نظام سب کچھ نگل چکا ہے
1947 سے لے کر آج تک ‘ عام آدمی نے ناانصافی ‘ اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لی ہے
جیمز اول' برطانیہ کا شہنشاہ تھا۔ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ برطانیہ ایک سپر پاور بننے کے راستے پر گامزن تھا۔ دولت بارش کی طرح برس رہی تھی۔ برطانیہ کی تجارتی کمپنیاں کرہ ارض پر راج کررہی تھیں۔ برطانیہ کی عسکری' سیاسی' ثقافتی اور علمی قوت بھی بے مثال تھی۔
یہ سترھویں صدی کا دور تھا۔ جیمز اول مطلق العنان حکمران تھا۔ بادشاہ اور شاہی خاندان میں یہ یقین راسخ تھا کہ انھیں بادشاہت خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ لہٰذا وہ رعایا سے افضل ہیں۔ عام آدمی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ویسے آج کے پاکستان کو دیکھیں' تو تین چار خاندان اسی سوچ کے حامل نظر آئیں گے جو جیمز اول کی تقریباً چار صدیاں پہلے تھی۔ لاہور اور لاڑکانہ کے یہ خاندان صرف اپنے آپ کو حکمرانی کے قابل سمجھتے ہیں اور باقی تمام لوگ ان کے غلام ہیں۔ اس بدقسمت سوچ نے ہمارے ملک کو برباد کر ڈالا ہے۔
بہر حال بات برطانیہ کی ہو رہی تھی، جیمز نے اپنے محل سے '' رعایا کی بہتری'' کے لیے چند قوانین جاری کیے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ جو بھی اشیاء برطانیہ میں درآمد کی جاتی ہیں، ان پر مزید ٹیکس عائد کیا جائے۔ دوسرا' لندن میں کوئی نئی عمارت نہیں بن سکتی۔ تیسرا یہ کہ آٹے میں سے میدہ نکال کر الگ فروخت نہیں کیا جا سکتا۔یہ قوانین فوری طور پر نافذ العمل قرار دیے گئے۔ بادشاہ کے مطابق ان تمام قوانین کی پارلیمنٹ سے توثیق کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آج سے چار سو برس پہلے برصغیر ظل الٰہی جیسے خطابات سے آشنا ہو رہا تھا۔
ہمارے بادشاہ' راجے ' نواب' سیکڑوں کی تعداد میں خواتین کا حرم رکھنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ جہاں قاضی ' حکمران کی مرضی سے فیصلے کرتے تھے۔ جہاں محنت کش ' جانور سے بھی نچلی سطح پر سانس لے رہے تھے۔ جہاں تمام زمین اور سرمایہ بادشاہ سلامت کا تھا۔ ٹھیک اس وقت یعنی 1610 میں چیف جسٹس' سرایڈورڈ کک کو پریوی کونسل میں طلب کیا گیا۔
اس سے پوچھا کہ کیا بادشاہ ' اپنی مرضی سے ہر طرز کے قوانین بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کچھ مہلت مانگی۔ اس کے بعد لندن کی عدلیہ نے تاریخی حکم دیا کہ بادشاہ کے پاس قوانین جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔یہ صرف اور صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔ جیمز اول کے جاری شدہ تمام قوانین' دراصل قانون سے انحراف پر مبنی ہیں۔ انھیں کالعدم قرار دے دیا گیا۔
نظام کی طاقت دیکھیے کہ بادشاہ وقت' پارلیمنٹ' عدلیہ اور عام آدمی کے مقابلے میں مکمل طور پر بے بس تھا۔ میںکسی راج واڑے کی بات نہیں کر رہا۔ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے شہنشاہ کی قانونی بے بسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ برطانوی نظام بے لگام طاقت کے برخلاف عام آدمی کو وہ اختیار اور طاقت دے گیا' جو آج تک اس ملک میں قائم و دائم ہے۔
