ہے۔ ڈاکٹر میں یہ جرات نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکے کہ سائنس کے پاس اس کا مکمل عمل نہیں ہے لہٰذا مجھے بھی اس کا علم نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر من گھڑت جواب دے دیتے ہیں جو غلط نظریہ بن جاتا ہے۔ ہر 10 سال بعد سارا علم تبدیل ہوجاتا ہے اور ہر وقت مختلف تحقیقات جاری رہتی ہیں۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ سبجیکٹ کے بارے میں علم رکھیں اور ایسے ایریاز کے بارے میں بھی علم رکھیں جن پر ابھی تک کچھ موجود نہیں ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر روبینہ سہیل

آج کا موضوع ایسا ہے جس پر آج سے پہلے بات نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے اتنے بڑے پلیٹ فارم پر اس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس سمپوزیم میں میرا موضوع myths, facts & taboos in pregnancy ہے۔ اس موضوع سمیت ماں، بچے کی صحت اور اس کی نشونما سے منسلک دیگر موضوع کیوں اہم ہے اس کیلئے ماضی میں جھانکنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان نے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) پر دستخط کر رکھے ہیں جنہیں2030ء تک ہر حال میں حاصل کرنا ہے مگر اس حوالے سے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ ایس ڈی جی 3 اور 5 جو صحت اور صنفی برابری کے حوالے سے ہیں لہٰذا اگر ہم خواتین کی زندگی اور صحت کو بہتر بنانے چاہتے ہیں تو ان دونوں اہداف پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ اہداف اکیلے حاصل نہیں کیے جاسکتے بلکہ اس کیلئے تعلیم کو فروغ دینا ہوگا،غربت میں کمی لانا ہوگی، ماحولیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہونگے، انصاف کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا اور ماں ، بچے کی زندگی بہتر بنانے کیلئے مختلف اداروں اور ممالک کے ساتھ پارٹنرشپ کرنا ہوگی۔

2030ء تک زچگی کے دوران شرح اموات میں کمی لانے کاعالمی ہدف ایک لاکھ زچگی کیسز میں سے شرح اموات کو 70 سے نیچے لانا ہے اور کسی بھی ملک میں یہ شرح 140 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہم 70 سے نیچے تو نہیں لے جاسکتے البتہ ابھی ہمارا ٹارگٹ 140 سے نیچے لانا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان اس حوالے سے کام کر رہا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے، اس سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اقدمات کا جائزہ لیں تو 49 فیصد بی ایچ یوز میں ڈیلوری کی سہولت موجود ہے، آبسٹیٹریکل کیئر کی ایمرجنسی سہولت دی گئی ہے، misoprostol کو لازمی ادویات کی فہرست میں ڈالا گیا ہے، ریفرل سسٹم کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے علاوہ مریض کے علاج معالجے کیلئے ایمولینس و دیگر ضروری معاملات کو یقینی بنانا گیا ہے۔

2000ء سے 2021ء تک، پائیدار ترقی کے اہداف میں ہمارا سکور 57 ہے اور ہم 165 ممالک میں سے 129 ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ آج ان اہداف پر بات اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ وہم اور غلط نظریات کی وجہ سے ان کے حصول میں بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ Myths اور taboos کی وجہ سے صحت کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا، خواتین کے مسائل بڑھیں گے اور خصوصاََ حاملہ خواتین کی صحت اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ دوران حمل خواتین کو ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ نہانا نہیں ہے، سیڑھیاں نہیں چڑھنا، بالوں کو ڈائی نہیں کرنا، رکشے پر سفر نہیں کرنا، ہوائی سفر نہیں کرنا، گرم چیزوں سے لازمی پرہیز کرنا ہے، پپیتا یا آم نہیں کھانے، حمل کے دوران مکمل بیڈ ریسٹ کرنا ہے ورنہ حمل گر سکتا ہے۔ یہ تمام باتیں غلط نظریات پر مبنی ہیں کیونکہ اگر خاتون کو 9 ماہ کیلئے مکمل بیڈ ریسٹ کرا دی جائے تو پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔

ایک اور متھ یہ ہے کہ حاملہ خواتین ورزش نہ کریں ورنہ بچے کو نقصان ہوسکتا ہے۔ اس غلط نظریے پر بات کرنا اس لیے ضروری ہے کہ بے شمار خواتین اور بیشتر فزیشنز بھی حاملہ خواتین کو چہل قدمی سے منع کرتی ہیں۔ گھر کا دروازہ کھولنا واک نہیں ہے بلکہ واک کا مطلب ہے کہ آپ کو پسینہ آئے، سانس چڑھے اور حرکت قلب تیز ہو۔ سائنسی طور پر تصدیق شدہ حقائق ہیں کہ دوران حمل خواتین کو روزانہ 30 منٹ تک واک لازمی کرنی چاہیے۔ پانی زیادہ پئیں اور سوئمنگ، گھڑ سواری، سائیکلنگ اور آئس ہاکی جیسے کھیل کھیلتے وقت لازمی احتیاط کریں۔سکوبا ڈائیونگ، کک باکسنگ، جوڈو کراٹے، سکواش اور 2500 میٹر سے زیادہ بلندی پر ورزش سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ایک اور غلط نظریہ یہ ہے کہ حاملہ خواتین کو آئل اور چربی والی خوراک زیادہ کھانی چاہیے۔ بچوں کے حوالے مسئلہ ہے کہ مائیں انہیں برگر اور فاسٹ فوڈ پر لگا دیتی ہے اور بعد میں بچے کیلئے انہیں چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ وزن حاصل کر لیتا ہے۔ آئرن کی گولیاں لینے سے بچہ کالا ہوگا، دودھ پینے سے گورا ہوگا، پپیتا کھانے سے ضائع وجائے گا، کیفین لینا ٹھیک نہیں ہے جیسی متھ بھی موجود ہیں۔ کھانا اچھا کھائیں، سبزیاں، اناج، پروٹین والی غذا کائیں، ورزش کریں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے غلط نظریات پائے جاتے ہیں لیکن ہم نے نہ صرف انہیں غلط ثابت کرنا ہے بلکہ ان کی تصحیح بھی کرنی ہے۔ کورونا کی ویکسین کے حوالے سے بھی غلط نظریات پائے جا رہے ہیں۔ حاملہ خواتین کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں، انہیں اپنی ویکسی نیشن لازمی کروانی چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر عائشہ ملک

بطورڈاکٹر ہماری یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ہر حمل کا اختتام صحتمند ماں اور صحت مند بچے پر ہو۔ میرا اس شعبے میں 25 سالہ تجربہ ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ مریضوں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر ان کی صحیح معنوں میں رہنمائی نہیں کر پاتے۔ پاکستان میں ایک ڈاکٹر کو روزانہ کم و بیش 60 مریضوں کو چیک کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کے پاس حاملہ خواتین کی کونسلنگ کا مناسب وقت نہیں بچتا۔ہمیں اس کے حل کی طرف جانا چاہیے۔ میں نے برطانیہ میں نے 2 سال کام کیا ہے ... وہاں میں ہاؤس آفیسر کے طور پر کام کر رہی تھی اور روزانہ 6 سے 7 مریضوں کو دیکھنا ہوتا تھا جس کی وجہ سے میں انہیں بتاتی تھی کہ اس اینٹی لیٹل وزٹ کا مقصد کیا ہے، مریض کو یہ ہدایت ہوتی تھی کہ اگر 15 منٹ سے زیادہ انتظار کرنا پڑے تو وہ استقبالیہ پر رپورٹ کرے، یہ کسی نجی ہسپتال نہیں بلکہ سرکاری ہسپتال میں ہوتا تھا۔ اگر مریض چیک اپ کیلیے نہ آئے تو اسے گھر پر یاد دہانی پیغام بھجوایا جاتا ہے۔ اگر نہ ہو تو مڈ وائف اس کے گھر پر وزٹ کرتی تھی۔ اس طرح وہاں حاملہ خواتین کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہم اپنی ماؤں ، بچوں اور مستقبل کی نسل کو کیا اہمیت دے رہے ہیں؟

