اعزاز نہیں ندامت و شرمندگی
افغانستان میں تین عالمی طاقتوں کو واضح شکست ہوئی ہے
30 اگست کی رات کی تاریکی میں کابل افغانستان سے نکلنے والے آخری امریکی فوجی میجر جنرل کرسٹوفر ڈوناہو کی تصویر امریکی حکومت کی طرف سے اس طرح اعزاز کے ساتھ جاری کی جیسے وہ بڑے فخر کے ساتھ افغان سرزمین چھوڑ کر واپس امریکا جا رہے ہوں۔
امریکا تو اپنے آخری فوجی کی واپسی کو اعزاز سمجھ رہا ہو مگر حقیقت میں آخری فوجی کی واپسی نہیں بلکہ پسپا ہونے والی عالمی سپرپاور ہونے کی دعویدار امریکی فوجی کی واپسی فاتح کے طور پر نہیں ہوئی بلکہ وہ ندامت و شرمندگی کے حامل امریکی اعلیٰ فوجی افسر کی تصویر تھی جسے امریکا ہی نہیں دنیا میں یاد رکھا جائے گا۔
امریکی فوجی افسر نے بیس سالہ امریکی قبضے کے بعد رات کی تاریکی میں راہ فرار اختیار کی وہ افغانستان سے کسی فاتح کی طرح نہیں بلکہ پسپا ہونے والے فوجی افسر شرمندگی و ندامت سے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ امریکی صدر نے افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کی جو تاریخ دے رکھی تھی امریکی فوج اس سے قبل ہی اتنی جلدی میں افغان سرزمین چھوڑ گئی جیسے انھیں اپنی مزید ہلاکتوں کا خطرہ ہو۔
افغان سرزمین سے امریکی فوج مقررہ وقت سے قبل جس طرح واپس گئی اسے راہ فرار ہی کہا جاسکتا ہے جس پر نیٹو فوج بھی حیران رہ گئی۔ امریکا اپنے آخری فوجی تک کو لے گیا اور 54 ممالک کی اتحادی افواج امریکیوں کی واپسی کو حیرت سے دیکھتی رہ گئیں کہ امریکا انھیں افغانستان لایا تو تھا مگر خود چلا گیا اور اتحادی فوج کو تنہا چھوڑ گیا۔
امریکا 20 سال پہلے خود افغانستان حملہ آور بن کر آیا تھا اور بعد میں اس نے اپنے اتحادیوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا تھا مگر ناکامی کے بعد امریکیوں کو بچاتے وقت امریکا کو اپنے مددگاروں کا خیال نہ آیا۔ اصولی طور پر امریکا کو پہلے اپنے اتحادیوں کا انخلا کرانا تھا اور آخر میں خود نکلنا چاہیے تھا جو امریکا کا اخلاقی فرض بھی تھا۔ کابل ایئرپورٹ تو طالبان کے کابل کے گھیراؤ سے قبل ہی امریکی فوج کے کنٹرول میں تھا جو اس قدر غیر محفوظ تھا کہ وہاں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود داعش دہشت گردی کر گئی اور امریکی اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ دہشت گردی کی اطلاع کے باوجود کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے اور جاتے جاتے اپنے فوجیوں سمیت دوسروں کا بھی جانی نقصان کرا گئے۔
امریکا محفوظ انخلا کے لیے 31 اگست کے بعد ہی کابل چھوڑنا چاہتا تھا مگر طالبان توسیع پر تیار نہ تھے اور ڈیڈ لائن دے چکے تھے اس لیے امریکی فوج کو مجبوراً کابل چھوڑنا پڑا۔ افغانستان میں تین عالمی طاقتوں کو واضح شکست ہوئی ہے۔ سپرپاور امریکا افغانستان کو فتح کرکے واپس نہیں گیا بلکہ اپنے ڈھائی ہزار فوجیوں سمیت اتحادیوں کے ہزاروں فوجی مروا کر اور اپنا دو ٹریلین ڈالر کا بہت بڑا نقصان کرا کر شکست خوردہ کی حیثیت سے واپس گیا ہے۔
امریکا کی فوجی ہلاکتیں اپنی جگہ مگر امریکیوں کے جانی نقصان کے علاوہ امریکی عوام کے ٹیکسوں اور امریکی آمدنی کے دو ٹریلین ڈالر ضایع ہوگئے اور دنیا میں رسوائی اور امریکی صدر کو اپنے عوام کی تنقید اور غصے کا الگ سامنا کرنا پڑا جس پر ہر امریکی ہی نہیں بلکہ مشہور اداکارہ کو بھی اپنے امریکی ہونے پر شرمندگی کا اظہار الگ کرنا پڑا۔
طالبان سے 20 سالہ جنگ کے نتیجے میں امریکا کو جانی اور مالی نقصان تو ہوا ہی مگر دنیا بھر میں معزز اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی اخلاقی پسپائی اور امریکی فوج کے طالبان قیدیوں پر شرمناک مظالم بھی دنیا پر آشکار ہوئے کہ امریکا نے افغانستان ہی نہیں بلکہ اپنی بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا وہ انتہائی شرمناک تھا جس کی دنیا کو امریکا جیسے مہذب ہونے کے دعویدار سپرپاور سے قطعی توقع نہیں تھی۔
دنیا بھر میں قیدیوں کے بھی حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں مگر امریکا میں افغان قیدیوں بلکہ پاکستان میں افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ امریکی فوج نے جانوروں سے بھی بدتر اور غیر انسانی سلوک کیا ایسا سلوک تو جانور بھی اپنے جیسے جانوروں سے نہیں کرتے۔ سفارتی طور پر جو بین الاقوامی قوانین اور اصول ہیں مگر ملا ضعیف کے ساتھ گوانتاناموبے جیل میں روا رکھے گئے امریکی سلوک نے حیوانیت کو بھی شرما دیا تھا۔ بے گناہ سفیر کو بعد میں رہا تو کیا گیا مگر ان کی تحریر کردہ ایک اہم کتاب اژدھا کے منہ میں چار سال دنیا بھر میں امریکیوں کے غیر انسانی مظالم کی گواہی دیتی رہے گی۔
20 سال امریکی مظالم برداشت کرنے والے طالبان کو بھی سلام پیش کرنا چاہیے جو دنیاوی دعویدار نہیں مسلمان تھے اور انھوں نے اسلام کی تعلیم کے مطابق ظالم امریکیوں کو بحفاظت لوٹنے دیا۔