ہمارے ملک میں اگرکسی طاقتور اور کمزور کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو سب کو یقین کامل ہوتا ہے کہ غلط یا صحیح' طاقتور فریق ہی جیتے گا۔ کمزور فریق بے بس ہوکر یہی کہتا ہے کہ میںقیامت کے دن اپنا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کروں گا اور وہاں میرے ساتھ انصاف ہو گا۔ اس سے بڑھ کر ملکی نظام کے منہ پرتھپڑ ہرگز ہرگز نہیںمارا جا سکتا۔ پورے ملک میں سسٹم اور قانون سازی صرف طاقتوروں کے حق میں کی گئی ہے۔
خدا نہ کرے' آپ کو کبھی تھانہ' کچہری ' پٹواری یا کسی بھی سرکاری ادارے سے کام پڑ جائے۔ یقین فرمائیے کہ آپ کو احساس ہو گا کہ انصاف تو دور کی بات' آپ کی حیثیت ایک کیچوے سے بھی کم ہے۔ ہمارا پورا نظام ناانصافی کی بنیاد پر قائم ہے۔ 1947 سے لے کر آج تک ' عام آدمی نے ناانصافی ' اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لی ہے۔ مذہبی رہنما' انتہائی شاطری سے ہمارے عظیم دین کے اصولوں کی من چاہی تاویل فرماتے ہیں۔ مگر حرام ہے کہ اس دینی طبقے نے کبھی موجودہ گلے سڑے ' بدبودار نظام کو بدلنے کے لیے کوئی عملی کوشش کی ہو۔ یہی حال ہمارے تمام سیاست دانوں کا ہے۔
ہر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ' پرانا یا نیا صرف بیانات کی حد تک موثر ہوتا ہے ۔ ہاں پیسے کمانے میں یکساں ہیں۔ نظام کو تبدیل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ درد دل رکھنے والے حکمران بھی رہے ہیں۔ مگر سب بیکار ثابت ہوتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو حد درجہ ذہین انسان تھے۔ آسودہ حال اور حکمرانی کے تمام گر جانتے تھے۔ عوام کی طاقت اور ان کے مسائل کا فہم رکھتے تھے ۔ نظام کو بدلنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال تھے۔ مگر وہ بھی اس فرسودہ نظام کے تابع ہو گئے۔ ان کی صلاحیتیں ملک کی تقدیر نہیں بدل سکیں۔ غریب ' غریب ہی رہا۔ معاشی اور سماجی انصاف بھی خواب تک محدود رہا۔ ہاں تقاریر ' تقریبات اور شورحد درجہ برپا ہوا۔ بھٹو جیسا فطین آدمی ملکی معیشت کو برباد کر گیا۔ نتیجہ یہ کہ بھٹو اسی نظام کے عفریت کی لپیٹ میں آ گیا۔
بھٹو نمک کی کان میں نمک بن کر رہ گیا۔ اگر منفی تبدیلی کا ذکر کیا جائے ' تو جنرل ضیاء الحق نے بڑی عیاری سے پورے ملک کی سوشل انجینئرنگ کر دی۔ مذہبی عدم برداشت، فرقہ واریت ،ذات برادری' کرپشن' سیاسی غلاموں کی نئی نسل' شدت پسندی اور منافقت کا وہ کلچر شروع کیا' جو آج تک جاری و ساری ہے۔
دراصل ہم قائداعظم کے پاکستان میں نہیں بلکہ ضیاء الحق کے تیار کردہ نئے پاکستان میں سانس لے رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں مگر کوئی بھی اس نظام کی طاقت کو کم نہیں کر سکتا۔ کیا آل شریف ' کیا چوہدری خاندان' کیا انتہائی امیر مذہبی خانوادے' کیا گیلانی بلکہ آج کے دور کا ہر اہم انسان' دراصل ضیاء الحق ہی کا پروردہ ہے۔ سوائے پیپلز پارٹی کے جس نے ضیاء الحق کو للکارنے کی ہمت کی۔ مگر پھر ضیاء کے بعد' وہ بھی ''اسٹیٹس کو'' کی محافظ بن گئی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو مرضی اعلانات فرمائیں۔ بنیادی طور پر وہ اس نظام کو استحکام دیتی ہیں جو عوام کے لیے زہر قاتل ہے۔
میں کسی سیاسی پارٹی سے متاثر نہیں۔ ویسے ان کی قیادت میں متاثر کرنے والی کوئی خصوصیت ہے بھی نہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیوں میں مگر مچھ موجو د ہیں جو ہر وقت اپنے لیے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ ان کی نظر صرف اپنی دولت بچانے پر ہوتی ہے۔ ان جماعتوںکے عمائدین کی دولت کا اندازہ شاید بل گیٹس بھی نہ لگا سکے۔ سب کچھ برباد کرنے کے باوجود یہ اپنے آپ کو مظلوم اور معصوم قرار دیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔
موجودہ صورت حال اتنی ہی نازک ہے' جتنے بیس پچیس برس پہلے تھی۔ تحریک انصاف کے قائد حد درجہ عوامی پسندیدگی کے حامل تھے۔ انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ ان کا نعرہ ہی نظام کی تبدیلی تھا۔ پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر نوجوان بچے اور بچیوں کی اکثریت ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ عوام نے اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے انھیں ''مسند شاہی'' پر بٹھا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ نظام میں ایک انچ تبدیلی بھی نہیں لاسکے۔ ہاں روایتی بلکہ دقیانوسی نعرے اور اعلانات بھرپور ہیں۔ خان صاحب کے دور میں نظام انصاف' انتظامی افسران' پولیس ڈیپارٹمنٹ کے قصاب بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے سے تعلق رکھنے والے جابرین میں رتی بھر مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ ہاں! ایک بات میں بہت تبدیلی آئی ہے، رشوت کے نرخ حد درجہ بڑھ گئے۔ خان صاحب' مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں کہ انھوں نے عوام سے کیا وعدے کیے تھے۔ موجودہ عدلیہ کے سربراہ کا یہ کہنا کہ ملک میں نظام انصاف تقریباً غیر فعال ہو چکاہے۔
اس کے بعدکچھ بھی کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ چار صدیاں پہلے جیمز اول کے استبدادکو روکنے کے لیے پارلیمنٹ اور عدلیہ ڈٹ گئی تھی۔ ہمارے پاس تو کسی طاقتور فریق کا ہاتھ روکنے کے لیے کوئی ادارہ بھی نہیں بچا ہے ۔ دراصل ہمارا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ہر ادارے اور حکمران کو نگل چکا ہے!
یہ سترھویں صدی کا دور تھا۔ جیمز اول مطلق العنان حکمران تھا۔ بادشاہ اور شاہی خاندان میں یہ یقین راسخ تھا کہ انھیں بادشاہت خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ لہٰذا وہ رعایا سے افضل ہیں۔ عام آدمی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ویسے آج کے پاکستان کو دیکھیں' تو تین چار خاندان اسی سوچ کے حامل نظر آئیں گے جو جیمز اول کی تقریباً چار صدیاں پہلے تھی۔ لاہور اور لاڑکانہ کے یہ خاندان صرف اپنے آپ کو حکمرانی کے قابل سمجھتے ہیں اور باقی تمام لوگ ان کے غلام ہیں۔ اس بدقسمت سوچ نے ہمارے ملک کو برباد کر ڈالا ہے۔
بہر حال بات برطانیہ کی ہو رہی تھی، جیمز نے اپنے محل سے '' رعایا کی بہتری'' کے لیے چند قوانین جاری کیے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ جو بھی اشیاء برطانیہ میں درآمد کی جاتی ہیں، ان پر مزید ٹیکس عائد کیا جائے۔ دوسرا' لندن میں کوئی نئی عمارت نہیں بن سکتی۔ تیسرا یہ کہ آٹے میں سے میدہ نکال کر الگ فروخت نہیں کیا جا سکتا۔یہ قوانین فوری طور پر نافذ العمل قرار دیے گئے۔ بادشاہ کے مطابق ان تمام قوانین کی پارلیمنٹ سے توثیق کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آج سے چار سو برس پہلے برصغیر ظل الٰہی جیسے خطابات سے آشنا ہو رہا تھا۔