پریگنینسی کیئر میرے نزدیک پری نیٹل دور سے ہی شروع ہونی چاہیے۔ بیرون ملک لوگ بہت سوچ سمجھ کرکرتے ہیں۔ رسک فیکٹر دیکھتے ہیں۔ پہلے سے موجود بیماریوں،ڈائٹ اور لائف سٹائل کو دیکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک کے بعد دو، دو کے بعد تین، اس طرح بچوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پھر جب خاتو ن سامنے آتی ہے تو دور سے دیکھ کر ہی لگتا ہے کہ وہ حاملہ ہے حالانکہ نہیں ہوتی بلکہ اس نے اتنا وزن بڑھا لیا ہوتا ہے اور اس کی جسمانی حالت ایسی ہوچکی ہوتی جس سے ایسا لگتا ہے۔ بدقسمتی سے جنوب مشرقی ایشیاء میں دوران زچگی ماں اور ننھے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے علاوہ ہماری وہ بالغ لڑکیاں جن کی شادی ہوتی ہے اور اولاد ہوتی ہے،جب ان کی صحت پر توجہ نہیں دی جاتی، بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہیں رکھا جاتا تو پھر ہم ایک ایسی نسل کو پیدا کرتے ہیں جس کی اسٹنٹڈ گروتھ ہوتی ہے، یہ بچے صحت مند نہیں ہوتے اور ابتدائی پانچ برسوں میں سکول میں ان بچوں کا 'آئی کیو' لیول اپنی عمرکے بچوں سے بہت کم ہوتا ہے۔

وزیراعظم نے بھی اپنی تقریر میں ان بچوں کے حوالے سے خصوصی طور پر بات کی تھی۔ یہاں پر حاملہ خواتین کی خوراک کی بات کی گئی، یہ سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہے جس کا جواب سادہ اور آسان ہے۔ پریگنینسی میں کوئی زیادہ خاص خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایک متوازن غذا کی ضروری ہوتی ہے جس میں پروٹین، منرلز، وٹامن سمیت دیگر اہم اجزاء ہوں۔ دودھ کا استعمال کریں، fats والی اشیاء کا استعمال کم کریں۔ آلو، چاول، چینی، چکنائی اور میدہ کا استعمال بند کر دیں۔ بیکری و حلوائی کی اشیاء، کولڈ ڈرنکس اورجنک فوڈ سے پرہیز کریں ۔ بعض لڑکیوں دودھ پسند نہیں ہوتا وہ ملک شیک بنا لیں، لسی پیئں، دیہی کھائیں۔آئرن وٹامن سی کے ساتھ دیں۔ اگر آئرن اور کیلشیم اکٹھا دیا جائے گا تو وہ جذب نہیں ہوگا۔اگر ویجٹیرین ہے تو اسے وٹامن بی 12 دینا پڑتا ہے۔

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیاں حمل کے پانچویں مہینے میں کروٹ نہیں بدل سکتی جس کا مطلب ہے کہ ان کی ہڈیاں اس حد تک کھوکھلی ہوچکی ہوتی ہیں کہ وہ نہ بیڈ سے اٹھ سکتی ہیں نہ کروٹ لے سکتی ہیں۔ ان کیلئے میں کیلشیم کی مقدار دگنی کر دیتی ہوں۔ ہمیں اپنی بالغ اور سکول جانے ولای لڑکیوں کی صحت پر توجہ دینی چاہیے۔ جو بھی حاملہ خاتون ہوگی اسے کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہوگا جن میں سے دو مسائل عمومی طور پر پائے جاتے ہیں۔ ایک قبض اور دوسری تیزابیت یا بدہضمی۔ قبض کا آسان حل اسپغول کا چھلکا ہے جو رات کو نیم گرم دودھ میں ڈال کر پیا جائے اور اوپر سے سادہ پانی پی لیا جائے جو ٹھنڈا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ پانی پیئں اور پھلوں کا استعمال کریں۔ دوسرا مسئلہ بدہضمی یا تیزابیت ہے۔ مریض کو سانس چڑھ رہا ہے، کھانا نیچے نہیں جاتا اور مریض سمجھ بھی نہیں رہا ہوتا کہ یہ کس وجہ سے ہے۔

اگر کونسلنگ کے دوران مریض کو سمجھا دیا جائے کہ یہ کس وجہ سے ہوتا ہے اور کیا کیا پرہیز چاہیے یا کس طرح کھانا چاہیے۔ ہمارے ہاں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک سمجھتے ہیں کہ حمل کے دوران کوئی بھی دوا نہیںکھا سکتے جبکہ دوسرے دوا کھاتے رہتے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی کونسلنگ کرنی چاہیے کہ کونسی دوا کھاسکتے ہیں اور کونسی نہیں اور یہ بھی کہ ضرورت سے زیادہ اور ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ادویات استعمال نہ کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں

میں ایس او جی پی لاہور چیپٹر کو اس اہم سپموزیم کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتی ہوں اور اس کیلئے تعاون کرنے پر Martin Dow اور ایکسپریس میڈیا گروپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔کیلشیم ایک اہم منرل ہے اور ہم جانتے ہیں کہ پریگنینسی کے دوران اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے نزدیک صرف دوران حمل ہی نہیں بلکہ ہمیں اپنی پوری زندگی میں اس کی ضرورت رہتی ہے۔ میں آپ سے کچھ ایسے حقائق شیئر کروں گی جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔اس پریزینٹیشن میں رابعہ ایک 28 سالہ لڑکی ہے جو 2 بچوں کی ماں ہے اور اس وقت حاملہ ہے۔ اس پر بے شمار ذمہ داریاں ہیں۔اسے اپنے بڑھتے ہوئے وزن کا احساس ہے مگر خود کو دینے کیلئے زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس کے کھانے کی عادات اور بار بار حاملہ ہونے سے جسم میں منرلز اور وٹامنز کی کمی ہورہی ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی کیلئے اسے کیلشیم کی زیادہ مقدار کی ضرورت ہے۔ دودھ پلانے کے عمل کے دوران جسم میں موجود کیلشیم کی مقدار مزید کم ہوجائے گی۔ وٹامن ڈی کے حصول کیلئے وہ دھوپ میں بھی نہیں بیٹھتی۔

حمل کے دوران متلی کی وجہ سے ضروری غذائی اجزاء میں بھی کمی آتی ہے۔ اس کے پاس ورزش کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ دوسری طرف بچوں کی بات کریں تو اس سلائڈ میں نائلہ اور عامر دو بچے ہیں جنہیں دودھ پسند نہیں ہے اور وہ بوتل پیتے ہیں، جنک فوڈ کھاتے ہیں۔ ہوم ورک زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی آؤٹ دور سرگرمی میں بھی حصہ نہیں لیتے۔ ان کی خوراک اور کم جسمانی سرگرمیاں، کیلشیم کے کم استعمال کی وجہ سے ہڈیوں کی وہ نشونما نہیں ہو پاتی جو ہونی چاہیے۔ جنک فوڈ اور بوتلیں ان کے جسم سے کیلشیم کو کھا جاتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو یہی کھانے کھلا رہے ہیں، اس سے اندازہ کر لیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس سلائڈ میں ایک سترہ سالہ لڑکی ہے جو اپنے وزن وغیرہ کے بارے میں بہت حساس ہے۔وہ ڈائیٹنگ اور کم کھانے کی عادت سے اپنا وزن برقرار رکھنے یا کم کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں۔