ہمارے بادشاہ' راجے ' نواب' سیکڑوں کی تعداد میں خواتین کا حرم رکھنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ جہاں قاضی ' حکمران کی مرضی سے فیصلے کرتے تھے۔ جہاں محنت کش ' جانور سے بھی نچلی سطح پر سانس لے رہے تھے۔ جہاں تمام زمین اور سرمایہ بادشاہ سلامت کا تھا۔ ٹھیک اس وقت یعنی 1610 میں چیف جسٹس' سرایڈورڈ کک کو پریوی کونسل میں طلب کیا گیا۔
اس سے پوچھا کہ کیا بادشاہ ' اپنی مرضی سے ہر طرز کے قوانین بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کچھ مہلت مانگی۔ اس کے بعد لندن کی عدلیہ نے تاریخی حکم دیا کہ بادشاہ کے پاس قوانین جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔یہ صرف اور صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔ جیمز اول کے جاری شدہ تمام قوانین' دراصل قانون سے انحراف پر مبنی ہیں۔ انھیں کالعدم قرار دے دیا گیا۔
نظام کی طاقت دیکھیے کہ بادشاہ وقت' پارلیمنٹ' عدلیہ اور عام آدمی کے مقابلے میں مکمل طور پر بے بس تھا۔ میںکسی راج واڑے کی بات نہیں کر رہا۔ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے شہنشاہ کی قانونی بے بسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ برطانوی نظام بے لگام طاقت کے برخلاف عام آدمی کو وہ اختیار اور طاقت دے گیا' جو آج تک اس ملک میں قائم و دائم ہے۔
ہمارے ملک میں اگرکسی طاقتور اور کمزور کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو سب کو یقین کامل ہوتا ہے کہ غلط یا صحیح' طاقتور فریق ہی جیتے گا۔ کمزور فریق بے بس ہوکر یہی کہتا ہے کہ میںقیامت کے دن اپنا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کروں گا اور وہاں میرے ساتھ انصاف ہو گا۔ اس سے بڑھ کر ملکی نظام کے منہ پرتھپڑ ہرگز ہرگز نہیںمارا جا سکتا۔ پورے ملک میں سسٹم اور قانون سازی صرف طاقتوروں کے حق میں کی گئی ہے۔
خدا نہ کرے' آپ کو کبھی تھانہ' کچہری ' پٹواری یا کسی بھی سرکاری ادارے سے کام پڑ جائے۔ یقین فرمائیے کہ آپ کو احساس ہو گا کہ انصاف تو دور کی بات' آپ کی حیثیت ایک کیچوے سے بھی کم ہے۔ ہمارا پورا نظام ناانصافی کی بنیاد پر قائم ہے۔ 1947 سے لے کر آج تک ' عام آدمی نے ناانصافی ' اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لی ہے۔ مذہبی رہنما' انتہائی شاطری سے ہمارے عظیم دین کے اصولوں کی من چاہی تاویل فرماتے ہیں۔ مگر حرام ہے کہ اس دینی طبقے نے کبھی موجودہ گلے سڑے ' بدبودار نظام کو بدلنے کے لیے کوئی عملی کوشش کی ہو۔ یہی حال ہمارے تمام سیاست دانوں کا ہے۔
ہر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ' پرانا یا نیا صرف بیانات کی حد تک موثر ہوتا ہے ۔ ہاں پیسے کمانے میں یکساں ہیں۔ نظام کو تبدیل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ درد دل رکھنے والے حکمران بھی رہے ہیں۔ مگر سب بیکار ثابت ہوتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو حد درجہ ذہین انسان تھے۔ آسودہ حال اور حکمرانی کے تمام گر جانتے تھے۔ عوام کی طاقت اور ان کے مسائل کا فہم رکھتے تھے ۔ نظام کو بدلنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال تھے۔ مگر وہ بھی اس فرسودہ نظام کے تابع ہو گئے۔ ان کی صلاحیتیں ملک کی تقدیر نہیں بدل سکیں۔ غریب ' غریب ہی رہا۔ معاشی اور سماجی انصاف بھی خواب تک محدود رہا۔ ہاں تقاریر ' تقریبات اور شورحد درجہ برپا ہوا۔ بھٹو جیسا فطین آدمی ملکی معیشت کو برباد کر گیا۔ نتیجہ یہ کہ بھٹو اسی نظام کے عفریت کی لپیٹ میں آ گیا۔