یہ عمر ہڈیوں کی گروتھ کے حوالے سے اہم ہوتی ہے لہٰذا اس میں کیلشیم کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ اس کی غیر صحت مند کھانے کی عادتوں کی وجہ سے جسم میں منرلز اور دیگر اہم اجزاء کی کمی ہورہی ہے۔یہ لڑکی جب ماں بنے گی تو اس کے جسم میں کیلشیم اور منرلز کی کم مقدار مختلف پیچیدگیوں کا باعث بنے گی جن سے آسٹیوپوروسس سمیت دیگر سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ انسانی جسم کیلئے 13 منرلز ضروری ہیں جن میں سے سب سے وافر کیلشیم ہے جو ہمارے جسم کے وزن کا 2 فیصد ہے ۔ ہمارا ڈھانچہ زیادہ تر کیلشیم سے بنا ہے اور ہماری جسمانی فنکشنز کیلئے بھی کیلشیم کی بہت ضرورت ہوتی ہے جن میں دل، پٹھے، ہارمون و دیگر شامل ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑی عمر تک زندگی کے ہرمرحلے پر ہمیں کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ 18 سے 20 سال کی عمر تک ہڈیوں کی 90 فیصد تک افزائش ہو جاتی ہے جبکہ20 سے 35 برس کی عمر تک باقی 10 فیصد ہڈیوں کہ افزائش ہوتی ہے اور 35 سے 40 سال کی عمر میں ہڈیوں کا گودہ کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

اگر بچپن میں ہی کیلشیم کی کمی رہی تو ہڈیوں کی درست نشو نما نہیں ہوگی۔ Hydroxyapatite ہڈیوں اور دانتوں کیلئے لازمی اور بڑا جزو ہے جو انہیں مضبوط بناتا ہے۔ کیلشیم صرف ہڈیوں کے لئے ہی نہیں بلک مکمل صحت کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ بھوک کم لگنا، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، سستی و کاہلی، دل کے امراض، ہڈیوں کے ٹوٹنے کی علامات ظاہر ہوں تو یہ کیلشیم کی کمی کی وجوہات ہوتی ہیں۔ خون میں کیلشیم کا نارمل لیول 8.5 سے 10.5 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہے۔ اس بلڈ لیول کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیں ہر عمر کے لحاظ سے کیلشیم کی روزانہ مختلف مقدار چاہیے۔ ایک سے 3 سال کی عمر کے بچے کو 400 سے 600 گرام، 4 سے 8 سال کی عمر کے بچون کو 800 سے 1200 گرام، 9 سے 18 سال کے کیلئے 1200 سے1500 گرام، 19 سے 50 سال کی عمر کیلئے 1000گرام جبکہ 50 سال سے زائد عمر کے افراد کیلئے 1200 سے 1500 گرام کیلشیم روزانہ ضروری ہے۔

حمل، دودھ پلانے یا مینوپاز کے دوران خصوصی مقدار ہوتی ہے جو 1500 گرام روزانہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میںعالمی ادارہ صحت کی تجویز کردیہ مقدار سے 50 فیصد کم کیلشیم استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہ مائیں جن میں کیلشیم کی کمی ہوتی ہے ان میں پری کلیمپسیا، ہائی بلڈ پریشر، دوران زچگی موت و دیگر پیچیدگیوں کی شرح زیادہ ہوتی ہیں۔ بچے کی پیدائش قبل از وقت ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، بچہ کی جلد موت و دیگر خطرات ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک ہمارا طرز زندگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا حل کیا ہے ؟ہمیں اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنا ہے اور اپنی خوراک میں بہتری لانی ہے۔ حاملہ خواتین کیلئے بات کریں تو پریگنینسی سے پہلے، اس دوران اور اس کے بعد انہیں اپنا طرز زندگی اور خوارک میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیری پراڈکٹس، سبزیاں، پھیلاں، مچھلی وغیرہ کھائیں