بھٹو نمک کی کان میں نمک بن کر رہ گیا۔ اگر منفی تبدیلی کا ذکر کیا جائے ' تو جنرل ضیاء الحق نے بڑی عیاری سے پورے ملک کی سوشل انجینئرنگ کر دی۔ مذہبی عدم برداشت، فرقہ واریت ،ذات برادری' کرپشن' سیاسی غلاموں کی نئی نسل' شدت پسندی اور منافقت کا وہ کلچر شروع کیا' جو آج تک جاری و ساری ہے۔
دراصل ہم قائداعظم کے پاکستان میں نہیں بلکہ ضیاء الحق کے تیار کردہ نئے پاکستان میں سانس لے رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں مگر کوئی بھی اس نظام کی طاقت کو کم نہیں کر سکتا۔ کیا آل شریف ' کیا چوہدری خاندان' کیا انتہائی امیر مذہبی خانوادے' کیا گیلانی بلکہ آج کے دور کا ہر اہم انسان' دراصل ضیاء الحق ہی کا پروردہ ہے۔ سوائے پیپلز پارٹی کے جس نے ضیاء الحق کو للکارنے کی ہمت کی۔ مگر پھر ضیاء کے بعد' وہ بھی ''اسٹیٹس کو'' کی محافظ بن گئی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو مرضی اعلانات فرمائیں۔ بنیادی طور پر وہ اس نظام کو استحکام دیتی ہیں جو عوام کے لیے زہر قاتل ہے۔
میں کسی سیاسی پارٹی سے متاثر نہیں۔ ویسے ان کی قیادت میں متاثر کرنے والی کوئی خصوصیت ہے بھی نہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیوں میں مگر مچھ موجو د ہیں جو ہر وقت اپنے لیے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ ان کی نظر صرف اپنی دولت بچانے پر ہوتی ہے۔ ان جماعتوںکے عمائدین کی دولت کا اندازہ شاید بل گیٹس بھی نہ لگا سکے۔ سب کچھ برباد کرنے کے باوجود یہ اپنے آپ کو مظلوم اور معصوم قرار دیتے ہیں۔ شاید یہ لوگ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔
موجودہ صورت حال اتنی ہی نازک ہے' جتنے بیس پچیس برس پہلے تھی۔ تحریک انصاف کے قائد حد درجہ عوامی پسندیدگی کے حامل تھے۔ انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ ان کا نعرہ ہی نظام کی تبدیلی تھا۔ پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر نوجوان بچے اور بچیوں کی اکثریت ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ عوام نے اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے انھیں ''مسند شاہی'' پر بٹھا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ نظام میں ایک انچ تبدیلی بھی نہیں لاسکے۔ ہاں روایتی بلکہ دقیانوسی نعرے اور اعلانات بھرپور ہیں۔ خان صاحب کے دور میں نظام انصاف' انتظامی افسران' پولیس ڈیپارٹمنٹ کے قصاب بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے سے تعلق رکھنے والے جابرین میں رتی بھر مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ ہاں! ایک بات میں بہت تبدیلی آئی ہے، رشوت کے نرخ حد درجہ بڑھ گئے۔ خان صاحب' مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں کہ انھوں نے عوام سے کیا وعدے کیے تھے۔ موجودہ عدلیہ کے سربراہ کا یہ کہنا کہ ملک میں نظام انصاف تقریباً غیر فعال ہو چکاہے۔
اس کے بعدکچھ بھی کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ چار صدیاں پہلے جیمز اول کے استبدادکو روکنے کے لیے پارلیمنٹ اور عدلیہ ڈٹ گئی تھی۔ ہمارے پاس تو کسی طاقتور فریق کا ہاتھ روکنے کے لیے کوئی ادارہ بھی نہیں بچا ہے ۔ دراصل ہمارا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ہر ادارے اور حکمران کو نگل چکا ہے!