ڈاکٹر حسن سلیمان

میں ،بچے کی ابتدائی نشونما، دوسرے بچے کے پہلے بچے اور ماں پر اثرات اور نیوٹریشن پر بات کروں گا۔ ماں کی صحت کی بات کریں تو اس کا مطلب پریگنینسی سے پہلے سے لے کر بچے کی پیدائش اور اس کے بعد کے عوامل ہیں۔ ماں کی خوراک ، طرز زندگی اور صحت براہ راست بچے پر اثر کر رہا ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہر پریگنینسی ، بچے کی پیدائش یونیک ہوتی ہے لہٰذا ہر جگہ ایک جیسی صحت کی سہولیات ہونی چاہئیں تاکہ دوران زچگی ماں بچے کی صحت کو محفوظ بنایا جاسکے۔ پریگنینسی کی پلاننگ پہلا عمل ہے۔ اس حوالے سے موثر پلاننگ کرنی چاہیے، اچھی خوراک لینی چاہیے اور تمباکو نوشی، منشیات وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ ماں اور باپ دونوں کیلئے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے حوالے سے ٹیسٹ بھی کرانے چاہئیں اورویکسی نیشن بھی کروانی چاہیے۔

اگر ماں میں نیوٹریشن کی کمی ہے تو خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں لیکن اگر اسے اچھی متوازن غذا دی جائے تو مسائل سے بچا جاسکتا ہے اور بچے کی صحت بھی اچھی ہوگی۔ بچے کی ابتدائی نشونما کی بات کریں تو ہمارے فیملی سسٹم میں والدین کے علاوہ دادا، دادی، نانا ، نانی و دیگر رشتہ دار ہوتے ہیں، جو بھی بچے کے پاس موجود ہیں وہ اس کی دیکھ بھال کے ذمہ داری ہیں۔ اچھے والدین وہ ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو پیار ، محبت اور تعاون دینے کے علاوہ ان کی حدود طے کرتے ہیں اور ان کے لئے خود مثال بن کر سامنے آتے ہیں۔ بچوں کو ذمہ داری سکھانا، ان کی عزت کرنا اور ان کو اپنے تجربات سے آگاہ کرنے والے والدین کا شمار بھی اچھے والدین میں ہوتا ہے لہٰذا ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ والدین کو اس حوالے سے خصوصی طور پر گائیڈ کریں کہ وہ بچے کی پرورش کیسے کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بچے کو گالی نہ دیں، غصہ نہ کریں ۔ بچے کو ذہنی اور جسمانی زیادتی سے بچنے کیلئے بھی تیار کرنا چاہیے۔

بچوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے مستقبل پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بچے نفسیاتی دباؤ کا بھی شکار ہوجاتے ہیںاس حوالے سے سب کو بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ والدین میں پیرنٹنگ سکلز لازمی ہونی چاہئیں کیونکہ وہ اگلی نسل کو تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ، ڈاکٹرز، سماجی ادارے و دیگر بھی اہم ہیں۔ ۔ ایسے والدین جو اپنے بچوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ان کے بچوں میں بھی عزت نفس کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اچھا ماڈل یہ ہے کہ بچے کو اچھے برے کی تمیز بھی دیں اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کرکے ان کی بھی سنیں اور اپنی بھی منوائیں۔ بچوں کے ساتھ بات چیت کو فروغ دیں۔ ان کی صحت کا خیال رکھیں۔ کتب بینی کو فروغ دیںا ور تلخ رویوں کو ترک کر دیں۔ دوسرے بچے کی پیدائش پر پہلے بچے کے رویے میں بدلاؤ بھی آتا ہے۔

ماں کو اسے بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ حسد جیسے منفی رویے پیدا نہ ہوں۔ انہیں پیار کے ساتھ اور توجہ دے کر حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے کو دوسرے بچے کیلئے پہلے تیار کیا جائے کہ تمہارا بھائی یا بہن آ رہی ہے، وہ اس کیلئے اپنے دل و دماغ میں جگہ بنائے، شیئرنگ کیلئے تیار ہوں اور اس کیلئے خوشی کا اظہار کرے۔ بچے کی خوراک ایک اہم معاملہ ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماں کو بھی متوازن غذا کھانی چاہیے جس میں چاول، گندم، باجرہ، روٹی، پھل، سبزیاں، مچھلی، انڈے وغیرہ کھانے چاہیے، دودھ پینا چاہیے اور 10 سے 12 گلاس پانی روزانہ پینا چاہیے۔ ماں کی اچھی خوراک بچے کے ابتدائی 1000 دنوں پر اچھے اثرات مرتب کرے گی۔ پیدائش کے بعد بچے کو پہلے 6 ماہ صرف اور صرف ماں کا دودھ پلایا جائے۔ جب بھوک لگے تو دودھ پلایا جائے اور ابتدائی 6ماہ میں4 گھنٹے سے زیادہ بھوکا نہ رکھا جائے۔

ڈاکٹر انعم اکھائی

میں ایس او جی پی کی بے حد مشکور ہوں کہ اس اہم موضوع پر لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے اس سمپوزیم میں ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری میڈیکل کمیونٹی کس حد تک Martin Dow پر اعتماد کرتی ہے۔ بطور خاتون مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ ماں بننے سے پہلے اس انفارمیشن کا آپ تک پہنچنا کتنا ضروری ہے۔ پاکستان 20 کروڑ آبادی والا ملک ہے جس کی 50 فیصد خواتین ہیں جو مختلف شعبوں اور علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ Myths اور taboos کی وجہ سے جسمانی و نفسیاتی دباؤ تو ہوتا ہے مگر اس سے ماں اور بچے کی صحت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

Martin Dow ہمیشہ سے ہی لوگوں کی اچھی صحت کیلئے کوشاں ہے۔ ہم معیاری ادویات کی تیاری کے ساتھ ساتھ اپنی کمیونٹی کیلئے کام کرتے ہیں اور ماہرین صحت کے ساتھ مل کر میڈیکل کمیونٹی، مریض اور عوام کو آگہی دینے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہم یہ کام جاری رکھیں گے کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہیلتھ کیئر گروپ کا مقصد صرف ادویات کی مینوفیکچرنگ نہیں ہوتا بلکہ میڈیکل کمیونٹی اور مریضوں کو درست انفارمیشن دینا اور سپورٹ کرنا بھی ہوتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فرخ زمان

میرے لیے باعث خوشی ہے کہ میں نے اس سمپوزیم میں شرکت کی ہے۔ یہ روایتی نہیں ہے کہ میں Martin Dow، سپیکرز اور آرگنائزرز کی تعریف کر رہا ہوں بلکہ حقیقت میں یہ ایک اہم اور قابل تعریف سمپوزیم ہے جس میں میں نے بھی سیکھا ہے۔ میں یہاں دی جانے والی ہر پریزین ٹیشن میں سے اپنے ساتھ کچھ ایسی چیزیں لیکر جا رہا ہوں جو اپنی پریکٹس کے دوران استعمال کروں گا۔ پروفیسر روبینہ سہیل نے جن myths اور taboos کی بات کی وہ بہت اہم ہے۔پروفیسر عائشہ ملک نے ماں کی خوراک، ذمہ داریوں اور کیئر کے حوالے سے بات کی جن پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر شمسہ ہمایوں نے بھی بہترین لیکچر دیا اور کیلشیم کی اہمیت کے حوالے بتایا۔ ڈاکٹر حسن سلمان نے ایک اہم اور بڑے موضوع پر انتہائی موثر طریقے سے بات کی اور موضوع کے ساتھ انصاف کیا۔ پاکستان میں دوران حمل خواتین کو ایسی ایسی باتیں بتائی اور سکھائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

موڈریٹر: پروفیسر ڈاکٹر شہلا انور

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں